مرزا اظفری

ہندوستانی شاعر

مرزا اظفری – میرزا علی بخت بہادر محمد ظہیر الدین اظفری گورگانی دہلوی (پیدائش: 1758ء – وفات: 1819ء) مغلیہ سلطنت کے عہد متاخر کا ایک مغل شاہزادہ تھا جو بیک وقت اُردو، ترکی اور فارسی کا شاعر، ادیب، نقاد اور انشاء پرداز تھا۔

مرزا اظفری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1758ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لال قلعہ ،  دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1819ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدراس پریزیڈنسی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  ادیب   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  اردو ،  ترکی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نواب اَوَودھ، نواب آصف الدولہ
نواب عمدۃ الامراء غلام حسین علی خان، نواب کرناٹک

ابتدائی حالات

ترمیم

پیدائش اور خاندان

ترمیم

مرزا اَظفَری کا اصل نام محمد ظہیر الدین اور لقب علی بخت بہادر گورگانی تھا۔ دہلی میں وہ میرزائے کلاں (شاہزادۂ کلاں) کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ والد کا نام سلطان محمد ولی (معروف بہ منجھلے صاحب) ولد سلطان محمد عیسیٰ تھا جو شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے اخلافِ نرینہ میں سے اور مغل شہنشاہ محمد مُعِزّ الدین جہاندار شاہ کے فرزند اور مغل شہنشاہ محمد معظم بہادر شاہ اول کی دختر عفت آراء بیگم کا پڑپوتا تھا۔ عفت آراء بیگم کے شوہر کا نام خواجہ موسیٰ نقشبندی المخاطب بہ سربلند خان اور بقولِ خود نواب موسوی خان تھا۔ مرزا اَظفری کی والدہ حضرت میر ابو العلاء اکبرآبادی قدس سرہُ کی اولاد سے تھیں۔ مرزا کی پیدائش 1172ھ مطابق 1758ء میں دہلی کے لال قلعہ میں ہوئی اور لال قلعہ میں ہی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ وہ دَور تھا جب مغلیہ سلطنت کی شمالی سرحدوں سے احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا سلسلہ جاری ہو چکا تھا۔[1]

لال قلعہ میں قیام اور دربار مغلیہ میں شمولیت

ترمیم

تیموری خاندان کے اُس قاعدہ و دَستور کے مطابق جو جہاندار شاہ کے زمانے سے رائج تھا، اَظفری نے بھی دوسرے شاہزادوں کی طرح اپنی عمر کے تیس سال قیدِ سلطانی میں گزارے۔ اسیری میں موجود اِن مغل شاہزادوں کو ’’سلاطین‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ 1788ء میں غاصب غلام قادر روہیلہ کے قتل کے بعد جب مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی دوبارہ تخت نشین ہوئے تو فرطِ محبت و فرزند نوازی سے تجملِ شاہانہ کے ساتھ عید الفطر 1202ھ مطابق 5 جولائی 1788ء کو مرزا اَطفری کے محل میں رونق افروز ہوئے اور طبقۂ اُمراء میں شامل کرلینے کے سابقہ وعدہ کی توثیق کی اور بہت سا روپیہ بھی عنایت کیا۔[2]

