ابو عیسیٰ محمد ترمذی
ابو عیسیٰ محمد ترمذی ایک مشہور محدث گذرے ہیں جن کا پورا نام ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد ہے۔ آپ کے حالات کے متعلق بہت کم علم ہے۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی نابینا تھے۔ بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ آپ نے امام احمد ابن حنبل، امام بخاری اور امام ابو داؤد سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لیے خراسان عراق اور حجاز گئے۔ شہر ترمذ میں، جو بلخ سے کچھ فاصلے پر دریائے آمو کے کنارے واقع ہے، انتقال کیا، آپ کی دو تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک آنحضرت کی سیرت، جس کا نام شمائل ترمذی ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ ان کے علاوہ انساب، کنیت اور اسماء الرجال پر بھی آپ نے کچھ کام کیا تھا مگر یہ کتابیں اب نہیں ملتیں۔[5][6]
ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد | |
---|---|
(عربی میں: الترمذی, محمد بن عيسى)[1] | |
عربی خطاطی نام
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 825ء [2][3][4] ترمذ، موجودہ سرخان دریا صوبہ، ازبکستان |
وفات | 13 رجب 279ھ بمطابق 9 اکتوبر 892ء (68 سال) ترمذ، موجودہ سرخان دریا صوبہ، ازبکستان |
شہریت | دولت عباسیہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عملی زندگی | |
استاذ | محمد بن اسماعیل بخاری ، مسلم بن حجاج نیشاپور ، ابو داؤد ، عبدالرحمن دارمی |
پیشہ | محدث ، مفسرِ قانون ، امام |
شعبۂ عمل | علم حدیث |
کارہائے نمایاں | سنن ترمذی ، شمائل ترمذی ، علل الترمذی الکبیر |
تحریک | اہل سنت |
درستی - ترمیم |
نام و نسب و کنیت
ترمیمنام محمد اور کنیت ابوعیسی ہے اور نسب یہ ہے: محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمی بوغی ترمذی، اکثر روایات کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہی ہے۔ بعض اقوال کے مطابق آپ کا نسب نامہ یوں ہے: محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن شداد سلمی بوغی ترمذی ہے۔ یعنی موسیٰ بن ضحاک کی بجائے شداد ہے جیسا کہ سمعانی کی کتاب الأنساب میں ہے، تہذیب الکمال للمزی میں یوں ہے: محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن سکن سلمی بوغی ترمذی، یعنی ابن موسیٰ کی بجائے ابن سکن ہے۔ ترمذ، ایک قدیم شہر ہے جو دریائے جیحوں کے ساحل پر واقع ہے، وہاں سے کچھ فرسخ کے فاصلہ پر بوغ نامی گاؤں ہے۔ آپ اصلاً اسی گاؤں کے باشندے تھے اور قبیلہٴ بنوسُلیم سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے سُلمی، ترمذی اور بوغی کہلاتے ہیں۔[7] [8] [9]
ولادت و خاندان
ترمیمامام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش غالبا 210 ھ کے حدود میں ہوئی، بعض علما کے قول کے مطابق 209 ھ میں ہوئی۔ آپ کے دادا مروزی تھے، لیث بن یسار کے دور میں مرو سے ترمذ منتقل ہوئے اور وہیں سکونت اختیار کر لی، نہر بلخ جسے نہر جیحون بھی کہتے ہیں پر واقع شہر ترمذ میں امام ترمذی کی پیدائش ہوئی، پیدائش اور سکونت کی وجہ سے ترمذی کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ ترمذ «ت» اور «م» کے کسرے (زیر) سے مشہور ہے، «ت» کے زبر اور پیش کے ساتھ بھی آیا ہے۔ قبیلہ غیلان کی شاخ ”بنی سلیم“ کی نسبت سے سلمی کہلاتے ہیں اور بوغ ترمذ کے قریب ایک گاؤں کی نسبت سے بوغی، جو ترمذ سے چھ فرسخ کی دوری پر واقع تھا اور جہاں پر آپ کی وفات ہوئی تھی۔ [10]
کنیت کی وجہ اور اعتراض کا جواب
ترمیمآپ کے والد ماجد کا نام تمام روایات میں عیسیٰ ہے لہذا آپ کی کنیت ابن عیسیٰ رکھنی چاہیے تھی اس کے بر عکس آپ نے ابوعیسیٰ رکھ لی۔ آپ اپنے نام کی بجائے کنیت کوا ختیار کرتے تھے اور اپنے آپ کو ابوعیسیٰ سے تعبیر کرتے، لیکن بعض علما نے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کو نا پسند کیاہے کیونکہ ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں یہ باب باندھا ہے:
’’باب مایکرہ للرجل أن یکتنیٰ لأبي عیسٰی‘‘ حدثنا الفضل بن دکین عن موسیٰ بن علی عن أبیہ أن رجلاً اکتنی بأبي عیسیٰ فقال رسول اﷲﷺ: إن عیسیٰ لا أب لہ‘‘
اسی طرح ایک اور روایت زید بن أسلم عن أبیہ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ
’’حضرت عمرؓ کے ایک بیٹے نے اپنی کنیت ابو عیسیٰ رکھی تو انھوں نے اسے سزا دی اور فرمایا: عیسیٰ ؑـ کا تو باپ ہی نہیں تھا۔‘‘
اعتراض کا جواب : بعض علما نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی پہلی روایت تو مرسل ہے اور دوسری حضرت عمر پر موقوف ہے، لہٰذا یہ دونوں روایات ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی ممانعت پر دلیل نہیں بن سکتیں اور اگر بفرضِ محال ابن ابی شیبہ کی روایت کو مرفوع تسلیم کربھی لیا جائے تب بھی اس سے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی کوئی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس میں ایک امر واقع کا بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ نہیں تھا اور یہ بات رسول اللہﷺ نے بطورِ مزاح کہی تھی جیسا کہ ایک آدمی نے آپ ﷺسے سواری مانگی تو آپ ؐنے فرمایا : میں تجھے سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دے سکتا ہوں۔ وہ کہنے لگا :اے اللہ کے رسولﷺ! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اونٹ بھی تواونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے ۔‘‘
اسی طرح ابو عیسیٰ کنیت رکھنے کی تائید سنن ابوداؤد کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ امام ابوداود نے کتاب الادب میں ان الفاظ میں باب قائم کیا ہے :’’باب من یتکنی بأبي عیسٰی‘‘اور اس میں یہ ذکر ہے کہ عمر بن خطابؓ نے اپنے بیٹے کو ابوعیسیٰ کنیت رکھنے پر مارا اور مغیرہ بن شعبہ نے بھی ابوعیسیٰ کنیت رکھی ہوئی تھی تو حضرت عمراُن کو کہنے لگے کہ تجھے ابو عبد اللہ کنیت کفایت نہیں کرتی تو حضرت مغیرہ نے جواب دیا کہ میری یہ کنیت رسول اللہﷺنے خود رکھی تھی تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے ہیں۔ان کا اشارہ اللہ کے اس فرمان کی طرف تھا {لِیَغْفِرَلَکَ اﷲ} اور ہم تو اپنے جیسے عام لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ کیا کیاجائے گا۔ مغیرہ بن شعبہؓ نے اپنی کنیت ابو عبد اللہ رکھی اور اس پر ہی قائم رہے حتیٰ کہ فوت ہو گئے۔ اسی طرح الإصابةمیں ابن حجر رقم طراز ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس آنے کی اجازت مانگی اور کہا میں ابوعیسیٰ ہوں حضرت عمرؓ کہنے لگے:
ابوعیسیٰ کون؟ حضرت مغیرہ نے جواب دیا مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرؓ نے فرمایا :کیا عیسیٰ کا باپ تھا؟
