ایرانی انقلاب جسے ١٩٧٩ کا انقلاب بھی کہا جاتا ہے،[1] ان واقعات کا ایک سلسلہ تھا جو ١٩٧٩ میں پہلوی خاندان کا تختہ الٹنے پر منتج ہوا۔ انقلاب کی وجہ سے ایران کی شاہی ریاست کو موجودہ اسلامی جمہوریہ نے تبدیل کیا۔ ایران، جیسا کہ محمد رضا پہلوی کی بادشاہی حکومت کو مذہبی رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے ختم کر دیا تھا، جو باغی دھڑوں میں سے ایک کا سربراہ تھا۔ ایران کے آخری شاہ پہلوی کی معزولی نے باضابطہ طور پر ایران کی تاریخی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا.[2]

ایرانی انقلاب
بسلسلہ the constitutionalization attempts in Iran and the سرد جنگ
Mass demonstrations at College Bridge, تہران
تاریخ7 January 1978 – 11 February 1979
(لوا خطا ماڈیول:Age میں 521 سطر پر: attempt to concatenate local 'last' (a nil value)۔)
مقام
وجہ
مقاصدOverthrow of the پہلوی خاندان
طریقہ کار
اختتام
تنازع میں شریک جماعتیں
مرکزی رہنما
ایران کا پرچم محمد رضا شاہ پہلوی
Directors of SAVAK:
روح اللہ خمینی
متاثرین
see Casualties of the Iranian Revolution
  1. Regency Council was practically dissolved on 22 January 1979, when its head resigned to meet روح اللہ خمینی.
  2. Imperial Iranian Army revoked their allegiance to the throne and declared neutrality on 11 February 1979.
  3. Prime Minister of the Interim Government.
  4. Head of Revolutionary Council.

1953 میں ایران کی بغاوت کے بعد، پہلوی نے ایران کو مغربی بلاک کے ساتھ جوڑ دیا اور ایک آمرانہ حکمران کے طور پر اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے تھے. سرد جنگ کے دوران امریکی حمایت پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے، وہ 26 سال تک ایران کے شاہ رہے، جس نے ملک کو مشرقی بلاک اور سوویت یونین کے اثر و رسوخ کی طرف بڑھنے سے روکا.[3][4] 1963 کے آغاز میں، پہلوی نے سفید انقلاب میں ایران کو جدید بنانے کے مقصد سے اصلاحات نافذ کیں۔ جدیدیت کی مخالفت کی وجہ سے خمینی کو 1964 میں ایران سے جلاوطن کر دیا گیا. تاہم، جیسا کہ پہلوی اور خمینی کے درمیان نظریاتی تناؤ برقرار رہا، اکتوبر 1977 میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے، جو شہری مزاحمت کی مہم کی شکل اختیار کر گئے جس میں کمیونزم، سوشلزم، اور اسلامزم شامل تھے.[5][6][7] اگست 1978 میں، سنیما ریکس میں لگنے والی آگ میں تقریباً 400 افراد کی ہلاکت — اپوزیشن کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ پہلوی کے ساواک کی طرف سے ترتیب دی گئی تھی — نے پورے ایران میں ایک مقبول انقلابی تحریک کے لیے ایک اتپریرک کے طور پر کام کیا،[8][9] اور اس سال کے باقی حصے کے لیے بڑے پیمانے پر ہڑتالوں اور مظاہروں نے ملک کو مفلوج کر دیا.

16 جنوری 1979 کو، پہلوی آخری ایرانی بادشاہ کے طور پر جلاوطنی اختیار کر گئے،[10] اور ایران کی ریجنسی کونسل اور شاپور بختیار، اپوزیشن پر مبنی وزیر اعظم کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پیچھے چھوڑ دیا. 1 فروری 1979 کو، خمینی حکومت کی دعوت پر واپس آئے;[3][11] تہران پہنچنے پر ہزاروں افراد نے ان کا استقبال کیا.[12] 11 فروری تک، بادشاہت کا خاتمہ کیا گیا اور خمینی نے قیادت سنبھالی جب کہ گوریلوں اور باغی دستوں نے مسلح لڑائی میں پہلوی کے وفاداروں کو زیر کر لیا.[13][14] مارچ 1979 کے اسلامی جمہوریہ ریفرنڈم کے بعد، جس میں 98 فیصد نے اسلامی جمہوریہ میں تبدیلی کی منظوری دی، نئی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے موجودہ آئین کا مسودہ تیار کرنا شروع کیا;[15][5][6][16][17] خمینی دسمبر 1979 میں ایران کے سپریم لیڈر کے طور پر سامنے آئے.[18]

