اسماء بنت عميس بن معد بن حارث ان کا لقب صاحبۃ الہجرتين (دو ہجرتوں والی) صحابیہ ہیں۔

اسماء بنت عمیس
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 660ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن باب صغیر   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر جعفر ابن ابی طالب
ابوبکر صدیق
علی بن ابی طالب   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبداللہ بن جعفر ،  محمد بن جعفر ،  عون بن جعفر ،  محمد بن ابی بکر ،  ام کلثوم بنت ابو بکر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ہند بنت عوف بن زہیر   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
نمایاں شاگرد عبداللہ بن جعفر ،  عبد اللہ بن شداد ،  سعید بن مسیب ،  عروہ بن زبیر ،  عامر بن شراحیل شعبی ،  قاسم بن محمد بن ابی بکر   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ طبیب نباتی ،  عالمہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

اسماء نام، قبیلہ خثعم سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے، اسماء بنت عمیس معد بن حارث بن تیم بن کعب بن مالک بن قحافہ بن عامر بن ربیعہ بن عامر بن معاویہ بن مالک ابن بشیر بن وہب اللہ بن شہران بن عفرس بن حلف بن اقبل (خثعم) ماں کا نام ہند (خولتہ) بنت عوف تھا۔ اور قبیلہ کنانی سے تھیں، اسی بنا پر میمونہ اور اسماء اخیا فی (بہنیں) تھیں۔

نکاح

جعفر سے جو علی کے بڑے بھائی تھے اور دس برس بڑے تھے نکاح ہوا۔

اسلام

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ ارقم میں مقیم ہونے سے قبل مسلمان ہوئیں، جعفر نے بھی اسی زمانہ میں اسلام قبول کیا تھا۔[1]

عام حالات

حبشہ کی ہجرت کی اور کئی سال تک مقیم رہیں، سنہ 7 ہجری میں جب خیبر فتح ہوا، تو مدینہ آئیں، حفصہ کے گھر گئیں تو عمر فاروق بھی آ گئے، پوچھا یہ کون ہیں، جواب ملا اسماء بولے "بولے ہاں وہ حبش والی وہ سمند والی" اسماء نے کہا ہاں وہی، عمر نے کہا ہم کو تم پر فضیلت ہے، اس لیے کہ ہم مہاجر ہیں، اسماء کو یہ فقرہ سنکر غصہ آیا، بولیں،" کبھی نہیں! تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ بھوکوں کو کھلاتے اور جاہلوں کر پڑھاتے تھے لیکن ہماری حالت بالکل جدا نہ تھی، ہم نہایت دور دراز مقام میں صرف خدا اور رسول کی خوشنودی کے لیے پڑے رہے اور بڑی بڑی تکلیفات اٹھائیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکان پر تشریف لائے تو انھوں نے سارا قصہ بیان کیا، ارشاد ہوا:"انھوں نے ایک ہجرت کی اور تم نے دو ہجرتیں کیں۔ اس لیے تمکو زیادہ فضیلت ہے۔" اسماء اور دوسرے مہاجرین کو اس سے اس درجہ مسرت ہوئی کہ دنیا کی تمام فضیلتیں ہیچ معلوم ہوتی تھیں، مہاجرین حبشہ جوق در جوق اسماء کے پاس آتے اور یہ واقعہ دریافت کرتے تھے۔[2] سنہ 5 ہجری غزوہ موتہ میں جعفر نے شہادت پائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی (اسماء فرماتی ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ حضور آبدیدہ تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ غمگین کیوں ہیں۔ کیا جعفر کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے، حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہاں وہ شہید ہو گئے ہیں، بچوں کو نہلا دھلا کر ہمراہ لے گئی تھی، حضور نے بچوں کو اپنے پاس بلایا اور میں چیخ اٹھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا، جعفر کے بچوں کے لیے کھانا پکاؤ۔ کیونکہ وہ رنج و غم میں مصروف ہیں۔[3] اس کے بعد مسجد میں جا کر غم زدہ بیٹھے اور اس خبر کا اعلان کیا، اسی حالت میں ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفر کی مستورات ماتم کر رہی ہیں اور رو رہی ہیں۔ آپ نے ان کو منع کرا بھیجا، وہ گئے اور واپس آ کر کہا کہ میں نے منع کیا لیکن وہ باز نہیں آتیں۔ آپ نے دوبارہ بھیجا، وہ دوبارہ گئے اور واپس آکر عرض کی کہ ہم لوگوں کی نہیں چلتی، آپ نے ارشاد فرمایا "تو ان کے منہ میں خاک بھردو" یہ واقعہ عائشہ بنت ابی بکر سے صحیح بخاری میں منقول ہے، صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ عائشہ نے اس شخص سے کہا کہ "خدا کی قسم تم یہ نہ کرو گے (منہ میں خاک ڈالنا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف سے نجات نہ ملے گی۔"[4] تیسرے[5] دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسماء کے گھر تشریف لائے اور سوگ کی ممانعت کی،[ح 1] تقریباً چھ مہینے کے بعد شوال سنہ 8 ہجری میں جو غزوہ حنین کا زمانہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق سے ان کو نکاح پڑھا دیا۔[7] جس کے دو برس بعد ذو القعدہ سنہ دس ہجری میں محمد بن ابو بکر پیدا ہوئے، اس وقت اسماء حج کی غرض سے مکہ آئیں تھیں چونکہ محمد ذو الحلیفہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسماء نے دریافت کرایا کہ میں کیا کروں؟ ارشاد ہوا نہا کر احرام باندھیں۔[8]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں ام سلمہ اور اسما نے ذات الجنب تشخیص کر کے دوا پلانی چاہی، چونکہ گوارا نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا، اسی ممانعت میں غشی طاری ہو گئی، انھوں نے منہ کھول کر پلا دی، افاقہ کے بعد آپ کو احساس ہوا تو فرمایا، یہ مشورہ اسماء نے دیا ہو گا۔ وہ حبشہ سے اپنے ساتھ یہی حکمت لائی ہیں، عباس کے علاوہ سب کو دوا پلائی جائے چنانچہ تمام ازواج مطہرات کو دوا پلائی گئی۔[9] سنہ 13 ہجری میں ابو بکر نے وفات پائی تو وصیت کی کہ اسماء غسل دیں۔[10] ابوبکر کے بعد اسماء علی کے نکاح عقد میں آئیں، محمد بن ابو بکر بھی ساتھ آئے اور علی کے آغوش تربیت میں پرورش پائی، ایک دن عجیب لطیفہ ہوا، محمد بن جعفر اور محمد بن ابو بکر نے باہم فخراً کہا کہ ہم تم سے بہتر ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے باپ تمھارے باپ سے بہتر تھے۔ علی نے اسماء سے کہا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ کرو۔ بولیں کہ تمام نوجوانوں پر جعفر کو اور تمام بوڑھوں پر ابوبکر کو فضیلت حاصل ہے۔ علی بولے "پھر ہمارے لیے کیا رہا؟"[11] سنہ 38 ہجری میں محمد بن ابو بکر مصر میں قتل ہوئے اور گدھے کی کھال میں ان کی لاش جلائی گئی[ح 2] ان کو سخت غصہ آیا، لیکن نہایت صبر سے کام لیا اور مصلے پر کھڑی ہو گئیں۔[12]

