دیا خان ایک پاکستانی نژاد نارویجن فلم ہدایتکار ہیں۔ وہ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور امن کی پُر جُوش داعی ہیں۔ وہ فیوز کی بانی اور چیرمین ہیں۔ فیوز کا دائرہ کار دستاویزی فلمیں بنانے کے علاوہ دیگر لائیو پروگراموں کی کوریج ہے۔ دیا خان کی اولین فلم باناز اے لو سٹوری 2013ء میں پی باڈی ایوارڈ ،ایمی ایوارڈ کے علاوہ برگن کے عالمی فلمی میلے سے پہلا انعام جیت چکی ہے۔ ان کی دوسری فلم "جہاد: اے سٹوری آف دی ادرز" برٹش اکیڈمی فلم ایوارڈز، گریئرسن ایوارڈ کے علاوہ مونٹی کارلو فلمی میلے کے گولڈن نیمف ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوئی۔ دیا خان سسٹر ہڈ نامی آن لائن رسالے کی بانی اور مدیر اعلیٰ ہیں۔ اس رسالے میں دنیا بھر کی نامور مگر صرف مسلمان خواتین ہی لکھتی ہیں۔ حقوق نسواں، امن، آزادی اظہار کی جدوجہد اور خدمات پر دیا خان کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں عالمی تنظیم یونیسکو نے 2016ء میں انھیں "فنی آزادی و خلاقیت" کے شعبے میں خیر سگالی کا سفیر نامزد کیا۔ دیا خان اس شعبے کی پہلے سفیر ہیں۔

دیا خان

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (انگریزی میں: Deeyah Khan ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش (1977-08-07) 7 اگست 1977 (عمر 47 برس)
اوسلو، ناروے
قومیت نارویجن
عملی زندگی
پیشہ فلم ہدایتکار
پیشہ ورانہ زبان ناروی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دور فعالیت 1992 تا حال
وجہ شہرت بناز اے لو سٹوری
کارہائے نمایاں بناز اے لو سٹوری ،  دشمن کا سامنا   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ویب سائٹ
ویب سائٹ www.deeyah.com
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح حیات

ترمیم

پیدائش و خاندانی پس منظر

ترمیم

دیا خان 7 اگست 1977ء کو ناروے کے دار الحکومت اوسلو ميں پيدا ہوئیں۔ دیا مشہور پاکستانی نژاد نارویجن اداکار عادل خان کی بڑی بہن ہیں۔

موسيقی

ترمیم

دیا کا تعلق ايک ثقافتی گھرانے سے ہے۔ دیا کے والد ناروے ميں مختلف ثقافتی سرگرمیوں کے روح و رواں رہے ہيں۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی اور ديگر پاکستانی تخليقی روايات کو ناروے ميں متعارف کرانے کے سلسلے ميں بہت زيادہ کام کيا ہے۔ اپنی ثقافت سے محبت کے نتیجے میں جہاں انھوں نے دیا کی تربیت کے سلسلے میں اُردو زباں اور دیگر روایتی تعلیم پر خصوصی توجہ دی، وہیں انھوں نے دیا کے لیے علم موسیقی سیکھنے کا بھی بندوبست کیا۔ جس کے لیے انھوں نے پاکستان اور ہندوستان کے نامور موسیقاروں کی خدمات حاصل کیں۔ شب و روز کی محنت کی وجہ سے دیا نے جلد ہی ناروے کے موسیقی کے حلقوں میں اپنی جگہ پیدا کر لی۔ دیا ساڑھے سات سال کی عمر میں نارویجین ٹی وی پر نمودار ہوئیں۔