انقلاب کی کامیابی کو دنیا بھر میں حیرت کا سامنا کرنا پڑا،[19] اور یہ غیر معمولی تھا. اس میں انقلابی جذبات کی بہت سی روایتی وجوہات کی کمی تھی، جیسے جنگ میں شکست، مالی بحران، کسان بغاوت، یا ناراض فوج.[20] یہ ایک ایسے ملک میں ہوا جو نسبتا خوشحالی کا سامنا کر رہا ہے؛[3][17] بڑی رفتار سے گہری تبدیلی پیدا کی؛[21] بہت مقبول تھا؛ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جلاوطنی ہوئی جو ایرانی باشندوں کے ایک بڑے حصے کی خصوصیت رکھتا ہے;[22] اور ایک مغرب نواز سیکولر[23] اور آمرانہ بادشاہت[3] کی جگہ ایک مغربی اسلام مخالف تھیوکریسی[3][16][17][24] کو متعارف کرایا جو ولایت فقیہ (اسلامی فقیہ کی نگہبانی) کے تصور پر مبنی ہے، جو آمریت اور مطلق العنانیت کے درمیان پھنسے ہوئے ہے.[25] اسرائیل کی تباہی کو بنیادی مقصد قرار دینے کے علاوہ،[26][27] انقلاب کے بعد کے ایران کا مقصد شیعہ سیاسی عروج کی حمایت اور خمینی نظریات کو بیرون ملک برآمد کرکے خطے میں سنی رہنماؤں کے اثر و رسوخ کو کم کرنا تھا.[28] انقلاب کے بعد، ایران نے سنی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور عرب دنیا میں ایرانی تسلط قائم کرنے کے لیے پورے خطے میں شیعہ عسکریت پسندی کی پشت پناہی شروع کی، جس کا مقصد بالآخر ایرانی قیادت والی شیعہ سیاسی نظم کو حاصل کرنا تھا.[29]

پس منظر (1891–1977)

ترمیم

انقلاب اور اس کے مقبولیت پسند، قوم پرست اور بعد میں شیعہ اسلامی کردار کی پیشرفت کی وجوہات میں شامل ہیں:

  1. سامراج کے خلاف ردعمل؛
  2. 1953 کی ایرانی بغاوت؛
  3. 1973 کے تیل سے ہونے والی آمدن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توقعات میں اضافہ؛
  4. ایک حد سے زیادہ مہتواکانکشی اقتصادی پروگرام؛
  5. 1977-1978 میں ایک مختصر، تیز معاشی سکڑاؤ پر غصہ؛ اور[Note 1]
  6. سابقہ ​​دور حکومت کی دیگر خامیاں.

شاہ کی حکومت کو اس وقت معاشرے کے کچھ طبقوں نے ایک جابرانہ، سفاکانہ،[34][35] بدعنوان اور شاہانہ حکومت کے طور پر دیکھا تھا.[34][36] اسے کچھ بنیادی فنکشنل ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے معاشی رکاوٹیں، قلت اور مہنگائی آئی. شاہ کو بہت سے لوگوں نے دیکھا - اگر وہ ایک غیر مسلم مغربی طاقت (یعنی امریکہ) کی کٹھ پتلی نہیں ہے جس کی ثقافت ایران پر اثر انداز ہو رہی ہے. اس کے ساتھ ہی، مغربی سیاست دانوں اور میڈیا میں شاہ کی حمایت ختم ہو سکتی ہے۔خاص طور پر امریکی صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ کے تحت — شاہ کی اوپیک کی طرف سے دہائی کے شروع میں پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کی حمایت کے نتیجے میں. جب صدر کارٹر نے انسانی حقوق کی پالیسی نافذ کی جس میں کہا گیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ممالک کو امریکی ہتھیاروں یا امداد سے محروم رکھا جائے گا، اس سے کچھ ایرانیوں کو اس امید پر کھلے خطوط اور درخواستیں پوسٹ کرنے کی ہمت ملی کہ حکومت کی طرف سے جبر کم ہو سکتا ہے.[37]

وہ انقلاب جس نے محمد رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کو اسلام اور خمینی سے بدل دیا اس کا سہرا جزوی طور پر اسلامی نشاۃ ثانیہ کے شیعہ ورژن کے پھیلاؤ کو جاتا ہے. اس نے مغرب کی مخالفت کی اور آیت اللہ خمینی کو شیعہ امام حسین ابن علی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیکھا، جس میں شاہ حسین کے دشمن، نفرت انگیز ظالم یزید اول کا کردار ادا کر رہے تھے. دوسرے عوامل میں شاہ کے دور حکومت دونوں کی طرف سے خمینی کی اسلام پسند تحریک کو کم سمجھنا بھی شامل ہے — جو انہیں مارکسسٹوں اور اسلامی سوشلسٹوں کے مقابلے میں ایک معمولی خطرہ سمجھتے تھے — اور حکومت کے سیکولر مخالفوں کی طرف سے — جن کا خیال تھا کہ خمینیوں کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے.