بعض صحابہؓ نے حضرت مغیرہ کے حق میں گواہی دی کہ رسول اللہﷺ نے ان کی کنیت ابوعیسیٰ رکھی تھی تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور آپؓ نے حضرت مغیرہ کی کنیت ابو عبد اللہ رکھ دی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی ممانعت کے بارے میں کوئی مرفوع، متصل، صحیح اور صریح حدیث نہیں ہے بلکہ مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میری کنیت ابوعیسیٰ رکھی اور ان کی اس بات پربعض صحابہؓ نے بھی گواہی دی جو ابوعیسیٰ کنیت کے جواز پر ایک صریح دلیل ہے۔ باقی رہا حضرت عمرؓ کا قول تو یہ مرفوع حدیث کے حکم میں نہیں ہے،کیونکہ یہ حدیث کے الفاظ ’’إن عیسی لا أب لہ‘‘ سے ان کا اپنا فہم اور اجتہاد ہے۔
.[11]
.[12] .[13]
نابینا لیکن بابصیرت امام
ترمیمامام ترمذی رحمہ اللہ علیہ کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ آپ پیدائشی طور پر نابینا تھے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ بڑی عمر میں علمی اسفار کرنے اور احادیث لکھنے لکھانے کے بعد آپ کی بصارت جاتی رہی، اس کی وجہ زیادہ لکھنا پڑھنا بھی ہو سکتا ہے۔
اور بقول امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ علیہ کے آخری عمر میں اللہ کے ڈر سے اتنا روئے کہ بینائی جاتی رہی اور اسی حالت میں زندگی کے کئی سال گذرے۔
[14]
یہ عجیب اتفاق ہے کہ سنن ترمذی کے عظیم شارح علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپوری بھی آخری عمر میں اور سنن ترمذی کی شرح کی تکمیل سے پہلے نابینا ہو گئے، تو آپ کے ارشد تلامذہ نے آپ کی نگرانی میں شرح کی تکمیل کا کام کیا۔
[10] [15]
تعلیم
ترمیمآپ نے اپنی تعلیم کا آغاز 220ھ اور 235ھ کے قریب کیا قطعیت کی کوئی روایت نہیں کی ہے۔ آپ کے شیوخ کی تعداد جو کتب میں آئی ہے وہ 221 کے لگ بھگ ہے۔ آج کل کے لوگوں کو ایسی باتیں عجیب لگتی ہیں لیکن اس زمانے میں لوگوں کو حدیث حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہیچمدان عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ بیان کرتے اور لکھتے ہوئے پہلی جماعت سے لے کر دورہ حدیث تک کے اساتذہ کے گننے کا خیال ہوا تو ان کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہے اور اگر ان افراد یا حضرات کو بھی شمار کیا جائے جن سے کچھ نہ کچھ سیکھا تو یہ تعداد چالیس تک جا پہنچتی ہے۔ امام مسلم سے آپ کی ملاقات ہوئی لیکن ان کے حوالے سے ایک روایت اپنی کتاب میں لائے اور ایسے ہی امام ابوداؤد سے ایک روایت لائے [16] .[17]
تحصیل علم کے لیے اسفار
ترمیممحدثین کے طریقہ کے مطابق امام ترمذی نے احادیث کی روایت و تحصیل کے لیے بلاد اسلامیہ کے علمی مراکز کا سفر کیا اور حجاز (مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ)، بغداد (عراق) جزیرہ، بصرہ، واسط اور خراسان وغیرہ کے علما سے بکثرت سماع حدیث کیا، مصر اور شام نہ جا سکے۔
حافظ ذہبی اور ابن حجر کہتے ہیں: امام ترمذی نے بلاد اسلامیہ کا سفر کیا اور خراسانی، عراقی اور حجازی وغیرہ رواۃ کی ایک بڑی تعداد سے سماع حدیث کیا، امام ترمذی نے نیساپور، مرواور اصبہان وغیرہ کے محدثین کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے استفادہ کیا۔
اساتذہ و شیوخ
ترمیمآپ کا زمانہ علوم حدیث کے عروج اور ترقی کا زمانہ تھا چنانچہ آپ نے بہت سارے محدثین کو پایا، ان سے اکتساب فیض کیا، احادیث سنیں اور روایت کیں، حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ اور سیر أعلام النبلاء میں آپ کے اساتذہ و شیوخ حدیث کی ایک فہرست دی ہے جن سے آپ نے سماع حدیث کیا،
ان میں سے بعض مشاہیر درج ذیل ہیں:
1- ابراہیم بن عبد اللہ بن حاتم ہروی رحمہ اللہ علیہ (م: 244ھ)
2- ابومصعب احمد بن ابی بکر الزہری المدنی رحمہ اللہ علیہ (م: 242ھ)
3- احمد بن منیع رحمہ اللہ علیہ
4- اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ علیہ
5- اسماعیل بن موسیٰ فزاری سدی رحمہ اللہ علیہ (م: 245ھ)
6- ابوداود سلیمان بن الاشعث رحمہ اللہ علیہ (صاحب سنن) (م: 275ھ)
7- سوید نصر بن سوید مروزی رحمہ اللہ علیہ (م: 243ھ)
8- عبد اللہ بن معاویہ جمحی رحمہ اللہ علیہ (م: 243ھ)
9- علی بن حجر مروزی رحمہ اللہ علیہ (م: 244ھ)
10- علی بن سعید بن مسروق الکندی الکوفی رحمہ اللہ علیہ (م: 249ھ)
11- عمرو بن علی الفلاس رحمہ اللہ علیہ (م: 942ھ)
12- محمد بن بشار بندار رحمہ اللہ علیہ (م: 252ھ)
13- قتیبہ بن سعید ثقفی ابورجاء رحمہ اللہ علیہ (م: 240ھ)
14- محمد بن عبد الملک بن ابی الشوارب (م: 244ھ)
15- محمود بن غیلان مروزی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (239ھ)
16- اور روایت حدیث کے ساتھ علوم حدیث و رجال اور فقہ حدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ علیہ سے حاصل کی۔
17- امام مسلم رحمہ اللہ علیہ سے بھی آپ نے سماع حدیث کیا ہے اور اپنی جامع کے اندر ان سے ایک روایت بھی نقل کی ہے۔
[18]
تلامذہ
ترمیمامام ترمذی سے بہت سارے علمائے حدیث کو شرف تلمذ حاصل ہے،
جن میں سے بعض رواۃ مندرجہ ذیل ہیں:
➊ ابوبکر احمد بن اسماعیل بن عامر السمرقندی رحمہ اللہ علیہ
➋ ابوحامد احمد بن عبد اللہ بن داود المروزی رحمہ اللہ علیہ
➌ احمد بن علی بن حسنویہ المقریٔ رحمہ اللہ علیہ
➍ امام احمد بن یوسف نسفی رحمہ اللہ علیہ
➎ امام ابو الحارث اسد بن حمدویہ رحمہ اللہ علیہ
➏ امام حماد بن شاکر وراق نسفی رحمہ اللہ علیہ
➐ امام مکحول بن فضل نسفی
➑ محمود بن عنبر نسفی رحمہ اللہ علیہ
➒ ابوالفضل محمد بن محمود بن عنبر نسفی رحمہ اللہ علیہ
➓ عبدبن محمد بن محمود نسفی رحمہ اللہ علیہ
⓫ داود بن نصر بن سہیل برزوی رحمہ اللہ علیہ
⓬ محمد بن مکی بن نوح نسفی رحمہ اللہ علیہ
⓭ محمد بن سفیان بن نضر نسفی رحمہ اللہ علیہ
⓮ محمد بن منذر بن سعید ہروی رحمہ اللہ علیہ
⓯ ہیثم بن کلیب شاشی (الشمائل کے راوی)
⓰ محمد بن محبوب ابوالعباس محبوبی مروزی (سنن الترمذی کے راوی)
⓱ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے بھی آپ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث محمد بن اسماعیل نے مجھ سے سنی، وہ حدیث یہ ہے: « [19]
[20]
امام بخاری سے استفادہ اور افادہ