پیشۂِ موسيقی

ترمیم

1990ء میں دیا پاکستانی موسیقار استاد بڑے فتح علی خان اور نارویجن موسیقار یان گاربارک کے مشترکہ البم پر بطور مہمان گلوکارہ کے پیش ہوئیں۔ 12 سال کی عمر میں انھوں نے نارویجن گلوکار آندرس ویلر کے البم پر ایک گانے میں اُن کا ساتھ دیا۔ 15 سال کی عمر میں ناروے کی مشہور ریکارڈنگ کمپنی چرچ ثقا فتی ورکشاپ نے دیا کو سائن کیا اور " I Alt Slags Lys " کے نام سے اُن کا پہلا سولو البم جاری کیا۔ یہ البم مشرقی اور مغربی موسیقی کا امتزاج تھا اور اس کی تیاری میں ناروے کے نامور موسیقارو ں کے علاوہ پاکستان کے مایہ ناز طبلہ نواز استاد شوکت حسین اور ہندوستان کے مشہور سارنگی نواز استاد سلطان خان نے حصہ لیا۔ دیا خان کا دوسرا البم ستمبر 1995ء میں " بی ایم جی ایریسٹا " ( BMG/Arista ) نے دیا کے پیدائشی نام دیپیکا کے تحت جاری کیا۔ اس البم کی تیاری میں نارویجن پروڈیوسر تھور ایرک ھیرمانسن، ٹامی ٹی اور انگریز پروڈیوسر نک سیلیٹو ( Nick Sillitoe ) نے حصہ لیا۔ دیا خان کا آخری البم "آٹا راکسس " ( Ataraxis ) کے نام سے 2007ء منظر عام پر آیا جس میں دو بار گریمی ایوارڈ یافتہ مشہور زمانہ پیانو نواز باب جیمز، مشہور گروپ دی پولیس کے گریمی ایوارڈ یافتہ گٹار نواز اینڈی سمرز اور ناروے کے ٹرمپٹ نواز نیلس پھیتر مولویر نے حصہ لیا۔ یہ البم کلاسیکی موسیقی، پاکستان اوو افغانستان کی لوک موسیقی اور الیکٹرونیکا کا حسین امتزاج تھا۔ اس تجرباتی البم کو موسیقی کے حلقوں میں بہت پزیرائی ملی۔ جن مختلف فنکاروں، موسیقاروں اور میوزک پروڈیوسروں نے دیا کی موسیقی سے استفادہ کیا ہے اور دیا کی موسیقی کے مختلف ٹکڑوں کواپنے موسیقی سے متعلقہ منصوبوں میں استعمال کیا ہے۔ ان میں نیلس پھیتر مولویر، سیب ٹیلر، نووال، بون کرشّر، لیقوڈ سٹرینجر، مسالا ڈوسا، مارک سمتھ، فیوٹیلیٹی آرکسٹرا، گائے چیمبرز اور پال اوکن فولڈ کے نام نمایاں ہیں۔

ریکارڈ پروڈیوسر

ترمیم

"آٹا راکسس " کے بعد دیا خان نے عملی موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ انھوں نے خود پرفارم کرنے کی بجائے اسٹیج کے پیچھے رہ کر مختلف منصوبوں پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی " لسن ٹو دی بینڈ" تھا۔ جس میں مشرقی وسطیٰ، افریقا اور ایشیا کے اُن فنکاروں کو پیش کیا گیا جو اپنے ملکوں میں پابندیوں کا شکار ہیں، ریاستی یا غیر ریاستی جبر کی وجہ سے بیروں ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں یا جیلوں میں بند پڑے ہیں۔[1] بین الاقوامی موسیقی کا یہ مجموعہ اکتوبر 2010 میں جاری ہوا اور اس کو ترتیب دینے میں فری میوز نے تعاون کیا۔ اس البم نے جہاں دیا کو استحصال کے شکار فنکاروں کے ہمدرد کے طور پر پیش کیا ہے، وہیں یہ البم یورپ کے ورلڈ میوزک چارٹ پر کئی مہینوں تک چھٹے نمبر پر پراجمان رہا ہے۔[2]

  • لسن ٹو دا بینڈ (Listen to the Banned) [3]
  • نارڈک وومن (Nordic Woman)
  • ایرانین وومن (Iranian Woman)
  • ایکو آف انڈس (Echo of Indus)

سِسٹرہڈ ( Sisterhood )

ترمیم

سسٹرہڈ کا آغاز 2007ء میں مسلمان لڑکیوں کے ایک نیٹ ورک کے طور پر ہوا۔ جس کا مقصد مغربی ممالک میں مقیم مسلمان خواتین فنکاروں اور موسیقاروں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا جہاں سے اُن کی تخلیقی اور فنکارانہ صلاحیتوں کو جلا اور اس کے اظہار کے لیے مواقع میسر ہوں۔ سسٹرہڈ اس کے علاوہ مسلمان خواتین کو مغربی معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل جیسے حقوق نسواں، نسل پرستی، محبت، جنس اور11 ستمبر کی بعد کی دنیا جیسے موضوعات پر بحث و مباحثے کے مواقع بھی مہیا کرتا ہے۔ سسٹرہڈ نے 2008ء میں "سسٹرہڈ آن لائن مکس ٹیپ" جاری کی۔ اس ٹیپ میں برطانیہ میں مقیم مختلف مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والی والی گلوکاراؤں اور شاعرات نے حصّہ لیا۔ 2016ء میں سسٹرہڈ کو ایک آن لائن رسالے کے شکل دے دی گئی۔ اس رسالے کی خاص بات اس میں لکھنے والی خواتین ہیں۔ جو صرف مسلمان ہیں۔

