آئیوری کوسٹ
کوتے دی آئیوورے یا عاج ساحل (فرانسیسی: [kot d‿ivwaʁ]) ، عربی: الساحل العاج یا آئیوری کوسٹ /ˌaɪvəri ˈkoʊst/ ( سنیے)[7][8]) افریقہ کے مغربی ساحل کا ایک ملک ہے جس نے فرانسیسی قبضہ سے آزادی حاصل کی ہے۔ کوتے ڈی آئیوورے کا سابقہ نام آئیوری کوسٹ تھا۔ اس نام کو 1985ء میں تبدیل کر کے اسی کا ہم معنیٰ فرانسیسی نام کوتے دی آئیوورے رکھ دیا گیا۔ اس کا مطلب ہاتھی دانت کا ساحل (عربی میں: ساحل العاج) کے ہیں۔ عربی میں جو اس علاقے میں کافی لوگ سمجھتے ہیں، اسے ساحل العاج ہی کہا جاتا ہے۔ یہ مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ اس کی حدیں مغرب میں لائیبریا اور گنی، شمال میں مالی اور برکینا فاسو، مشرق میں گھانا اور جنوب میں گنی کی خلیج سے ملتی ہیں۔
آئیوری کوسٹ | |
---|---|
پرچم | نشان |
شعار(فرانسیسی میں: Union – Discipline – Travail) | |
ترانہ: | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 8°N 6°W / 8°N 6°W [1] |
پست مقام | خلیج گنی (0 میٹر ) |
رقبہ | 322463 مربع کلومیٹر |
دارالحکومت | یاموسسوکرو |
سرکاری زبان | فرانسیسی [3] |
آبادی | 31165654 (2023)[4] |
|
13218128 (2019)[5] 13547621 (2020)[5] 13877714 (2021)[5] 14215570 (2022)[5] سانچہ:مسافة |
|
12929424 (2019)[5] 13264169 (2020)[5] 13600535 (2021)[5] 13944972 (2022)[5] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | جمہوریہ |
اعلی ترین منصب | الاسانے اواتارا (4 دسمبر 2010–) |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 1960 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | 20 سال ، 18 سال |
دیگر اعداد و شمار | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت±00:00 |
ٹریفک سمت | دائیں [6] |
ڈومین نیم | ci. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | CI |
بین الاقوامی فون کوڈ | +225 |
درستی - ترمیم |
ملک کی ابتدائی تاریخ تقریباً نامعلوم ہے اگرچہ یہاں جدید سنگی دور کی ثقافت کے وجود کے بارے سوچا جاتا ہے۔ انیسویں صدی میں اس پر اکان گروہوں نے حملے کیے۔ 1843ء سے 1844ء میں طے ہونے والے معاہدے میں یہ فرانس کی حفاظت میں چلا گیا اور سن 1893ء میں یہ فرانسیسی کالونی بن گیا۔ سن 1960ء میں اسے آزادی ملی۔ سن1993ء تک اس پر فیلکس ہوفویٹ-بوئیگنی کی حکومت تھی اور یہ معاشی اور سیاسی طور پر اپنے مغربی افریقی ہمسایوں سے بہت قریب تھا جیساکہ کونسل آف انتانتے Council of the Entente کا قیام۔ اسی دوران ملک نے مغربی دنیا کے ساتھ بھی قریبی تعلقات رکھے جس سے اس کی معاشی ترقی اور سیاسی استحکام میں اضافہ ہوا۔ ہوفویٹ- بوئیگنی کے دور کے بعد اس کا استحکام دو جنگوں ( 1999ء اور 2001ء) کی وجہ سے تباہ ہو گیا اور 2002ء سے اب تک اس میں خانہ جنگی چل رہی ہے اور معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آئیووری کوسٹ ایک جمہوریہ ہے جس میں صدر کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا عمومی دار الحکومت یاموسوکرو ہے اور سرکاری زبان فرانسیسی ہے۔ ملک کی معیشت کا بڑا حصہ مارکیٹ پر مبنی ہے اور زراعت پر انحصار کرتا ہے اور اس میں چھوٹے پیمانے پر نقد آور فصلوں کا غلبہ ہے۔ ترقی پزیر ملک کے حوالے سے یہ ایک بہترین نظامی ڈھانچہ ہے۔