تمباکو احتجاج (1891)

ترمیم

19ویں صدی کے آخر میں، شیعہ علماء کا ایرانی معاشرے پر خاصا اثر تھا. علماء نے سب سے پہلے اپنے آپ کو 1891 کے تمباکو کے احتجاج کے ساتھ بادشاہت کے خلاف ایک طاقتور سیاسی قوت کے طور پر ظاہر کیا. 20 مارچ 1890 کو ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ نے برطانوی میجر جی ایف ٹالبوٹ کو 50 سال تک تمباکو کی پیداوار، فروخت اور برآمد پر مکمل اجارہ داری کی رعایت دی. اس وقت، فارسی تمباکو کی صنعت میں 200,000 سے زیادہ افراد کام کرتے تھے، اس لیے یہ رعایت فارسی کسانوں اور بازاریوں کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا جن کی معاش کا زیادہ تر انحصار تمباکو کے منافع بخش کاروبار پر تھا. مرزا حسن شیرازی کے فتویٰ (عدالتی حکمنامے) کے نتیجے میں اس کے خلاف بائیکاٹ اور احتجاج بڑے پیمانے پر اور وسیع تھا. 2 سال کے اندر، ناصر الدین شاہ نے عوامی تحریک کو روکنے کے لیے خود کو بے اختیار پایا اور رعایت منسوخ کر دی.

تمباکو پروٹسٹ شاہ اور غیر ملکی مفادات کے خلاف پہلی اہم ایرانی مزاحمت تھی، جس نے عوام کی طاقت اور ان میں علماء کے اثر و رسوخ کو ظاہر کیا.

دینی رجحان

ترمیم

انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت اس کا خدا محور[38] ہونا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کے قانون اساسی کی 56 ویں بند میں ہم ملاحظہ کرتے ہیں : عالم اور انسان پر حاکمیت مطلق خدا کی ہے اور اسی نے انسان کو اس کی اجتماعی تقدیر پر حاکم بنایا ہے۔ بانی انقلاب اسلامی ایران کے وصیت نامہ میں اس سلسلے میں اس طرح آیا ہے : ہم جانتے ہیں کہ اس عظیم انقلاب نے جو ستمگروں اور جہاں خواروں کے ہاته کو ایران سے دور کر دیا ہے وہ الہی تائیدات کے زیر سایہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ اگر خداوند متعال کی تائید پر نہ ہوتی ممکن نہ تها کہ ایک)36 ملیون(تین کروڑ 60 لاکھ پر مشتمل آبادی اسلام اور روحانیت مخالف پروپیگنڈوں کے باوجود بالخصوص اس آخری صدی میں ایک ساتھ قیام کرے اور پورے ملک میں ایک رائے ہو کر حیرت انگیزاور معجزہ آساقربانی اور نعرہ اللہ اکبر کے سہارے خارجی اور داخلی طاقتوں کو بے دخل کر دے۔ بلا تردید اس مظلوم دبی کچلی ملت کے لیے خداوند منان کی جانب سے یہ ایک تحفہ الہی اور ہدیہ غیبی ہے۔ (صحیفہ امام، ج21، ص401)

انقلاب کا عوامی ہونا

ترمیم

دوسرے انقلابات میں بهی انقلاب کا عوامی ہونا دکهائی دیتا ہے لیکن انقلاب اسلامی ایران میں یہ صفت زیادہ، آشکار اور نمایاں ہے۔ اس انقلاب میں زیادہ تر لوگ میدان میں آئے اور شاہی حکومت کی سرنگونی اور اسلامی نظام کی برقراری کا مطالبہ کیا۔ فوجی، کاریگر، مزدور، کسان، علما و طلاب اسٹوڈنٹس، معلم، غرض ملک کے ہر طبقہ کے لوگ اس انقلاب میں حصہ دار اور شریک تهے۔ انقلاب کے عوامی ہونے کی یہ صفت بہت ہی نمایاں ہے۔ دوسرے انقلابات میں زیادہ تر فوجیوں اور پارٹیوں کا ہاته رہا ہے جنھوں نے مسلحانہ جنگ کرکے کام کو تمام کیا ہے اور عوام نے ان کی حمایت کی ہے لیکن ہمارے انقلاب میں سارے لوگ شریک رہے ہیں اور پورے ملک میں پوری قوت کے ساتھ رضا شاہ پہلوی کا مقابلہ کیا۔

رہبری و مرجعیت

ترمیم

انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت جس کا سرچشمہ انقلاب کا الہی ہونا ہے، دین اور علما دینی کا انقلاب کی رہبری اور ہدایت کرنا ہے۔ دوسرے سارے انقلاب ایک طرح سے دین و مذہب کے مقابلے میں تهے لیکن یہ انقلاب علمائے دین کی ہدایت و رہبری سے آغاز ہوا او رانجام کو پہنچا ہے۔ ان میں سرفہرست امام خمینی رح تهے جو بلند ترین دینی منصب یعنی مرجعیت کے حامل تهے۔ آپ کی رہبری نمایاں خصوصیات کی حامل تهی جن میں سے بعض کو ہم ہدیہ قارئین کر رہے ہیں :

