محمد شاہد سہارنپوری

ہندوستانی عالم دین، مصنف اور مؤرخ

سید محمد شاہد الحسنی سہارنپوری (5 جنوری 1951–6 اکتوبر 2023ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین، مصنف اور مؤرخ تھے۔ انھوں نے 1993ء سے تا وفات تقریباً تیس سال جامعہ مظاہر علوم (جدید) سہارنپور کے امین عام کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

سید محمد شاہد الحسنی سہارنپوری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام سید محمد شاہد
محمد خضر
پیدائش 5 جنوری 1951ء
سہارنپور، اتر پردیش
وفات 6 اکتوبر 2023(2023-10-06) (عمر  72 سال)
سہارنپور، اتر پردیش
قومیت ہندوستانی
زوجہ صادقہ خاتون (شادی. 1969; وفات. 2020)
رشتے دار محمد زکریا کاندھلوی (نانا)
محمد طلحہ کاندھلوی (ماموں)
محمد سلمان مظاہری (خالو)
انعام الحسن کاندھلوی (سسر)
زبیر الحسن کاندھلوی (برادر نسبتی)
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ مظاہر علوم سہارنپور
پیشہ استاذ، مصنف، کالم نگار، مؤرخ
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

سید محمد شاہد الحسنی سہارنپوری کی ولادت 26 ربیع الاول 1370ھ مطابق 5 جنوری 1951ء کو شہر سہارنپور میں اپنے نانا محمد زکریا کاندھلوی کے دولت کدے پر ہوئی۔ ان کے والد سید محمد الیاس (متوفی: 1438ھ م 2017ء) حافظ قرآن اور دو واسطوں سے سید احمد شہید بریلوی کے خلیفہ و مجاز سید احمد حسین کے فرزند تھے۔ نیز ان کی والدہ شاہدہ خاتون (متوفی: 1430ھ م 2009ء) محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی کی پہلی زوجہ سے پانچویں اور آخری بیٹی تھیں۔[1]

ان کے ناظرہ پارہ عم کا آغاز 19 ذی الحجہ 1375ھ مطابق 28 جولائی 1956ء کو خانقاہ قادریہ رائے پور میں شاہ عبد القادر رائے پوری کے پاس ہوا، نیز ان کے اور زبیر الحسن کاندھلوی کے حفظ و ناظرہ کے ایک مستقل استاذ مقرر تھے،[2] جن کے پاس انھوں نے محض تین سال اور آٹھ ماہ کے عرصے میں بہ عمر دس سال حفظ قرآن کی تکمیل کی اور 28 شعبان 1379ھ مطابق 26 فروری 1960ء کو محمد یوسف کاندھلوی کے ذریعے حفظ قرآن کی تکمیل ہوئی۔[3][4]

انھوں نے ہدایۃ النحو اور کافیہ تک کی عربی و فارسی کی کتابیں مدرسے سے الگ گھر ہی پر مدرسہ مظاہر علوم کے ایک قدیم استاذ محمد یامین سہارنپوری سے پڑھیں،[5] ہدایۃ النحو، کافیہ اور نور الایضاح تک خارج مدرسہ پڑھنے کے بعد 15 شوال 1385ھ مطابق 6 فروری 1966ء کو مظاہر علوم میں باضابطہ داخلہ لے کر قطبی تصدیقات، اصول الشاشی، شرح وقایہ وغیرہ سے تعلیم کا آغاز کیا اور شوال 1389ھ مطابق دسمبر 1969ء میں دورۂ حدیث میں داخل ہو کر شعبان 1390ھ مطابق اکتوبر 1970ء میں درس نظامی سے فارغ التحصیل ہوئے۔[4][6]

انھوں نے بخاری و مسلم محمد یونس جونپوری سے، ابو داؤد و نسائی محمد عاقل سہارنپوری سے، ترمذی مظفر حسین اجراڑوی سے اور طحاوی اسعد اللہ رامپوری و مظفر حسین اجراڑوی سے پڑھی۔[7]

ان کے خصوصی رفقائے درس میں محمد زبیر الحسن کاندھلوی، نور الحسن راشد کاندھلوی، حبیب اللہ مدنی چمپارنی، وسیم احمد سنسار پوری، ثمیر الدین پورنوری، ثناء اللہ مظاہری (ہزاری باغ، جھارکھنڈ)، ظہیر انور بستوی اور عبد القادر احمد آبادی شامل ہیں۔[8]

