یہودی تاریخ کا خط زمانی
اس صفحے میں موجود سرخ روابط اردو کے بجائے دیگر مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاًً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہیں، ان زبانوں سے اردو میں ترجمہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کریں۔ |
یہودیت | |
عقائد
خدا (اسمائے خدا) • دس احکام • برگزیدہ قوم • انبیا • مسیح • بنیادی عقائد تاریخ یہودیت
خط زمانی • خروج • مملکت کا زمانہ • زمانہ اسیری • مرگ انبوہ • اسرائیل مؤثر شخصیات
مکاتب فکر
راسخ العقیدہ • اصلاحی • رجعت پسند • قرائیم • تجدیدی یہودیت • حریدی • انسان دوست • ہیمانوت ثقافت و معاشرہ
تقویم • لسان القدس • ستارہ داؤدی • یہودی شادی • اشکنازی • سفاردی • مزراحی تہوار
مقامات مقدسہ
|
یہ یہودیوں اور یہودیت کی ترقی کا تقویم ہے ۔ تمام تاریخیں عبرانی تقویم کی بجائے زمانہ عام کے مطابق دی گئی ہیں ۔
یہودیوں کی تاریخ بھی دیکھیں جس میں انفرادی ملک کی یہودی تاریخ کے روابط شامل ہیں ۔ یہودیوں پر عقوبت کی تاریخ کے لیے سام دشمنی، تاریخ سام دشمنی اور ٹائم تقویم سام دشمنی دیکھیں۔
بائبلی دور
ترمیم- 1312 قبل مسیح (؟*)
خروج مصر سے (موسیٰ)
- 1250 قبل مسیح سے 1025 قبل مسیح
بائبل اسرائیلی قضاۃ لوگوں کی قیادت کی
- 1025 قبل مسیح 1010 قبل مسیح
- بادشاہ (طالوت) ساؤل
- 1010 قبل مسیح 970 قبل مسیح
- داؤد بادشاہ
- 970 قبل مسیح 931 قبل مسیح
- بادشاہ سلیمان
- 960 قبل مسیح
- تکمیل ہیکل سلیمانی یروشلم میں
- 931 قبل مسیح
- تقسیم مملکت اسرائیل (سامریہ) اور سلطنت یہودا
- 931 قبل مسیح 913 قبل مسیح
- یہوداہ کا بادشاہ رحبعام
- 931 قبل مسیح 910 قبل مسیح
- بادشاہ یُربعام نے اسرائیل کے
- 840 قبل مسیح
- میشا کی لکھائی اسرائیلی بادشاہ عمری کے بیٹے پر موآبی فتح بیان کرتی ہے ۔
- 740 قبل مسیح 700 قبل مسیح
- یسعیاہ کی نبوت
- 740 قبل مسیح 722 قبل مسیح
- ریاست اسرائیل کے کرنے کے لیے آتا ہے نو اسوری سلطنت
- 715 قبل مسیح 687 قبل مسیح
- یہوداہ کا بادشاہ حزقیاہ
- 649 قبل مسیح 609 قبل مسیح
- یہوداہ کےبادشاہ یوسیاہ کے اہم اصلاحات
- 626 قبل مسیح 587 قبل مسیح
- یرمیاہ کی نبوت
- 597 قبل مسیح
- پہلی بابل کو ملک بدری
- 586 قبل مسیح
- بخت نصر کی سقوط یروشلم اور ہیکل سلیمان کی تباہی
- 539 قبل مسیح
- کورش اعظم (سائرس) کی جانب سے یہود کو یروشلم واپسی کی اجازت
- 520 قبل مسیح
- زکریا کی نبوت
- 520 ق م
- زربابل کی قیادت میں یہود کا پہلا گروہ اسیری سے واپس یروشلم جانا
- 516 قبل مسیح
- ہیکل دوم مقدس کا درجہ دیکر وقف کردیاگیا
- 475 قبل مسیح
- فارس کا خشیارشا اول سے منسلق ، ملکہ آستر نے اپنی شناخت کروائی اور اپنے لوگوں کے لیے التجا کی ، حامان کی نشان دہی کی کہ ان کو تباہ کرنے کے لیے اس کے قبیح چالوں سے بجایا جائے
- 460 قبل مسیح
- یہودا میں طوائف الملوکی اور افراتفری کے پیش نظر خشیارشا کے جانشین اردشیر اول نے عزیر کو بھیجا تاکہ حالات معمول پر لائیں
بعد از بائبل کی تاریخ
ترمیمقبل مسیح
ترمیم- 332 قبل مسیح