  1. امام خمینی (رح )ایک دینی مرجع ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع اور زبردست عوامی حمایت کے بهی مالک تهے۔
  2. آپ نے 15/جون کے قیام کی بنیاد رکھ کر اور اس جانسوز حادثہ میں اپنی جلاوطنی کے زمانہ میں بے نظیر مدیریت اور شجاعت کا مظاہرہ کرکے اپنی سیاسی اور انقلابی رہبری کا لوہا منوایا۔
  3. آپ نے انقلاب کا نقشہ اور منصوبہ بهی بنایا اور اس کے بانی، مدیر اور مجری بهی تهے۔

اصالت

ترمیم

انقلاب اسلامی ایران کی اصالت کے دو پہلو ہیں : نظری اور عملی۔ نظری اور فکری پہلو میں ِ اس انقلاب کے اہداف و مقاصد اور افکار و نظریات خارجی نہ تهے خود ایرانی تاریخ اور ایرانیوں کی پیداوار تهے۔ اسلام اور عقائد اسلامی کو ایرانیوں نے چودہ سو برس پہلے قبول کیا تها اور اس مدت میں اسلام اور اسلامی عقائد ہماری قومیت اور تہذیب و ثقافت کے ایک اصلی اور اساسی عنصر میں تبدیل ہو گئے اور عملی پہلو میں ایرانی عوام اپنی قدرت و طاقت کے بل پر مغرب ومشرق یا ہمسایہ ممالک سے مالی اور اسلحوں کی مدد کے بغیر خدا کی ذات پر تکیہ کیا اور شمشیر پر خون کی کامیابی کا نعرہ لگاتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

انقلاب کا اسلامی یعنی دینی ہونا

ترمیم

ایرانی انقلاب کی سب سے پہلی شرط اسلام ہے اور یہ اس کے طرز تفکر، ماہیت اور اغراض و مقاصد کی وجہ سے ہے۔ اس انقلاب کے رہبر ایک روحانی تهے جو مرجعیت دینی کے منصب پر تهے، اس کی تنظیم و ترتیب حوزہ علمیہ دینی کے ہزار سالہ مرکزی ادارہ کے ذریعے ہوئی۔ عوام اور اس انقلاب کے بانیوں کا مقصد اسلام اور قوانین اسلامی کی حاکمیت اور استبداد داخلی اور استبداد عالمی کے چنگل سے رہائی تها۔ لہذا شرائط انقلاب ایران میں دین اسلام کی اساسی نقش کی وجہ سے یہ انقلاب صفت اسلامی سے متصف ہوا۔

انقلاب کا عاشورائی مقصد

ترمیم

بہت سارے دانشوروں کی نگاہ میں جنھوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب و علل پرنظریہ پردازی کی ہے کہ مذہب سب سے قوی اور اصلی ترین محرک اور سبب ہے جس نے انقلاب کی پیدائش اور اس کی کامیابی میں سب سے اہم رول ادا کیا ہے اور اسی طرح انقلاب اسلامی ایران کس طرح برپا ہوا اس کے سلسلے میں رائج سیاسی ادبیات، نعروں، تقریروں اور رہبران تحریک کے بیانات کا مطالعہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ مذہبی عناصر کے درمیان سے عاشورائی تہذیب اورامام حسین علیہ السلام کی نہضت کا اس انقلاب میں بڑا ہاته ہے۔ شہادت طلبی، باطل سے ہمیشہ ٹکراؤ طاغوت سے پیکار، رضائے پروردگار کی پیروی، مصالح مسلمین، نظارت عمومی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی عاشورائی خصوصیات نے انقلاب اسلامی پر بہت گہرا اثر چہوڑا ہے۔ عاشورائی تہذیب کے گوناگوں اثرات کو رہبر انقلاب کی فکر ان کے عمل کو انقلابی افراد کے اہداف و مقاصد اور مقابلہ کی روش میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

