عبد اللہ بن سلام
عبد الله ابن سلام آپ یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ یہود کے بڑے عالم تھے۔ انھیں حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری دی تھی۔ہیں۔ عبد ﷲ بن سلام رضی ﷲ عنہ یہود کے جلیل القدر عالم اور حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔آپ کا اصل نام حصین تھا اور وہ یہود بنی قینقاع سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دن انھوں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے یہ کلمات سنے: افشو السلام واطعموا الطعام وصلوالارحام وصلو بالیل والناس نیام ترجمہ:اپنے بیگانے سب کو سلام کیا کرو، بھوکوں ، محتاجوں کو ، کھانا کھلایا کرو اور خونی رشتوں کو جوڑے رکھو، قطع رحمی نہ کرو اور رات کو نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہو یہ ہدایت آموز کلمات سن کر حضرت عبد ﷲ بن سلام کا دل نور ایمان سے جگمگا اٹھا.انھیں یقین ہو گیا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کی بعثت کی پیشین گوئی صحائف قدیمہ میں درج ہیں۔ دوسرے دن رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چند پیچیدہ مسائل دریافت کیے. حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کا اطمینان بخش جواب دیا، تو عرض کی: یا رسول ﷲۖ ! میں شہادت دیتا ہوں کہ آپۖ ﷲ کے سچے رسول ہیں۔حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبول اسلام پر مسرت کا اظہار فرمایا اور ان کا اسلامی نام عبدﷲ رکھا. حضرت عبد ﷲ نے عرض کی.یا رسول ﷲ میری قوم بڑی بد طینت ہے۔ انھوں نے یہ سن لیا کہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا ہوں تو مجھ پر طرح طرح کے بہتان باندھیں گے. اس لیے میرے اسلام کی خبر کے اظہار سے پہلے ان سے دریافت کر لیں کہ ان کی میرے متعلق کیا رائے ہے۔ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہود کے اکابر کو بلا بھیجا. جب وہ آئے تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم توریت میں نبی آخر الزمان ۖ کی نشانیاں پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہوں. میں تمھارے سامنے دین حق پیش کرتا ہوں. اسے قبول کر کے فلاح دارین حاصل کرو. یہودیوں نے جواب دیا ہم نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حصین بن سلام تمھاری قوم میں کیسے ہیں ؟. سب یہودیوں نے بیک آواز جواب دیا : وہ ہمارے سردار اور سردار کے بیٹے ہیں۔ وہ ہمارے عالم کے بیٹے ہیں وہ ہم میں سب سے اچھے اور سب سے اچھے کے فرند ہیں۔حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو کیا تم بھی مسلمان ہو جاؤ گے. یہودی ناک بھوں چڑھا کر بولے ﷲ انھیں آپ کی حلقہ بگوشی سے محفوظ رکھے. ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اب حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبدﷲ بن سلام کو سامنے آنے کا حکم دیا۔ وہ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے باہر نکلے اور یہودیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے اعیان قوم ! ﷲ واحد سے ڈرو اور محمدۖ پر ایمان لاؤ ، بلاشبہ وہ ﷲ کے سچے رسول ہیں۔ حضرت عبد ﷲ کا قبول اسلام یہود پر برق خاطف بن کر گرا اور غم وغصہ سے دیوانے ہو گئے۔ اور چیخ چیخ کر کہنے لگے. یہ شخص (عبدﷲ بن سلام)ہم میں سب سے برا اور سب سے برے کا بیٹا ہے۔ ذلیل بن ذلیل اور جاہل بن جاہل ہے۔ حضرت عبدﷲ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم آپ نے یہود کی اخلاقی پستی دیکھ لی مجھے ان سے اسی افتراء پردازی کا اندیشہ تھا۔آپ نے 43ھ میں وفات پائی ۔[1] [2]
عبد اللہ بن سلام دیگر نام، عربی: أبو يوسف الإسرائيلي | |
---|---|
عالم الہیات، صحابی رسول، (ابن سلام) | |
پیدائش | 550ء یثرب |
وفات | 630ء مدینہ منورہ |
مؤثر شخصیات | موسیٰ ، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ہارون ، عبرانی نبی |
متاثر شخصیات | تفاسیر قرآن، خاص طور پر تفسیر القرطبی اور ابن اسحاق |
نام و نسب
