کونیاتی تکثریت
کونیاتی تکثریت (تلفظ: تَکَث + ثُريت / انگریزی: cosmic pluralism) جس کو محض تکثریت یا تکثرِ عالم (plurality of worlds) بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا نظریہ ہے جس کے مطابق وہ دنیا جس پر انسان بستے ہیں (یعنی زمین) تنہاء نہیں ہے اور اس زمین نامی ارض الانسان کے علاوہ بھی متعدد عالم ایسے موجود ہیں جہاں بیرون ارضی حیات (ETL) کی مخلوق بستی ہے۔ عالمِ بشریت کی مانند اس کائنات میں جو دیگر نظام دریافت ہوئے ہیں اور اجرام فلکی کی کثرتِ تعداد و اقسام و اشکال نے اس کونیاتی تکثریت کے تصور کو کوئی چھ سو سال قبل مسیح (فلسفی تھالیز) کے زمانے سے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے باوجود اس کے کہ تمام تر سائنسی ترقی کو استعمال کرتے ہوئے اس عالمِ بشر پر بسنے والے کسی بھی امکانی عالمِ لابشر کو تلاش کرنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں۔ کونیاتی تکثریت کی اصطلاح میں ایک بات یہ اہم ہے کہ انگریزی متبادل کا cosmic عام طور پر انگریزی میں universe کے لیے بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے لیکن اردو میں اس کا ترجمہ کائناتی تکثریت ایک غلط مفہوم کی جانب لے جا سکتا ہے کیونکہ اردو میں کائنات میں سب کچھ شامل ہوتا ہے اور اس لحاظ سے cosmic کا درست متبادل کون یا جہاں یا دنیا بنتا ہے ایک اور اہم وجہ کونیاتی تکثریت کہنے کی یہ ہے کہ انگریزی میں universe کا لفظ galaxy کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے جبکہ اردو میں ایسا کوئی مصرف نہیں ملتا اور کہکشاں کا لفظ ہی مستعمل ہے [1]۔
- تَكَثُّريت کا لفظ عربی کے کثر سے بنا ہے جس سے اردو میں اکثر، کثرت، اکثریت اور کثیر وغیرہ کے الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں۔ تکثر سمیت یہ تمام الفاظ اردو لغات میں درج ملتے ہیں۔
ہے کہ نہیں ہے؟
ترمیمموجودہ طبی سائنس کی معلومات (بالخصوص حیاتیاتی کیمیاء) اور حیاتیات خلا (exobiology) کا علم کونیاتی تکثریت کے امکان کو تسلیم کرتا ہے؛ اگر کوئی جرم فلکی کسی سورج نما ستارے سے اس قدر مناسب فاصلے پر ہو جو عالم البشر کو حاصل ہے اور اگر اس پر خلمائع کو اپنے استقلاب کے واسطے درکار بنیادی اجزاء (آکسیجن، پانی وغیرہ) بھی دستیاب ہوں اور اس جرم فلکی کے اطراف ایک ایسا کرۂ ہوا بھی ہو جو حیات کو خطرناک اشعاع ریزی سے بچا سکتا ہو تو پھر سالمات کا ایک ایسی ترتیب و ترکیب میں آجانا ناممکن نہیں جو اس دنیا (زمین) میں موجود جانداروں کی زندگی کو ممکن بناتی ہے۔ کارل ساگان کے اندازے کے مطابق، اربوں سیاروں میں سے کم از کم ایک ارب پر ایسا امکان ہو سکتا ہے [1]، یہ شمار محض اس ایک کہکشاں کے بارے میں ہے جس سے زمین تعلق رکھتی ہے اور جادہ شیر کا نام دیا جاتا ہے۔ Sagan نے یہ اندازہ اصولِ توسط (mediocrity principle) کو استعمال کرتے ہوئے درج ذیل ڈریک مساوات (drake equation) کی مدد سے لگایا تھا۔
مذکورہ بالا مساوات کو 1950ء کی دہائی میں فرینک دونلڈ ڈریک نے پیش کیا تھا اور اسی نے سب سے پہلے اس مساوات کو استعمال کرتے ہوئے بیرون الارض تہذیوں کو تلاش کرنے کے لیے مشعائی اشاروں (radio signals) کے تجربات کا آغاز بھی کیا ۔[2]
اصولِ توسط اور تکثریت