- مصرجاتے ہوئے یہودیہ سے گزرتے سکندر اعظم نے فونیقی اور غزہ فتح کیا اور شاید یہودی پہاڑی علاقوں میں داخل ہوئے بغیر ۔
- 200 قبل مسیح–100 عیسوی
- اس دور میں کسی مقام پر تنک (عبرانی بائبل) کو بائبل میں شامل کیا گیا ۔ یہودی مذہبی کام جو واضح طور پر عزیر کے وقت کے بعد لکھے گئے اس کی تقدیس کر کے شامل نہیں کیا گیا، اگرچہ بہت سا کام یہودیوں کے کئی جماعتوں میں مقبول ہوئے۔ ان کاموں نے اپنی جگہ یونانی زبان میں بائبل کا ترجمہ ( ہفتادی ترجمہ) کے طور پر بنائی جنہیں فہرست مسلمہ ثانی کتابیں کہا گیا۔
- 167۔161 قبل مسیح
- مکاہی بغاوت کے خلاف ہیلینیائی سلوقی سلطنت یہوداہ مکابی کی قیادت میں ہوئی جس کے نتیجے میں فتح اور حنوکا چھٹی کی تنصیب ہوئی۔
- 157۔129 قبل مسیح
- حشمونی خاندان نے سلوقی سلطنت کے ساتھ نئی جنگ میں اپنی دھاک یہودیہ میں بٹھائی ۔
- 63 قبل مسیح
- پومپی نے ہیکل میں داخل ہونے کے لیے محاصرہ کیا کرنے اور یہودیہ روم کی ایک مؤکل ریاست بنی ۔
- 40 قبل مسیح–4 قبل مسیح
- ہیرودیس اعظم نے رومی سینیٹ کے ذریعے سے یہودیوں کے لیے بادشاہ مقرر کیا۔
پہلی صدی عیسوی
ترمیم- 6 ء
- یہودیہ ، سامریہ اور ادوم کو ضم کر کے یہودا (رومی صوبہ) بنایا گیا۔
- 10 ء
- ہلل مشر نے سب سے زیادہ تورات کی حکمت سمجھی ، پھر فوت ہونے کے بعد 30 عیسوی تک شمائے کو غلبہ حاصل ہوا ، ہلل اور شمائے دیکھیں ۔
- 26۔36 ء
- رومیوں کی جانب سے یسوع کے مقدمے کی سماعت اور یسوع کی تصلیب ۔
- 30 ء
- آدیابن کی ہیلینا، جو بین النہرین کی ایک بادشاہت کی جاگیردارنی تھی، یہودیت مذہب اختیار کیا آدیابن کے آبادی کی ایک اہم تعداد کے نے اس کی پیروی کی بعد ازاں اس نے رومی یہودی جنگوں میں یہودیوں کو محدود تعاون فراہم کیا ۔ بعد کی صدیوں میں اس برادری نے مسیحیت قبول کی۔
- 30۔70 ء
- ہیکل دوم کے دور میں یہودیت کے اندر فرقہ بندی ۔ ایک فرقے کے اندر اندر ہیلینیائی یہودی معاشرے کے اندر ایک فرقہ یہودی مسیحیت کو فروغ دیتا ہے، ارتداد یسوع کو بھی دیکھیں۔
- 66۔70ء
- پہلی یہودی رومن جنگ ہیکل دوم اور یروشلم کے زوال و تباہی پر اختتام پزیر ہوئی ۔ رومی محاصرے کے دوران میں 1,100,000 افراد ہلاک اور 97,000 کو غلام بنایا گیا۔[1] ایوان (مجلس شوری) کو یوحنان بن زکائی نے یفنہ منتقل کیا ۔جمنیہ کی مجلس بھی دیکھیں۔ رومی سلطنت کے تمام یہود سے محصول کی تحصیل چاہے انھوں نے بغاوت میں حصہ لیا تھا یا نہیں۔
- 200 – 70ء
- تنایم کی مدت میں ، ربیوں نے زبان تورات کو منظم اور واضح کیا ۔ ایسے تنائم کے فیصلوں کو جو ، مشناہ، باریتا، توسفتا اور مدراش کی تالیفات میں موجود ہیں[2]
- 73 ء
- پہلی یہودی رومن جنگ کے آخری واقعات – سقوط مسادا ۔ مسیحیت یہودی فرقے کے طور پر شروع ہوتا ہے اور تحاریر اور نظریات کے ذریعے سے اپنی الگ شناخت تیار کرتا ہے پھر یہودیت سے ہٹ کر ایک جداگانہ مذہب بنتا ہے۔
دوسری صدی
ترمیم- 115۔117ء