ترمیمعبد اللہ نام ، ابو یوسف کنیت ، جر لقب ، یہود مدینہ کے خاندان قینقاع میں سے تھے۔ جس کا سلسلۂ نسب حضرت یوسف علیہ السلام پر منتہی ہوتا ہے۔مختصراً آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: عبد اللہ بن سلام بن حارث قبیلۂ بنو خزرج میں ایک خاندان بنی عوف کے نام سے مشہور ہے، اس میں ایک شاخ کا نام قواقل ہے عبد اللہ اسی قواقل کے حلیف تھے۔ ایام جاہلیت میں ان کا نام حصین تھا۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے عبد اللہ رکھا تھا۔ [3]
اسلام
ترمیمحضرت عبد اللہ بن سلام اپنے بچوں کے لیے باغ میں پھل چننے گئے تھے کہ آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے اور مالک بن نجار کے محلہ میں فروکش ہوئے، اس کی خبر عبد اللہؓ بن سلام کو ہوئی، تو پھل لے کر دوڑے ہوئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور زیارت سے شرف اندوز ہوکر واپس گئے۔آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ ہمارے اعزہ (انصار) میں سب سے قریب تر کس کا مکان ہے، ابو ایوب انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں سب سے قریب رہتا ہوں یہ میرا گھر ہے اور یہ دروازہ ہے،آنحضرت ﷺ نے ان کے مکان کو اپنا مسکن بنایا جب آپ کا مستقر متعین ہو گیا، تو عبد اللہ بن سلام دوبارہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ سے تین باتیں دریافت کرتا ہوں جو انبیا کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔آنحضرت ﷺ نے ان کو جواب دیا تو فوراً پکار اُٹھے اشھدان لا الہ الا اللہ واشھد انک رسول اللہ ﷺ اس کے بعد کہاکہ یہود ایک افترا برداز قوم ہے اور میں عالم بن عالم اور رئیس بن الرئیس ہوں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کو بلا کر میری نسبت دریافت کیجئے ؛لیکن میرے مسلمان ہو جانے کی خبر نہ دیجئے گا، آنحضرت ﷺ نے یہود کو طلب فرما کر اسلام کی دعوت دی اور کہا عبد اللہ بن سلام کون شخص ہیں؟ بولے ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، فرمایا وہ مسلمان ہو سکتے ہیں جواب ملا کبھی نہیں، عبد اللہ بن سلام مکان کے ایک گوشہ میں چھپے ہوئے تھے،آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آوازدی ،تو کلمہ پڑہتے ہوئے باہر نکلے آئے اور یہودیوں سے کہا ذرا خدا سے ڈرو تمھیں خوب معلوم ہے کہ یہ رسول ہیں اور ان کا مذہب بالکل سچا ہے اور باایں ہمہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے ، یہود کو خلاف توقع جو خفت نصیب ہوئی اس نے ان کو مشتعل کر دیا انھوں نے غصہ میں کہا کہ تم جھوٹے ہو اور ہماری جماعت کے بدترین شخص ہو اور تمھارا باپ بھی بدتر تھا، عبد اللہ نے کہا رسول اللہ ﷺ! آپ نے دیکھا مجھ کو اسی کا خوف تھا۔[4] [5][6]
غزوات
ترمیمغزوہ بدر اور غزوہ احد کی شرکت کے متعلق اختلاف ہے۔صاحب طبقات کے نزدیک غزوہ خندق میں عبد اللہ بن سلام شریک تھے۔اس لیے انھوں نے صحابہ رضی اللّٰہ عنہ کے تیسرے طبقہ یعنی اصحابِ خندق میں ان کا تذکرہ لکھا ہے۔خندق کے بعد جو معرکے پیش آئے ان میں بھی شامل ہوئے۔ عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے سفر بیت المقدس میں عبد اللہ بن سلام ان کے ہمراہ تھے۔
عہد فاروقی
ترمیمعہد نبو ت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت فاروقی میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ صلح بیت المقدس کے لیے مدینہ سے شام روانہ ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔
عہد عثمانی
ترمیمحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب باغیوں نے آستانۂ خلافت کا محاصرہ کرکے آپ کے قتل کی تیاریاں کیں تو عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں، فرمایا تمھارا مکان کے اندر رہنا ٹھیک نہیں، باہر جا کر مجمع کو منتشر کرو، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور مختصر تقریر کی جس کا ترجمہ درجِ ذیل ہے: لوگو! میرا نام جاہلیت میں فلاں تھا (حصین) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ رکھا، میرے متعلق قرآن مجید میں کئی آیتیں نازل ہوئیں: وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ [7] قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ [8] میری ہی شان میں اتری ہیں، خدا کی تلوار اب تک نیام میں ہے اور فرشتوں نے تمھارے شہر کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دارالہجرت ہے، اپنا نشیمن بنالیا ہے؛ پس ڈروخدا سے ڈرو! اور ان کو(حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ) قتل نہ کرو،خدا کی قسم اگر تم ان کے قتل پرکمربستہ ہوئے تو تمھارے ہمسایہ فرشتے مدینہ چھوڑدیں گے اور خدا کی وہ تلوار نکل پڑے گی جو اس وقت تک نیام میں بند ہے اور جو پھر قیامت تک نیام میں واپس نہ جائے گی؛ لیکن سنگدلوں پراس پُرزور تقریر کا کچھ اثر نہ ہوا؛ بلکہ اس کے خلاف شقاوت اور زیادہ ترقی کرگئی، بولے کہ اس یہودی اور عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کوقتل کرڈالو۔ [9] [10]