ترمیماصولِ توسُّط (mediocrity principle) آسان الفاظ میں ایک ایسا اصول ہے جو عالم البشر و خلق الانسان کو اس کائنات میں امتیازی یا خصوصی کی بجائے توسط (میانی، متعدل، اوسط درجے) میں واقع کرتا ہے اور یہاں توسط کا لفظ، وسطی یا مرکزی کے معنوں میں نہیں بلکہ اوسط درجے یا درمیانی (ناکہ مرکزِ واحد) کے معنوں میں آتا ہے۔ اسی بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اصول توسط، کوپرنیکی اصول کی ہی ایک شکل ہے جس کے مطابق زمین کی حیثیت، کائنات میں مرکزی نہیں اور انسان اس کائنات کا رقیب الواحد (تنہاء یا واحد مشاہدہ کرنے والا) نہیں ہے یعنی بالفاظ دیگر، اس عالم البشر (زمین) کے علاوہ بھی دیگر عالم موجود ہو سکتے ہیں اور زمین کے انسان کے علاوہ بھی دیگر انسان (یا لاانسان) موجود ہو سکتے ہیں۔
” | اگر زمین ایک سیارہ ہے تو سیارے بھی زمین ہوسکتے ہیں؛ اگر زمین مرکز پر نہیں تو انسان بھی مرکز پر نہیں | “ |
علم الکائنات میں اس اصول توسط کو حدسیت (heuristics) کے انداز میں استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اصول توسط میں کونیاتی تکثریت اور بیرون ارضی حیات کی تلاش اور ان کے بارے میں نظریات کی وضاحت حدس (معرفت، ادراک اور تخمین و تجربات) کی مدد سے کی جاتی ہے۔ قصہ مختصر یوں کہ؛ ارضی مرکزیت کے برخلاف شمسی مرکزیت (heliocentricism) نے انسانی کرۂ ارض کی مرکزی حیثیت ختم کر کے اسے سورج کے گرد طواف کرنے والا ایک سیارہ بنایا اور اصول توسط نے اسے کائنات کا ایک انتہائی معمولی ذرہ قرار دیا۔ زمین (اور اس کے بسنے والے) سورج کے گرد گردش میں ہیں لیکن سورج بذات خود اپنی کہکشاں میں موجود بے شمار نظامات شمسی میں سے ایک نظام شمسی ہے اور اس کائنات کی ایک کہکشاں جادہ شیر میں گردش کرتا ہے، جبکہ یہ کہکشاں پھر خود بھی خوشۂ محلی (local cluster) نامی خوشۂ کہکشاں میں ایک معمولی کہکشاں کی حیثیت سے گردش کرتی ہے اور پھر یہ خوشۂ محلی بھی اس کائنات کی وسعتوں میں ایک نقطے یا چاولوں کے پہاڑ میں دانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا [3]؛ لہٰذا اصول توسط کے مطابق اس زمین نامی سیارے کو کائنات میں حیات رکھنے کا کوئی امتیازی یا خصوصی یا تن تنہا درجہ حاصل نہیں ہے۔
تلاش کے طریقے
ترمیمسائنس دان کونیاتی تکثریت کو تلاش کرنے کی خاطر متعدد اقسام کی جدید ٹیکنالوجی اختیار کرتے ہیں؛ ایک اہم ترین ہدف کسی بھی ستارے کے گرد کسی سیارے کی موجودگی کو تلاش کرنے کا ہوتا ہے۔ جشم عاری یا بلا (میکانیکی) معاونت کے اس قابل ہوتی ہے کہ آسمان پر ستارے تو دیکھ لے لیکن ان ستاروں کی اصل حقیقت جاننا ناممکنات کے قریب آتا ہے؛ یعنی چشم عاری عام طور پر یہ نہیں جان سکتی کہ نظر آنے والا منور نقطۂ آسمان ایک ستارہ ہے یا نیائیہ (nova) یا فوقی نیائیہ (suprnova) یا پھر ایک مکمل کہکشاں ہے؟ عین العاری کو تو بس ایک تارا نظر آتا ہے۔
نورانی شناخت
ترمیمایک بنیادی طریقہ کونیاتی تکثریت کی تلاش میں کسی ستارے سے آنے والی روشنی (نور) کی مقدار میں کمی یا زیادتی کا آلات کی مدد سے انکشاف ہوتا ہے کہ اگر کوئی تارا، ستارہ ہی فرض کیا گیا ہو اور یہ فرض کیا جائے کہ اس کے گرد سیارہ گردش میں ہے تو پھر وہ سیارہ جب ستارے اور زمین کے مابین ہوگا تو ستارے سے نکل کر زمین تک آنے والی روشنی کی مقدار پر بھی اثر پڑے گا اور اسی فرق کا تعین ایک سیارے کی ممکنہ موجودگی کی جانب اشارہ کر سکتا ہے۔
