تارح یا آزر کے متعلق بعض علما نے فرمایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تھا، بعض نے فرمایا کہ والد نہیں چچا کا نام تھا والد کا نام تارخ تھا جو مسلمان تھے اور بعض نے فرمایا کہ آزر بت کا نام تھا۔

تارح
(عبرانی میں: תרח ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1883 ق مء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1678 ق مء [2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حاران   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش اُر
حران   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ابراہیم [3]،  حاران بن تارح [3]،  نحور بن تارح [3]،  سارہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد نحور بن سروج [4]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسلام میں ترمیم

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے:   وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ    

— 

اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا تم کیا بتوں کو معبود بناتے ہو - میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمھاری قوم صریح گمراہی میں ہو

بت کا نام ترمیم

تفسیر طبری میں ہے’’حدثنا محمد بن حمید وسفیان بن وکیع قالا حدثنا جریر، عن لیث، عن مجاہد قال لیس’’آزر‘‘ أبا إبراہیم۔ حدثنی الحارث قال، حدثنی عبد العزیز قال، حدثنا الثوری قال، أخبرنی رجل، عن ابن أبی نجیح، عن مجاہد وإذ قال إبراہیم لأبیہ آزر قال آزر لم یکن بأبیہ، إنما ہو صنم‘‘ ترجمہ

حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نہیں تھے۔ دوسری روایت حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نہ تھے آزر ایک بت تھا۔[5]

ابراہیم کے والد کا نام تارخ ترمیم

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے ’’عن ابن عباس قولہ وإذ قال إبراہیم لأبیہ آزر قال إن أبا إبراہیم لم یکن اسمه آزر، إنما کان اسمه تارخ‘‘ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر نہ تھے۔ ان کے والد کا نام تارخ تھا۔[6]
تفسیر قرطبی میں ہے’’قال مجاہد إن آزر لیس باسم أبیه وإنما هو اسم صنم وهو إبراہیم بن تارخ بن ناخور بن ساروع ابن أوغو بن فالغ بن عابر بن شالخ بن أرفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام ‘‘ترجمہ:حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام نہ تھا ایک بت کا نام تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ بن ناخور بن ساروع بن اوغو بن فالغ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح تھا۔[7]
رضویہ میں ہے:’’ اہل تواریخ واہل کتابین (یہودونصاری) کا اجماع ہے کہ آزر باپ نہ تھا سید خلیل علیہ السلام الجلیل کا چچا تھا۔‘ ‘ [8] مفتی محمد امجد علی اعظمی فرماتے ہیں:’’آزر بلاشبہ کافر و مشرک تھا، نصوص قطعیہ سے اس کا مشرک ہونا ثابت۔ مگر یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا باپ نہ تھا، ان کے والد کا نام تارخ تھا اور آزر چچا تھا۔‘‘ [9]
مفتی احمد یار خان نعیمی آیت {ربنا اغفر لی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب} کے تحت لکھتے ہیں :’’اس آیت میں والدین سے مراد جناب ابراہیم کے سگے والد تارخ اور آپ کی والدہ متلی بنت نمر ہیں یہ دونوں مؤمن تھے ان کے لیے آپ نے بڑھاپے میں دُعائے مغفرت کی ۔‘‘[10]

عربی مورخ ابن حبیب اسے تارح و ہو آزر لکھتا ہے۔ چونکہ آزر عربی لفظ ہے اور اس کے معنی قوت کے بھی ہو سکتے ہیں اس لیے قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا تو قوت کے سبب بت بناتا ہے۔؟کہتے ہیں کہ آزر نے 205 برس کی عمر پائی۔ امین حبیب نے اس کی عمر 250 سال کی ہے۔ امام ابوحنیفہ لکھتے ہیں کہ نمرود نے کے اہل عجم فریدوں کہتے ہیں اپنے اعزہ میں سے سات افراد کو منتخب کر کے ان کا نام ” الکوہبارین“ رکھا اور انتظای امور ان کے سپرد کیے۔ ان میں حضرت ابراہیم کا والد یا چچا آزر بھی تھا۔ بائبل میں ہے کہ ........ جب تارح (آزر) ستر برس کا تھا کہ ابراہیم ناحور اور حاران پیدا ہوئے۔ اور تارح نے اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط کو جو حاران کا بیٹا تھا اپنی بہو سارہ کو ساتھ لیا اور کنعان کی طرف روانہ ہوئے اور کنعان تک آئے اور وہیں رہنے لگے اور تارح کی عمر دو سو پانچ برس ہوئی اور وہ کنعان میں فوت ہوا۔