ترمیمسب سے زیادہ آپ نے الامام المحدث حضرت محمد بن اسمعیل بخاری پر علم اور فن میں ایک طویل مدت ان کے ساتھ گزار کر تعلیم حاصل کی اور استفادہ کیا اور اس کے بعد امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی 255ھ اور ابوزرواعہ رازی سے اس کے بعد کتاب العلل، رجال اور تاریخ میں جو اسخراج کیا اس کا اکثر امام بخاری اور دوسرے حضرات نے مطالعہ کیا اور اس کی تحسین کی۔ امام بخاری سے تو اتنے قریب ہوئے اور رہے کہ ان سے بحث و مباحثہ اور مناظرہ کرتے اور اس میں دونوں کو فائدہ ہوا۔ امام بخاری نے اپنے استفادہ کا یوں ذکر کیا کہ امام ترمذی سے فرمایاماانتفعت بک اکثر مماانتفعت بی کہ میں نے جناب سے اتنا نفع حاصل کیا کہ اتنا جناب نے مجھ سے نہیں کیا۔ کیسے اور کتنے عظیم لوگ تھے کہ اپنے شاگردوں کے سامنے ان سے نفع حاصل کرنے کا تذکرہ فرماتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ تقریر کے لفظ لفظ اور نکات کو سمجنے والے سامنے بیٹھے ہوں تو مقرر کو اتنا شرح صدر ہوتا ہے کہ نکات ایک دم اور اچانک منجانب اللہ ذہن میں آتے ہیں اور اگر غبی یا کند ذہن سامعین ہوں تو مقرر کو آمد نہیں ہوتی بلکہ بڑی مشکل سے آورد سے وقت پورا کرتا ہے۔ امام ترمذی نے جن احادیث کا سماع امام بخاری سے کر کے اپنی جامع ترمذی میں کیا یہاں ان کا ذکر طول کا باعث ہوگا ان کی تعداد 114 ہے۔ [21]
غیر معمولی حافظہ
ترمیماللہ تعالیٰ جب کسی سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی خود پیدا فرمادیتا ہے۔ امام ترمذیؒ کو جس طرح اکابر محدثین سے استفادہ کا موقع ملا، ویسے ہی انہیںخداداد قوتِ حافظہ بھی عطا کی گئی۔ حافظ ابن حجرؒ نے تہذیب التہذیب میں نقل کیا ہے کہ ابوسعید ادریسیؒ فرماتے ہیں کہ ’’ امام ترمذیؒ ان ائمہ میں سے ایک ہیں جو علم حدیث میں مرجع الخلائق تھے، آپ نے اپنی مشہور کتاب جامع، تاریخ اور علل کو ایک پختہ ماہر، عالم کی طرح تصنیف کیا ہے۔ ‘‘ آپ کی قوتِ حافظہ ضربُ المثل تھی۔ ان کا ایک حیرت انگیز واقعہ رجال کی سب کتابوں میں موجود ہے کہ ’’انھوں نے ایک شیخ سے دو جز کے بقدر حدیثیں سنیں اور قلم بند کر لیں،لیکن ابھی تک شیخ کو پڑھ کر سنانے اوران کی تصحیح کر نے کاموقع نہ ملا تھا۔ ایک روز حسن اتفاق سے مکہ مکرمہ کے راستے میں ان سے ملاقات ہو گئی توامام ترمذیؒ نے اس موقع کو غنیمت جان کر شیخ سے قراء ۃ کی درخواست کی، انھوں نے منظور کرلی اور کہا :اجزا نکال لو ،میں پڑھتا ہوں تم مقابلہ کرتے جاؤ۔ ترمذیؒ نے اجزا تلاش کیے مگر وہ ساتھ نہ تھے۔ بہت گھبرائے لیکن اس وقت ان کی سمجھ میں اس کے سوا اور کچھ نہ آیا کہ سادہ کاغذ کے دو اجزا ہاتھ میں لیے اور متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔ شیخ نے قراء ت شروع کی اور اتفاق سے ان کی نظر کاغذ پر پڑ گئی تودیکھا کہ شاگرد سادہ اور سفید کاغذپر نظریں گھما رہا ہے ۔ شیخ غصہ میں آگئے اور فرمایا :مجھ سے مذاق کرتے ہو؟ ترمذی ؒ نے اصل واقعہ بیان کیا اور کہا: اگرچہ وہ اجزا میرے پاس نہیں ہیں لیکن لکھے ہوؤں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ شیخ نے فرمایا :اچھا پھر سناؤ۔ امام ترمذی ؒ نے وہ تمام حدیثیں فرفر سنا دیں۔ شیخ کو خیال ہوا کہ شاید ان کو پہلے سے یاد تھیں، اس لیے فر فر سنا گئے ہیں۔ امام ترمذیؒ نے عرض کیا کہ آپ ان کے علاوہ کوئی دوسری احادیث پڑھ کر سنائیں اور امتحان لے لیں۔ شیخ نے اپنی خاص چالیس حدیثیں اور پڑھیں۔ امام ترمذی ؒنے وہ تمام احادیث بھی من وعن دہرا دیں۔تب شیخ کو ان کے قوتِ حافظہ کا یقین ہو گیا اور نہایت تعجب سے فرمایا : ’’ میں نے (قوتِ حافظہ )میں تجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔ ‘‘ امام ترمذیؒ کے بارے میں حافظ ذہبیؒ میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ ’’ وہ بہت بڑے حافظ، ثقہ اور مسلمہ امام ہیں۔ ‘‘ اور ابن حبانؒ کتاب الثقات میں فرماتے ہیں: ’’کان أبوعیسیٰ ممّن جمع وصنّف وحفظ وذکر‘‘ ’’امام ابو عیسیٰ ترمذی ؒان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے (احادیث)کو جمع کیا ، انھیں لکھا ، اپنے ذہن میں محفوظ کیا اور آگے بیان کیا ۔‘ آخر عمر میں آپ رقت قلبی اور خشیت الہی سے گریہ و زاری کرتے ہوئے نابینا ہو گئے۔ ایک دفعہ سفر حج کو گئے تو ایک جگہ جا کر اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے سر نیچا کر لیا۔ احباب کے سوال پر کہ ایسا کیوں کیا تو فرمایا کہ یہاں ایک درخت تھا جس کا ٹہنہ یا شاخیں سر کو لگتی تھیں انھوں نے فرمایا کہ یہاں تو کوئی درخت نہیں اس پر فرمایا کہ ارد گرد سے تحقیق کرو اگر یہاں درخت نہیں تھا تو میں سوء حفظ کا شکار ہو گیا ہوں اور اب مجھے روایت حدیث کو ترک کرنا پڑے گا۔ تحقیق کی تو لوگوں نے کہا کہ درخت تھا لیکن ہم نے اسے مسافروں کی راحت کے لیے اکھیڑ دیا اس پر آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا اس زمانے میں محدثین کے حافظے اور دماغ کمپیوٹر یا ریڈار یا آج کل کی زبان میں آٹومیٹک (خبر دار کرنے کا آلہ ) تھے کہ خطرے پر اس کی بتی از خود سرخ ہو جاتی تھی۔ [22]
امام ترمذیؒ کی فقاہت
ترمیمامام ترمذیؒ ایک محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے فقیہ بھی تھے اور مذاہب ِعلما سے بھی خوب واقف تھے، آپ نے فقہ الحدیث امام بخاری جیسے حاذق محدث سے حاصل کی اور فقہ اہل الرائے اس وقت کے مشہور فقیہ الرازی سے اور فقہ مالکی اسحق بن موسی انصاری اور ابومصعب زہری سے ا خذ کی جب کہ امام شافعی کا مذہب ِقدیم حسن بن محمد زعفرانی اور قولِ جدید ربیع بن سلیمان سے حاصل کیا، اسی طرح امام احمد بن حنبل ،اسحق بن راہویہ اور دیگر بہت سے علما کے اقوال ومذاہب کو خوب سلیقہ سے اپنی جامع میں سمو دیا۔آپ کی جامع آپ کے تفقہ فی الحدیث اور مذاہب پر اطلاع کی بہت بڑی دلیل ہے۔ہر باب میں علما کے اقوال پیش کر کے ان میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں جس سے قاری کا یہ تاثر بنتا ہے کہ آپ فقہ و حدیث کے بہت بڑے امام تھے۔ [23]
زہد و تقویٰ
ترمیمامام ترمذی نہ صرف یہ کہ علوم و فنون میں امامت کا درجہ رکھتے تھے بلکہ آپ عبادت و تقویٰ اور ورع اور زہد میں بھی شہرت رکھتے تھے،حاکم کہتے ہیں: امام بخاری کا انتقال ہوا تو انھوں نے علم حفظ اور زہد ورع میں ترمذی کی طرح کسی اور کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑا، آپ اللہ کے ڈر سے اتنا روتے تھے کہ نابینا ہو گئے اور کئی سال ایسے ہی رہے۔[24]
تصانیف
ترمیمامام ترمذی رحمہ اللہ کو چونکہ حدیث اور علوم حدیث کے علاوہ تاریخ، فقہ اور تفسیر وغیرہ پر بھی کافی دسترس حاصل تھی لہٰذا انھوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور بہت سی علمی کتب تصنیف کیں جن میں سے چند معروف کتب یہ ہیں:
➊ «كتاب الجامع» جو سنن ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔
➋ «الشمائل النبوية» جو شمائل ترمذی کے نام سے مشہور ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق احادیث میں ایک بہترین تصنیف ہے جیسا کہ عبد الحق محدث دہلوی نے «أشعة اللمعات» میں اس کی تعریف فرمائی ہے۔
➌ «كتاب العلل» اس موضوع پر آپ کی دو کتابیں ہیں:
