اسرائیل بنگلہ دیش تعلقات

بنگلہ دیش اور اسرائیل آپسی سفارتی تعلقات نہیں رکھتے، حالاں کہ بنگلہ دیش ریاستہائے متحدہ امریکا اور یورپی یونین کے توسط سے نیم تجارتی اسرائیل کے ساتھ رکھتے آیا ہے۔[1] بنگلہ دیش نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا، جب تک کہ ایک آزاد فلسطین قائم نہ ہو۔[2] تاہم، 2000ء سے ان دونوں ممالک کے سیاست دانوں کے بیچ مذاکرات ہو چکے ہیں کہ اس باہمی تعلقات کو قائم کیا جانا چاہیے۔[3]

بنگلہ دیش اسرائیل تعلقات
نقشہ مقام Israel اور Bangladesh

اسرائیل

بنگلادیش

سفارت

ترمیم
 
بنگلہ دیش کا پاسپورٹ اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے۔

بنگلہ دیش اقوام متحدہ کے ان 29 رکن ممالک میں شامل ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ ان کئی ممالک میں سے ایک ہے جو سرکاری طور پر اپنے شہریوں کو اسرائیل کے سفر کی ممانعت کرتے ہیں اور اسرائیل پاسپورٹوں قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔[4][5][6]

نومبر 2003ء میں صحافی صلاح چودھری اس وقت گرفتار ہوئے جب وہ اسرائیل کی راج دھانی تل ابیب کے دورے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان پر غداری اور گستاخی کے مقدمے درج ہوئے اور سات سال جیل کی قید کی سزا ہوئی۔[7][8]

بنگلہ دیش خود مختار مملکت فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور وہ مبینہ طور پر اسرائیل کے "فلسطین پر ناجائز قبضے" کا خاتمہ چاہتا ہے۔

یروشلم پوسٹ میں چھپنے والے ایک بیان میں ایک اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے کہا: "ہمارا بنگلہ دیش کے ساتھ کوئی تنازع نہیں ہے۔ ہم گفتگو چاہتے ہیں۔ ہم عوام سے عوام تک تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مذہبی سوچ رکھنے والے بنگلہ دیشی لوگ یروشلم کی مقدس زمین کا دورہ کریں۔" [9] اسرائیل نے سعیِ لاحاصل کے طور پر "بنگلہ دیش سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کی" جو اس کے چین اور بھارت کے ساتھ مکمل سفارتی تعلق قائم کرنے کے بعد ہوا۔[10] بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے 2014ء میں کہا تھا کہ "ہم فلسطینوں کے ساتھ اپنی حمایت جاری رکھ رہے ہیں اور ان کی زمین پر اسرائیل کا قبضہ کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا"۔ [11]

2017ء میں ڈاکٹر شادمان زماں پہلے بنگلہ دیشی شہری بنے جو تاریخی طور پر اپنے بنگلہ دیشی پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ کیے۔ تب سے شادمان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انگلستان میں قیام پزیر ہیں کیوں کہ ایک تو انھیں دہشت گردوں سے کئی دھمکیاں مل چکی ہیں، دوسرے یہ کہ اس بات کا بھی قوی امکان تھا کہ وطن واپسی پر غداری کا مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔

عدم دلچسپی کا مظاہرہ

ترمیم

بنگلہ دیش کی وزیرِ خارجہ دیپو مونی نے 2018ء میں واضح کر دیا کہ ڈھاکا نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، حالانکہ اُن کا ملک دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوستی کا خواہاں ہے۔[12]

موساد سے وابستگی کا الزام

ترمیم

بنگلہ دیش کے ایک اور وزیر داخلہ نے 2016ء میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں ترقی پسند بلاگروں اور اقلیتی برادری کے افراد کی ہلاکتوں میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ وزیر داخلہ اسد الزمان خان کے مطابق حزب مخالف کے ایک رکن پارلیمان کی اسرائیلی ایجنٹ سے ملاقات ہوئی تھی جس میں بنگلہ دیش کے خلاف’ عالمی سازش‘ کے شواہد ملے۔[13]

2016ء میں شیخ حسینہ نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں بی این پی اور جماعت اسلامی، بنگلہ دیش نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر فوجی سازش کے تحت تختیہ پلٹنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد یہ دعوٰی کیا گیا تھا کہ بی این پی کے جنرل سیکریٹری اسلم اسرائیلی سیاست دان میندی این سفادی سے اپنے دورۂ ہند کے دوران ملاقات کر چکے ہیں۔[14] اسلم کا دعوٰی تھا کہ یہ ملاقات اتفافی تھی۔[15]