مقاصد کو اجاگر کرنے والے نعرے

ترمیم

سادہ اور عوامی شکل میں ہر انقلاب کی ماہیت اور روش کا اندازہ اس کے نعروں سے ہوتا ہے اور نعرے بہت پہلے سے اہداف کی شناسائی اور لوگوں کے مطالبات کو پہچنوانے اور منوانے کا ذریعہ رہے ہیں۔ ایرانی عوام کے نعرے جو ان کے مطالبات کو بیان کرتے ہیں ذیل کے چار اصلی عناوین میں خلاصہ ہوتے ہیں : 1۔ استقلال بلاتردیدظالم شاہی حکومت کے خلاف ہوئے مقابلوں میں لوگوں کا سب سے بنیادی نعرہ استقلال طلبی تها۔ شاہ کے زمانے کا ایران علاقہ میں محافظ دستہ کے حکم میں امریکا اور مغرب کے لیے کام کرتا تها۔ قانون سرمایہ داری جو حکومت نے پیش کیا اور اس وقت کی قومی مجلس عاملہ نے اس کو تصویب کیا اس سے امریکی مشیر کاروں کو تحفظ ملا، تاکہ وہ کسی اضطراب اور وحشت کے بغیر ایران کے اندر عوام کی عمومی ثروت و اموال کو لوٹ لیں۔ شاہ کی فوج بهی مکمل طورپرامریکی جنرل کے اختیار میں تهی اور اس کا اپنا کوئی ارادہ نہ تها، استقلال اور آزادی ایرانی عوام کے لیے انقلاب اسلامی کا بہت بڑا تحفہ تهی، یہی وجہ ہے کہ جمہوری اسلامی ایران کااساسی قانون اپنے متعدد بند میں واضح الفاظ میں استقلال پر زور دیتا ہے اور آج بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایران آزادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے اچها ملک شمار ہوتا ہے۔ 2۔ آزادی آزادی آخری دو صدیوں میں عوامی مطالبات کے زمرے میں ہمیشہ انقلابوں اور تحریکوں کے اہداف و مقاصد میں سرفہرست ایران کی استقلال طلبی اور آزادی خواہی رہی ہے۔ ظالم اور ڈکٹیٹر شاہ پہلوی نے اضطراب اور گهٹن کا ماحول بنا کر ایرانی قوم کو معمولی آزادی سے بهی محروم کر دیا تهااور اس جگہ پرقید خانے راہ حق میں جہاد کرنے والوں سے بهرے ہوئے تهے اور مجلسیں اور کٹه پتلی حکومتیں یکے بعد دیگرے آتی جاتی رہتی تهیں اور اس درمیان جس چیز کی کوئی اہمیت نہ تهی وہ قانون اور عوام کا کردارتها۔ شاہ کی ہر طرح سے حمایت کرنے کے لیے ایران میں 28/مرداد 1332ه ش)10/اگست 1953م( کی بغاوت کے بعد امریکا اور انگلینڈ کی ہدایت کے مطابق فوجی حکومت تشکیل پائی اوراس نے آزادی اور مجاہدین راہ حق کو کچلنے اور پسپا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ایسے گهٹن کے ماحول میں ایرانی عوام نے جمہوری اسلامی کے ہمراہ آزادی اور "استقلال" کا نعرہ بلند کیا۔ 3۔ جمہوری اسلامی شہید آیۃ اللہ مطہری کا خیال تها کہ "جمہوری" حکومت کی شکل ہے اور اس کا اسلامی ہونا ادارہ ملک کے مفہوم کی نشان دہی کرتا ہے۔ جمہوری اسلامی نے 98فیصد سے زیادہ ایرانی عوامکے ووٹ سے شاہی سلطنت کی جگہ لی۔ امام خمینی رح نے اس دن کو عید کا دن اعلان کیا اور اپنے پیغام میں فرمایا: تمھیں وہ دن مبارک ہو جس دن تم نے جوانوں کی شہادت اور طاقت فرسا مصیبتوں کے بعد دیو صفت دشمن اور فرعون وقت کو زمیں بوس کر دیا اور اس کو ایران سے فرار کرنے پر مجبور کر دیا اور اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے بهاری اکثریت سے شاہی سلطنت کی جگہ جمہوری اسلامی کو بٹها کر حکومت عدل الہی کا اعلان کیا، ایسی حکومت جس میں سب کو ایک ہی نظر سے دیکها جائے گا اور عدل الہی کا سورج سب پر یکساں نورافشانی کرے گا اورقرآن و سنت کی باران رحمت سب پر یکساں نازل ہوگی۔ )صحیفہ امام، ج6، ص453( نہ شرقی نہ غربی کا اہم نعرہ گویا ملک کے داخلی امور میں غیروں کے تسلط کی نفی ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ جمہوری اسلامی کی نہ غربی نہ شرقی نعرہ کے ضمن میں خارجہ پالیسی مندرجہ ذیل چند اصول پر استوار ہے : ہرطرح کی تسلط جوئی اور تسلط پذیری کی نفی: ہمہ جانبہ استقلال اور ملک کی سرزمین اور سرحدوں کی حفاظت، تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع، سامراجی اغیار سے کوئی عہد و پیمان نہ کرنے کا عہد، جنگ نہ کرنے والی حکومتوں سے صلح آمیز روابط، ہر اس معاہدہ پر پابندی جو اغیار کے تسلط کا موجب ہو اور دنیا کے کسی بهی گوشہ و کنار میں موجود مستکبرین عالم کے مقابلے میں مستضعفین عالم کے حق طلب مقابلہ کی حمایت، ایسی سیاست اپنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران میں استعماری طاقتوں سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور اغیار سے جنگ کرنے اور سامراج مخالف تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑی۔