اولاد

اسماء نے تین نکاح کیے چنانچہ جعفر سے محمد، عبد اللہ، عون، ابو بکر سے محمد اور علی سے یحییٰ پیدا ہوئے۔[13] ریاض النضرہ میں لکھا ہے کہ علی کے دو لڑکے ہوئے تھے۔ یحییٰ اور عون۔[14] لیکن ابن اثیر نے اس کو غلط کہا ہے اور کہا ہے کہ یہ ابن کلبی کا خیال ہے جو مشہور دروغ گو تھا۔

فضل و کمال

اسماء سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں، جن کے راویوں کے نام یہ ہیں، عمر، ابو موسی اشعری، عبد اللہ بن جعفر، ابن عباس، قاسم بن محمد، عبد اللہ بن شداد بن الہاد، عروہ ابن مسیب، ام عون بنت محمد بن جعفر، فاطمہ بنت علی، ابو یزید مدنی۔

رسول اللہ سے براہ راست تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت و تکلیف میں پڑھنے کے لیے ان کو ایک دعا بتائی تھی، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر کے بچوں کو دبلا دیکھا تو پوچھا کہ یہ اس قدر دبلے کیوں ہیں، اسماء نے کہا ان کو نظر بہت لگتی ہے، تو تم جھاڑ پھونک کرو، اسماء کو ایک منتر یاد تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، فرمایا "ہاں یہی سہی۔"[15] اسماء کو خواب کی تعبیر میں بھی دخل تھا، چنانچہ عمر اکثر ان سے خوابوں کی تعبیر پوچھتے تھے۔[16]

وفات

سنہ 40 ہجری میں علی المرتضیٰ نے شہادت پائی اور ان کے بعد اسماء کا بھی انتقال ہو گیا۔[17] کہا جاتا ہے 60ھ کے بعد انتقال فرمایا۔

حواشی

  1. جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اس کو چار ماہ دس دن سوگ کرنا چاہیے، مسئلہ یہی ہے اسماء کی اس روایت سے شبہہ میں نہ پڑنا چاہیے، اس لیے کہ یہ روایت تمام صحیح احادیث کے خلاف ہے اور شاذ ہے۔ اور اجماع اس کے مخالف۔ طحاوی کے نزدیک یہ روایت منسوخ ہے اور بیہقی کے نزدیک منقطع ہے۔[6]
  2. اسماء کے لیے اس سے تکلیف دہ واقعہ کیا ہو سکتا تھا؟

حوالہ جات

  1. سیرت ابن ہشام ج1 ص136، اصابہ ج8 ص9 بحوالہ ابن سعد
  2. صحیح بخاری ج2 ص607، 608
  3. مسند احمد ج6 ص370
  4. صحیح بخاری ج2 ص611
  5. مسند احمد ج6 ص369
  6. فتح الباری ج9 ص529
  7. اصابہ ج8 ص9
  8. صحیح مسلم ج1 ص385، 394
  9. صحیح بخاری ج2 وطبقات ج2 ص31، 32 ومسند احمد ج6 ص438
  10. اصابہ ج8 ص9 بحوالہ ابن سعد
  11. اصابہ ج8 ص9
  12. اصابہ ج8 ص9
  13. استیعاب ج2 ص725
  14. ریاض النضرہ ج2 ص649، مسند احمد ج6 ص36
  15. صحیح مسلم ج2 ص223
  16. اصابہ ج8 ص9
  17. خلاصہ تہذیب ص 488

سانچے

لوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