فضل احمد خان

پاکستانی ماہرِ آثار شناسی

فضل احمد خان (1910ء – 2009ء)[1] ایک معروف پاکستانی ماہر آثار قدیمہ[2][3] تھے جنہوں نے 1958ء سے 1970ء[4] تک محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر (ڈی او اے ایم) کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[5][6] وہ ممتاز ماہرِ آثارِ قدیمہ مورٹیمر وہیلر کے شاگرد تھے۔[7][8]

فضل احمد خان
ایف اے خان کو سنہ 1997ء میں سید غوث علی شاہ نے دانی طلائی تمغہ سے نوازاتے ہوئے۔

معلومات شخصیت
پیدائش 1 اکتوبر 1910ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
راولپنڈی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 2009ء (98–99 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ماہر آثاریات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی ،  اردو ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

ایف اے خان 1 اکتوبر 1910 کو برطانوی ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حسن علی خان ایک ممتاز پیشہ ور طبیب اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پہلے فارغ التحصیل گروپ میں سے ایک تھے۔ حسن علی خان نے برطانوی دور میں مختلف مقامات پر خدمات انجام دیں، بشمول پہلی جنگ عظیم کے دوران بغداد میں، جس سے انہیں "پہلی جنگ عظیم کے میڈلست" کا خطاب حاصل ہوا۔ ان کی والدہ نواب بیگم تھیں۔[2]

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

ایف اے خان نے اپنی ابتدائی تعلیم پنجاب میں حاصل کی، اس کے بعد 1935ء اور 1938ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ اور جغرافیہ میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ ایف اے خان نے اکتوبر 1938ء میں فیلڈ اسکالر برائے ایکسپلوریشن اینڈ ایکیویشن کے طور پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا میں بھرتی ہوئے۔ 1943ء میں انہیں آرکیالوجیل میوزیم موہن جو دڑو کا کسٹوڈین مقرر کیا گیا۔[9] حکومت ہند نے انہیں سنہ 1947ء میں تین سال کے لیے بیجنگ یونیورسٹی میں چینی آثاریات کا مطالعہ کرنے کے لیے اسکالرشپ سے نوازا۔ بعد میں، حکومت پاکستان نے انہیں سنہ 1951ء میں انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ سے نوازا، جہاں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف آرکیالوجی، یونیورسٹی آف لندن میں میکس میلوون اور گورڈن چائلڈ کی نگرانی میں دو سال اور چار ماہ کے ریکارڈ وقت میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ، "An Archaeological Study of the Indus Valley Civilizations and their Relationship to the Early Cultures of Iran"، اس میدان میں ان کی مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔[2][10]

واپس آنے کے بعد، ان کو ایکسپلوریشن اینڈ ایکسکیویشن برانچ کا سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا گیا۔ بطور سپرنٹنڈنٹ انہوں نے سندھ میں عرب اثری مقام بھنبھور اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں مینامتی کے بدھ اثری مقام میں آثاریاتی کھدائیاں کیں۔ اپریل 1958ء میں، وہ محکمہ آثار قدیمہ، پاکستان کے ڈائریکٹر بنے، اور 30 ستمبر 1970ء کے دن وہ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد، انہوں نے کئی سالوں تک نیشنل میوزیم کراچی کی نوادرات حاصل کرنے والی کمیٹی کی صدارت کی۔ 1970ء سے 1977ء تک انہوں نے جامعہ کراچی میں آثاریات کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ سنہ 1974ء میں، ایف اے خان نے بحرین، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات میں یونیسکو کے کنسلٹنٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔[2]

وفات

ترمیم

سنہ 2009ء میں، وہ کراچی کی پی ای سی ایچ ایس کالونی میں 90 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[2]

قابل ذکر خدمات

ترمیم

ان کا کام 25 سال پر محیط تھا، جس میں وادی سندھ کی تہذیبوں کے تقابلی مطالعات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ انہوں نے ہندو، بدھ اور مسلم ادوار کے آثار قدیمہ کے مسائل کی بھی کھوج کی۔ ان کی قابل ذکر کھدائی میں شامل ہیں:[10]