خدا کی حاکمیت کی طرف رحجان

ترمیم

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہاں پر اسلامی نظام کی تشکیل ہوئی -عراق کے اسلامی انقلاب کی مجلس کے ایک رہبر نے اس بارے میں یوں کہا : ہم اس وقت کہتے تھے کہ اسلام ایران میں کامیاب ہو گیا ہے اور اس کے بعد جلد ہی عراق میں بھی کامیاب ہو گا - اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس سے سبق حاصل کریں اور اسے اپنی مشق کا حصہ بنا لیں - دوسرے الفاظ میں اسلامی انقلاب نے تقریبا ڈیڑھ بلین مسلمانوں کو جگایا اور انھیں کرہ زمین پر اللہ کی حاکمیت کے زیر سایہ حکومت تشکیل دینے کے لیے متحرک کیا - یہ عمل اساس نامے، معاصر سیاسی اسلامی تحریکوں کے گفتار و عمل میں مختلف صورتوں میں قابل مشاھدہ ہے - اسلامی حکومت کے قیام کے لیے متحرک مسلمانوں کی خواہش مختلف طریقوں سے پوری ہوئی ہے - جیسے بعض اسلامی جماعتوں نے امام خمینی رح کی اسلامی حکومت کی کتب ( مثلا الیسار الاسلامی مصر ) کا ترجمہ کرکے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی پیروی کرکے ( مانند جبھہ نجات اسلامی الجزایر ) ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے اپنی خواہش اور دلچسپی کا اظہار کیا ہے[39] - آیت اللہ محمد باقر صدر جنگ تحمیلی کے شروع ہونے سے قبل اس کوشش میں تھے کہ عراق کی رژیم کو سرنگوں کرکے وہاں پر اسلامی جمہوریہ ایران کی طرز پر ایک اسلامی حکومت تشکیل دی جائے جو ولایت فقیہ کی بنیاد پر ہو - بعض دوسری اسلامی تحریکیں بھی اصل ولایت فقیہ کو تسلیم کرتے ہوئے اسلامی انقلاب ایران کی رہبری کی پیروی کرتی ہیں - یہ دو طرح کے گروہ ہیں - ایک وہ گروہ جو مذہبی اور عقیدتی لحاظ سے اسلامی انقلاب کے رہبر کی تقلید کرتا ہے جیسے لبنان میں تحریک امل جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جو سیاسی اور مذہبی لحاظ سے رہبر انقلاب اسلامی ایران کا تابع ہے جیسے لبان میں حزب اللہ -

بعد از انقلاب

ترمیم

خواتین

ترمیم
  قبل از 1979ء ایران میں خواتین   آج
42.33% خواندگی (15–24)[40] 98.52%
69.42% خواندگی (>15)[40] 80.66%
48,845 طالبات[41] 2,191,409
122,753 فارغ التحصیل[42] 5,023,992
2.4% فارغ التحصیل (%)[42] 18.4%
19.7 شادی وقت عمر[43] 23.4