تجارت

ترمیم

بنگلہ دیش نے اسرائیل کے ساتھ تجارت پر امتناع عائد کر رکھا ہے، حالاں کہ دونوں ممالک عالمی تجارتی ادارے کے رکن ہیں۔[10][16] 2014ء میں یہ ایکسپورٹ پروموشن بیورو، بنگلہ دیش سے دریافت کیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش نے اپنی فروخت کے مال کا ایک مختصر حصہ جو تقریبًا امریکی ڈالر2,577 تھا، اسرائیل کو 2013–14 کے مالی سال میں کر چکا ہے۔[17][18] تاہم بعد کے سالوں میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی مصنوعات اسرائیل میں ریاستہائے متحدہ امریکا یا یورپی یونین سے پہنچتے ہیں۔ [19]

لبنان جنگ 2006ء

ترمیم

لبنان جنگ 2006ء کے فوری بعد کا یہ نتیجہ ہے کہ بنگلہ دیش اپنی پاپیادہ فوج اقوام متحدہ کی امن دیکھ ریکھ فوج میں شامل کرنا چاہتا تھا، تاہم اسرائیل نے اسے یہ کہ کر مسترد کر دیا تھا کہ بنگلہ دیش اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔[20] حالاں کہ اسرائیل نے اس ملک کی شراکت کو مسترد کیا، تاہم بنگلہ دیش اور نیپال اولین ممالک تھے جن کی فوجیں جنوبی لبنان کے ساحل پر پہنچی تھی، جب کہ مغربی ممالک جیسے کہ صورت حال میں قائدانہ کردار نبھانے والے ملک فرانس نے اپنی فوجوں کو متعین کرنے کا کام ملتوی کیا۔ 25 مئی 2015ء تک بنگلہ دیش کے 326 فوجی لبنان کے یو این آئی ایف ایل کا حصہ تھی۔[21]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "No diplomatic ties but B'desh earns from export in Israel"۔ نیو ایج۔ 2019-01-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 جون2015 {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت)
  2. "B`desh should not establish ties with Israel: Experts"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-21
  3. "Bangladesh yet to decide on relations with Israel: FM"۔ archive.thedailystar.net۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-21
  4. "Moving Israel from Europe to Asia"۔ دی جروشلم پوسٹ۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-01-29
  5. "Statement by Her Excellency Ms. Dipu Moni, Minister for Foreign Affairs of Bangladesh"۔ Ministry of Foreign Affairs, Dhaka۔ 2013-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  6. "Grant: I'll have no issue with my Israeli passport"۔ ghanaweb.com۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-01-29
  7. "The unfathomable life of Salah Uddin Shoaib Choudhury"۔ Times of Israel۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-01-29
  8. Winer، Stuart (9 جنوری 2014)۔ "Bangladesh editor gets 7 years for attempted Israel trip"۔ Times of Israel۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-01-29
  9. Nasir، Khaled (2 ستمبر 2011)۔ "Time for a quiet revolution in Bangladesh-Israeli relations"۔ یروشلم پوسٹ۔ 2019-01-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-24
  10. ^ ا ب Ohad Shpak۔ "Elections in Bangladesh – Why do we care?"۔ Times of Israel۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-01
  11. "PM: Attack on Gaza is violation of humanity | Dhaka Tribune"۔ www.dhakatribune.com۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-21
  12. اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا ابھی کوئی ارادہ نہیں:بنگلہ دیشی وزیرِخارجہ
  13. ’بنگلہ دیش میں حالیہ ہلاکتوں میں اسرائیل ملوث‘ - BBC News اردو
  14. "Hasina accuses rivals of trying to topple govt". The Hindu (Indian English میں). 19 مئی 2016. ISSN:0971-751X. Archived from the original on 2018-12-24. Retrieved 2016-06-16.
  15. "I met Israeli accidentally"۔ The Daily Star۔ 11 مئی 2016۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-06-16
  16. "Bangladesh Trade Boycott On Israel Impacts U.S. Firm And Garment Sector"۔ ویکی لیکس۔ 7 جنوری 2010۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-01
  17. "Bangladesh exports unknown goods to Israel"۔ پروتھوم آلو۔ 11 اگست 2014۔ 2016-07-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-01
  18. "No diplomatic ties but B'desh earns from export in Israel"۔ دی نیو ایج۔ 20 مئی 2014۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-01
  19. "Bangladesh exports unknown goods to Israel"۔ 2015-06-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-21
  20. "Israeli troops shoot Hezbollah militants"۔ CNN۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-04-02
  21. "UNIFIL Troop-Contributing Countries"۔ unifil.unmissions.org۔ Information and Communications Technology Division۔ 2015-06-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-25 {{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)