لکھنؤ اور مدراس میں قیام

ترمیم

اِس پر آشوب زمانے میں جب غاصب غلام قادر روہیلہ لال قلعہ میں قابض ہوکر مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کو تخت سے معزول کرکے اندھا کرچکا تھا، مرزا نے شہنشاہ کی نہایت قابل قدر خدمات سر انجام دیں، بہت بہادری سے محل کی عصمت و ناموس کی حفاظت کی مگر بالآخر شہنشاہ شاہ عالم ثانی نے اَظفری سے کچھ اچھا سلوک نہ کیا۔ نتیجتاً 2 دسمبر 1788ء کو مرزا لال قلعہ سے بھاگ نکلا اور جے پور پہنچا۔ وہاں سے جودھ پور اور اودے پور گیا اور واپس دوبارہ جے پور پہنچا۔ جے پور اور اودے پور کے راجاؤں نے بہت آؤ بھگت کی۔ راجا جودھ پور نے تیس چالیس ہزار فوج دینے کا وعدہ کیا تاکہ دہلی سے مرہٹوں کو نکال کر تیموری حکومت کا دوبارہ قیام عمل میں لایا جاسکے۔ مگر اَظفری نے اِس پیشکس کو قبول کرنے سے اِنکار کر دیا۔ یہاں سے مرزا لکھنؤ پہنچا جہاں اودھ کے حکمران آصف الدولہ نے خیرمقدم کیا۔ مرزا نے تقریباً سات سال دو ماہ لکھنؤ میں عزت و آبرو سے بسر کیے۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران ہی مرزا کے بھائی، مرزا جلال الدین، چچا زاد بھائی مرزا حسن بخش، بلند بخت اور تمام متعلقین، بیوی بچے اور والدہ بھی قیدِ سلطانی سے نجات پا کر بخیریت لکھنؤ آ گئے تھے۔ نواب آصف الدولہ نے سب کے وظائف مقرر کردیے۔ یہاں مرزا کی سرکارِ انگریزی (ایسٹ انڈیا کمپنی) کی جانب سے مقرر کردہ معقول تنخواہ بھی ملتی رہی۔ بعد ازاں لکھنؤ سے مرشد آباد جانے کے لیے پٹنہ کے راستے سے سفر شروع کیا اور مئی 1797ء کو مقصود آباد پہنچا۔ تین چار مہینے قیام کرکے 9 مئی 1798ء کو مرزا مدراس پہنچا اور وہیں مستقل طور پر مقیم ہو گیا۔ یہاں پہلے ہی مرزا کے بھائی مرزا ہمایوں بخت لکھنؤ سے 1795ء میں پہنچ چکے تھے۔ مرزا کو بھی مدراس جانے کی دُھن تھی کیونکہ بنگال کی آب و ہوا اُن کو موافق نہ آئی تھی۔ مدراس پر اُس وقت والاجاہیوں کی حکومت قائم تھی جنھوں نے مغل خاندان کا بہت احترام سے خیرمقدم کیا۔ مدراس میں نواب عمدۃ الامراء کے بھانجے سراج الملک، مرزا اَظفری کے بھتیجے مرزا سکندر شکوہ اور امیر الملک حافظ احمد خان نے اِستقبال کیا۔ اُن کے ہمراہ مرزا موصوف سے ملاقات کے لیے قصرِ والاجاہی پہنچے۔ نواب عمدۃ الامراء نے خود پالکی سے اُتارا اور معانقہ کیا اور شعر و شاعری پر گفتگو ہوئی۔ نواب عمدۃ الامراء مرزا کو اپنی مسند پر بٹھاتے اور ادب ملحوظ رکھتے تھے۔ اِس دوران مرزا نے دہلی اور لکھنؤ میں اپنے اعزہ و اقارب سے خط کتابت جاری رکھی اور مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی اور ولی عہد بہادر کو خطوط لکھ کر اپنے قصور کی معافی چاہی۔[3]

شادی

ترمیم

مدراس میں مرزا نے تنہائی سے گھبراتے ہوئے ایک پٹھان کی لڑکی سے شادی کرلی جو 16 جولائی 1798ء کو سر انجام پائی۔ اِس خاتون سے کئی اولادیں ہوئیں جن میں سے ایک لڑکے کا نام اعلیٰ بخت تھا۔[4]

ادب میں مقام

ترمیم

مرزا فارسی، ترکی اور اُردو میں شعر کہا کرتے تھے۔ اشعار میں رعایتِ روز مرہ اور محاورہ بندی اچھی ہے لیکن بلندیٔ تخیل کا فقدان ہے۔ جو خطوط مرزا نے راجاؤں اور نوابوں کو لکھے ہیں، اُن سے فارسی زبان پر دسترس و مکمل قدرت معلوم ہوتی ہے۔ ترکی زبان میں مرزا کو میر کرم علی سے تلمذ حاصل تھا اور ریختہ اُردو میں میر تقی میر کی شاگردی حاصل تھی۔ علاوہ ازیں مرزا کے تلامذہ میں شائق علی خان شائق، عالم خان بہادر معروف بہ محمد خان فاروق، سید معین الدین المخاطب بہ منور رَقَم خان منور (خطاط) اور نادر شامل ہیں جنھوں نے مثنوی رشکِ قمر و مہ جبیں نظم کی تھی۔[5]

وفات

ترمیم

15 جولائی 1801ء کو نواب کرناٹک نواب عمدۃ الامراء کے اِنتقال کے بعد مرزا کی زندگی بے کیف و بے لطف گذری۔ انھوں نے خود اِس عرصے کو ’’بیکار اور بے اعتبار‘‘ لکھا ہے۔ مرزا نواب عمدۃ الامراء کے اِنتقال کے اٹھارہ سال بعد 1234ھ مطابق 1819ء میں مدراس میں وفات پاگئے۔ [6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 2، صفحہ 280۔ مطبوعہ لاہور، 2017ء
  2. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 2، صفحہ 280۔ مطبوعہ لاہور، 2017ء
  3. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 2، صفحہ 280- 281۔ مطبوعہ لاہور، 2017ء
  4. گلزار اعظم، صفحہ 40۔
  5. رسالہ اُردو: صفحہ 200 تا 208، مطبوعہ 1940ء۔
  6. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 2، صفحہ 281۔ مطبوعہ لاہور، 2017ء

مزید دیکھیے

ترمیم