مہناز آفریدی
ڈاکٹر مہناز آفریدی (انگریزی: Dr. Mehnaz Afridi) ایک پاکستانی نژاد خاتون ہے جو مینہٹن کالج کے مرکز مرگ انبوہ و نسل کشی (انگریزی: Holocaust and Genocide Center, Manhattan College)[3] کی صدر بھی ہیں۔ وہ ایسی پہلی مسلمان خاتون ہیں جنھوں نے کسی مرگ انبوہ سے جڑے مرکز یا ادارے کی صدارت کی ہو۔ اس کے علاوہ انھوں نے خود کئی مرگ انبوہ کے توجیہی کیمپوں کی مصیبتیں جھیل کر بقید حیات بچ نکلنے والوں کا بہ ذات خود انٹرویو لیا ہے۔ وہ مرگ انبوہ کی تردید کرنے کے جذبے کو ختم کروانا چاہتی ہیں، چاہے وہ عرب اور اسلامی دنیا میں ہو یا پھر دنیا کے کسی اور حصے میں۔ وہ دنیائے اسلام سے متعلق منفی شبیہ کو بھی سدھارنا چاہتی ہیں۔ وہ ایک کتاب Shoah Through Muslim Eyes یعنی مرگ انبوہ کے بارے میں مسلمانوں کا نقطہ نظر کی مصنفہ بھی ہیں۔ وہ بین فرقہ جاتی مذاکرہ اور بین المذاہب مطالعات کو فروغ دینے کی کوششوں میں لگی ہیں اور اسی سلسلے میں وہ کئی کمیٹیوں اور ادارہ جات سے منسلک ہیں۔
ڈاکٹر مہناز آفریدی Dr. Mehnaz Afridi | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | کراچی |
قومیت | پاکستان ریاستہائے متحدہ امریکا |
عملی زندگی | |
مادر علمی | سیراکیوز یونیورسٹی [1] سیراکیوز یونیورسٹی [1] جامعہ جنوبی افریقا [1] |
تخصص تعلیم | انگریزی اور مطالعہ مذہب ،مطالعہ مذہب اور اسلامیات ،مطالعہ مذہب |
تعلیمی اسناد | بیچلر ،ایم اے ،ڈاکٹریٹ |
پیشہ | صدر، مرگ انبوہ مرکز، مینہٹن کالج، ریاستہائے متحدہ امریکا |
پیشہ ورانہ زبان | اردو [2]، فرانسیسی [2]، عربی [2]، انگریزی [2] |
دور فعالیت | 2011ء-تاحال |
نوکریاں | مینہٹن کالج [1] |
کارہائے نمایاں | Shoah Thru Muslim Eyes |
درستی - ترمیم |
پس منظر
ترمیممہناز آفریدی کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وہ خود اسی ملک میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک عملی بینک کار اور والدہ ایک مذہبی ماں۔ تاہم مہناز کی پرورش پاکستان، متحدہ عرب امارات، انگلستان اور سویٹذرلینڈ میں ہوئی۔ 1984ء میں وہ ریاستہائے متحدہ امریکا منتقل ہوئی۔ ہمہ ثقافتی رہائش کے سبب مہناز سویس جرمن، اردو، عربی اور انگریزی میں روانی سے بات کر سکتی ہیں۔[3]
نسل پرستی کا تجربہ
ترمیمسویٹذرلینڈ میں پرورش پانے کے دوران مہناز نے اپنے رنگ، مذہب اور قومیت کی وجہ سے نسل پرستی کے کڑوے احساس سے گذری۔ تاہم ہائی اسکول کی پڑھائی اس نے اسکارسڈیل، نیو یارک میں مکمل کی جہاں دلچسپی بین عقیدہ مباحثہ میں منتقل ہوئی، اس اچانک مصاحبت یہودی طلبہ کے بیچ ہوئی، جو ان کے لیے تعجب خیز بات تھی۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ انھیں فون کر کے گالیاں دیتے اور ان سے اپنے اڑوس پڑوس سے دور رہنے کو کہتے۔[3]
اسکول کی تکمیل اور مرگ انبوہ سے دل چسپی
ترمیماسکول میں تعلیم کی تکمیل کے بعد مہناز نے سائراکوز یونیورسٹی میں مطالعات مذاہب (religious studies) چنا جہاں ان کا رابطہ ایک یہودی پروفیسر سے ہوا جو مرگ انبوہ کے ادب میں مہارت رکھتے تھے۔ ان ہی کے اصرار پر مہناز نے اسرائیل کا پانچ ہفتوں کا دورہ کیا۔ اس کے بعد اسلام مطالعات مذاہب پر مہناز نے جنوبی افریقہ سے پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ پھر وہ لوئیلا میری ماؤنٹ یونیورسٹی، لاس اینجلس میں دینیاتی مطالعات کی ویزیٹنگ پروفیسر بنی۔ 2003ء سے 2005ء کے بیچ مہناز نے کئی مرگ انبوہ کے پاسماندگان کا انٹرویو لیا جو انھیں ایسا کرنے والی پہلی مسلمان خاتون کا درجہ دیتے ہیں۔[3]
مرگ انبوہ مرکز کی صدارت کا موقع