تاریخ
ترمیم1460ء میں پرتگالی جہازوں کی آمد سے قبل تک اس کے بارے بہت کم علم موجود ہے۔ اہم لسانی گروہ نسبتاً قریبی دور میں ہمسایہ ممالک سے آئے ہیں۔ لائیبیریا کے کرو قبائل سولہویں صدی میں آئے، سینوفو اور لوبی جنوب کی طرف برکینا فاسو اور مالی سے ہجرت کرکے ادھر آئے ہیں۔ اٹھارویں صدی اور انیسویں صدی میں اکان لوگ آئے جن میں باولی گھاناسے ہجرت کرکے ملک کے مشرقی حصے میں آئے اور مالی کے لوگ گیانا سے شمال مغرب میں پہنچے۔
فرانسیسی قبضہ کا دور
ترمیمہمسایہ گھانا کے مقابلے کوت دیواغ کو غلاموں کی تجارت سے کم ہی پالا پڑا۔ یورپین غلام بنانے والے اور تجارتی جہازوں نے دوسرے علاقوں کو ترجیح دی جو ساحل کے ساتھ ساتھ واقع تھے اور جہاں بہتر بندرگاہیں موجود تھیں۔ 1840ء میں فرانس نے دلچسپی لی اور مقامی سرداروں کی ملی بھگت سے فرانسیسی تجارتی جہازوں کو اجارہ داری ملی۔ بعد ازاں انہی فرانس کی بنائی ہوئی بندرگاہوں سے غیر فرانسیسی تاجروں کو باہر رکھا گیا اور بتدریج اندر کی طرف فتوحات کو جاری رکھا گیا۔ یہ کام 1890ء میں ہونے والی مینڈرینکا کی فوجوں جو زیادہ تر گیمبیا کی طرف سے آئی تھیں، کے خلاف طویل جنگ کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا۔ 1917ء تک باولے اور دیگر قبائل کی طرف سے گوریلا جنگ جاری رہی۔ فرانس کا بنیادی مقصد برآمدات کا فروغ تھا۔ کافی، کوکا اور پام آئل کی فصلوں کی کاشت ساحل کے ساتھ کرنے پر زور دیا گیا۔ یہاں کوکا، کافی اور کیلے کے باغات کی ایک تہائی فرانسیسی آبادکاروں کی ملکیت تھی اور جبری مزدوری کا نظام معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔
آزادی
ترمیمایک باؤل سردار کا بیٹافیلکس ہوفویٹ-بوئیگنی کوت دیواغ کی آزادی کا سبب بنا۔ 1944ء میں اس نے ملک میں اپنے جیسے افریقی کوکا کے کاشتکاروں کی کی پہلی زرعی ٹریڈ یونین بنائی۔ فرانسیسی پالیسی کے خلاف انھوں نے نئے آبادکاروں کو اپنی مزروعہ زمینوں پر کام کے لیے تیار کیا۔ ہوفویٹ-بوئیگنی کو جلد ہی عروج حاصل ہوا اور ایک ہی سال کے اندر اندر اسے پیرس میں فرانسیسی پارلیمان کا رکن چن لیا گیا۔ ایک سال بعد فرانس نے جبری مزدوری کو ختم کر دیا۔ ہوفویٹ-بوئیگنی نے فرانسیسی حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کیے اور یہ تائثر دیا کہ اس سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ یہ کئی سال تک جاری رہا۔ فرانس نے اسے وزیر کا عہدہ دیا جو پہلی بار کسی افریقی کو یورپی حکومت میں ملا تھا۔ 1958ء میں کوت دیواغ فرانسیسی کمیونٹی کا خود مختار رکن بن گیا۔ کوت دیواغ کی آزادی کے وقت یہ ملک خطے میں کل برآمدات کا 40 فیصد حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب ہوفویٹ-بوئیگنی پہلا صدر بنا تو اس کی حکومت نے کاشتکاروں کو ان کی فصلوں کی اچھی قیمت دینا شروع کی جس کے نتیجے میں پیداوار میں اضافہ ہوا۔ کافی کی پیداوار میں اتنا اضافہ ہوا کہ کوت دیواغ دنیا کا تیسرا بڑا کافی پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ 1979ء میں یہ ملک کوکا کی پیدوار کا دنیا میں سب سے اہم ملک تھا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ افریقہ کا سب سے بڑا انناناس اور پال آئل برآمد کرنے والا ملک بھی بن گیا۔ فرانسیسی ٹیکنیشنوں نے آئیورین معجزے کو ممکن بنایا۔ افریقہ کے دیگر علاقوں میں ممالک کی آزادی کے ساتھ ہی ساتھ یورپیوں کو نکلنا پڑا جبکہ کوت دیواغ میں انھیں خوش آمدید کہا گیا۔ فرانسیسی کمیونٹی میں آزادی سے قبل کے 10000 سے 50000 کا اضافہ ہوا جن میں اکثریت استادوں اور مشاورت دانوں کی تھی۔ 20 سال تک ملکی معیشت میں تقریباً10 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو ان افریقی ممالک میں سب سے زیادہ تھا جو تیل نہیں پیدا کرتے۔
ہوفویٹ-بوئیگنی کا انتظام
ترمیمسیاسی طور پر ہوفویٹ-بوئیگنی نے سختی کے ساتھ یا یوں کہیں کہ آہنی گرفت کے ساتھ حکومت کی۔ کچھ لوگ اسے پدرانہ انداز کا حکمران بھی کہتے ہیں۔ صحافت آزاد نہ تھی اور صرف ایک سیاسی جماعت موجود تھی۔ اس کے علاوہ اس پر یہ بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے وسیع پیمانے والے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی۔ کچھ لوگوں کو اس کی جانب سے لاکھوں ڈالر خرچ کرکے اس کے گاؤں کی دار الحکومت میں منتقلی پر اعتراض تھا تو کچھ لوگ اس کی طرف سے امن، تعلیم اور مذہب کو ملک کے وسط میں ایک مقام دینے پر خوشی تھی۔ لیکن 1980ء میں عالمی مندی اور مقامی قحط نے آئیوری کی معیشت پر بہت برا اثر ڈالا۔ جنگلات کی حد سے زیادہ کٹائی اور چینی کی تیزی سی گرتی ہوئی قیمتوں کے سبب بیرونی قرضہ جات کی مقدار تگنی ہو گئی۔ عابدجان میں جرائم کی شرح میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ 1990ء میں سینکڑوں سرکاری ملازمین نے طلبہ کا ساتھ دیتے ہوئے رشوت ستانی کے خلاف ہڑتال کردی۔ عوامی بے چینی نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی اجازت دے۔ ہوفویٹ-بوئیگنی بہت زیادہ کمزور ہوتا گیا اور 1993ء میں انتقال کر گیا۔ اس نے ہنری کونان بیڈی کو اپنے جانشین بنانے کی حمایت کی۔
بیڈی کا انتظام
ترمیماکتوبر 1995ء میں غیر منظم اور بکھری ہوئی اپوزیشن کے خلاف اکثریت سے انتخابات جیت لیے۔ اس نے سیاسی زندگی کے گرد اپنا جال مضبوط کیا اور سینکڑوں مخالفین کو جیل میں ڈال دیا۔ اس کے برعکس معاشی صورت حال بہتر ہوئی اور بظاہر افراط زر کی شرح میں کمی ہوئی اور بیرونی قرضہ جات کو اتارنے کی کوشش کی گئی۔ ہوفویٹ-بوئیگنی کے برعکس، جو کسی بھی لسانی یا گروہی اختلاف کے لیے بہت محتاط تھا، اس نے ہمسائیہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کے لیے انتظامی عہدے خالی کر دیے۔ اس نے آئیوری ہونے پر زور دیا اور اس طرح اپنے مخالف الاسانے قوارتارا کو جس کا صرف والد آئیوری کوسٹ کا شہری تھا، کا راستہ بند کر دیا۔ چونکہ برکینا فاسو سے بہت سارے لوگ آئیوری آبادی کا بڑا حصہ تھے، ان کی ترقی کے راستے مسدود ہو گئے اور اس پالیسی کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو آئیوری کی شہریت نہ مل سکی اور مختلف لسانی اور نسلی گروہوں میں خلیج بڑھتی چلی گئی۔
