باب:چترال
چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک ضلع ہے۔ چترال پاکستان کے انتہائي شمالي کونے پر واقع ہے۔ یہ ضلع ترچ میر کے دامن میں واقع ہے جو کہ سلسلہ کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کي سرحد افغانستان کی واخان کی پٹی سے ملتی ہے جو اسے وسط ایشیا کے ممالک سے جدا کرتی ہے۔ رياست کے اس حصے کو بعد ميں ضلع کا درجہ ديا گيا۔ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈويژن سے منسلک کيا گيا۔ اپنے منفرد جغرافيائي محلِ وقوع کي وجہ سے اس ضلع کا رابطہ ملک کے ديگر علاقوں سے تقريباپانچ مہينے تک منقطع رہتا ہے۔ اپني مخصوص پُر کشش ثقافت اور پُر اسرار ماضي کے حوالے سے ملفوف چترال کي جُداگانہ حيثّيت نے سياحت کے نقطہءنظر سے بھي کافي اہميّيت اختيار کر لي۔ جنگ افغانستان کے دوران اپني مخصوص جغرافيائي حيثيت کي وجہ سے چترال کي اہميّت ميں مزيد اضافہ ہوا۔ موجودہ دور ميں وسطي ايشيائي مسلم ممالک کي آزادي نے اس کي اہميت کو کافي اُجاگر کيا۔ رقبے کے لحاظ سے يہ صوبہ کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
کالاش (انگریزی: Kalash) کوہ ہندوکش میں واقع ایک قبیلہ ہے جو کہ صوبہ سرحد کے ضلع چترال میں آباد ہے۔ یہ قبیلہ کیلاش زبان بولتی ہے جو کہ دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔ لسانیات کے ماہر رچرڈ سٹرانڈ کے مطابق ضلع چترال میں آباد قبائل نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔ کالاشہ یا کالاش قبائل نے وقت کے ساتھ چترال میں اپنا اثررسوخ بڑھایا۔ ایک حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کالاش نام دراصل “کاسوو“ جو کہ بعد میں “کاسیو“ استعمال ہوتا تھا۔ یہ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ بعد کے ادوار میں یہ کاسیو نام کالاسایو بنا اور رفتہ رفتہ کالاسہ اور پھر کالاشہ اور اب کالاش بن گیا۔ کیلاش قبائل کی ثقافت یہاں آباد قبائل میں سب سے جداگانہ خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور ان کی زندگیوں پر قدرت اور روحانی تعلیمات کا اثر رسوخ ہے۔ یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج عام ہے جو کہ ان کی تین وادیوں میں خوشحالی اور امن کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ کالاش قبائل میں مشہور مختلف رواج اور کئی تاریخی حوالہ جات اور قصے عام طور پر روم قدیم روم کی ثقافت سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔ گو وقت کے ساتھ ساتھ قدیم روم کی ثقافت کے اثرات میں کمی آئی ہے اور اب کے دور میں زیادہ تر ہند اور فارس کی ثقافتوں کے زیادہ اثرات واضع ہیں۔ کالاش قبائل کے قبائلی رواج میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ بیسویں صدی سے پہلے تک یہاں رواج نہایت وسیع تھے اور گذشتہ صدی میں ان غیر مسلم قبائل میں ان رواجوں کی پیروی اسلام قبول کرنے کے بعد سے کافی کمی آئی ہے۔ کیلاش قبائل کے سردار سیف جان جو کہ اقلیت کے مطابق، “اگر کوئی کیلاش فرد اسلام قبول کر لے، وہ ہمارے درمیان زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ہم اپنی شناخت کے لیے انتہائی سخت مزاج رکھتے ہیں “تقریباً تین ہزار کیلاش اسلام قبول کر چکے ہیں یا پھر ان کی اولادیں مسلمان ہو چکی ہیں۔ یہ لوگ اب بھی وادی کیلاش کے علاقے میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی زبان اور قدیم ثقافت کی پیروی کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں کو “شیخ“ کہا جاتا ہے اور کالاش قبائل کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل یہ لوگ اپنا جداگانہ اثررسوخ رکھتے ہیں۔ کالاش عورتیں لمبی اور کالی پوشاکیں پہنتی ہیں، جو کہ سیپیوں اور موتیوں سے سجائی گئی ہوتی ہیں۔ کالے لباس کی وجہ سے یہ چترال میں سیاہ پوش کہلائے جاتے ہیں۔ کیلاش مردوں نے پاکستان میں عام استعمال کا لباس شلوار قمیص اپنا لی ہے اور بچوں میں بھی پاکستانی لباس عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستانی معاشرے کے برعکس عورتوں اور مردوں کا سماجی میل ملاپ برا نہیں سمجھا جاتا۔ “باشیلانی“ ایک جدا گاؤں ہے جو کہ عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں حاملہ عورتیں ہی لازمی رہائش پذیر ہوتی ہیں اور پیدا ہونے والے بچوں کو باشیلانی کہا جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد عورتوں کا پاک ہونا لازم ہے اور ایک رواج بھی عام ہے جس کو اپنانے کے بعد ہی کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف واپس جا سکتی ہے۔ گھر سے فرار ہو کر شادی کا رواج عام ہے۔ نوعمر لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں بھی گھر سے فرار اختیار کرتی ہیں۔ زیادہ تر یہ قبائل اس رویہ کو عمومی خیال کرتی ہے اور اس صورت میں جشن کے موقع پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ کئی مواقعوں پر زیلی قبیلوں میں اس موضوع پر فساد بھی برپا ہو جاتا ہے۔ امن کے قائم ہونے تک تلخی برقرار رہتی ہے اور صلح عام طور پر ثالث کی موجودگی کے بغیر طے نہیں ہوتی۔ صلح کے لیے جو رواج عام ہے اس کے مطابق مرد جس کے ساتھ عورت فرار اختیار کرے وہ اس عورت کے خاندان یا پہلے شوہر کو قیمت ادا کرتا ہے۔ یہ قیمت عام طور پر دگنے خرچے کے برابر ہوتا ہے جو اس عورت کا شوہر شادی اور عورت کے خاندان کو ادا کرتا ہے۔
مذہب: ہندومت ۔ بدھ مت ۔ جین مت ۔ سکھ مت ۔ اسلام ۔ عیسائیت ۔ یہودیت سیاسیات: سارک ۔ پاکستانی حکومت ۔ کھیل: کرکٹ
|