اشعاعی شناخت
ترمیمانسان کی موجودہ ٹیکنالوجی جو کونیاتی تکثریت کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے وہ فی الحقیقت کونیاتی تکثریت کی اپنی تکنیکی نمو کی محتاج ہے؛ یعنی اگر کسی جگہ کائنات میں کوئی عالمِ حیات موجود بھی ہے تب بھی انسان (موجودہ سائنسی ترقی کے لحاظ سے ) اس کا پتا اس وقت تک نہیں چلا سکتا جب تک وہ دنیا (زمین کے علاوہ) خود اپنی موجودگی کے بارے میں کسی قسم کا پیغام نا ارسال کرے یا کم از کم ایسے تکنیکی اشارے خارج کرے کہ جو زمین پر موجود دنیا کے آلات شناخت کرسکیں۔ یہ پیغام برقناطیسی موجوں کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے یا روشنی کی کسی صورت میں بھی؛ یعنی اگر دوسری دنیا والے اس قدر حیاتی ترقی پاچکے ہیں کہ وہاں حیات یکخلوی سے ناصرف یہ کہ کثیرخلوی ہو چکی ہے بلکہ ذہانت کے اس معیار تک پہنچ چکی ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی استعمال کرسکے جو انسان تک اس کا پیغام پہنچا سکتی ہو ۔[4]
اصطناعین از عالم دیگر
ترمیمایک اور ممکنہ طریقۂ تلاش یہ بھی اختیار کے قابل ہے کہ نظام شمسی یا جہاں تک بھی خلاء میں انسان کی پہنچ ہے وہاں کسی طرح کے ایسے آثار مل جائیں کہ جو (انسانی علم کی حد تک) قدرتی بھی نا ہوں اور انسانی ساختہ بھی نا ہوں؛ ایسی صورت میں یہی امکان غالب ہو جاتا ہے کہ وہ اصطناعین (artifacts) کسی ایسی ذہین مخلوق کے بنائے ہوئے ہوں گے جو زمین پر بسنے والی مخلوق نہیں۔ ایسے اصطناعین میں اڑن طشتری یا کسی اور قسم کے مخلوق دیگر از انسان بنائے ہوئے فضائی جہاز یا satellite وغیرہ شامل تصور کیے جا سکتے ہیں۔
مریخ پر تہذیب
ترمیممریخ پر کوئی عالمِ حیات ہے کہ نہیں کا سوال ایک طرف، مریخ کونیاتی تکثریت کے ہدف کے طور پر انسانی تلاش کا ایک سرگرم میدان ضرور رہا ہے۔ ماضی قریب میں اس کی ایک مثال 1996ء میں NASA کی جانب سے اس اعلان کی صورت میں نظر آتی ہے جس میں اس نے انٹارکٹیکا سے ملنے والے ایک شہابیئے (meteorite) بنام ALH 84001 کو مریخ سے آ کر زمین پر گرنے والا قرار دیا گیا اور اس پر حیاتیاتی سالمات کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا ۔[5] یہ شہابیہ کوئی 4.5 اسال (Gyr) (ارب) سال قبل مریخ پر بنا اور 1 کروڑ 60 لاکھ سال سورج کے گرد گھومتے رہنے کے بعد زمین میں داخل ہوا؛ اس میں موجود فارغین (gasses) کے تجزیئے سے اس کے مریخی مآخذ کا ثبوت ملا۔ گو اس شہابیئے کو کل نطفیت (panspermia) کے طور پر پیش کیا گیا لیکن william schopf نامی paleobiologist کے مطابق اس شہابیئے میں موجود کرویچوں (globules) سے زندگی کی موجودگی (خلیہ) کے بارے میں ناقابلِ تردید شہادت دستیاب نہیں ہو سکی ۔[6]
زمین جیسی شرط
ترمیمزمین کے علاوہ کسی بھی دیگر سیارے پر کوئی دنیا بسی ہونے کے امکان کو تاریخی طور پر زمین جیسے حالات کی موجودگی سے مشروط کیا جاتا تھا لیکن آج کی سائنس میں تو ایسی بہت سی مثالیں اس ہی عالم بشر (زمین) پر دستیاب ہو چکی ہیں کہ جہاں قدیم زمانے کے برعکس زندگی اس قدر انتہائیتی حالات (extreme conditions) میں پائی جاتی ہے کہ اس پر اس دنیا کی زندگی کی بجائے کسی دوسری دنیا کی زندگی کا گمان ہوتا ہے۔ انس انتہائیہ (extremophile) ایسے نامیات ہوتے ہیں کہ جو نا صرف یہ کہ اس دنیا میں موجود دوسری زندگی کے لیے لازم و درکار حالات کی نسبت انتہائی سخت (عام جانداروں کے لیے ناقابل حیات حالات) میں زندہ رہتے ہیں بلکہ ان کو زندہ رہنے کے لیے ایسے ہی ناقابل حیات ارضکیمیائی (geochemical) حالات کی ضرورت ہوتی ہے ۔[7] دنیا بھر کی سالماتی حیاتیات کی تجربہ گاہوں میں 95 درجۂ صد کے درجۂ حرارت تک کیے جانے والے مکـثـورخامری زنجیری تعامل (PCR) جیسے تجربات کے دوران استعمال کیا جانے والا دنا مکثور خامرہ (DNA polymerase enzyme) ایسے ہی ایک انس انتہائیہ بنام انسحراریہ (thermophile) سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کائنات میں کسی اور سیارے پر زندگی کے لیے زمین جیسے حالات کی شرط عائد کرنا کسی قدر غیر منطقی ہو جاتا ہے کیونکہ اس بات کا عین امکان موجود ہے کہ کسی دوسرے سیارے پر حیاتی سالمات نے اپنا نظام زندگی اس زمین کے سالمات سے مختلف انداز میں اختیار کیا ہو ۔[8]
نظام شمسی سے باہر
ترمیمآج تک کی خلائی تلاش برائے بیرون ارضی حیات یا زمین جیسی ایک اور دنیا، اس نظام شمسی میں ناصرف یہ کہ ناکام رہی ہے بلکہ امکان غالب ہے کہ اس نظام شمسی میں کسی بھی سیارے پر زمین جیسی (یا کسی بھی اور قسم کی) حیاتی تہذیب کا وجود نہیں ہے۔ اگر مریخ پر یا مشتری وغیرہ پر کسی جگہ حیات موجود بھی ہے تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ وہ ہماری زمین سے بہت مختلف ہوگی کا کم از کم وہاں پر زندگی برقرار رہنے کے بنیادی لوازمات وہ نہیں ہوں گے جو انسان کے علم میں ہیں کیونکہ نظام شمسی کے کسی بھی حصے پر انسانی تہذیب سے ملتی جلتی کسی تہذیب سے نکلنے والی برقناطیسی اشعاع کی تلاش میں ناکامی سے یہی نتجیہ نکالا جا سکتا ہے۔
آپس کی دوریاں
ترمیمنظام شمسی سے باہر دنیاؤں کی تلاش کس قسم کی ہوگی، اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ روشنی اپنی رفتار سے ایک لاکھ چھیاسی ہزار دوسو بیاسی میل (186282) ایک second میں طے کر لیتی ہے اور زمین سے چاند تک پہنچنے میں روشنی کو محض 1.2 ثانیے درکار ہوتے ہیں۔ نظام شمسی کی وسعت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی خلائی جہاز روشنی کی رفتار سے بھی سفر کرے تو اسے نظام شمسی کے ایک سے دوسرے سرے تک پہنچنے کے لیے 80 فلکیاتی اکائیوں (اگر پلوٹو کا اوسط نصف قطر 40 AU لیا جائے) کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا جو تقریباًًًًًًً پانچ ارب اٹھانوے کروڑ انتالیس لاکھ (5983914800) km بنتا ہے۔ اور روشنی کی رفتار سے یہ فاصلہ طے کرنے کے لیے (سیاروی مداروں کی بیضوی شکل کے باعث) اوسطاً 5.3 گھنٹے درکار ہوں گے؛ یہاں گھنٹوں کو عام گھنٹے نا سمجھا جائے بلکہ یہ نوری سال کے گھنٹے ہوں گے یعنی روشنی کی رفتار سے چلنے پر یہ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔
کہکشاؤں کی دنیائیں