① «كتاب العلل الصغير» اور
② «كتاب العلل الكبير» جس میں امام ترمذی نے زیادہ تر اپنے استاذ امام بخاری رحمہ اللہ سے استفادہ کیا ہے۔
➍ «كتاب الزهد »
➎ «كتاب التاريخ»
➏ «الأسماء والكنٰي »
➐ «كتاب التفسير»
➑ «كتاب الجرح والتعديل»
[25]
جامع ترمذی کا مقام
ترمیمبلاشبہ جامع ترمذی صحاح ستہمیں شامل ہے لیکن اس پر بحث ہوتی ہے کہ اس کا درجہ کس نمبر پر ہے کئی حضرات کہتے ہیں کہ صحیحین (بخاری، مسلم) سنن ابی داؤد، سنن نسائی کے بعد ہے لیکن اکثر کا خیال ہے کہ صحیحین کے بعد اس کا مقام ہے تبھی تو اس کو جامع کہتے ہیں جو بیک وقت جامع اور سنن ہے۔ جامع ایسی کتاب حدیث کو کہتے ہیں جس میں حدیث کے تمام موضوعات کا لحاظ رکھا گیا ہو اور سنن جو فقہی ترتیب پر ہو ترمذی میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اگر بعض چیزوں یا اعتراضات کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو جامع ترمذی کے فوائد صحاح ستہ کتب سے زائد ہیں اسی لیے ہمارے مدارس عربیہ میں اکثر روایت یہ رہی کہ شیخ الحدیث بخاری اور ترمذی دونوں پڑھاتا ہے۔ ایک بڑی بات جو امام ترمذی نے اہتمام سے کی ہے وہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے کے بعد صحابہ اور ائمہ مجتہدین کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث پر کن کن حدیث بیان حضرات کا عمل رہا ہے۔ اور حدیث کا مقام صحیح، حسن، مشہور، غریب اور ضعیف وغیرہ بھی بیان کرتے ہیں اور ایک مسئلہ پر باب میں جو حدیث بیان کرتے ہیں اس کا متعلقہ حصہ ہی بیان کرتے ہیں ساری حدیث نہیں بیان کرتے اور مخالف و موافق دونوں طرح کی احادیث بیان کرتے ہیں اور ایک سب سے بڑا اہتمام جس کو کسی محدث نے نہیں چھیڑا وہ یہ کہ فی الباب کہہ کر اس باب میں جتنے صحابہ سے روایت کا ذکر کرتے ہیں اور بعد میں آنے والوں نے فی الباب کی احادیث کو تلاش کر کے جمع کیا ہے۔
شروح ترمذی
ترمیمجامع ترمذی کی جتنی شرحیں لکھی گئی ہیں اتنی شاید کسی کتاب کی نہیں۔گذشتہ چالیس سال میں تو جس بڑے جامعہ یا دار العلوم میں کسی شیخ نے ترمذی پڑھائی اس کی شرح اکثر و بیشتر نے لکھی اور شائع کی اسی بات سے اس کتاب کے مہتم بالشان ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔
وفات
ترمیمامام ترمذی رحمہ اللہ کا انتقال مشہور روایت کے مطابق 13 رجب 279ھ میں 2 شنبہ کی شب کو خاص ترمذ شہر میں ستر سال کی عمر میں ہوا۔ لیکن ابن خلکان رحمہ اللہ نے سمعانی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے ”امام ترمذی بوغ بستی میں 279ھ میں فوت ہوئے“ جو ترمذ سے چھ فرسخ (اٹھارہ میل) کے فاصلے پر واقع ہے[26] اس کو مدنظر رکھ کر علامہ انور شاہ کاشمیری نے ایک شعر ان کی تعریف کے ساتھ ایک مصرع میں ان کی ولادت وفات کے مشہور قول کو لیا ہے۔ الترمذی محمد ذوزین عطر وفاۃ فی عین امام ترمذی عمدہ خصلت کے عطر تھے عطر سے وفات 279۔ اور عینسے عمر نکالی ہے ۔ع کے عدد 70 ہیں۔ [27]
جرح و تعدیل
ترمیمحفاظ حدیث میں مقام:
امام ترمذی رحمہ اللہ متفق علیہ مشہور ثقہ حافظ حدیث امام ہیں ان کو حفاظ حدیث میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:میرے استاد امام بخاری رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا کہ جتنا تم نے مجھ سے فائدہ حاصل کیا اتنا فائدہ میں تم سے حاصل نہ کر سکا۔[28]
ابو اسعد عبد الرحمن بن محمد ادریسی
ترمیمابو اسعد عبد الرحمن بن محمد ادریسی کہتے ہیں: ابوعیسی ترمذی حفظ حدیث میں ضرب المثل تھے، اس سلسلے کا ایک واقعہ وہ اپنے شیخ ابوبکر احمد بن محمد بن حارث مروزی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے احمد بن عبد اللہ بن داود کو یہ کہتے سنا کہ میں نے امام ترمذی کو کہتے سنا:ایک بار میں مکہ کے راستے میں تھا اور میں نے ایک شیخ کی احادیث کے دو جزء لکھے تھے، مجھے شیخ ملے تو میں نے آپ سے سماع حدیث کا مطالبہ کیا، میں سمجھ رہا تھا کہ شیخ کی احادیث کے دونوں جزء میرے پاس ہیں، آپ نے قرأت حدیث پر آمادگی ظاہر کی، میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پاس سادہ کاغذوں کے دو جزء ہیں، شیخ یہ احادیث پڑھ کر مجھے سنانے لگے اور مجھے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سادہ کاغذ ہے اور مجھ سے کہا:تمھیں ایسا کرتے مجھ سے شرم نہیں آتی تو میں نے صورت حال سے آپ کو باخبر کیا اور عرض کیا کہ مجھے ساری احادیث یاد ہیں، تو آپ نے کہا کہ پڑھو میں نے انھیں پڑھ کر سنایا تو انھوں نے میری تصدیق نہ کی اور کہا کہ کیا آنے سے پہلے تم نے ان احادیث کو یاد کر لیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے دوسری حدیثیں سنائیں، تو آپ نے چالیس حدیثیں مجھے پڑھ کر سنائیں پھر مجھ سے کہا کہ لاؤ سناؤ، تو میں نے ان کو پڑھ کر سنا دیا، ایک بھی حرف کا فرق نہ تھا تو انھوں نے کہا: میں نے تمھارے جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ [29]
حافظ ابو یعلیٰ
ترمیمحافظ ابو یعلیٰ کا بیان ہے: ”محم دبن عیسیٰ بن سورہ، متفق علیہ ثقہ حافظ حدیث امام ہیں، ان کی حدیث میں ایک کتاب ہے نیز جرح و تعدیل میں ان سے بہت سارے اقوال منقول ہیں ... وہ امانت، دیانت اور علم میں ایک مشہور امام ہیں۔“
حافظ ابو سعد عبد الرحمن بن محمد ادریسی
ترمیمحافظ ابو سعد عبد الرحمن بن محمد ادریسی کہتے ہیں: علم حدیث میں جن ائمہ کی اقتداء کی جاتی ہے، امام ترمذی ان میں سے ایک امام تھے، آپ نے جامع، تواریخ اور علل نامی کتابیں تصنیف فرمائیں، آپ کی تصانیف پختہ عالم دین کی تصانیف ہیں، آپ حفظ حدیث میں ضرب المثل تھے۔ [30]
امام ابن حبان
ترمیمامام ابن حبان اپنی کتاب الثقات میں امام ترمذی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”یہ ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جنھوں نے احادیث جمع کیں، علم حدیث میں کتابیں لکھیں، احادیث کو حفظ کیا اور اس کا مذاکرہ کیا۔ [31]
امام سمعانی
ترمیمامام سمعانی فرماتے ہیں: ”امام ترمذی رحمہ اللہ بلا اختلاف اپنے عہد کے امام اور صاحب تصانیف تھے اور ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔“
امام ابن خلکان
ترمیم”امام ترمذی بلا اختلاف اپنے عہد کے امام اور صاحب تصانیف تھے اور ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔“ اسی جیسی بات امام ابن خلکان نے بھی کہی ہے۔ [32]
امام حاکم
ترمیمامام حاکم کہتے ہیں: میں نے عمر بن علک کو یہ کہتے سنا: امام بخاری کا انتقال ہوا تو انھوں نے خراسان میں علم، حفظ اور ورع و زہد میں ابوعیسیٰ ترمذی کی طرح کسی اور کو نہیں چھوڑا، ترمذی اتنا روئے کہ اندھے ہو گئے اور کئی سال اندھے رہے۔ [33]