حضرت ابراہیم نے سب سے پہلے اپنے والد ہی کو دعوت حق دی۔ قرآن میں یہ واقعہ مفصل طور پر درج ہے۔ آزر پر ابراہیم کی تبلیغ کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے اپنے پیغمبر بیٹے کو دھمکی دی کہ اگر ان بتوں کی برائی سے باز نہ آئے گا تو تجھے سنگسار کر کے چھوڑوں گا۔ اپنی خیر چاہتا ہے تو جان سلامت لے کر مجھ سے الگ ہو جا۔ اس پر ابراہیم اس سے الگ ہو گئے۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلم نے فرمایا:۔

قیامت کے روز حضرت ابراہیم اپنے باپ آزر کو خاک آلود سیاه چرے کے ساتھ پائیں گے۔ اس وقت آپ فرمائیں گے کہ کیوں میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا

کہ تو میری نافرمانی نہ کر؟ آذر جواب دے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس پر ابراہیم اپنے خدا سے عرض کریں گے کہ تو نے وعدہ کیا تھا کہ قیامت کے دن تو مجھے رسوا نہیں کرے گا۔ اب اس سے بڑھ کر میری رسوائی اور کیا ہو گی۔ اللہ تعالی فرمائیں گے کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام کر دیا ہے اور پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم تیرے پاؤں تلے کیا ہے۔ اب جو دیکھیں گے تو ایک نجاست آلودہ گھنے بالوں والا خون سے سے لتھڑا ہوا کفتار پڑا ہوگا، پھر اس کی ٹانگ پکڑ کر اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ [11]

والد مومن تھے ترمیم

بعض علما کا خیال ہے کہ آزر ابراہیم کا چچا تھا اور چونکہ اس نے ان کی پرورش کی تھی اس لیے قرآن میں اسے ابراہیم کا باپ کہا گیا ہے۔ لیکن مولانا عبد الرشید نعمانی لکھتے ہیں کہ یہ لغو ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ان کے والد نام آزر ہی بتایا گیا ہے۔ اوپر بیان شده نظریہ کی حمایت میں علما یہ بیان دیتے ہیں کہ چونکہ کسی پیغمبریانی کا باپ مشرک نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آزر ابراہیم کا باپ نہیں ہو سکتا۔ امام رازی کی تصریح کے مطابق یہ عقیدہ اہل تشیع سے تعلق رکھتاہے۔ ہو سکتا ہے کہ تارح اور تارخ اس کا نام ہو اور آزر لقب ہو۔[11]

تفسیر نعیمی میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے :’’حضرت اب رہی م علیہ السلام کے سگے ماں باپ مومن متقی موّحد تھے آپ کی والدہ کا نام متلی بنت نمر تھا اور والد کا نام تارخ ابن نحور تھا حضرت ہود علیہ السلام کی اُمت میں سے تھے۔‘‘مزید اسی کے تحت فرمایا:’’ یہاں آیت میں والدہ اور والد دونوں کا ذکر ہے آپ کی والدہ کے مومنہ ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ۔‘‘[12]
یہی کلام صاحب روح المعانی نے کیا ہے’’ودعا ہناک فقال{ رَبَّنا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِی بِوادٍ غَیْرِ ذِی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ إلی قولہ رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسابُ} فإنہ یستنبط من ذلک أن المذکور فی القرآن بالکفر ہو عمہ حیث صرح فی الأثر الأول أن الذی ہلک قبل الہجرۃ ہو عمہ ودل الأثر الثانی علی أن الاستغفار لوالدیہ کان بعد ہلاک أبیہ بمدۃ مدیدۃ فلو کان الہالک ہو أبوہ الحقیقی لم یصح منہ علیہ السلام ہذا الاستغفار لہ أصلا فالذی یظہر أن الہالک ہو العم الکافر المعبر عنہ بالأب مجازا وذلک لم یستغفر لہ بعد الموت وأن المستغفر لہ إنما ہو الأب الحقیقی ولیس بآزر‘‘[13]