- کٹوس کی جنگ ( ٹراجان کے خلاف بغاوت) – قبرص کی بڑے یہودی برادریوں ، سائرین (جدید لیبیا)، آئیجیپتا (جدید مصر) اور بین النہرین (جدید شام اور عراق) میں ایک دوسری یہودی رومن جنگ شروع ہوئی۔ اس کا نتیجہ سینکڑوں ہزاروں یہودیوں، یونانیوں اور رومیوں کے باہمی قتل اور یہودی باغیوں کی مکمل شکست پر ہوا اور نو تخت نشیں شہنشاہ حدارین کی جانب سے قبرص اور سائرین سے یہود کا مکمل صفایا کیا گیا ۔
- 131۔136ء
- رومی شہنشاہ حدارین ، دیگر اشتعالات کے ساتھ ساتھ ، یروشلم کا نام بدل کر "ایلیا کاپیٹولینا" رکھنا اور ختنہ کو ممنوع کرنا تھا۔ شمعون بار کوخبہ (بار کوصیبہ) نے حدرین کے جواب میں رومی سلطنت کے خلاف ایک بڑی یہودی بغاوت کی۔جس کے بعد، زیادہ تر یہودی آبادی کو ہلاک کر دیا گیا (تقریباً 580,000) اور حدرین نے کی صوبہ یہودیہ کا نام بدل کر شام فلسطینیہ رکھ دیا اور کوشش کی کہ یہودیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
- 136ء
- ربی اکیوا کو شہید کر دیا گیا۔
- 138ء
- شہنشاہ حدرین کی موت کے ساتھ رومی سلطنت میں یہودیوں پر ظلم و ستم میں نرمی ہوئی اور یہودیوں کو تیشا باؤ کے موقع پر یروشلم دورہ کرنے کی اجازت ہوئی۔ آنے والی صدیوں میں یہودی مرکز گلیل (جلیل ) منتقل ہوا۔
تیسری صدی
ترمیم- 200ء
- مشناہ ، آج تک کی یہودی زبانی شریعت کی معیار بندی اور تدوین یہوداہ ہناسی نے ارض مقدسہ میں کی ۔
- 259ء
- بابل میں نہر دعا جسے تدمر نے تباہ کیا اور جس کی تباہی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر یہوداس علاقے میں منتشر ہوئے ۔[3]
چوتھی صدی
ترمیم- 315۔337ء
- رومی شہنشاہ قسطنتین اعظم اول نے نیا پابندیوں کا قانون جاری کیا ۔ مسیحییوں کا مذہب تبدیل کر کے یہودی بنانا کالعدم ٹہرا ، مذہبی اجتماعات کو کم سے کم رکھا گیا ، لیکن یہودیوں کو یروشلم کے ہیکل کی تباہی کی سالگرہ کے موقع پر بھی داخل ہونے کی اجازت دی گئی ۔
- 351۔352ء
- قسطنطیث گالس کے خلاف یہودی بغاوت کچل دی جاتی ہے۔
- 358ء
- رومی ظلم و ستم کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے ، ہلل دوم نے یہودی ماہ و سال کے حساب کے لیے ایک ریاضیاتی کیلنڈر بنایا ۔ اپنانے کے بعد ، کیلنڈر ، طبریہ میں سنھردین کی شوری تحلیل ہوئ ۔
- 361۔363ء
- آخری مشرک رومی شہنشاہ جولین نے یہودیوں کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی جسے تعمیر شدہ حالت میں دیکھنے کے لیے کئی سال انتظار کرنا پڑا" اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر نو کے لیے کوشش کریں۔ تھوڑی دیر بعد ، شہنشاہ قتل کے فورا بعد ، اس کا منصوبہ تحلیل کر دیا گیا ۔
- 363ء
- گلیل میں زلزلہ
- 379ء
- بھارت کا، ہندو بادشاہ شرا پریمل جسے ایرو براہمن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ایک پیتل کے قطبہ پر کندہ اجازت نامہ جاری کیا گیا کہ یہود آزادانہ طور پر رہیں اور کنیسہ کی تعمیر کر سکیں اور اپنی جائداد کی ملکیت کا حق انھیں اس وقت تک ہے جب تک دنیا اور چاند موجود رہیں گے ۔ ۔[4][5]
پانچویں صدی
ترمیم- 438ء
- مہارانی یودوشیا نے یہود کے حرم قدسی (ہیکل) کی جگہ عبادت کرنے کی پابندی ہٹائی اور ان کی جلیل(گیلیلی) میں سربراہی کی اور آواز لگائی "عظیم اور طاقتور یہودی لوگو: جان لو ہمارے لوگوں کی جلاوطنی اختتام کو پہنچی "!