دورۂ حدیث سے تکمیل کے بعد انھوں نے شوال 1390 تا شعبان 1391ھ مطابق دسمبر 1970 تا اکتوبر 1971ء مظاہر علوم ہی میں رہ کر شعبۂ تکمیل علوم و فنون میں داخلہ لے کر بیضاوی شریف، تفسیر مدارک، در مختار، ملاحسن، دیوان متنبی جیسی کتابیں پڑھیں۔[9]

تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے اپنے نانا محمد زکریا کاندھلوی ہی کے ہاتھوں پر بیعت کرکے انھی کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہو گئے[10] اور انھیں کے خلیفہ و مُجازِ بیعت بھی ہوئے۔[11]

تدریسی و عملی زندگی

ترمیم

شوال 1390ھ مطابق دسمبر 1970ء میں انھوں نے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا[4] اور مختلف زمانوں میں مرقات، مفید الطالبین، نفحۃ الیمن، تہذیب، شرح تہذیب، نور الایضاح اور ترجمۂ قرآن کے اسباق ان سے متعلق رہے۔[12][13][14]

بعد میں چل کر 26 شوال 1408ھ مطابق 11 جون 1988ء کو انھیں جامعہ مظاہر علوم (جدید) سہارنپور کی مجلس شوریٰ کا رکن منتخب کیا گیا، پھر 6 شوال 1413ھ مطابق 30 مارچ 1993ء سے تا وفات یعنی 20 ربیع الاول 1445ھ مطابق 6 اکتوبر 2023ء ساڑھے تیس انھوں نے جامعہ مظاہر علوم (جدید) کے امینِ عام کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[15] اس کے علاوہ وہ ماہنامہ یادگار شیخ سہارنپور کے بانی و مدیر، مدرسۃ الشیخ محمد زکریا لتحفیظ القرآن الکریم سہارنپور کے ناظم اور شیخ محمد زکریا صدیقی مہاجر مدنی ٹرسٹ سہارنپور کے بانی تھے۔[16]

قلمی زندگی

ترمیم

سید محمد شاہد سہارنپوری کو بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا ذوق تھا، محمد زکریا کاندھلوی نے اپنی اولین تالیف ”تاریخ مظاہر علوم“ کا ناتمام اور غیر مکمل مسودہ انھیں یہ کہ کر عنایت کیا تھا کہ اس کی تکمیل کرو۔[15]

ایک دفعہ شیخ نے فرمایا:[17]

”میں نے 1335ھ میں مظاہر علوم سے فراغت کے بعد تاریخ مظاہر اور تاریخ مشائخ چشت لکھنی شروع کی تھی؛ لیکن پھر بعد میں اوجز المسالک اور لامع الدراری وغیرہ کی وجہ سے یہ دونوں کتابیں ناقص رہ گئیں؛ اب تو ان کی تکمیل کر دے۔“

ابو الحسن علی حسنی ندوی نے آج سے چالیس سال قبل یعنی 1982ء میں موصوف سے متعلق یہ جملے رقم فرمائے تھے:[18]

...محمد شاہد... مظاہری ممتاز ہیں۔ وہ جید عالم، رواں قلم مصنف اور علمی و تحقیقی ذوق رکھنے والے نوجوان فاضل ہیں۔ ”مکتوبات علمیہ“ اور ”علمائے مظاہر علوم اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات“ اور ”تاریخ مظاہر العلوم“ (جلد دوم) وغیرہ ان کے تصنیفی ذوق اور قلم کی روانی کے شاہد ہیں۔ حضرت شیخ (محمد زکریا کاندھلوی) کی ان پر خاص شفقت تھی، اور انھیں کی توجہ اور محنت سے شیخ کے کئی قلمی مسودات اور خطوط کے مجموعے منظر عام پر آئے۔[18]

آل انڈیا تنظیم علمائے حق، دہلی کے قومی صدر محمد اعجاز عرفی سنہ 2022ء میں یوں رقم طراز ہوئے تھے:[19]

جس طرح.... قاری محمد طیب نے ایک زمانے میں دار العلوم دیوبند کو عرب و عجم میں متعارف کرانے اور اس کو عالم گیر ادارہ بنانے کی مہم چھیڑی تھی، ٹھیک اسی طرح مولانا سید شاہد ... نے بھی مظاہر علوم کی خدمات اور اس کے تعلیمی اور تبلیغی ابعاد کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے، وہ جہاں جاتے ہیں، بس ایک ہی غم اور ایک ہی درد کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا مظاہر علوم ہے۔[19]