محدث خراسان امام ابو احمد حاکم نیساپوری (م: 378ھ) نے اپنے ایک شیخ سے یہ بات نقل کی ہے جس وقت امام محمد بن اسماعیل کا انتقال ہوا اس وقت انھوں نے اپنے شاگردوں میں امام ترمذی سے بڑھ کر کسی کو علم، حفظ، زہد و ورع میں نہیں چھوڑا، ترمذی خوف الٰہی اس قدر روتے تھے کہ نابینا ہو گئے۔
امام حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی
ترمیمامام حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی کا بیان ہے: ”محمد بن عیسیٰ بن سورہ ترمذی جو نابینا تھے ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔ انھوں نے علم حدیث، تاریخ اور علل میں کتابیں لکھی ہیں جو ایک متبحر عالم کی تصنیفات ہیں حفظ حدیث میں ان کو بطور مثال ذکر کیا جاتا ہے۔
امام مزی
ترمیمامام مزی کہتے ہیں: ”وہ حافظ حدیث صاحب الجامع اور دیگر کتابوں کے مصنف ہیں، نیز حفظ اور ثقاہت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے امت کو نفع پہنچایا۔“ [34]
امام ذہبی
ترمیمامام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں امام ترمذی کو حافظ، علم، امام، بارع کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ جامع اور علل وغیرہ کے مصنف ہیں۔ اور تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں کہ امام ترمذی حافظ حدیث، صاحب الجامع متفق علیہ ثقہ تھے، ابن حزم نے آپ کو جو مجہول کہا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ [35]
امام حافظ ابن حجر عسقلانی
ترمیمامام حافظ ابن حجر عسقلانی کا بیان ہے: ”وہ حفظ اور ثقاہت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے۔“ [36] حافظ ابن حجر فتح الباری کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ”ترمذی نے بخاری سے علم حاصل کیا اور آپ پر کافی اعتماد کیا۔“ [37]
طاش کبری زادہ
ترمیمطاش کبری زادہ لکھتے ہیں: ”یہ حافظ حدیث اور ان ائمہ اعلام میں سے ہیں اور انھیں فقہ میں بھی مہارت تھی انھوں نے ائمہ حدیث کی ایک جماعت سے احادیث حاصل کیں اور صدر اول کے مشائخ سے ان کی ملاقات ہوئی۔“ [38]
ابن عماد حنبلی
ترمیمابن عماد حنبلی کہتے ہیں: امام ترمذی اپنے ہم عصروں میں واضح مقام رکھتے تھے۔ اور حفظ اور اتقان میں وہ ایک نشانی، نمونہ تھے۔ [39]
امام ترمذی متفقہ طور پر ثقہ محدث، ناقد حدیث اور امام دین ہیں، آپ کی تصانیف مشہور و معروف ہیں، لیکن اس شہرت اور امامت کے علی الرغم ابن حزم نے آپ کے بارے میں کتاب الاتصال کے باب الفرائض میں یہ کہہ دیا کہ آپ مجہول راوی ہیں، اس پر علما نے نکیر کی ہے ۔
◈ حافظ ذہبی: حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں کہتے ہیں: ”ترمذی حافظ اور اعلام میں سے ہیں، جامع کے مؤلف اور متفق علیہ ثقہ ہیں، ابن حزم کا یہ کہنا کہ ترمذی مجہول ہیں، لائق التفات بات نہیں ہے، ابن حزم نے نہ ترمذی کو جانا اور نہ جامع ترمذی اور علل ترمذی کے وجود کا انھیں علم تھا۔“ [40]
◈ امام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں ابن حزم کے فضائل اور عیوب کے گنانے کے بعد فرماتے ہیں: ”مجھے ابو محمد ابن حزم سے ان کی صحیح حدیث سے محبت اور اس کی معرفت کی بنا پر محبت ہے، گرچہ میں ان کے علم رجال، علل حدیث اور اصول و فروع میں غلط مسائل کی کثرت کی وجہ سے ان کی موافقت نہیں کرتا اور کئی مسئلے میں قطعی طور پر ان کو غلط کہتا ہوں، لیکن نہ تو ان کی تکفیر کرتا ہوں اور نہ انھیں گمراہ کہتا ہوں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کا امیدوار ہوں، ان کے ذہن کی تیزی اور علم کی وسعت کا قائل و معترف ہوں، میں نے دیکھا کہ انھوں نے ایک شخص کا یہ قول ذکر کیا کہ سب سے عظیم اور اہم کتاب موطأ امام مالک ہے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: بلکہ سب سے عظیم کتابیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن السکن، منتقی ابن الجارود اور منتقی قاسم بن اصبغ ہے، پھر اس کے بعد سنن ابی داود، سنن نسائی، مصنف قاسم بن اصبغ، مصنف ابی جعفر الطحاوی کا نمبر آتا ہے۔
◈ ذہبی کہتے ہیں: ابن حزم نے نہ تو ابن ماجہ کا ذکر کیا اور نہ جامع ترمذی کا، یہ دونوں کتابیں ابن حزم نے دیکھی نہ تھی، بلکہ ان کی موت کے بعد یہ دونوں کتابیں اندلس پہنچیں۔ [41]
◈ حافظ ابن حجر: حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں: خلیلی نے ترمذی کو متفق علیہ ثقہ کہا ہے، لیکن ابن حزم نے اپنے بارے میں یہ اعلان کیا کہ انھیں اس بارے میں علم نہیں تھا اس لیے کہ انھوں نے کتاب الاتصال کے کتاب الفرائض میں محمد بن عیسیٰ ترمذی کو مجہول کہا، ہرگز کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ شاید ابن حزم نے ترمذی کو نہ جانا اور نہ ان کے حفظ اور ان کی تصانیف پر مطلع ہوئے، اس لیے کہ یہ حضرت مشاہیر ثقات حفاظ کی ایک جماعت کے بارے میں اس طرح کی عبارات استعمال کرتے ہیں، جیسے ابو القاسم البغوی اسماعیل بن محمد الصفار اور ابوالعباس الاصم وغیرہ وغیرہ۔
تعجب یہ ہے کہ حافظ ابن الفرضی نے اپنی کتاب المؤتلف والمختلف میں ترمذی کا تذکرہ کیا اور ان کی علمی منزلت کو واضح کیا، تو ابن حزم کیسے ان معلومات کی آگاہی سے چوک گئے۔ [42]
واضح رہے کہ مشاہیر کے سلسلے میں اس طرح کی عدم واقفیت ابن حزم ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے، امام بیہقی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے پاس سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نہیں تھیں، ہاں ان کے پاس حاکم کی مستدرک علی الصحیحین تھی، جس سے انھوں نے بکثرت احادیث روایت کی۔ [43]
امام ترمذی کا عقیدہ
ترمیماللہ رب العزت نے اپنے دین کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور مادی اسباب کی دنیا میں گروہ محدثین کو اس بات کی توفیق دی کہ وہ کتاب و سنت کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی ممکن خدمت کریں، چنانچہ طلب علم سے لے کر تدوین حدیث کے مختلف مراحل تک کتاب و سنت کو صحیح سندوں کے ساتھ اور صحیح معانی و مفاہیم کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں اس گروہ کو نمایاں مقام حاصل ہے اور آیت کریمہ: «إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون» کی عملی تفسیر ائمہ اسلام کی یہی جدوجہد ہے، جس کے نتیجے میں دینی نصوص صحیح سندوں اور سلف صالحین کی تعبیرات کے ساتھ محفوظ ہیں، امام ترمذی سلسلہ محدثین کی اہم کڑی ہیں، جنھوں نے حدیث کی حفاظت و تدوین کے ساتھ ساتھ جرح و تعدیل رواۃ پر بھی بڑا سرمایہ چھوڑا اور فہم حدیث کے سلسلہ میں بھی آپ کی کوششوں سے مسلک سلف ہم تک پہنچا، صحیح اسلامی عقائد کو بھی آپ نے امت تک پہنچایا، اسی وجہ سے سنن الترمذی کی افادیت کے ایک سے زیادہ پہلو کی ائمہ نے صراحت کی ہے۔