ترمیم” | میں نے مین مینہٹن کالج کالج میں ایک اشتہار دیکھا اور مجھے لگا کہ اس سے بہتر کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ انہیں اسلام کے متعلق پڑھانے کے لئے کوئی چاہیے تھا جسے مرگ انبوہ کے متعلق بھی معلوم ہو اور جس کے پاس غیر منافع بخش ادارے میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہو۔ میرے پاس یہ سب تھا۔ میں نے درخواست دی اور مجھے نوکری مل گئی۔ مجھے لگا جیسے یہ میرے لیے ہی بنائی گئی تھی۔ لیکن مجھے ملازمت آسانی سے نہیں ملی۔ یہ تنازعوں سے خالی نہیں تھا۔ یہ یہودیوں کے لئے بہت مشکل تھا کیونکہ ہماری کمیونٹیوں کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ کس چیز نے پریشان کیا تھا۔ اور میں نے یہ بتایا کہ میں نے ایک بار ایک بلاگ پڑھا تھا جس میں لکھا تھا کہ یہ ایک نیو نازی کو ملازمت پر رکھنے کے برابر ہی ہے اور مجھے لگا جیسے میرا دل ہی ٹوٹ گیا ہو۔ مجھے لگا، اُف خدایا۔ آپ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں اور نیو نازیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے۔ اور میرے لیے یہ اور بھی زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ مجھے اس نظریے کو بدلنا ہوگا۔[4] | “ |
اسی عزم مصمم سے مہناز نے بعد میں یہ عہدہ قبول کیا۔ وہ اس عہدے پر 2011ء سے فائز ہیں۔
مرگ انبوہ کے مقام کا جائزہ
ترمیم2007ء میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کے دوران مہناز کو جرمنی مدعو کیا گیا تاکہ مصری ادب میں سام دشمنی پر وہ ایک سرکاری مقالہ پیش کر سکے۔ اس پیش کس کا عنوان ”یہودیت کا مسلم نقطہ نظر اور اسلام کا یہودی نقطہ نظر“ تھا۔ اس کے بعد وہ ڈاچاؤ کے مقام روانہ ہوئی جہاں اندازہ کیا جاتا ہے کہ 230,000 افراد کو رکھا گیا تھا جن میں 32,000 کا قتل کیا گیا۔ زیادہ تر محروسین یہودی تھے، تاہم اس میں پولینڈ، روس، فرانس، یوگوسلاویہ، چیک جمہوریہ، جرمنی، آسٹریا، مجارستان اور اطالیہ کے لوگ، ہم جنس پرست، یہوواہ کے گواہ، کمیونسٹ اور رومینی لوگ بھی تھے۔[3]
ذاتی زندگی
ترمیممہناز شادی شدہ ہے۔ وہ خود کو ایک باعمل مسلمان بتاتی ہیں۔[3] حب کہ مہناز کے شوہر کا نام اسکاٹ ڈینس ہے۔ اس کی ایک بیٹی کا نام رُویا اور ایک لڑکا ہے جس کا نام ایلیگزینڈر ہے۔[5]
غیر منافع بخش بورڈوں سے وابستگی
ترمیممہناز کئی غیر منافع بخش اداروں اور مراکز کے بورڈوں سے وابستہ ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
- اسرائیل کا ارادہ انسٹی ٹیوٹ (Arava Institute in Israel) (جو ماحولیاتی معاملات میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے لیے کام کرتا ہے)۔
- مرکز کلچرل سنٹر، لاس اینجلس (اس کے کئی ارکان کا تعلق بحر امر کے علاقے سے ہے)۔
- سنٹر فار کیتھولک جوویش اسٹڈیز، سینٹ لیو یونیورسٹی، فلوریڈا۔
- وائز وومنز انیشیئیٹیو، نیو یارک، جس کے لیے مالیہ ڈیزی خان کا فراہم کردہ ہے۔
- کمیٹی آن ایتھیکس، ریلیجن اینڈ ہولوکاسٹ، یونائٹیڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میوزیم، واشنگٹن ڈی سی۔ [3]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب https://manhattan.edu/campus-directory/mehnaz.afridi — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
- ↑ http://www.theinterfaithobserver.org/journal-articles/2016/11/8/dr-mehnaz-afridi-defying-all-stereotypes — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج Ruth Broyde Sharone۔ "BRIDGING THE JEWISH-MUSLIM DIVIDE"۔ The Interfaith Observer۔ The Interfaith Observer۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019
- ↑ مہناز آفریدی۔ "مہناز آفریدی کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی..."۔ US Holocaust Memorial Museum۔ US Holocaust Memorial Museum۔ 04 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019
- ↑ https://uir.unisa.ac.za/bitstream/handle/10500/2745/dissertation_afridi_%20m.pdf