تصانیف

ترمیم

سید محمد شاہد سہارنپوری کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں بھی شامل ہیں:[20][16][21]

  • تقریر بخاری شریف (چھ جلدوں میں شیخ محمد زکریا کاندھلوی کے افادات بخاری کا مجموعہ)
  • تاریخ مظاہر (شیخ کی تصنیف کردہ جلد اول کی ترتیب و تکمیل کے ساتھ جلد دوم کی شکل میں تکملہ)
  • تاریخ مشائخ چشت (شیخ کی کتاب کی تکمیل و ترتیب)
  • مکتوبات علمیہ (شیخ کے علمی و تحقیقی خطوط کی جمع و ترتیب)
  • مکتوبات شیخ (تین جلدوں میں شیخ کے گراں قدر مکتوبات کا مجموعہ، جو مکتوبات تصوف کے نام سے بھی معروف ہے۔)
  • کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات (مصنفِ فضائل اعمال ہی کے رقم کردہ جوابات کی ترتیب و تدوین)
  • اکابر کے خطوط (خلیل احمد مہاجر مدنی، عبد الرحیم رائے پوری، حسین احمد مدنی، عبد القادر رائے پوری، محمد الیاس کاندھلوی اور محمد یوسف کاندھلوی کے منتخب اکیاسی خطوط کا مجموعہ)
  • جامعہ مظاہر علوم اہل کمال کی نظر میں (اردو، انگریزی)
  • آئینہ مظاہر علوم
  • علمائے مظاہر علوم اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات (چار جلدیں)
  • مقدمہ فتاویٰ خلیلیہ
  • معارف شیخ (شیخ کے علمی علمی افادات و معارف کا مجموعہ)
  • کچھ قیامتیں، کچھ وضاحتیں (مظاہر میں ہنگامے کے زمانے میں لکھی گئی وضاحتی کتاب)
  • مجلس شوریٰ سرپرستان مظاہر علوم سہارنپور، واقعات اور نظائر کی روشنی میں
  • فہرست تالیفات شیخ (3 جلدیں)
  • تذکرہ دانشوران سہارنپور
  • سوانح حضرت جی ثالث مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی (3 جلدیں) اردو، عربی
  • دعوت کی بصیرت اور اس کا فہم و ادراک (ارود، عربی، انگریزی، فارسی، ہندی، بنگلہ، گجراتی، تامل)
  • حضرت شیخ کے حیرت انگیز واقعات
  • حیات مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی
  • حیات شیخ (4 جلدیں)
  • حضرت شیخ کی تین [مرحومہ] صاحبزادیاں (اردو، انگریزی، گجراتی)
  • رشحاتِ قلم (صغیر احمد لاہوری کے ساتھ مشترکہ طور پر ان کتابوں کا تذکرہ؛ جو شیخ نے لکھیں یا ان کے ایما سے لکھی گئیں)
  • تخصص حدیث شریف (مظاہر علوم جدید میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کے قیام کے لیے پیش کی گئی ان کی تجویز)
  • احوال و آثار مولانا محمد زبیر الحسن کاندھلوی[22]
  • تحریک آزادی ہند اور جامعہ مظاہرعلوم (چار جلدوں میں)[23][24]
  • حیاتِ مستعار (تین جلدوں میں خود نوشت)[25]
  • خلافت عثمانیہ کی بقاء میں علما مظاہر علوم کا کردار[26]
  • حضرت جی ثالث کی وفات اور فتنوں کی برسات

ذاتی زندگی

ترمیم

25 شوال 1388ھ مطابق 15 جنوری 1969ء کو، محمد زکریا کاندھلوی نے محمد انعام الحسن کاندھلوی سے مشورے کے بعد موصوف کے جلالین کے سال ہی ان کا عقد مسنون مہر فاطمی پر ان کے رفیق درس محمد زبیر الحسن کاندھلوی کی ہمشیرہ صادقہ خاتون (متوفی: 7 اگست 2020ء[27]) سے کر دیا اور موصوف کی ہمشیرہ طاہرہ خاتون کا عقد مسنون محمد زبیر الحسن کاندھلوی کے ساتھ اسی مجلس میں کر دیا[28] اور دورۂ حدیث سے تکمیل کے بعد 25 شعبان 1390ھ مطابق 27 اکتوبر 1970ء میں ان دونوں کی ازواج کی رخصتی ہو گئی۔[29]