امام ترمذی عقائد کے باب میں بھی امام ہدیٰ تھے اور اپنے شیوخ کے نقش قدم پر سنن ترمذی میں اسماء و صفات کے بارے میں اپنے پیش رو ائمہ کے اقوال و مذاہب کو جگہ دیتے ہیں، چنانچہ کتاب صفۃ الجنۃ میں باب «ما جاء فى خلود اهل الجنة واهل النار» کے تحت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت باری تعالیٰ سے متعلق حدیث روایت کر کے فرماتے ہیں: رویت باری سے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری احادیث مروی ہیں، جس میں یہ ہے کہ لوگ اپنے رب کو دیکھیں گے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قدم کا ذکر ہے اور اس طرح کے دوسرے مسائل کا ذکر ہے۔
اس بارے میں اہل علم ائمہ جیسے سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، سفیان بن عیینہ، وکیع وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ ان حضرات نے صفات باری تعالیٰ سے متعلق احادیث کی روایت کی، پھر فرمایا: یہ احادیث روایت کی جائیں گی اور ان پر ایمان بھی لایا جائے گا اور ان صفات کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا کہ ان کی کیفیت اور حقیقت کیا ہے، یہ اہل حدیث کا اختیار کردہ مذہب ہے کہ احادیث جیسی آئی ہیں، ان کو ویسے ہی روایت کیا جائے گا اور ان پر ایمان لایا جائے گا اور ان کی تفسیر نہ بیان کی جائے گی اور نہ اس میں اپنے وہم و گمان سے بات کی جائے گی اور نہ یہی کہا جائے گا کہ ان کی کیفیت کیا ہے، ان صفات کے بارے میں اہل علم کا یہی مختار مذہب ہے۔ [44]
تقریباً اسی طرح کی بات امام موصوف نے کتاب التفسیر کے باب تفسیر سورۃ المائدۃ میں لکھی ہے،حدیث یہ ہے:
«عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: ”يَمِينُ الرَّحْمَنِ مَلأَى سَحَّاءُ لاَ يُغِيضُهَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ قَالَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ؛ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِهِ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الأُخْرَى الْمِيزَانُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ“ قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.»
«وَتَفْسِيرُ هَذِهِ الآيَةِ: *** وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ *** وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَتْهُ الأَئِمَّةُ نُؤْمِنُ بِهِ كَمَا جَاءَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُفَسَّرَ أَوْ يُتَوَهَّمَ هَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الأَئِمَّةِ مِنْهِمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ تُرْوَى هَذِهِ الأَشْيَاءُ وَيُؤْمَنُ بِهَا، وَلاَيُقَالُ كَيْفَ.»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتا ہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش و عطا کرتا رہتا ہے، رات و دن لٹانے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیں ہوتی“، آپ نے فرمایا: ”کیا تم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟) جب سے اللہ نے آسمان پیدا کیے ہیں کتنا خرچ کر چکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کر چکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم)۔“ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
پھر فرماتے ہیں: یہ حدیث اس آیت «وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ» ”اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے“۔ [ورہ المائده:آیت 64] کی تفسیر ہے،
اس حدیث کے بارے میں ائمہ دین کی روایت یہ ہے کہ ان پر ویسے ہی ایمان لائیں گے جیسے کہ ان کا ذکر آیا ہے، ان کی نہ کوئی تفسیر کی جائے گی اور نہ کسی طرح کا وہم و قیاس لڑایا جائے گا۔ ایسا ہی بہت سے ائمہ کرام: سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، ابن مبارک وغیرہم نے کہا ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہی بیان کی جائیں گی جیسی بیان کی گئی ہیں اور ان پر ایمان رکھا جائے گا لیکن ان کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ [45]
[46]
امام ترمذی نے اس حدیث میں بھی ائمہ سلف کا صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اجماعی عقیدہ نقل کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن اسماء و صفات کا ذکر کیا ہے اس کی نہ تو بے جا تاویل کی جائے گی اور نہ کوئی غلط تفسیر، یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ہاتھ ایسا ایسا ہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کا ہاتھ بھی ہے، اس کی کیفیت بیان کیے بغیر اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
ایسے ہی کتاب صفۃ القیامۃ کے باب «في القيامه ميں عدي بن حاتم رضي الله عنه» کی حدیث: «ما منكم من رجل إلا سيكلمه ربه يوم القيامة وليس بينه وبينه ترجمان...» إلخ. ”تم میں سے ہر آدمی سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات کرے گا اور اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی مترجم نہیں ہو گا“۔
اس حدیث میں اللہ رب العزت کی صفت کلام کا ذکر ہے، اس کی روایت کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں کہ ہم سے ابوالسائب نے بیان کیا کہ وکیع نے اعمش سے اس حدیث کی روایت کے بعد فرمایا: ”یہاں پر خراسان والوں میں سے جو موجود ہو اس کو اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی نیت سے خراسان میں اس حدیث کو بیان کرنا چاہیے اس لیے کہ جہمیہ صفت کلام باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں“۔ [47]
صحیح سنت پر عمل کرنے، اس کے مطابق فتویٰ دینے، اس کی نشر و اشاعت کرنے اور اس کے مخالف مسلک کے رد و ابطال میں یہ مثال بھی بے جا نہ ہو گی کہ امام ترمذی نے یہ حدیث ذکر کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج میں ہدی (قربانی) کے جانور کا اشعار کیا، یعنی ان کو زخمی کر کے یہ ظاہر کیا کہ یہ ہدی (قربانی کا جانور) ہے، اپنی سند سے اس حدیث کو امام وکیع سے روایت کرنے کے بعد ان کا یہ قول نقل کیا: اس مسئلہ میں اہل رائے کے قول کو نہ دیکھو اس لیے کہ اشعار سنت ہے اور ان کا قول بدعت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ابوالسائب کو یہ کہتے سنا کہ ہم وکیع کے پاس تھے تو انھوں نے ایک آدمی سے جو رائے میں پڑتا تھا اس سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کے جانور کا اشعار کیا اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اشعار مثلہ ہے، تو اس آدمی نے کہا: ابراہیم نخعی سے مروی قول ہے کہ اشعار مثلہ ہے، تو میں نے دیکھا کہ امام وکیع سخت غصہ ہوئے اور کہا کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں، تم کتنا زیادہ اس بات کے حقدار ہو کہ تم کو جیل میں بند کر دیا جائے اور اس وقت تک تم کو وہاں سے نہ نکالا جائے جب تک کہ تم اپنے اس قول سے باز نہ آ جاؤ۔ [48]