ابی لفظ چچا اور دادا کے لیے ترمیم

یہ اعتراض کہ لفظ ’’ابی‘‘ صرف باپ کے لیے استعمال ہوتا ہے درست نہیں۔ قرآن اہل عرب پر نازل ہوا اور اہل عرب ہماری طرح چچا، تایا اور دادا کو ابو، نواسوں کو بیٹا کہہ دیتے تھے۔ اس کی بے شمار مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں چنانچہ قرآن پاک میں سورۃ کہف میں دو بچوں کے متعلق فرمایا { وَکَانَ تَحْتَہُ کَنزٌ لَّہُمَا وَکَانَ أَبُوْہُمَا صَالِحًا }ترجمہ کنز الایمان:اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا ۔[14]
جب کہ مذکورہ باپ ان کا حقیقی باپ نہ تھا بلکہ ساتواں دادا تھا چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں ہے’’وکان بینہما و بین الاب الذی حفظا بہ سبعۃ آبائ‘‘[15] روزِ حنین جب ارادہ الہٰیہ سے تھوڑی دیر کے لیے کفار نے غلبہ پایا معدود بندے رکاب رسالت میں باقی رہے، اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شان جلال طاری تھی فرمایا ’’انا النبی لاکذب انا ابن عبد المطلب ‘‘ترجمہ:میں نبی ہوں کچھ جھوٹ نہیں، میں ہوں بیٹا عبد المطلب کا ۔[16]
ایک حدیث میں ہے، بعض غزوات میں فرمایا ’’انا النبی لاکذب، انا ابن عبد المطلب، انا بن العواتک ‘‘ترجمہ:میں نبی ہوں کچھ جھوٹ نہیں، میں ہوں عبد المطلب کا بیٹا، میں ہوں ان بیبیوں کا بیٹا جن کا نام عاتکہ تھا ۔[17] علامہ مناوی صاحب تیسیر وامام مجدالدین فیروز آبادی صاحب قاموس وجوہری صاحب صحاح وصنعانی وغیرہم نے کہا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جدات میں نو بیبیوں کا نام عاتکہ تھا۔[18]
ترمذی شریف کی بسند حسن حدیث پاک ابوہریرہ سے مروی ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’عم الرجل صِنوُ اَبِیہ‘‘ ترجمہ: آدمی کا چچا اس کے باپ کی طرح ہوتا ہے ۔[19] مسلم شریف کی حدیث پاک ہے جس میں آپ نے ابو طالب کو اپنا باپ کہا چنانچہ فرمایا ’’ان ابی واباک والنار‘‘ ترجمہ:بے شک میرا اورتیرا باپ آگ میں ہے۔[20]
دوسری حدیث پاک میں آپ نے اپنے چچا سیدنا عباس کو ابو کہا چنانچہ تفسیر کبیر میں ہے ’’فاما والدہ فھو تارخ والعم قد یسمی بالاب علی ماذکرنا ان اولاد یعقوب سموا اسماعیل بکونہ ابا یعقوب مع انہ کان عما لہ وقال علیہ السلام ’’ردوا علی ابی‘‘ یعنی العم العباس‘‘ترجمہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا اور چچا کو باپ کہہ دیا جاتا ہے۔ جیسا ہم نے ذکر کیا کہ اولاد ِیعقوب کو اولادِ اسماعیل بھی کہا جاتا ہے حالانکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے چچا تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا مجھ پر میرے باپ کو پیش کرو یعنی چچا عباس کو۔[21]
المستدرک للحاکم کی صحیح حدیث پاک ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’انا دعوۃ ابی ابراہیم ‘‘ترجمہ:میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق فرمایا ’’ہذان ابنای‘‘ترجمہ:یہ دونوں میرے بیٹے ہیں۔ اسی طرح کی اور بے شمار مثالیں ہے۔ لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر نہیں تھے بلکہ تارخ تھے، یہی نظریہ رکھنے میں احتیاط اور عافیت ہے۔