ان سے ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں:

  • سید محمد صالح الحسنی مظاہری (پیدائش: 1976ء) عالم و مفتی اور جامعہ مظاہر علوم جدید کے استاذ و نائب ناظم ہیں،[30] نیز اپنے والد کی وفات کے بعد ان کی جگہ عارضی طور پر مظاہر علوم جدید کے امین عام منتخب کیے گئے ہیں۔[31]
  • سید محمد یاسر الحسنی مظاہری (پیدائش: 1984ء) عالم دین، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی اے کے سند یافتہ اور والد کے قائم کردہ مدرسۃ الشیخ محمد زکریا لتحفیظ القرآن الکریم، سہارنپور کے ناظم ہیں۔[32]
  • سیدہ عائشہ صدیقہ (پیدائش: 1972ء) دینی و مذہبی تعلیم یافتہ اور محمد عثمان بن محمد سلمان مظاہری سے منسوب ہیں۔[33]
  • سیدہ سودہ (پیدائش: 1977ء) دینی تعلیم یافتہ اور زہیر الحسن بن زبیر الحسن کاندھلوی سے منسوب ہیں۔[34]
  • سیدہ سمیہ (پیدائش: 1979ء) دینی تعلیم یافتہ اور سید محمد طارق بن سید محمد خالد سہارنپوری سے منسوب ہیں۔[34]

وفات

ترمیم

سید محمد شاہد سہارنپوری کا انتقال 20 ربیع الاول 1445ھ مطابق 6 اکتوبر 2023ء بہ روز جمعہ قبیل مغرب سہارنپور میں ہوا[35][36][37][38][39] اور آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