عورت انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور ضروری حصّہ ہے جو معاشرے کی تشکیل اور بہتری میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے - معاشرے کی ترقی کے لیے عورت اور مرد دونوں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے جس کے بعد معاشرہ ایک فلاحی راستے کی طرف گامزن ہوتا ہے - اس سارے عمل میں عورت کا کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اس کی صلاحیتوں سے بھی جدید دور میں کسی کو انکار نہیں ہے - اسلامی انقلاب، اس طراوت و نشاط کی پہلی کرن ہے اور مرد و عورت سب پر خداوند عالم کی رحمت و معنویت کی زندہ نشانی ہے - اسلامی انقلاب نے سیرت حضرت ختمی مرتبت اور امیر المومنین علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی و پیروی میں تمام خواتین کو اُن کے عظیم و بلند مقام پر فداکار اور محبت نچاور کرنے والی ماوں، صابر، مونس و غمخوار بیویوں، استقامت اور قدم جما کر (میدان جنگ سمیت تمام محاذوں پر لڑنے والی) مجاہدہ خواتین کی صورت میں پرورش دی ہے - آج کی ایرانی عورت کو ہر لحاظ سے معاشرے میں عزت و احترام حاصل ہونے کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں ترقی کرنے کے یکساں مواقع میسر ہیں - ایران میں 1979ء میں عظیم اسلامی انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں اس ملک میں اسلامی حکومت قائم ہوئی- اس کے بعد معاشرے میں بنیادی تبدیلی آئی اس کے اثرات خواتین پر بھی پڑے عورت کے رجحانات میں تبدیلی آئی؛ وہ فکری، علمی، ثقافتی اور اجتماعی مسائل کی ترقی کے راستے پر گامزن ہونے لگی؛ حضرت امام خمینی (رہ) نے اسلامی انقلاب کے انہی ابتدائی دنوں میں معاشرے میں مسلمان خواتین کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا[44] : "اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں ترقی کریں - اسلام نے عورت کو جاہلیت کی خرابیوں سے بچایا - اسلام یہ چاہتا ہے جیسے مرد اہم کاموں کو سر انجام دیتا ہے عورت اس طرح انجام دے - اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت اپنی حیثیت اور قدر و منزلت کو محفوظ رکھے - اسلام نے عورت کی جو خدمت کی ہے اس کا سراغ کہیں اور نہیں ملتا ہے -" حضرت امام خمینی (رہ) کے ارشادات نے ایرانی عورت میں ایک نئی روح پھونک دی اور اس نے سیاسی، اجتماعی سرگرمیوں میں شرکت کو اپنی مقبولیت کا ثبوت دینے کے لیے بہتریں طریقہ سمجھا- انقلاب کے دوران بھی خواتین نے بہت شاندار حصہ لیا- وہ اسلامی حکومت کے لیے بے چین تھیں - وہ اس دن کا انتظار کرتی تھیں کہ اپنے رہبر کی قیادت میں اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا اظہار کریں - اس دن کو پانے کے لیے وہ انقلاب کے جلوسوں میں نعرے لگاکر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تھیں - خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو وسعت دینے کے لیے اپنی اجتماعی سرگرمیوں کو علم و دانش کے چراغ سے سجایا اور یوں عورت کی الہی فطرت اور پہچان سب پہلوۆں میں نمایاں ہوتی گئی - ایران کے اسلامی جمہوریہ کا آئین، اسلام کے قانون سے پھوٹا ہے - اسی بنا پر حکومت نے اپنے قوانین میں خواتین کے سارے اسلامی حقوق کو مدنظر رکھا ہے - ایران کی اسلامی قومی اسمبلی میں معاشرے میں خواتین کی سرگرمیوں کے بارے میں انتہائی مفید قوانین منظور کیے گئے ہیں - اس قانون سے خواتین کو کافی حمایت ملی- خاص طور پر بے کس اور بے سہارا عورتوں کے لیے کافی سہولتیں پیدا ہوئی ہیں - اسلامی جمہوریہ ایران کے عظیم رہبر حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں [45]:"اسلام نے عورت پر پردے کو فرض قرار دیا ہے کیونکہ وہ ایک آزاد انسان ہے اور اس طرح وہ پاک و صحت مند ماحول میں اپنے معاشرتی فرائض کو انجام دے سکتی ہے -" آج کی ایرانی خواتین کے لیے مثالی نمونہ مغربی عورت نہیں بلکہ سب سے بہترین آئیڈیل حضرت فاطمہ زہرا(س) ہیں -

