سلیم الزماں صدیقی
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی (پیدائش: 19 اکتوبر 1897ء (بارہ بنکی)- 14 اپریل 1994ء) پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ کیمیائی سائنس دان تھے جو "نیم" اور پھول دار پودوں پر تحقیق کی وجہ سے مشہور ہیں۔ آپ "ایچ ای جے انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری" کے بانی ڈائریکٹر تھے۔ سائنسی تخصص کے علاوہ آپ مصور اور شاعر بھی تھے اور آپ کی مصوری کی نمائش ریاست ہائے متحدہ امریکا، ہندوستان، جرمنی اور پاکستان میں ہو چکی ہیں۔
سلیم الزماں صدیقی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 19 اکتوبر 1897ء لکھنؤ |
وفات | 14 اپریل 1994ء (97 سال) کراچی |
رہائش | کراچی، سندھ |
شہریت | پاکستان برطانوی پاکستانی |
مذہب | اسلام |
رکن | رائل سوسائٹی |
عملی زندگی | |
مقام_تدریس | پاکستان جوہری توانائی کمیشن (PAEC) Pakistan Council of Scientific and Industrial Research (PCSI) H.E.J Institute of Chemistry جامعہ کراچی پاکستان اکیڈمی آف سائنسز |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گوئٹے یونیورسٹی فرینکفرٹ یونیورسٹی کالج لندن |
ڈاکٹری مشیر | Julius Von Bram |
پیشہ | کیمیادان |
اعزازات | |
ہلال امتیاز (1980) تمغائے حسن کارکردگی (1966) ستارۂ امتیاز (1962) رائل سوسائٹی فیلو (1961) فیلو پاکستان سائنس اکادمی ایم بی ای عالمی سائنس اکادمی فیلو |
|
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر، 1897ء کو لکھنؤ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لکھنؤ ٔ میں حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ آ گئے۔ انھوں نے 1919ء میں علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ اُس وقت تک وہ ایم۔ اے۔ او۔ کالج تھا۔ یونیورسٹی 1920ء میں بنی۔ پھر وہ لندن آ گئے اور کچھ دنوں یونیورسٹی کالج لندن میں رہنے کے بعد فرینکفرٹ چلے گئے جہاں سے انھوں نے 1927ء میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ ہندوستان واپس آتے ہی وہ دہلی آ گئے اور یہاں کے طبیہ کالج میں حکیم اجمل خاں کی قیادت میں شعبۂ تحقیق برائے آیورویدک اور یونانی طب قائم کیا۔ یہ شعبہ 1931ء میں قائم ہو ا تھا۔ 1940ء میں انھوں نے انڈین کائونسل آف سائینٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں کام شروع کیا اور وہاں دس برس رہے۔ قائدِ ملت لیاقت علی خاں کے اصرار پر وہ 1951ء میں پاکستان آ گئے۔ حکومت پاکستان کے ایما پر انھوں نے پاکستان کاؤنسل آف انڈسٹریل اینڈ سائینٹفک ریسرچ قائم کی جس کا مرکز کراچی میں تھا اور اس کی شاخیں ڈھاکہ، راجشاہی، چٹاگانگ، لاہور اور پشاور میں بھی قائم کیں۔ 1966ء میں وہ کائونسل سے ریٹائر ہوئے اور کراچی یونیورسٹی میں حاجی ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمکل ریسرچ قائم کیا۔ 1990ء تک وہ وہاں رہے اور اس کے بعد بھی پرائیویٹ کام کرتے رہے۔
ہندوستان میں تحقیق کے دوران سلیم الزماں نے ہندوستانی پودہ سرپاگندھا ﴿Rauvolfiaserpentina﴾ سے ایک دوا بنائی جس کا نام انھوں نے حکیم اجمل کی یاد میں اجملین رکھا۔ اس کا کیمیائی فارمولا (C21H24N2O3)ہے۔ یہ دل کی غیر منظم دھڑکنوں (ARRYTHMIA) کا علاج کرتی ہے۔ انھوں نے نیم کے درخت، اس کی چھال اور اس کے پھل یعنی نمکوری پر تحقیق کی۔ انھوں نے نیم کے تیل سے تین دوائیں بنائیں اور انکا نام نیمبین، نیمبیدین اور نیمبینین رکھا۔ انھوں نے بتا یا کہ نیمبیدین میں جراثیم کُش اثرات ہوتے ہیں، اس طرح سے ان کی تحقیق نے پہلی بار یونانی اور آیورویدک طب کو جدید کیمسٹری میں متعارف کروایا۔ 1961ء میں وہ رائل سوسائٹی کے ارکان منتخب ہوئے۔ سوویٹ اکیڈمی آف سائنس نے ان کو ایک گولڈ میڈل دیا۔ ا ور حکومت برطانیہ نے 1946ء میں ان کو او۔ بی۔ ای۔ کا خطاب دیا۔ پاکستان میں سلیم الزماں کی خدمات کوبہت سراہا گیا۔ 1953ء میں وہ پاکستان اکیڈمی آف سائنس کے فیلو قرار پائے۔ 1958ء میں ان کو تمغۂ پاکستان ملا۔ 1962ء میں ان کو ستارۂ امتیاز ملا۔ 1966ء میں ان کو صدر پاکستان کا امتیازی انعام صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی دیا گیا۔ 1980ء میں ان کو ہلال امتیاز ملا۔ سلیم الزماں صدیقی تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنس کے اساسی رکن بھی رہے۔ ان کی پانچویں برسی پر پاکستان پوسٹ نے انکا یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ یہ قراردادِ پاکستان کی حمایت کرنے والے چوہدری خلیق الزماں صدیقی کے چھوٹے بھائی تھے۔
