قلعہ لاہور
31°35′25″N 74°18′35″E / 31.59028°N 74.30972°E
UNESCO World Heritage Site | |
---|---|
اہلیت | ثقافتی: i, ii, iii |
حوالہ | 171 |
کندہ کاری | 1981 (پانچواں دور) |
خطرے کی زد میں | 2000–تا حال |
قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605ء-1556ء) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔[1] قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
تاریخ
ترمیمقلعہ لاہور کی تعمیر کے حوالے سے مختلف مبہم اور روایتی حکایات موجود ہیں۔[2] تاہم 1959ء کی کھدائی کے دوران میں جو محکمہء آثارِ قدیمہ نے دیوان عام کے سامنے کی، جس میں محمود غزنوی 1025ء کے دور کا سونے کا سکہ ملا۔ جو باغیچہ کی زمین سے تقریباً 62۔7 میٹر گہرائی میں ملا۔ جبکہ پانچ میٹر کی مزید کھدائی سے ملنے والے قوی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً 1021ء میں موجود تھی۔[3] مزید برآں یہ کہ اس قلعہ کی نشانیاں شہاب الدین غوری کے دور سے بھی ملتی ہیں، جب اُس نے 1180ء تا 1186ء لاہور پر حملے کیے تھے۔
قلعہ لاہور کی عمارات
ترمیمذواربعہ شاہ برج کی عمارات
ترمیممصور دیوار
ترمیمکالا برج
ترمیماحاطہ شاہجہانی کی عمارات
ترمیمدیوان خاص شاہجہانی
ترمیمموتی مسجد
ترمیمقلعہ لاہور کے دروازے
ترمیمعالمگیری دروازہ
ترمیمعالمگیری دروازہ قلعہ کا مرکزی داخلی دروازہ ہے۔ یہ دروازہ لاہور کی بادشاہی مسجد کے مشرق میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کروایا۔ اس دروازے کے مرکزی دروازے کو انتہائی اونچا اور نہایت وسیع و عریض بنایا گیا تھا، جو خاص شاہی فوج میں شامل ہاتھیوں کی گذرگاہ کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ اس دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک چوکور ہال مشرقی جانب جبکہ اوپری منزلوں پر جانے کے لیے سیڑھیاں تعمیر کروائی گئی تھیں۔ آگے بڑھتے ہوئے جنوب کی جانب اس داخلی دروازے کا راستہ قلعے کے اندرونی حصوں کی طرف جاتا ہے۔
ناگ مندر
ترمیمحویلی مائی جنداں
ترمیم- مزید پڑھیں: مہارانی جند کور، مہارانی چاند کور
حویلی مائی جنداں سکھ سلطنت کے آخری مہاراجا دلیپ سنگھ کے عہد میں تعمیر کی گئی تھی۔ امتداد زمانہ کے باعث یہ حویلی موجود نہیں رہی اور اب اِس کے مقام کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حویلی دو منزلہ تھی جہاں مہارانی چاند کور کو قتل کر دیا گیا تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ وہی عمارت ہے جس میں اب سکھ سلطنت کے نوادرات رکھے گئے ہیں اور سکھ گیلری کے نام سے مشہور ہے۔
قلعہ لاہور وقت کے تناظر میں
ترمیمیہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ قلعہ لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہو چکی ہیں، شاید ہمیشہ کے لیے، تاہم محکمہء آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشارات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1025ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
- 1241ء - منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
- 1267ء - سلطان غیاث الدین بلبن نے دوبارہ تعمیر کرایا۔
- 1398ء - امیر تیمور کی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
- 1421ء - سلطان مبارک شاہ سید نے مٹی سے دوبارہ تعمیرکروایا۔
- 1432ء - قلعے پر کابل کے شیخ علی کا قبضہ ہو گیا اور اُس نے قلعے کو شیخا کھوکھر کے تسلط کے دوران میں پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی مرمت کروائی۔
- 1566ء - مغل فرمانروا اکبر نے پکی اینٹوں کی کاریگری سے، اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کروائی اور شاید اسی وقت اس کو دریائے راوی کی سمت وسعت دی۔ (تقریباً 1849ء تک راوی قلعہ لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔) اکبر نے ’’دولت کدہ خاص و عام‘‘ بھی تعمیر کروایا جو ’’جھروکہء درشن‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ مسجد دروازہ وغیرہ بھی بنوایا۔