فلم سازی

ترمیم

دیا خان نے غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے موضوع پر آگاہی پیدا کرنے کے لیے باناز اے لو سٹوری نامی ایک دستاویزی فلم بنائی ہے، جو 2012ء میں برطانیہ کے ایک فلمی میلے میں نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ اس فلم کو اپنے موضوع کی اہمیت کی وجہ سے مغربی ممالک میں بہت پزیرائی ملی ہے۔ اس فلم نے ناروے کے لیے پہلی بار "حالات حاضرہ" جیسے معتبر اور مشکل زمرے میں بہترین عالمی دستاویزی فلم کا ایمی ایوارڈ جیتا، اس کے علاوہ امریکا کے پی باڈی ایوارڈ اور برگن عالمی فلمی میلے میں بھی پہلے انعام کی حقدار قرار پائی۔ ان اعزازت کے علاوہ فلم کو برطانوی پولیس کی تربیت کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا۔

فلمیں

ترمیم
فلم
سال نام شعبہ تفصیل طرز
2020 ٹرمپ کے امریکہ میں مسلمان ہدایت کار پی باڈی اعزاز جیتا ۔[4] دستاویزی
اسقاط حمل کے خلاف امریکی جنگ ہدایت کار بافٹا اعزاز جیتا۔[5] دستاویزی
2017 دشمن کا سامنا ہدایت کار و فلم ساز حالات حاضرہ کے زمرے میں بہترین دستاویزی فلم کا ایمی اعزاز جیتا[6]. برطانیہ کی رائل ٹیلی ویژن سوسائٹی سے بہترین ہدایتکار کا اعزاز جیتا [7] ۔ پیس جام کی جیوری کا خصوصی انعام جیتا [8]۔ حالات حاضرہ کے زمرے میں روری پیک اعزاز جیتا [9]۔ بہترین تحقیق کے لیے ایشین میڈیا اعزاز جیتا[10]۔ بافٹا 2018ء کے لیے نامزدگی [11]۔براڈکاسٹنگ زمرے میں فرنٹ لائن کلب اعزاز کے لیے نامزدگی [12]۔ دستاویزی
2016 مُرتدین اسلام ہدایت کار و فلم ساز ایشین میڈیا اعزاز کے لیے نامزدگی دستاویزی
2015 جہاد: سکّے کا دوسرا رُخ ہدایت کار و فلم ساز نیویارک آزاد فلم و ویڈیو میلہ سے بہترین دستاویزی فلم کا اعزاز جیتا۔ آرٹس کونسل ناروے نے فلم پر انسانی حقوق کا اعزاز دیا [13]۔ برطانیہ کے مشہور گریئرسن اعزاز کے لیے نامزدگی [14] بافٹا کے لیے نامزدگی[15] طلائی اپسرا اعزاز کے لیے نامزدگی. تخلیقی تنوع نیٹ ورک اعزازات کی حالات حاضرہ کے زمرے میں بہترین فلم کے طور پر نامزدگی [16]۔ دستاویزی
2012 باناز: قصہ محبت ہدایت کار و فلمساز پی باڈی اعزاز جیتا ۔ بہترین عالمی دستاویزی فلم کا ایمی اعزاز جیتا۔ برگن عالمی فلمی میلہ سے بہترین نارویجن دستاویزی فلم کا اعزاز جیتا. رائل ٹیلی ویژن سوسائٹی برطانیہ میں حالات حاضرہ کے شعبہ میں نامزدگی دستاویزی