ان کے مطابق ہرمل نامی جڑی بوٹی میں غالباٗ بارہ فیصد تک بے رنگ بے بو اور بے ذائقہ خوردنی آئل ہوتا ہے جس پر اگر کام کیا جائے تو ہماری مارکیٹ کی ضرورت بہت حد تک پوری ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹرعطاءالرحمِن جب پی ایچ ڈی کے لیے باہر جانا چاہتے تھے تو ان کی یونیورسٹی نے شرط رکھی تھی کہ اگر وہ ڈاکٹر صدیقی سے لیٹر لکھوا لائیں تو ان کو داخلہ دے دیا جائے گا۔ بعد ازاں ڈاکٹر عطاالرحمان انہی کے قائم کردہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
چاند یا چھوٹی چندن نامی بوٹی سے انھوں نے متعدد الکلائڈ دریافت کیے ۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک الکلائڈ کا نام اجملین رکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس وقت وہ حکیم اجمل خان کی لیبارٹری میں ہی تحقیق کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ چھوٹی چندن کا بایولوجیکل نام راولفیا ہے۔ ۔۔۔۔ اس کے علاوہ انھوں نے نیم پر بھی قابل قدر تحقیق کی۔ اجملین اور آئسو اجملین جیسے الکلائڈ امراض قلب خصوصاً Arrhythmia کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر الکلائڈ ذہنی امراض کے علاج میں کارآمد ہیں۔ نیم کے پتوں، چھال اور جڑوں سے انھوں نے 50 سے زائد دریافتیں کیں اور انھیں پیٹنٹ کرایا۔ یہ دریافتیں، بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور کیڑوں کے خلاف موثر پائی گئیں
عہدے اور اعزازت
- کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ " 1927ء جرمنی
ریسرچ سائنٹسٹ، انڈین کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ 1940ء
- ڈائریکٹر نیشنل کیمیکل لیبارٹریز ، انڈیا، فروری 1947ء
پاکستان آمد : 1951ء (لیاقت علی خان کی دعوت پر)
- بانی، ڈائریکٹر، صدر ۔۔۔۔ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ : 1953ء تا 1966ء
- بانی پاکستان اکیڈمی آف سائنسز 1953ء
- ممبر ٹیکنیکل، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن 1956ء
- پروفیسر اینڈ ڈائریکٹر ریسرچ، کراچی یونیورسٹی 1966ء
- بانی حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری
- فیلو رائل سوسائٹی آف لندن 1961ء
- ممبر ویٹی کن اکیڈمی آف سائنس 1964ء
- سوویت اکیڈمی آف سائنسز سے گولڈ میڈل
- لیڈز یونیورسٹی برطانیہ سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 1967ء
- کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 1967ء
- برطانوی حکومت کی جانب سے "ایم بی ای" کا اعزاز 1964ء
- حکومت پاکستان سے ستارہ امتیاز 1962،
- صدارتی تمغا 1966،
- ہلال امتیاز 1980ء
- بانی رکن، تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز 1983ء
شاعر اور فنکار
سائنس دان ہونے کے علاوہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک اچھے شاعر، موسیقار اور مصور بھی تھے۔ 1924ء اور 1927ء میں ان کی پینٹنگز کی نمائشیں فرینکفرٹ جرمنی میں ہوئیں۔ ان کا کیا ہوا جرمن شاعری کا اردو ترجمہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مجلے میں بھی شائع ہوا۔ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کراچی کے قیام میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔
وفات
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا انتقال 14 اپریل 1994ء کو کراچی میں ہوا اور انھیں کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
مزید دیکھیے
- اس صفحہ ”سلیم الزماں صدیقی“ کے تبادلہ خیال پر بھی اہم معلومات موجود ہیں۔ پڑھنے کےلیے تبادلۂ خیال:سلیم الزماں صدیقی پر کلک کریں۔