شجرہ نسب ترمیم

تارح
سارہ[22]ابرام (ابراہیم علیہ السلام)ہاجرہحاران
نحور
اسماعیلمِلکہلوطاِسکہ
بنی اسماعیل7 بیٹے[23]بیتوایلپہلی شاخدوسری شاخ
اسحاق (اسحاق علیہ السلام)ربقہلابانبنی موآببنی عمون
عیسویعقُوب(یعقوب علیہ السلام)راحیل
بلہاہ
بنی ادومزلفہ
لیاہ
1. رئبون
2. شمعون
3. لاوی
4. یہوداہ
9. یساکار
10. زبولون
11. دینہ
7. جاد
8. آشر
5. دان
6. نفتالی
12. یوسف (یوسف علیہ السلام)
13. بنیامین


حوالہ جات ترمیم

  1. مصنف: ماٹس کنٹور — صفحہ: 10 — ISBN 978-0-87668-229-6
  2. مصنف: ماٹس کنٹور — صفحہ: 17 — ISBN 978-0-87668-229-6
  3. فصل: 11 — عنوان : Genesis — باب: 26
  4. فصل: 11 — عنوان : Genesis — باب: 24
  5. تفسیر طبری ،فی التفسیر،سورۃ الانعام،سورت6،آیت74
  6. تفسیر طبری، سورۃ الانعام، سورت6، آیت74
  7. (تفسیر قرطبی، فی التفسیر، سورۃ الانعام، سورت6، آیت74
  8. فتاویٰ رضویہ، جلد30، صفحہ284، رضافائونڈیشن، لاہور
  9. فتاوی امجدیہ ،جلد4، صفحہ311، مکتبہ رضویہ، کراچی
  10. تفسیر قرآن نورالعرفان ،پارہ13،سورۃ اب رہی م، آیت 41
  11. ^ ا ب شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا- ص ٤٦، ج اول،از سید قاسم محمود، عطش درانی- مکتبہ شاہکار لاہور
  12. تفسیر نعیمی ،پارہ13، سورۃ اب رہی م، آیت 41
  13. تفسیر روح المعانی، فی التفسیر، سورۃ الانعام، سورت6، آیت74
  14. سورۃ الکہف، سورت18، آیت82
  15. تفسیر ابن کثیر،فی التفسیر، سورۃ الکہف، سورت18، آیت82
  16. صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من قاد دابۃ غیر ہ فی الحرب،جلد4، صفحہ30، دار طوق النجاۃ
  17. تاریخ دمشق الکبیر باب معرفۃ امہ وجداتہٖ الخ،جلد3، صفحہ60، داراحیاء التراث العربی بیروت
  18. (التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث انا ابن العواتک،جلد1، صفحہ275، مکتبۃ الامام الشافعی، ریاض)
  19. جامع الترمذی، ابواب المناقب، مناقب ابی الفضل عم النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، جلد5، صفحہ653، مصطفیٰ البابی، مصر
  20. (صحیح مسلم، کتاب الایمان باب بیان ان من مات علی الکفر ،جلد1،صفحہ191، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
  21. تفسیر کبیر، سورۃ الانعام، سورت6، آیت74
  22. [Genesis 20:12]: سارہ - ابراہیم کی سوتیلی بہن تھی.
  23. [Genesis 22:21-22]: عُوض، بُوز، قموایل، کسد، حزُو، فِلداس، اور اِدلاف