عہدِ مرتضوی
ترمیمحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں مدینہ سے کوفہ دارالخلافۃ تبدیل کرنا چاہا تو انھوں نے آپ کو کہا ،یاامیر المومنین رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا منبر نہ چھوڑیئے ورنہ پھر اس کی زیارت نہ کرسکیں گے۔ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر کی تو فرمایا وہ بیچارے نہایت نیک آدمی ہیں۔ [11]
وفات
ترمیمآپ کی وفات حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے زمانہ خلافت میں سن 43ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
فضائل
ترمیمتورات، انجیل، قرآن مجید اور احادیث نبوی سے ان کا سینہ بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔تورات پر جو عبور تھا، اس کے متعلق علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں: کان عبد اللہ بن سلام عالم اھل الکتاب وقفاضلھم فی زمانہ بالمدینۃ عبد اللہ بن سلام مدینہ میں اہل کتاب کے سب سے بڑے عالم تھے۔ قرآن مجید میں جہاں اہل کتاب کی تعریف آتی ہے۔ وہاں اکثر آپ رضی اللہ عنہ ہی مراد ہوتے ہیں، بڑے فضائل و خوبیوں کے آپ مالک ہیں۔[12][13]
اولاد
ترمیمدو بیٹے یاد گار چھوڑے، یوسف اور محمد، دونوں آنحضرتﷺ کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔یوسف بڑے تھے ، آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا، سر پر ہاتھ پھیرا اور یوسف نام رکھا تھا۔ [14]
حلیہ
ترمیممفصل حلیہ معلوم نہیں، بڑھاپے میں ضعف کی وجہ سے عصا لے کر چلتے تھے اور اس پر ٹیک لگاتے تھے۔ [15] چہرہ پر خشوع کے آثار ہر وقت نمایاں رہتے تھے۔
فضل و کامل
ترمیمتورات ،انجیل، قرآن مجید اور احادیث نبوی سے ان کا سینہ بقعۂ نور بنا ہوا تھا،تورات پر جو عبور تھا، اس کے متعلق علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں: کان عبد اللہ بن سلام عالم اھل الکتاب وقفاضلھم فی زمانہ بالمدینۃ عبد اللہ بن سلام مدینہ میں اہل کتاب کے سب سے بڑے عالم تھے۔ مسلمان ہو کر قرآن و حدیث کی طرف توجہ کی اور حدیث میں مرجع کل بن گئے اس سے بڑھ کر شرف اور کیا ہو سکتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ جو تمام صحابہؓ میں حدیث کے سب سے بڑے گنجینہ دار تھے۔ ان سے حدیثیں دریافت کرتے تھے ،حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار شام گئے اور کعب احبار سے یہ حدیثیں دریافت کرتے تھے، حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار شام گئے اور کعب احبار سے یہ حدیث بیان کی کہ جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اگر اس میں خدا سے کچھ مانگے تو اس کو ضرور دیتا ہے اس پر کعب نے کچھ رد وقدح کی یہاں تک کہ اخیر میں حضرت ابوہریرہؓ کے موافق ہو گئے، حضرت ابوہریرہؓ نے مدینہ آکر عبد اللہ بن ؓ سلام سے یہ واقعہ بیان کیا ،انھوں نے کہا کعب نے جھوٹ کہا، حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ انھوں نے میرے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا، پھر فرمایا جانتے ہو وہ وقت کون سا ہے ،یہ سن کر ابو ہریرہؓ ان کے پیچھے پڑ گئے اور کہا کہ جلد بتلائیے ، فرمایا عصر اور مغرب کے درمیان ،ابو ہریرہؓ نے کہا یہ کیونکر ہو سکتا ہے عصر اور مغرب کے درمیان کوئی نماز ہی نہیں فرمایا تم کو معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے وہ گویا نماز ہی میں ہوتا ہے۔ [16] باایں ہمہ جلالت قدر ان سے صرف 25 روایتیں منقول ہیں،راویوں میں بعض صحابہؓ کرام بھی ہیں جن کے نام نامی یہ ہیں، انس بن مالکؓ ،زرارہ بنؓ اوفی ،ابو ہریرہؓ ، عبد اللہ بنؓ معقل ، عبد اللہ بن حنظلہ، تلامذۂ خاص کے نام حسب ذیل ہیں: حزشہ بن الحر قیس بن عباد، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حمزہ بن یوسف (پوتے) عمرو بن محمد(پوتے) عوف بن مالک ،ابو بردہ بن ابو موسیٰ، ابو سعید المقبری، عبادہ الزرقی، عطاء بن یسار، عبیداللہ بن جیش غفاری۔ حضرت عبد اللہؓ سے ایک خاص حدیث منقول ہے۔جس کے اخیر میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہم کو جمع کر کے سبح للہ کی چند آیتیں پڑھیں، حضرت عبد اللہؓ بن سلام نے اپنے شاگردوں کے سامنے وہی آیتیں پڑھیں اور پھر بالترتیب عطاء بن یسار، ہلال بن ابی میمونہ، یحییٰ بن ابی کثیر نے اپنے زمانہ میں اس سنت کو قائم رکھا، لیکن یحییٰ کے شاگرد اور اوزاعی پر پہنچ کر اس کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ [17] [18]
اخلاق
ترمیماخلاقی حیثیت سے حضرت عبد اللہؓ بن سلام کا پایۂ عظمت بہت بلند ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی زمین پرچلنے والے شخص کو جنتی نہیں فرمایا، البتہ عبد اللہ بن سلام کو فرمایا تھا، [19] ترمذی میں ہے کہ حضرت معاذؓ بن جبل کی وفات ہوئی تو شاگردوں سے فرمایا کہ میں دنیا سے اٹھ رہا ہوں ؛لیکن میرے ساتھ علم نہیں اٹھتا جو شخص اس کی جستجو کرے گا پالے گا، اس کے بعد چار شخصوں کے نام گنائے جن میں ایک عبد اللہ بن سلام تھے فرمایا: [20] کان یھود یافاسلم فانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول انہ عاشر عشرۃ فی الجنۃ پہلے وہ یہودی تھے، پھر مسلمان ہوئے اور میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ وہ گیارہویں جنتی ہیں۔ بایں ہمہ فضیلت بڑے منکسر المزاج تھے ،مسجد نبوی میں ایک دن نماز کے لیے آئے اور لوگوں نے کہا کہ یہ جنتی شخص ہیں تو فرمایا جس بات کو آدمی جانتا نہ ہو اس کو زبان سے نکالنا نہ چاہیے، اس کے بعد اپنے اس خواب کا ذکر کیا جس کی آنحضرت ﷺ نے تعبیر دی تھی کہ اسلام پر تمام عمر قائم رہوگئے۔ [21] اس واقعہ کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی ملایا جائے تو انکسار کا نہایت مکمل اور دیدہ زیب مرقع پیش نظر ہوجاتا ہے ،ایک مرتبہ لکڑیوں کا گٹھا اٹھا کر لا رہے تھے، لوگوں نے کہا کہ آپ کو اس سے خدا نے مستغنی کیا ہے ،فرمایا ہاں یہ ٹھیک ہے؛ لیکن میں اس سے کبرو غرور کا قلمع قمع کرنا چاہتا ہوں۔ [22] حق وصداقت کا جوش بے اندازہ تھا،فرماتے تھے کہ تم کو ایک بار قریش سے لڑائی پیش آئے گی، اُ س وقت اگر مجھ میں قوت نہ ہو تو تخت پر بٹھا کر مجھ کو فریقین کی صفوں کے درمیان رکھ دینا۔ [23] [24]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (سیرت ابن ہشام ، جلد 2)
- ↑ "سير أعلام النبلاء - عبد الله بن سلام"۔ 12 نوفمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "معلومات عن عبد الله بن سلام على موقع viaf.org"۔ viaf.org۔ 13 ديسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ بخاری:1/556
- ↑ "معلومات عن عبد الله بن سلام على موقع id.loc.gov"۔ id.loc.gov۔ 10 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "معلومات عن عبد الله بن سلام على موقع id.worldcat.org"۔ id.worldcat.org۔ 10 ديسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ (الأحقاف:10)
- ↑ (الرعد:43)
- ↑ (ترمذی:628)
- ↑ "ص5 - كتاب السيرة النبوية راغب السرجاني - قصة إسلام عبد الله بن سلام وموقف يهود بني قينقاع من إسلامه - المكتبة الشاملة الحديثة"۔ al-maktaba.org۔ 7 مارس 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2022
- ↑ (اصابہ:4/81)
- ↑ مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد8صفحہ36نعیمی کتب خانہ گجرات
- ↑ اسد الغابہ جلد2 صفحہ 268حصہ پنجم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ (مسند:4/35)
- ↑ (مسند:5/452)
- ↑ (مسند:5/451،453)
- ↑ (مسند:5/452)
- ↑ "قصة إسلام عبد الله بن سلام"۔ 13/10/2013۔ 25 أكتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ (بخاری:1/538)
- ↑ (جامع ترمذی:628)
- ↑ (بخاری:1/538)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/23)
- ↑ (استیعاب:1/396)
- ↑ ابن عساكر (1995)۔ تاريخ دمشق۔ 29۔ دار الفكر۔ صفحہ: 135