اسی طرح سے کتاب النکاح میں امام ترمذی نے باب «ماجاء فى المحل والمحلل له» میں اس موضوع پر علی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے دو حدیثیں روایت کیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے اور حلالہ کروانے والے پر لعنت بھیجی ہے اور ذکر کیا کہ صحابہ اور فقہائے تابعین اور دوسرے علمائے دین کا اس حدیث پر عمل رہا ہے، پھر کہا:
میں نے جارود بن معاذ کو سنا کہ وکیع بھی یہی فتویٰ دیتے تھے اور وکیع نے کہا: اس باب سے اہل رائے کے قول کو رد کر دینا چاہیے اور وکیع سے روایت ہے کہ سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلوم ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے۔ [49]
اس مثال میں واضح طور پر امام ترمذی نے جمہور ائمہ حدیث وائمہ فقہ کے مقابلے میں حدیث کے مخالف اہل رائے کا حلالہ کے بارے میں فتویٰ نقل کیا اور اس پر وکیع اور سفیان ثوری کے قول کے ذریعے واضح طور پر تردید کی اور یہ معلوم ہے کہ اصحاب رائے سے مراد امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح حلالہ صحیح ہے گو حلال کرنے کی ہی نیت سے ہو۔ ان کی رائے کو چھوڑ دینا اس لیے مناسب ہے کہ ان کا یہ قول حدیث کے مخالف ہے۔
شروع ہی سے عقائد کے باب میں انحراف کی روش رکھنے والوں کی کج فکری اور اعتقادی گمراہیوں پر نقد و نظر ائمہ دین کے یہاں بہت معروف و مشہور بات ہے، بلکہ راہ اعتدال سے ہٹ جانے والے حضرات پر تنقید سلف صالحین کا شعار اور منہج رہا ہے، بالخصوص محدثین عظام نے یہ کام بڑی ذمہ داری سے انجام دیا، گمراہ فرقوں اور ان کے ائمہ اور ان کے مقالات و اعتقادات پر کھل کر تنقید کی، سلفی عقائد و اصول اور اتباع سنت کے مضامین کو خوب اچھی طرح سے بیان کیا۔
معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ وغیرہ، گمراہ فرقوں کے خلاف ائمہ حدیث کے مقدس گروہ نے شروع ہی سے جنگ چھیڑی، معتزلہ اور جہمیہ کے رد کے نام سے مستقل کتابیں لکھیں اور عقائد کی کتابوں میں ان گمراہ عقائد پر کھل کر تنقید کی، امام احمد بن حنبل تو مسئلہ خلق قرآن کے خلاف فتوے پر ڈٹے رہنے کی بنا پر امام اہل سنت و الجماعت کے لقب سے مشہور ہوئے، ان کے شاگرد رشید امام بخاری نے خلق أفعال العباد نامی مستقل رسالہ لکھا اور صحیح بخاری میں کتاب العلم، کتاب الإیمان، کتاب التوحید والرد علی الجہمیہ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ وغیرہ وغیرہ کتب میں اتباع سنت اور عقیدہ سلف کی خوب خوب وضاحت کی،
امام احمد کے تلامذہ میں امام ابوداود نے اپنی سنن میں کتاب السنہ کے نام سے یہ خدمت انجام دی، امام ترمذی نے کتاب العلم، کتاب الإیمان، کتاب القدر اور کتاب صفۃ القیامۃ وغیرہ میں ان مسائل پر روشنی ڈالی،
اگر ائمہ حدیث کی عقائد سلف کی شرح و وضاحت اور منحرفین کے رد و ابطال سے متعلق کتب و رسائل کی محض فہرست ذکر کی جائے تو یہ مقدمہ طویل ہو جائے گا، میں نے امام وکیع بن الجراح کی کتاب الزہد کی تحقیق میں ائمہ دین کی ان کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، اس باب میں علامہ عبد السلام مبارک پوری کی کتاب سیرۃ البخاری کے ساتویں باب عقائد اور علم کلام کا مطالعہ مفید ہو گا۔
سلف صالحین کتاب وسنت کے صحیح دلائل کی روشنی میں عقیدہ کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو سمجھتے اور اس پر ایمان رکھتے، اس کی دعوت دیتے تھے اور اس کے خلاف ہر رائے اور عقیدے کا رد و ابطال کرتے تھے اور فلاسفہ اور متکلمین کی موشگافیوں کو سخت ناپسند کرتے تھے، اس سلسلے میں امام مالک کے اقوال کافی مشہور ہیں، جن میں سے آپ کا یہ قول عقیدہ سلف کی نمائندگی واضح طور پر کرتا ہے: «الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة.» یعنی ”اللہ رب العزت نے قرآن میں جو اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے، تو استواء کا معنی و مفہوم معلوم و مشہور بات ہے، لیکن یہ استواء کیسے ہو گا، اس کی کیفیت کا علم نہیں ہے اور اس پر ایمان لانا واجب اور فرض ہے اور اس سلسلے میں سوال و جواب کرنا بدعت ہے“۔
امام مالک نے یہ بات اس وقت کہی جب ایک آدمی نے آپ سے اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا، اسی طرح سے امام بخاری کو خلق قرآن کے مسئلہ پر نیساپور میں جب کچھ کہنے کے لیے مجبور کیا گیا تو آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: «القرآن كلام الله غير مخلوق وأفعال العباد مخلوقة والامتحان بدعة.» یعنی ”قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں، یعنی ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس مسئلے پر کسی کو امتحان میں ڈالنا اور اس سے پوچھ گچھ کرنا بدعت ہے۔“ [50]
سلف کا منہج عقائد کے بارے میں یہ تھا کہ وہ علم کلام کے مسائل میں زیادہ غور و خوض کو سخت ناپسند کرتے تھے اور ان مسائل میں سوال جواب کو بدعت کہتے تھے، امام احمد بن حنبل اس باب میں بہت سخت موقف رکھتے تھے، چنانچہ خلق قرآن کے مسئلے میں کتاب وسنت کے علاوہ اور کسی بات کے سننے کے قائل نہ تھے، احادیث رسول سے اس مسلک کی تقویت ہوتی ہے۔
چنانچہ خود امام ترمذی نے «كِتَاب الْقَدَرِ، بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْخَوْضِ فِي الْقَدَرِ:» میں نیز امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کی ہے:
«عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ؟ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الأَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تَتَنَازَعُوا فِيهِ»
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمھیں اسی کا حکم دیا گیا ہے یا میں اسی واسطے تمھاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بے شک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں جب انھوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمھیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ نہ کرو“۔
تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء و قدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے اور اس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا و سزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث و مباحثہ جائز نہیں، کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