ترمیمایک کہکشاں میں ایک کروڑ سے لے کر دس کھرب (1000،000،000،000) یا اس سے بھی زیادہ ستارے ہو سکتے ہیں؛ جبکہ ان میں پائے جانے والے نجمی غبار (star dust)، ثقب اسود اور فارغین اس کے علاوہ ہیں۔ کہکشاؤں کی جسامت کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کہکشاں جس میں ہمارا نظام شمسی موجود ہے (جادہ شیر) وہ اس قدر بڑی ہے کہ اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے کے لیے (اگر روشنی کی رفتار سے سفر کیا جائے) تو قریباً 100000 سال کا عرصہ درکار ہوگا یعنی 100000 نوری سال۔[9]؛ جبکہ مزید بڑی کہکشائیں جیسے andromeda کی جسامت کا اندازہ 1 تا 5 لاکھ نوری سال لگایا گیا ہے[10] زمین (یا جادہ شیر) سے ان کہکشاؤں کی دوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کھربوں ستاروں سے بنی ہوئی یہ کہکشائیں انسانی آنکھ کو رات کے وقت آسمان کی جانب دیکھنے پر محض ایک ستارہ محسوس ہوتی ہیں اور اس سے نکل کر روشنی کو انسان کی آنکھ تک پہنچنے کے لیے کروڑوں سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے؛ یعنی جو کہکشاں آج ہماری آنکھ ایک ستارے کی صورت میں دیکھ رہی ہے وہ اس کہکشاں کی آج کی نہیں بلکہ کروڑوں سال قبل کی حالت ہے اور آج وہ کہکشاں کروڑوں سال عمرسیدہ ہو چکی ہوگی[10]۔
تلاش کی نوعیت
ترمیمکسی ذہین تہذیب کی موجودگی کا امکان اس نظام شمسی میں نہایت معدوم ہے، ماسوائے زمین کے۔ نظام شمسی سے نکل کر دیگر کہکشاؤں میں دنیاؤں کی تکثریت کی تلاش تو ایک طرف محض اس جادہ شیر نامی کہکشاں جس میں نظام شمسی موجود ہے کی وسعت ہی اتنی ہے کہ فی الحال، بلاشبہ، انسان کا جسمانی طور پر اس تک رسائی حاصل کرنا نا ممکنات میں شامل ہے۔ اسی زمین کی کہکشاں میں نظام شمسی سے قریب ترین نظام نجمی (stellar system) قنطورس ہے اور اس کے ایک ستارے بنام مقترب القنطور (proxima centauri) کو سورج کے نظام نجمی سے قریب ترین تسلیم کیا جاتا ہے؛ اس قریب ترین نظام نجمی تک پہنچنے کے لیے انسان اگر روشنی کی رفتار سے سفر کرے تب 4.2 نوری سال درکار ہوں گے اور تقریباًًًًًًً 4 نیل 20 کھرب km کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔
مذہب، انسان کائنات کا مرکز؟
ترمیمعمومی طور پر وہ تمام مذاہب جو انسان کو کائنات کی اہم ترین مخلوق یا مرکز کہتے ہیں وہ یا جن کی تعلیمات کے مطابق انسان کے لیے اس کائنات کو بنایا گیا، وہ کونیاتی تکثریت سے براہ راست متصادم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں (کم از کم تاریخی بحث میں)۔ جہاں جہاں سائنس اور مذہب میں ٹکراؤ آتا ہے وہاں اس مذہب پر چلنے والوں کے پاس (جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے) تین ہی راستے ہوا کرتے ہیں؛ اول یہ کہ وہ سائنسی نظریے کو غلط قرار دے دیں؛ دوم یہ کہ وہ مذہبی نظریے کو غلط تسلیم کر لیں؛ اور سوم یہ کہ کوئی ایسی تاویل پیش کریں کہ دونوں ہی نظریات قابل قبول ہو جائیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
- ^ ا ب How to make the most of a flying saucer experience by Professor solomon
- ↑ Contact with alien civilizations by Michael A. G. Michaud
- ↑ The Genesis conflict by Walter veith
- ↑ Life in the solar system and beyond by Barrie william jones
- ↑ Astrochemistry: from astronomy to astrobiology by Andrew M. shaw
- ↑ Life on other worlds: the 20th-century extraterrestrial life debate by Steven J. Dick
- ↑ Rothschild, L.J.; Mancinelli, R.L. Life in extreme environments. Nature 2001, 409, 1092-1101
- ↑ Beyond UFOs: the search for extraterrestrial life ... by Jeffrey O. Bennett
- ↑ The milky way by Gregory vogt
- ^ ا ب The milky way and beyond by Erik gregersen