1999ء کی فوجی بغاوت
ترمیماسی طرح بیڈی نے فوج سے اپنے کئی پوشیدہ مخالفین کو ہٹایا۔ 1999ء کے آخر میں غیر مطمئن افسران نے فوجی بغاوت کی اور جنرل رابرٹ گوئی کو حکمران بنایا۔ بیڈی فرانس فرار ہو گیا۔ اس فوجی بغاوت نے جرائم کی شرح میں کمی کی اور کرپشن کو روکا۔
گباگبو کا انتظام
ترمیماکتوبر 2000ء میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں لاورنٹ گباگبو نے گوئی کا مقابلہ کیا لیکن یہ سب پرامن رہا۔ اس کے نتیجے میں سول اور فوج میں بے چینی پیدا ہوئی۔ گوئی نے انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی جس کے نتیجے میں عوامی مزاحمت ہوئی اور 180 افراد مارے گئے اور گوئی کی جگہ اس کے مقابل گباگبو نے لے لی۔ الاسانے اواتارا کو ملکی سپریم کورٹ نے اس کی متنازع برکینابے کی شہریت کے سبب نااہل قرار دیا۔ موجود اور اس کے بعد کی آئینی ترامیم نے غیر شہری کو صدر ہونے سے روک دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں متشدد احتجاج شروع ہوئے جس میں اس کے حامیوں نے جو زیادہ تر شمال سے تھے، یاموسوکرو میں پولیس کے خلاف ایک طرح کی جنگ لڑی۔
2002ء کی ڈی ٹاٹ کی بغاوت
ترمیم19 ستمبر 2002ء کی علی الصبح صدر کا تختہ الٹنے کی ایک فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی۔ اس دوران صدر اٹلی کے دورے پر تھا۔ دستوں نے کئی شہروں پر حملہ کیا۔ دوپہر تک فرانس کی طرف سے حکومت کے حق میں مداخلت کی گئی تاہم یہ ابھی تک نہیں کہا جا سکتا کہ اس مداخلت کے سبب صورت حال بہتر ہوئی کہ بدتر۔ تاہم دن کے اختتام تک ملک کے شمال پر ان کا کنٹرول ختم ہو چکا تھا جو آج تک جنوب سے کٹا ہوا ہے۔ جنوب کے لیے ہونے والی لڑائی بہت سخت تھی۔ مین جینڈارماری بیرک کے لیے عابدجان میں ہونے والی لڑائی اگلے دن صبح تک جاری رہی۔ اس رات کیا ہوا، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ سابقہ صدر رابرٹ گوئی نے فوجی بغاوت کی سربراہی کی اور ریاستی ٹی وی نے اس کی اور پندرہ دیگر افراد کی لاشیں سڑکوں پر پڑی دکھائیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو گھروں پر قتل کرکے سڑکوں پرڈالا گیا تاکہ انھیں مجرم گردانا جا سکے۔ الاسانے اوتارا نے فرانسیسی سفارت خانے میں پناہ لی اور اس کا گھر جلا دیا گیا۔
صدر گباگبو نے اپنا اٹلی کا دورہ مختصر کر دیا اورملک واپسی پر یہ اعلان کیا کہ کچھ باغی ان قصبوں میں چھپے ہوئے ہیں جہاں غیر ملکی مہاجرین ورکر رہتے ہ یں۔ جینڈآرمس نے ہزاروں گھروں کو بلڈوز کیا اور جلا دیا جبکہ مکینوں پر بھی حملے کیے گئے۔
باغیوں سے ہونے والا فائر بندی کا معاہدہ عارضی ثابت ہوا اور کوکا کی کاشت کے علاقوں میں لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی۔ فرانس نے اپنے فوجیوں کو بھیجا تاکہ فائر بندی، سرحدوں اور ملیشیا کو روکا جا سکے جسسے لائبیریا اور سیریالون سے آنے والے جنگی سردار اور جنگجوؤں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی حصوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔
2003 کی متحدہ حکومت
ترمیمجنوری 2003ء میں صدر گباگبو اور باغی رہنماؤں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے "ملکی اتحاد کے لیے حکومت" بنانے کا کہا گیا تھا۔ کرفیو اٹھا لیا گیا اور فرانسیسی دستوں نے مغربی لاقانونیت کا شکار علاقہ صاف کر دیا۔ تب سے متحدہ حکومت انتہائی غیر مستحکم ثابت ہوئی ہے اور مرکزی مسائل ویسے کے ویسے ہیں اور کوئی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ مارچ 2004ء میں 120 لوگ اپوزیشن کی ریلی میں مارے گئے اور اس کے بعد مشتعل ہجوم سے پیدا ہونے والے حالات میں غیر ملکیوں کا انخلا کیا گیا۔ بعد ازاں ایک رپورٹ کے مطابق یہ قتل پہلے سے طے شدہ تھے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے امن سفارت کار تعینات کیے گئے تاکہ زون آف کانفیڈنس قائم رہ سکے لیکن گباگبو اور اپوزیشن کے تعلقات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
2004-2007 کے نتائج
ترمیمنومبر 2004ء کے اوائل میں امن معاہدے کی ناکامی کے بعد باغیوں نے غیر مسلح ہونے سے انکار کر دیا اور گباگبو نے باغیوں کے خلاف فضائی حملے کا حکم دے دیا۔ بوآکے میں ہونے والے ان حملوں میں فرانسیسی فوجی بھی شکار ہوئے اور نو فوجی مارے گئے۔ آئیوری حکومت کے مطابق یہ غلطی تھی لیکن فرانسیسیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جان بوجھ کر حملہ کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے آئیوری کے طیاروں کو تباہ کیا جن میں دو سخوئی مگ 25 اور پانچ ہیلی کاپٹر شامل ہیں جس کے بعد فرانس کے خلاف متشدد بغاوتیں عابدجان میں شروع ہو گئیں۔ گباگبو کی اصلی صدارتی مدت 30 اکتوبر 2005 میں ختم ہو رہی تھی لیکن ملکی حالات کے پیش نظر انتخابات کا ہونا غیر یقینی تھا اور اس کے نتیجے میں صدارتی مدت میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کا اضافہ کیا گیا۔ اس کا منصوبہ افریقی یونین نے بنایا تھا اور اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی منظور کیا۔ اکتوبر 2006 کی ڈیڈ لائن پہنچنے کے بعد یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اب بھی انتخابات کا انعقاد مشکوک ہے لیکن اپوزیشن نے گباگبو کو مزید مہلت دینے سے انکار کر دیا۔ سلامتی کونسل نے صدارتی مدت میں ایک سال کا مزید اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی منظور کیا کہ وزیر اعظم کے اختیارات کو بڑھا دیا جائے۔ اگلے ہی دن گباگبو نے کہا کہ اس قراردار کے نکات ملکی آئین سے متصادم ہیں اس لیے ان پر عملدرامد نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت اور باغیوں میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت، جسے نیو فورس کا نام دیا گیا، 4 مارچ 2007 کو اس پر دستخط ہوئے اور نتیجتاً نیوفورسز کے لیڈر گویلیام سورو وزیر اعظم بن گئے۔ کچھ مبصروں نے ان واقعات کو گباگبو کی مضبوطی میں اضافے کی نظر سے دیکھا۔