حوالہ جات

ترمیم

مآخذ

ترمیم
  1. سہارنپوری 2022, pp. 30–34.
  2. سہارنپوری 2022, pp. 35–36.
  3. سہارنپوری 2022, p. 38.
  4. ^ ا ب پ شاہد سہارنپوری 2005, p. 225.
  5. سہارنپوری 2022, p. 51.
  6. سہارنپوری 2022, p. 79، 143.
  7. سہارنپوری 2022, p. 143.
  8. سہارنپوری 2022, pp. 146–149.
  9. سہارنپوری 2022, p. 167.
  10. سہارنپوری 2022, p. 168.
  11. محمد زکریا کاندھلوی (2002ء)۔ "فہرست خلفاء و مجازین حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی"۔ آپ بیتی (جلد اول)۔ دیوبند: دار الکتاب۔ صفحہ: 309 
  12. سہارنپوری 2022, p. 207.
  13. سہارنپوری 2021, pp. 90، 197، 384.
  14. سہارنپوری 2023, p. 174.
  15. ^ ا ب شاہد سہارنپوری 2005, p. 226.
  16. ^ ا ب سید محمد شاہد سہارنپوری (2005)۔ علمائے مظاہر علوم سہارنپور اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات (جلد اول) (دوسرا ایڈیشن)۔ محلہ مبارک شاہ، سہارنپور: مکتبہ یادگار شیخ۔ صفحہ: 385 
  17. سہارنپوری 2022, p. 221.
  18. ^ ا ب ابو الحسن علی حسنی ندوی (دسمبر 1982ء)۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب (پہلا ایڈیشن)۔ 37 – گوئن روڈ، لکھنؤ: مکتبۂ اسلام۔ صفحہ: 188 
  19. ^ ا ب اسعد مختار، احسن مہتاب، مدیران (1–15جنوری 2022)۔ "بیاد اکابر دار العلوم دیوبند (جلد دوم؛ مولانا سید شاہد سہارنپوری کے زرنگار قلم کا تاریخی کرشمہ "تحریک آزادی ہند اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور" ایک مختصر جائزہ: محمد اعجاز عرفی قاسمی)"۔ فکر انقلاب۔ دہلی: آل انڈیا تنظیم علماء حق۔ 10 (228): 950 
  20. شاہد سہارنپوری 2005, pp. 225–236.
  21. ابن الحسن عباسی (اکتوبر 2020ء)۔ "بیان میرے مطالعے کا: مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری"۔ یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ (پہلا ایڈیشن)۔ کراچی: مجلس تراث الاسلام۔ صفحہ: 142–152 
  22. سہارنپوری 2022, p. 146.
  23. پروفیسر اختر الواسع (15 اگست 2022ء)۔ "جامعہ مظاہر علوم کی خدمات: آزادی کے امرت مہوتسو کے حوالے سے"۔ آواز: دی وائس۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2023ء 
  24. شمس تبریز (28 اکتوبر 2019ء)۔ "مولانا شاہد سہارنپوری نے جامعہ مظاہرعلوم کی خدمات کا ایک نیا باب دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ نامور علما کے ہاتھوں "تحریک آزادی ہند اور جامعہ مظاہر علوم" کتاب کا اجرا"۔ ملت ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2023ء 
  25. سمیر چودھری (16 نومبر 2022ء)۔ "مولانا شاہد الحسنی کی خود نوشت سوانح حیاتِ مستعار کا نامور علماء و دانشوران کے ہاتھوں افتتاح"۔ www.baseeratonline.com۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2023ء 
  26. توقیر احمد قاسمی (7 اکتوبر 2023ء)۔ "مولانا سید محمد شاہد صاحب الحسنی سہارنپوری سے وابستہ یادیں"۔ ملت ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اکتوبر 2023ء 
  27. "حليلة الشيخ شاهد الحسني إلى ذمة الله تعالى" (بزبان عربی)۔ مجلۃ البعث الاسلامی۔ 15 ستمبر 2020ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2023ء 
  28. سہارنپوری 2022, p. 110.
  29. سہارنپوری 2022, p. 145.
  30. سہارنپوری 2021, pp. 27–31.
  31. سمیر چودھری (9 اکتوبر 2023ء)۔ "مفتی سید محمد صالح مظاہرعلوم سہارنپور کے امین عام مقرر"۔ www.deobandtimes.com۔ دیوبند ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 نومبر 2023ء 
  32. سہارنپوری 2023, pp. 389–393.
  33. سہارنپوری 2022, pp. 213–214.
  34. ^ ا ب سہارنپوری 2021, pp. 107–108.
  35. "معروف عالم دین ،جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے امینِ عام مولانا محمد شاہد سہارنپوری کا انتقال"۔ قندیل آن لائن۔ 6 اکتوبر 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2023ء 
  36. "مولانا سیدمحمد شاہد سہارنپوری سچے عاشق رسول تھے"۔ روزنامہ پاکستان۔ 7 اکتوبر 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2023ء 
  37. ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی (6 اکتوبر 2023ء)۔ "حیاتِ مستعار لکھنے والے کا قلم رک گیا"۔ jahazimedia.com۔ جہازی میڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2023ء 
  38. "مولانا شاہد مظاہری امین عام مظاہر علوم سہارنپور کا سانحہ ارتحال"۔ عصر حاضر۔ 6 اکتوبر 2023ء۔ 07 اکتوبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2023ء 
  39. "مولانا زکریا کاندھلوی کے نواسے مولانا شاہد سہارنپوی کے انتقال پر اظہار تعزیت"۔ اردو پوائنٹ۔ 7 اکتوبر 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اکتوبر 2023 

کتابیات

ترمیم
  • سید محمد شاہد سہارنپوری (2022)۔ حیات مستعار (خود نوشت؛ جلد اول) (پہلا ایڈیشن)۔ محلہ مبارک شاہ، سہارنپور: مکتبہ یادگار شیخ 
  • سید محمد شاہد سہارنپوری (2021)۔ حیات مستعار (خود نوشت؛ جلد دوم) (پہلا ایڈیشن)۔ محلہ مبارک شاہ، سہارنپور: مکتبہ یادگار شیخ 
  • سید محمد شاہد سہارنپوری (2023)۔ حیات مستعار (خود نوشت؛ جلد سوم) (پہلا ایڈیشن)۔ محلہ مبارک شاہ، سہارنپور: مکتبہ یادگار شیخ 
  • سید محمد شاہد سہارنپوری (2005)۔ علمائے مظاہر علوم سہارنپور اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات (جلد سوم) (دوسرا ایڈیشن)۔ محلہ مبارک شاہ، سہارنپور: مکتبہ یادگار شیخ 

مزید تذکرہ

ترمیم