- 1618ء - جہانگیر نے ’’دولت کدہ جہانگیر‘‘ کا اضافہ کیا۔
- 1631ء - شاہجہاں نے شیش محل تعمیر کروایا۔
- 1633ء - شاہجہاں نے ’’خوابگاہ‘‘، ’’حمام‘‘، ’’خلوت خانہ‘‘ اور ’’موتی مسجد‘‘ تعمیر کروائی۔[4]
- 1645ء - شاہجہاں نے “دیوان خاص“ تعمیر کروایا۔
- 1674ء - اورنگزیب نے انتہائی جسیم عالمگیری دروازہ لگوایا۔
- 1799ء یا 1839ء - اس دوران میں شمالی فصیل جو کھائی کے ساتھ واقع ہے، سنگ مرمر کا ’’ہتھ ڈیرہ‘‘، ’’حویلی مائی جنداں‘‘، ’’بارہ دری راجا دھیاں سنگھ‘‘ کی تعمیر رنجیت سنگھ نے کرائی، ایک سکھ حکمراں جو 1799ء تا 1839ء تک حاکم رہا۔
- 1846ء - برطانیہ کا قبضہ
- 1927ء - قلعے کی جنوبی فصیل کو منہدم کرکے، اس کی مضبوط قلعے کی حیثیت کو ختم کرکے اسے برطانیہ نے محکمہء آثارِ قدیمہ کو سونپ دیا۔
- ایک روایت میں کہا جاتا ہے کے قلعے کو سلطان محمود غزنوی کی طرف سے متعین کردہ گورنر لاہور ملک ایاز نے تعمیر کروایا تھا۔ [حوالہ درکار]
قلعہ لاہور کی دیدہ زیب تصاویر
ترمیمقلعہ لاہور کی تصاویر جو اس کی شان و شوکت اور جاہ و حشم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
-
عالمگیری دروازہ (مرکزی داخلی راستہ)
-
رام پارٹس دروازہ
-
قلعے کے اندرونی حصے میں واقع پرانی خانہ گاہ
-
روشنی دروازہ - ایک اور داخلی راستہ
-
نولکھا
-
نولکھا، اندرونی منظر
-
جھروکہ “دیوان عام“
-
عالمگیری دروازہ - 1870ء
-
دیوان خاص
-
نولکھا، ایک اور منظر
تعمیری ڈھانچہ
ترمیممغلیہ سلطنت میں کابل، ملتان اور کشمیر کے فرمائرواؤں کے حملے کے پیشِ نظر لاہور کی جغرافیائی اہمیت اس بات کی متقاضی تھی کہ قلعہ لاہور کو پکی اینٹوں کی کاریگری کرکے ایک مضبوط قلعہ بنایا جائے۔[5] اس کے تعمیری ڈھانچے میں فارسی رنگ چھلکتا ہے جو مختلف شاہوں کی فتوحات کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔[6] یہ قلعہ واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہے پہلا حصہء منتظم، جو تمام تر داخلی راستوں سے بخوبی جُڑا ہوا ہے اور اس کے اندر تمام باغیچے اور شاہی حاضرین کے لیے دیوان عام بھی شامل ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ نجی و خفیہ رہائشگاہوں پر مشتمل ہے جو شمالی سمت میں صحن اور دالانوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جن تک رسائی کے لیے “ہاتھی دروازہ“ استعمال ہوتا تھا۔ اسی میں شیش محل بھی شامل ہے، وسیع آرام دہ کمرے اور چھوٹے باغیچے بھی اس میں موجود ہیں۔[7] بیرونی حصے کی دیواریں نیلی فارسی کاشی کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا اصل داخلی راستہ “مریم زمانی مسجد“ کے سامنے ہے جبکہ بڑا عالمگیری دروازہ حضوری باغ کی طرف کھلتا ہے، جہاں عظیم الشان بادشاہی مسجد بھی واقع ہے۔[8]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ محمد طاہر(1997) اسلامی ثقافت کا تجزیاتی جائزہ۔ انمول پبلیکیشنز۔ ISBN 81-7488-487-4
- ↑ جی جانسن، سی اے بیلے اور جے ایف رچرڈ (1988) نئی کیمبرج تاریخ ِ انڈیا، ناشر جامعہ کیمبرج ISBN 0-521-40027-9
- ↑ قلعہ لاہور کی تین فرشی تہوں کا انکشاف۔ روزنامہ ڈان 28 اپریل 2007
- ↑ ناتھ ر۔(1982) تاریخ مغلیہ فن تعمیر، ناشرابھینیو ISBN 81-7017-414-7. p. 422
- ↑ قلعہ لاہور کی عمارت آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ archnet.org (Error: unknown archive URL)۔ آرک نیٹ ڈیجیٹل لائبریری۔
- ↑ این اے چوہدری (1999) قلعہ لاہور- تاریخ کا گواہ، ناشر سنگ میل ISBN 969-35-1040-2
- ↑ کیتھرین ای جی اصغر (1992) انڈیا میں مغلیہ فن تعمیر، ناشرجامعہ کیمبرج ISBN 0-521-26728-5
- ↑ اے این خان (1997)پاکستان کے اسلامی آثارِ قدیمہ کا مطالعہ، ناشر سنگ میل