انتظامی تقسیم
ترمیمکوت دیواغ کو 19 خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو مزید 58 محکموں میں منقسم ہیں۔
سیاست
ترمیم1983 سے کوت دیواغ کا سرکاری دار الحکومت یاموسوکرو ہے تاہم عابدجان کو انتظامی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ اکثر ممالک کے سفارت خانے عابدجان میں واقع ہیں۔ کچھ ممالک جن میں برطانیہ بھی شامل ہے، نے یورپی لوگوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث اپنے سفارت خانے بند کر دیے ہیں۔ جاری رہنے والی خانہ جنگی کے باعث متذکرہ بالا آبادی کا نقصان جاری رہا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے کئی امور کی نشان دہی کی جن میں غیر جنگی قیدیوں سے برا سلوک اور کوکا کی پیداوار کے لیے بچوں کی غلامی میں بڑھتا ہوا اضافہ شامل ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر لڑائیاں 2004 کے اختتام تک ختم ہو چکی تھیں، ملک بدستور دو حصوں میں منقسم رہا۔ اکتوبر 2005 میں نئے صدارتی انتخابات متوقع تھے لیکن لیکن تیاریاں نہ ہونے کے سبب وہ اکتوبر 2006 تک ملتوی ہو گئے اور پھر انھیں باغیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے اکتوبر 2007 تک ملتوی کر دیا گیا۔
جغرافیہ
ترمیمکوت دیواغ مغربی سب صحارائی افریقہ کا ملک ہے۔ اس کی حدیں مغرب میں لائیبریا اور گی آنا سے، شمال میں مالی اور برکینا فاسو، مشرق میں گھانا اور جنوب میں گی آنا کی خلیج سے ملتی ہیں۔
معیشت
ترمیم1960 میں آزادی کے بعد سے فرانس کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات رہے۔ زراعت میں برآمدات کے لے تنوع پیدا ہوا اور غیر ملکی سرمائے کے موقعوں نے استوائی افریقی ریاستوں میں کوت دیواغ کو سب سے خوش حال ریاست بنا دیا۔ تاہم موجودہ دور میں اس کی اہم فصلوں یعنی کافی اور کوکا کی بین الاقوامی منڈی میں گرتی قیمتوں کے باعث خسارے کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر رشوت ستانی نے کاشتکاروں اور بیرون ملک برآمد کنندگان کے لیے زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔
آبادی
ترمیمآبادی کا بیس فی صد سے کچھ زائد مسلمان ہیں۔ تقریباً بائیس سے پچیس فی صد مسیحی ہیں جن میں یورپی لوگ بھی شامل ہیں۔ آبادی کا 77 فیصدی حصہ آئیوری لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں بہت سے مختلف لوگ اور بہت سی زبانیں شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 65 مختلف زبانیں اس ملک میں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ عام زبان ڈیولا ہے جو مسلمان آبادی اور تجارت سے متعلقہ لوگوں کی مشترکہ زبان ہے۔ فرانسیسی سرکاری زبان ہے اور اسے اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور شہری علاقوں میں عام بول چال کی زبان بھی یہی ہے۔ چونکہ کوت دیواغ نے خود کو مغربی افریقہ کی سب سے خوش حال ریاست ثابت کیا ہے، اس کی کل آبادی کا 20 فیصد حصہ ہمسائیہ ممالک سے جیسا کہ لائبیریا، برکینا فاسو اور گی آنا سے آیا ہے۔ اس وجہ سے ان بیرونی ورکرز جو مسلمان ہیں اور مقامی مسیحی آبادی کے درمیان کشیدگی کو ترقی ملی ہے۔ آبادی کا چار فیصد حصہ وہ لوگ ہیں جو آئیوری کے نہیں، بلکہ باہر سے آئے ہیں۔ ان میں فرانسیسی، ویت نامی اور ہسپانوی شہری ہیں اور اسی طرح امریکا سے آنے والے مسیحی مشنری بھی شامل ہیں۔ نومبر 2004 میں 10000 کے لگ بھگ فرانسیسی اور دوسرے غیر ملکیوں کا ملک سے انخلا ہوا کیونکہ ان پر حکومت کی حمایت یافتہ ملیشیا کے حملے شروع ہو گئے تھے۔ یہاں پر رہنے والے فرانسیسی شہریوں کے علاوہ ان فرانسیسی آباد کاروں کی نسلیں بھی آباد ہیں جو شروع میں ادھر آئے تھے۔
نام
ترمیمملک کو انگریزی میں آئیوری کوسٹ کہا جاتا تھا۔ اکتوبر 1985 میں حکومت کی درخواست پر فرانسیسی زبان میں ملک کا نام کوت دیواغ کر دیا گیا۔
استعمال
ترمیمآئیوری کی حکومت کی درخواست کے باوجود "آئیوری کوسٹ" یا "دی آئیوری کوسٹ" کو انگریزی میں اب تک استعمال کیا جاتا ہے :
- بی بی سی عموماً اپنی ویب سائیٹ اور خبروں میں "آئیوری کوسٹ" کا لفظ استعمال کرتی ہے
- دی گارڈین نامی اخبار کی سٹائل گائیڈ یہ کہتی ہے کہ "آئیوری کوسٹ، نہ دی آئیوری کوسٹ اور نہ کوت دیواغ، کیونکہ یہاں کے باشندے آئیورین کہلاتے ہیں "
- اے بی سی نیوز، دی ٹائمز، دی نیویارک ٹائمز اور جنوبی افریقہ کی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن، "آئیوری کوسٹ" استعمال کرتے ہیں
حکومتیں کوت دیواغ لفظ سفارتی وجوہات کی بنا پر کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں انگریزی میں رجسٹر ہونے والے ممالک کے نام میں کوت دیواغ ہی لکھا جاتا ہے۔ انگریزی بولنے والے ہمسائے لائبیریا اور گھانا دونوں کوت دیواغ استعمال کرتے ہیں۔ مزید ادارے جو یہ لفظ استعمال کرتے ہیں :
- اقوام متحدہ کا ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ اپنی رسمی دستاویزات میں کوت دیواغ اور عمومی کاغذات میں آئیوری کوسٹ استعمال کرتا ہے
فہرست متعلقہ مضامین کوت دیواغ
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "صفحہ آئیوری کوسٹ في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2024ء
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) و|accessdate=
میں 15 کی جگہ line feed character (معاونت) - ↑ https://www.ethnologue.com/
- ↑ عنوان : Ethnologue — اشاعت 25[2] — Ethnologue.com language code: https://www.ethnologue.com/language/fra
- ↑ https://data.who.int/countries/384 — اخذ شدہ بتاریخ: 22 نومبر 2024
- ^ ا ب ناشر: عالمی بینک ڈیٹابیس
- ↑ https://web.archive.org/web/20181225111225/http://chartsbin.com/view/edr — سے آرکائیو اصل فی 25 دسمبر 2018
- ↑ The government officially discourages this usage, preferring the French name Côte d'Ivoire to be used in all languages.
- ↑ Ivory Coast is the name used by the BBC, e.g. Laurent Gbagbo exit 'could worsen Ivory Coast crisis'. Retrieved 1 January 2011.