اعزازات

ترمیم
  • 2018ء میں دیا کو امریکا کے شہر بوسٹن میں موجود ایمرسن کالج سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔
  • 2017ء میں دیا خان کو آرٹس کونسل ناروے کی انتظامیہ کا رکن مقرر کیا گیا۔ اس تقرری کا دورانیہ چار سال (2018۔2021) ہے۔
  • 2016ء میں یونیسکو نے دیا خان کو "فنی آزادی و خلاقیت" کے شعبے میں خیر سگالی کے زمرے میں اپنا سفیر نامزد کیا۔ دیا خان اس زمرے کی پہلے سفیر ہیں۔
  • 2016ء میں دیا کو ٹیلی نار نے آزادی اظہار کے لیے کام کرنے اور فنی کاوشوں پر اپنے ثقافتی اعزاز سے نوازا
  • 2016ء میں دیا کو پیئر گنٹ اعزاز سے نواز گیا، یہ اعزاز ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو ناروے کا نام عالمی سطح پر روشن کریں، اس اعزاز کو پانے والے کا چناؤ نارویجن پارلیمنٹ کرتی ہے
  • 2016ء میں دیا کو گنار ستونسیبی میموریل فنڈ نے اپنے اعزاز سے نوازا۔ یہ اعزاز ان تنظیموں اور لوگوں کو دیا جاتا ہے جو مادر وطن کی جمہوریت جیسی بنیادی اقدار اور ملک کی سالمیت کے لیے کام کرتے ہیں
  • 2015ء میں ناروے کی وزارت ثقافت و فن نے جہاد کے موضوع پر بنائی گئی دستاویزی فلم پر ہیومن ایوارڈ سے نوازا
  • 2015ء میں یونیورسٹی آف اوسلو نے حقوق نسواں اور آزادی اظہار کی پرجوش کارکن ہونے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کی وجہ سے یونیورسٹی آف اوسلو ہیومن ایوارڈ سے نوازا
  • 2015ء میں دیا کو لڑکیوں کا ایوارڈ ((Jentepris )) دیا گیا، یہ ایوارڈ11 اکتوبر کو لڑکیوں کا بین الاقوامی دن منانے والی تنظیموں کی نارویجن شاخ اس دن کی مناسبت سے دیتی ہے۔
  • 2013ء میں دیا کو لبرٹی ہیومن رائٹس آرٹس ایوارڈ (Liberty Human Rights Arts Award)کے لیے نامزد کیا گیا۔
  • 2013ء میں بناز اے لو سٹوری پر دیا کو ایمی ایوارڈ اور برگن فلمی میلے میں بہترین فلم کا اعزاز دیا گیا
  • 2013ء میں دیا خان کو اس کی فلم کے لیے امریکا کا پی باڈی ایوارڈ دیا گیا
  • 2012ء میں دیا کو آزادی اظہار کی خدمات کی وجہ سے پین انٹرنیشنل کی نارویجن شاخ نے اوسی ایتسکی اعزاز سے نوازا۔
  • 2008ء میں دیا کو فریڈم ٹو کری ایٹ ( Freedom to Create Prize ) انعام سے نوازا گیا۔ دیا کے علاوہ یہ انعام زمبابوے کے تمثیل نگار کونٹ مہلنگا اور بیلارس کے بیلارس فری تھیٹر کو بھی دیا گیا
  • 1996ء میں ناروے کے شائبلرز لیگات نے دیا کو پاکستانی اور ناروینی تہذیب کے درمیان میں پُل کا کام کرنے اور رواداری کا ماحول قائم کرنے کی کوشش پر انعام سے نوازا۔

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Tracy McVeigh (2010-12-05)۔ "Banned singers join together for an album of hope"۔ www.guardian.co.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2010 
  2. "World Music Charts Europe"۔ جولائی 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2010 
  3. Howard Male (2010-12-12)۔ "Album: Various artists, Listen to the Banned (Freemuse)"۔ www.independent.co.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2010 
  4. Film Buzz, Filmmakers (22 June 2021)۔ "Deeyah Khan's MUSLIM IN TRUMP'S AMERICA Wins a Peabody Award!"۔ www.wmm.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2021 
  5. NTB (6 June 2021)۔ "Deeyah Khan vant Bafta-pris" (بزبان ناروی)۔ www.dagbladet.no۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جون 2021 
  6. "Ny Emmy-pris til Deeyah Khan – for filmen der hun møtte fienden" (بزبان ناروی)۔ dagsavisen.no۔ 2 October 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2018 
  7. RTS (26 November 2018)۔ "Winners of the RTS Craft & Design Awards 2018 announced"۔ rts.org.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018 
  8. NTB (22 June 2018)۔ "Deeyah Khans høyreekstremist-dokumentar vant pris i Monte Carlo" (بزبان ناروی)۔ www.medier24.no۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018 
  9. Rory Peck Trust (1 November 2018)۔ "WOMEN FREELANCERS TRIUMPH AT RORY PECK AWARDS 2018"۔ rorypecktrust.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 November 2018 
  10. Raj Baddhan (26 October 2018)۔ "The Asian Media Awards 2018 were held on Thursday 25th October at the Hilton Manchester Deansgate."۔ bizasialive.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018 
  11. "CURRENT AFFAIRS"۔ www.bafta.org۔ 4 April 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018 
  12. "Shortlist 2018"۔ www.frontlineclub.com۔ 7 October 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018 
  13. Sveinung Stoveland (4 November 2015)۔ "Deeyah Khan får menneskerettspris for modig film om religiøse krigere" (بزبان ناروی)۔ www.dagbladet.no۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2018 
  14. NTB (29 جولائی 2016)۔ "Deeyah Khan nominert til prestisjetung britisk dokumentarpris for Jihad-film" (بزبان ناروی)۔ www.medier24.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2016 
  15. "Television in 2016- Television/ Current Affairs on 2016"۔ www.bafta.org۔ 30 مارچ 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2016 
  16. Chris Curtis (22 May 2017)۔ "Shortlist revealed for CDN Awards 2017."۔ www.broadcastnow.co.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2017