اوپر کی گزارشات سے یہ واضح ہو گیا کہ سلف صالحین کے نزدیک باطل عقائد کا رد و ابطال کتاب وسنت کے دلائل اور سلف کے اقوال سے ہوتا ہے اور یہی صحیح علم کلام ہے، صحابہ کرام کے زمانے میں خوارج، قدریہ اور روافض جیسے فرقوں کا فتنہ موجود تھا، خود صحابہ کرام نے تمام مسائل پر کتاب وسنت کی روشنی میں کلام کیا اور محدثین نے اسی اسلوب کو آگے بڑھا کر ہر طرح کے منحرف فرقوں اور ان کے آراء و اقوال کا رد و ابطال کیا، ساتھ ہی غیر سلفی منہج و فکر پر مبنی علم کلام اور اس سے تعلق رکھنے والوں سے خود دور رہنے اور دوسروں کو ان سے دور رہنے کی تلقین اور وصیت فرمائی تاکہ نہ خود ان کے میل جول سے متاثر ہوں اور نہ وہ اس تعلق کے ذریعے افراد امت کو گمراہ کر سکیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118997599
- ↑ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118997599 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb15045493t — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ عنوان : Deutsche Biographie — ناشر: مکتبہ ریاست بویریا — Deutsche Biographie (GND) ID: https://www.deutsche-biographie.de/118997599.html
- ↑ "الإمام الحافظ: أبو عيسى الترمذي"۔ www.alukah.net (عربی میں)۔ 6 مارچ 2016۔ مورخہ 2020-04-04 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-04-04
- ↑ المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2018-01-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ ماہنامہ دار العلوم ،اكتوبر 2014ء،اشرف عباس قاسمی
- ↑ [تذكرة الحفاظ 634/2، تهذيب التهذيب تذکرہ امام ترمذی]
- ↑ تذكرة الحفاظ الطبقة العاشرة ـ على ويكي مصدر "نسخة مؤرشفة"۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 21 أغسطس 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مايو 2020
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاريخ الوصول=
و|تاريخ أرشيف=
(معاونت)صيانة الاستشهاد: BOT: original URL status unknown (link) - ^ ا ب الذهبي، شمس الدين (1422هـ / 2001م)۔ "سير أعلام النبلاء، الطبقة الخامسة عشر، الترمذي، الجزء رقم13"۔ islamweb.net (عربی میں)۔ مؤسسة الرسالة۔ ص 271: 277۔ مورخہ 12 نوفمبر 2020 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-01-28
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|سنة=
و|تاريخ أرشيف=
(معاونت) - ↑ ابن كثير الدمشقي (1988)۔ "البداية والنهاية، جـ 11"۔ shiaonlinelibrary.com (اشاعت الأولى)۔ دار إحياء التراث العربي۔ ص 77۔ مورخہ 28 ديسمبر 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-01-28
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاريخ أرشيف=
(معاونت) - ↑ الطبّاع، إياد خالد (1422 هـ، 2001م)۔ الإمام الترمذي الحافظ الناقد فقيه السلف وجامع السنن (اشاعت الأولى)۔ دار القلم، دمشق۔ ص 38
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|سنة=
(معاونت) - ↑ الذهبي، شمس الدين (الأولى، 2003)۔ "تاريخ الإسلام، حـ 6"۔ al-maktaba.org۔ تحقيق: بشار عوّاد معروف۔ دار الغرب الإسلامي۔ ص 617۔ مورخہ 28 يناير 2022 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-01-28
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|سنة=
و|تاريخ أرشيف=
(معاونت) - ↑ [تذكرة الحفاظ 634/2، تهذيب التهذيب]
- ↑ الصفدي، صلاح الدين (2000م)۔ "الوافي بالوفيات، جـ 4"۔ shiaonlinelibrary.com۔ تحقيق: أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى۔ ص 207۔ مورخہ 4 فبراير 2022 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-02-04
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاريخ أرشيف=
(معاونت) - ↑ الطبّاع، إياد خالد (1422 هـ، 2001م)۔ الإمام الترمذي الحافظ الناقد فقيه السلف وجامع السنن (اشاعت الأولى)۔ دار القلم، دمشق۔ ص 39
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|سنة=
(معاونت) - ↑ الزبيدي، محمد مرتضى۔ "تاج العروس، جـ 5"۔ shiaonlinelibrary.com۔ تحقيق علي شيري۔ دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع۔ ص 352۔ مورخہ 1 أغسطس 2020 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-02-04
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاريخ أرشيف=
(معاونت) - ↑ فضائل سنن الترمذي (1/41) آرکائیو شدہ 2020-03-15 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ [سنن الترمذي روایت نمبر 3727]
- ↑ سنن الترمذي ـ مقالات إسلام ويب "نسخة مؤرشفة"۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 8 ديسمبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارس 2016
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاريخ أرشيف=
(معاونت)صيانة الاستشهاد: BOT: original URL status unknown (link) - ↑ مشكاة الإسلامية:الشمائل المحمدية-الإمام الترمذي آرکائیو شدہ 2016-03-14 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ مشكاة الإسلامية : علل الترمذي الكبير - الترمذي آرکائیو شدہ 2016-05-02 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ كتاب العلل آرکائیو شدہ 2017-09-22 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ [خطیب بغدادی ، تذكرة الحفاظ، ابن حجر عسقلانی ، تهذيب التهذيب]
- ↑ مقدمة أحمد شاكر في شرح سنن الترمذي ص:90-91 آرکائیو شدہ 2020-03-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ ماہنامہ دار العلوم ،اكتوبر 2014ء،اشرف عباس قاسمی
- ↑ مقدمة أحمد شاكر في شرح سنن الترمذي ص:90-91 «» آرکائیو شدہ 2020-03-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ [تهذيب الكمال فی اسماء رجال ، تذکرہ امام ترمذی]
- ↑ [تهذيب التهذيب، السير اعلام النبلا ء جلد / صفحہ 273/13]
- ↑ [شروط الأئمه السته: ص20، تهذيب التهذيب 386/9]
- ↑ [کتاب الثقات، تذكرة الحفاظ، نكت الهميان للصفدي، تهذيب الكمال]
- ↑ [کتاب الأنساب، وفيات الاعيان]
- ↑ [السير 273/13، تذكرة الحفاظ 634/2، تهذيب التهذيب 389/9]
- ↑ [تهذيب الكمال فی اسماء رجال]
- ↑ [تذكرة الحفاظ]
- ↑ [تقريب التهذيب]
- ↑ [هدي الساري: 492]
- ↑ [مفتاح السعاده]
- ↑ [كتاب شذرات الذهب]
- ↑ [ميزان الاعتدال]
- ↑ [سير أعلام النبلاء]
- ↑ [تهذيب التهذيب]
- ↑ [تذكرة الحفاظ، مقدمه تحفة الأحوذي 271/1]
- ↑ [سنن الترمذي 691/4]
- ↑ [سنن الترمذي: 3045]
- ↑ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ [ملاحظه هو: خ/تفسير هود 2، 4684، والتوحيد 19، 7411، و 22، 7419، م/الزكاة 11، 993]
- ↑ [کتاب صفۃ القیامۃ 611/4]
- ↑ [سنن الترمذي 241/3]
- ↑ [جامع ترمذی حدیث نمبر 1119، 1120]
- ↑ [مقدمة فتح الباري: 490]