نگار خانہ

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. * "Islamic Revolution | History of Iran." Iran Chamber Society. آرکائیو شدہ 29 جون 2011 بذریعہ وے بیک مشین.
    • Brumberg, Daniel. [2004] 2009."Islamic Revolution of Iran." MSN Encarta. Archived on 31 October 2009.
    • Khorrami, Mohammad Mehdi. 1998."The Islamic Revolution آرکائیو شدہ 27 فروری 2009 بذریعہ وے بیک مشین." Vis à Vis Beyond the Veil. Internews. Archived from the original آرکائیو شدہ 27 فروری 2009 بذریعہ وے بیک مشین on 27 February 2009.
    • "Revolution آرکائیو شدہ 29 جون 2010 بذریعہ وے بیک مشین." The Iranian. 2006. from the original on 29 June 2010. Retrieved 18 June 2020.
    • "Iran." Jubilee Campaign. Archived from the original on 6 August 2006.
    • Hoveyda, Fereydoon. The Shah and the Ayatollah: Iranian Mythology and Islamic Revolution. آئی ایس بی این 0-275-97858-3.
  2. Gölz (2017), p. 229.
  3. ^ ا ب پ ت ٹ
  4. Sylvan, David، Majeski, Stephen (2009)۔ U.S. foreign policy in perspective: clients, enemies and empire۔ London: Routledge۔ صفحہ: 121۔ ISBN 978-0-415-70134-1۔ OCLC 259970287۔ doi:10.4324/9780203799451 
  5. ^ ا ب Abrahamian (1982), p. 479.
  6. ^ ا ب Gholam-Reza Afkhami (12 January 2009)۔ The Life and Times of the Shah۔ University of California Press۔ ISBN 978-0-520-94216-5۔ 19 جنوری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2015 
  7. Abrahamian, Ervand. 2009. "Mass Protests in the Islamic Revolution, 1977–79." Pp. 162–78 in Civil Resistance and Power Politics: The Experience of Non-violent Action from Gandhi to the Present, edited by A. Roberts and T. G. Ash. Oxford: Oxford University Press.
  8. Mottahedeh, Roy. 2004. The Mantle of the Prophet: Religion and Politics in Iran. p. 375.
  9. "The Iranian Revolution"۔ fsmitha.com۔ 10 اکتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  10. Marwan J. Kabalan (2020)۔ "Iran-Iraq-Syria"۔ $1 میں Imad Mansour، William R. Thompson۔ Shocks and Rivalries in the Middle East and North Africa۔ Georgetown University Press۔ صفحہ: 113۔ After more than a year of civil strife and street protests, Shah Mohammad Reza Pahlavi left Iran for exile in January 1979. 
  11. Abbas Milani (2008)۔ Eminent Persians۔ Syracuse University Press۔ ISBN 978-0-8156-0907-0۔ 19 جنوری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020 
  12. "1979: Exiled Ayatollah Khomeini returns to Iran". BBC: On This Day. 2007. آرکائیو شدہ 24 اکتوبر 2014 بذریعہ وے بیک مشین
  13. Graham (1980), p. 228.
  14. Kurzman (2004), p. 111.
  15. "Islamic Republic | Iran". Britannica Student Encyclopedia. Encyclopædia Britannica. Archived from the original on 16 March 2006.
  16. ^ ا ب Kurzman (2004).
  17. ^ ا ب پ Amuzegar (1991), p. 253
  18. Karim Sadjadpour (3 October 2019)۔ "October 14th, 2019 | Vol. 194, No. 15 | International"۔ TIME.com۔ 09 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2023 
  19. Amuzegar (1991), pp. 4, 9–12.
  20. Arjomand (1988), p. 191.
  21. Amuzegar (1991), p. 10.
  22. Kurzman (2004), p. 121.
  23. Amanat 2017, p. 897.
  24. International Journal of Middle East Studies 19, 1987, p. 261
  25. Ergun Özbudun (2011)۔ "Authoritarian Regimes"۔ $1 میں Bertrand Badie، Dirk Berg-Schlosser، Leonardo Morlino۔ International Encyclopedia of Political Science۔ SAGE Publications, Inc.۔ صفحہ: 109۔ ISBN 978-1-4522-6649-7۔ Another interesting borderline case between authoritarianism and totalitarianism is Iran, where an almost totalitarian interpretation of a religious ideology is combined with elements of limited pluralism. Under the Islamist regime, Islam has been transformed into a political ideology with a totalitarian bent, and the limited pluralism is allowed only among political groups loyal to the Islamic revolution. 
  26. Walter R. Newell (2019)۔ Tyrants: Power, Injustice and Terror۔ New York, USA: Cambridge University Press۔ صفحہ: 215–221۔ ISBN 978-1-108-71391-7 
  27. "The religious-ideological reason Iran calls for Israel's destruction"۔ The Jerusalem Post۔ 21 February 2022۔ 24 فروری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  28. Vali Nasr (2006)۔ "The Battle for the Middle East"۔ The Shia Revival۔ New York: W. W. Norton & Company۔ صفحہ: 241۔ ISBN 978-0-393-32968-1 
  29. Lorenz M. Lüthi (2020)۔ Cold Wars: Asia, the Middle East, Europe۔ New York: Cambridge University Press۔ صفحہ: 491, 505–506۔ ISBN 978-1-108-41833-1۔ doi:10.1017/9781108289825 
  30. Sick, All Fall Down, p. 187
  31. Fischer, Iran: From Religious Dispute to Revolution, Harvard University Press, 1980, p. 189
  32. Keddie, N. R. (1983)۔ "Iranian Revolutions in Comparative Perspective"۔ American Historical Review۔ 88 (3): 589۔ JSTOR 1864588۔ doi:10.2307/1864588 
  33. Bakhash (1984), p. 13.
  34. ^ ا ب Harney (1998), pp. 37, 47, 67, 128, 155, 167.
  35. Abrahamian (1982), p. 437.
  36. Mackey (1996), pp. 236, 260.
  37. Keddie (2003), p. 214.
  38. انقلاب اسلامی ایران کی منفرد خصوصیات
  39. خدا کي حاکميت کي طرف رحجان
  40. ^ ا ب "Iran – Literacy rate"۔ indexmundi.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2016 
  41. "World Bank: Iran, Islamic Rep.: Student enrollment, tertiary, female"۔ 27 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2016 
  42. ^ ا ب Statistical Centre of Iran (2011). Selected findings on 2011 Population and Housing Census. Teheran: Iranian ministry of the Interior, p. 35.
  43. Statistical Centre of Iran (2011). Selected findings on 2011 Population and Housing Census. Teheran: Iranian ministry of the Interior, p. 32.
  44. انقلاب اسلامی ایران اور خواتین ( حصّہ سوّم )
  45. انقلاب اسلامی ایران اور خواتین ( حصّہ ششم )