  • کوٹ ڈیجی (1955ء–1957ء): انہوں نے اس قلعہ بند شہر کی کھدائی کی، جو وادی سندھ کی تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔[11][12]
  • بھنبھور (1957ء–1965ء) ، ایف اے خان کی جانب سے کی گئی کھدائی سے قبل از اسلام اور اسلامی آبادیوں کے اہم تعمیراتی اور آثاریاتی باقیات کا انکشاف ہوا۔[13][3]
  • مینامتی (1962ء–1963ء): ایف اے خان نے مینامتی (مشرقی پاکستان) میں وسیع کھدائی کی قیادت کی، جس میں ساتویں - دسویں صدی عیسوی کے متعدد بدھ وہاروں، مندروں اور دیگر تعمیرات کو دریافت کیا۔[2]

انعامات اور اعزازات

ترمیم

ایف اے خان کو تمغہ پاکستان (1961ء)،[10] ستارۂ امتیاز (1965ء)، فرانس کے اعلیٰ ترین اعزاز، اور اٹلی کے اعلیٰ اعزاز (1982ء) سمیت متعدد اعزازات ملے۔ انہیں 31 جولائی 1997ء کو پاکستان سوسائٹی آف آرکیالوجی، آرکائیوز اینڈ میوزیمز کی جانب سے 1996ء کے دانی طلائی تمغہ سے نوازا گیا۔ ویمن یونیورسٹی لاہور کی لائبریری ان کے نام سے منسوب ہے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Sh. Khurshid Hasan (2009)۔ "F. A. Khan (1910-2009)"۔ East and West۔ IsMEO۔ 59 (1–4): 393 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج "ڈاکٹر ایف اے خان یادگاری شمارہ" (PDF)۔ مجلہ برائے آثاریاتی تاریخی مطالعہ۔ آرکیالوجیل اسٹدی آف اینشینٹ سوسائٹیز (ASAS)۔ 1 (2)۔ نومبر–دسمبر 2020 
  3. ^ ا ب عقیل عباس جعفری (17 جون 2021)۔ "بنبھور: قدیم شہر 'دیبل' اور سرزمین پاکستان کی پہلی مسجد کے آثار"۔ بی بی سی اردو 
  4. Sardar Badshah، Tahir Saeed (2019)۔ "Origin of Archaeological Research Activities in Pakistan" (PDF)۔ Pakistan Heritage۔ 11: 55 
  5. Feryal Ali Gauhar (November 10, 2013)۔ "Breathing life into history: the new Swat Museum"۔ Dawn 
  6. محمد اسلم قریشی (1987)۔ "بر صغیر کا ڈراما: تاریخ، افکار، اور اعتقاد"۔ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور 
  7. Gregory L. Possehl (1999)۔ Indus Age: The Beginnings۔ University of Pennsylvania Press۔ ISBN 978-0-8122-3417-6 
  8. Faraz Anjum۔ مدیر: Mahboob Hussain۔ Pakistan @ 75: History, Politics, Culture۔ Lahore: Department of History and Pakistan Studies, University of the Punjab۔ صفحہ: 45 
  9. مختار آزاد (16 اپریل 2013)۔ "سندھو کی داسی"۔ ڈان نیوز 
  10. ^ ا ب پ F. A. Khan (May 1964)۔ "Archaeology in Pakistan" (PDF)۔ Expedition Magazine۔ جلد۔ 6 نمبر۔ 3۔ صفحہ: 11 
  11. George F. Dales، Jonathan Mark Kenoyer، Leslie Alcock (29 January 1986)۔ Excavations at Mohenjo Daro, Pakistan: The Pottery, with an Account of the Pottery from the 195 Excavations of Sir Mortimer Wheeler۔ UPenn Museum of Archaeology۔ ISBN 978-0-934718-52-3 
  12. Paul Wheatley۔ The Origins and Character of the Ancient Chinese City, Volume 2: The Chinese City in Comparative Perspective۔ Transaction Publishers۔ ISBN 978-0-202-36769-9 
  13. Niccolò Manassero، Valeria Fiorani Piacentini (2014)۔ "The Site of Banbhore (Sindh-Pakistan)" (PDF)۔ The Silk Road۔ 12: 82