سوچیتا کرپلانی
سوچیتا کرپلانی (انگریزی: Sucheta Kriplani) (قبل از شادی: مجُمدار، 25 جون، 1908ء[5] – یکم دسمبر 1974ء[6][7]) ایک بھارت کی مجاہد آزادی اور سیاست دان تھیں۔ وہ بھارت کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ تھیں۔ انھوں نے 1963ء سے 1967ء کے بیچ اتر پردیش میں حکومت کی قیادت کی تھی۔
سوچیتا کرپلانی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
چوتھی اتر پردیش کی وزیر اعلٰی | |||||||
مدت منصب 2 اکتوبر 1963 – 13 مارچ 1967 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 25 جون 1908ء انبالہ |
||||||
وفات | 1 دسمبر 1974ء (66 سال) نئی دہلی |
||||||
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
||||||
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس | ||||||
رکنیت | نیشنل فلیگ پریزنٹیشن کمیٹی [1] | ||||||
شریک حیات | اچاریہ کرپلانی [2] | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | دہلی یونیورسٹی اندر پرستھ کالج برائے نسواں، دہلی [3] |
||||||
پیشہ | سیاست دان ، حریت پسند | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [4] | ||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمسوچیتا کی پیدائش امبالہ، پنجاب (اب ہریانہ میں) ایک بنگالی برہمو خاندان میں ہوئی۔ انھوں نے اندراپرستھ کالج [8] اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں دستوری تاریخ کی پروفیسر بنی۔[9] 1936ء میں وہ آچاریہ کرپلانی سے شادی کی جو ان سے بیس سال بڑے تھے اور انڈین نیشنل کانگریس کے قائد تھے۔ اس شادی سے دونوں خاندان اور خود موہن داس گاندھی ناخوش تھے، حالانکہ وہ بعد میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے۔[10]
تحریک آزادی اور آزادی کا دور
ترمیماپنے معاصر ارونا آصف علی اور اوشا مہتا کی طرح ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں پیش پیش تھی۔ بعد میں مہاتما گاندھی کے ساتھ قریب سے تقسیم ہند کے دوران ہوئے فرقہ وارانہ دنگوں کو روکنے کا کام کیاوہ گاندھی کی مصاحبت میں نواکھالی ضلع کا 1946ء میں دورا کیا۔۔ وہ دستورساز مجلس کے لیے چنی گئی گنی چنی خواتین میں سے ایک تھیں۔ 14 اگست 1947ء کے دن انھوں نے دستور ساز مجلس کے افتتاحی اجلاس میں وندے ماترم گایا، جس کے فوری بعد جواہر لال نہرو نے اپنی مشہور ٹریسٹ ویدھ ڈیسٹینی تقریر کی۔[11] وہ آل انڈیا مہیلا کانگریس کی بانی بھی تھیں جو 1940ء میں وجود میں آیا۔
مابعد آزادی
ترمیمآزادی کے بعد سوچیتا کرپلانی سیاست سے جڑی رہیں۔ پہلے لوک سبھا انتخابات 1952ء میں وہ نئی دہلی سے کے ایم پی پی ٹکٹ پر لڑیں جو ان کے شوہر کی قائم مختصر مدت کی جماعت تھی جس کی پچھلے سال تاسیس ہوئی تھی۔ وہ کانگریس امیدوار منموہنی سہگل کو شکست دے کر کامیاب ہوئیں۔ پانچ سال کے بعد، وہ اسی حلقے سے پھر منتخب ہوئیں، مگر اس بار ایک کانگریسی امیدوار کے طور پر۔[12] وہ لوک سبھا کے لیے ایک آخری بار 1967ء میں گونڈ حلقے سے اترپردیش میں منتخب ہوئیں۔
اس اثنا وہ اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کی رکن بھی بن چکی تھیں۔ 1960ء سے 1963ء تک سوچیتا وزیر برائے مزدوری، سماجی بہبود اور صنعت، اترپردیش حکومت بنی۔[9] اکتوبر 1963ء میں وہ اتر پردیش کی وزیر اعلی بنی۔ یہ پہلی خاتون تھی جو یہ مقام کسی بھارتی ریاست کے لیے رکھی ہوں۔ ان کے دور کی خصوصیت ملازمین کی ہڑتال کو سختی سے نمٹنا تھا۔ ریاستی ملازمین کی جانب سے پہلی بار ہونے والی ہڑتال 62 دنوں تک سوچیتا کے دور میں ہی ہوئی۔ انھوں نے نرمی صرف اسی وقت دکھائی جب ہڑتالی ملازمین کے قائدین مصالحت کی کے لیے راضی ہوئے۔ وہ ایک سخت گیر منتظم کے طور پر اپنی شہرت کو برقرار رکھتے ہوئے اجرتوں میں اضافے کے مطالبے کو ٹھکرا دیا۔
وہ سیاست سے 1971ء میں کنارہ کشی اختیار اور 1974ء میں اپنے انتقال تک زاویہ نشینی کی زندگی جی رہی تھیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ http://164.100.47.194/Loksabha/Debates/cadebatefiles/C14081947.html
- ↑ http://thesindhuworld.com/sucheta-kriplani/ — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2018
- ↑ https://www.indiatoday.in/magazine/cover-story/story/20010521-vital-statistics-of-colleges-that-figure-among-indias-top-rankers-776173-2001-05-21 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2018
- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/176495487 — اخذ شدہ بتاریخ: 6 مارچ 2020
- ↑ S K Sharma (2004)، Eminent Indian Freedom Fighters، Anmol Publications PVT. LTD.، صفحہ: 560، ISBN 978-81-261-1890-8[مردہ ربط]
- ↑ http://www.sandesh.org/Story_detail.asp?pageID=1&id=48
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 02 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2017
- ↑ "Vital statistics of colleges that figure among India's top rankers"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 21 May 2001۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2017
- ^ ا ب "Kripalani, Shrimati Sucheta"۔ Lok Sabha۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جون 2012
- ↑ Usha Thakkar, Jayshree Mehta (2011)۔ Understanding Gandhi: Gandhians in Conversation with Fred J Blum۔ SAGE Publications۔ ص 409–410۔ ISBN:978-81-321-0557-2
- ↑ "Constituent Assembly of India - Volume-V"۔ Parliament of India۔ 14 August 1947۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2016
- ↑ David Gilmartin (2014)۔ "Chapter 5: The paradox of patronage and the people's sovereignty"۔ في Anastasia Pivliavsky (المحرر)۔ Patronage as Politics in South Asia۔ Cambridge University Press۔ ص 151–152۔ ISBN:978-1-107-05608-4