- 450ء
- یروشلمی تلمود کی تدوین و ترمیم
چھٹی صدی
ترمیم- 500۔523ء
- حمیری بادشاہ (جدید یمن) یوسف ذو نواس نے یہودیت اختیار کی ،اور موجودہ یمنی یہودی مرکز کو ترقی دی ۔ اس کی بادشاہت اکسوم اور مسیحیوں کا مابین جنگ میں تباہ ہوئی۔
- 550ء
- بابلی تالمود کی بڑی تدوین راہب راوینہ اور اشی کی زیر نگرانی مکمل ہوئی۔ جبکہ کچھ کچھ اگلے 200 سال تک چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوتی رہیں
- 700–550ء
- سورائیم کے دور میں ، فارسی دانشور(علما) تالمود کو اصلی حالت میں بحال کرتے ہیں۔
- 572–555ء
- بازنطینیوں کے خلاف چوتھی سامری بغاوت نے سامری برادری کو بڑی حد تک کم کر دیا ، انکا اسرائیلی عقیدہ کالعدم قرار دے دیا گیا ۔ قریب کے یہود جو زیادہ تر بحیرہ طبریہ کے آس پاس رہتے تھے وہ بھی ان ظالمانہ اقدامات سے متاثر ہوئے۔
- 20 یہودی برادریاں بشمول 2 کاہن نے بازنطینیوں کے ظلم سے بچنے کے لیے (یا مسلمانوں کے مطابق آخری موعود ﷺ کی تلاش میں ) حجاز خصوصا مدینہ کی جانب ہجرت کی ۔[6]
ساتویں صدی
ترمیمجزیرہ نما عرب میں مکمل اسلامی عروج اورتسلط مشرک عربوں کے ساتھ ساتھ یہودی برادریوں پر بھی کلی خاتمہ یا تبدیلی مذہب کی صورت اثر انداز ہوا، جبکہ ارض مقدسہ بازنطینیوں کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے زیر تسلط آیا۔ پے در پے مدینہ کے مختلف یہودی قبائل کی جانب سے عہد شکنی اور بغاوت کے بعد 627ء میں جنگ خندق کے دوران میں قبیلہ یہود مدینہ (بنو قریضہ) نے بغاوت کر کے مسلم دشمنوں (قریش مکہ) کی حمایت کی اور بعد ازاں تسلیم ہوجانے کے بعد محمد ﷺ کی جانب سے ان کے بالغ مردوں کا قتل اور عورتوں کو لونڈی بنایا گیا۔[7][7][8][8][9][10][11][10]
- 628–610ء
- گلیل (طبریہ) کے یہودنے طبریہ کے بنیامین کی قیادت میں ساسانی سلطنت کے خسرو دوم اور فارسی یہودیوں کے ساتھ ملکر ہراکل کے خلاف بغاوت کی اور خود مختاری حاصل کی، جو عارضی رہی تاہم کچھ ہی عرصہ بعد ان یہود کا قتل عام ہوا۔
آٹھویں صدی
ترمیم- 700۔1250ء
- گاؤنیم کے دور میں جنوبی یورپ اور ایشائے کوچک کے یہود غیر روادار مسیحی بادشاہوں اور پادریوں کے تحت رہے۔ جبکہ زیادہ تر یہود مسلمان عرب حکمرانوں کے علاقوں یعنی اندلس، شمالی افریقا، فلسطین، عراق اور یمن میں رہتے رہے۔ وقتا فوقتا ظلم کے ادوار کے باوجود اس دور میں یہودی برادری کی ثقافت اور معاشرتی زندگی ترقی کرتی رہی۔ بلاتفاق تسلیم شدہ یہودی زندگی کے مراکز میں طبریہ اور یروشلم، سورا اور پمبیدتہ (عراق) کے علاقے تھے۔ ان قانونی درسگاہوں کے مہتممین گاونیم تھے جنہیں تمام یہودی دنیا مختلف قسم کے مسائل کے لیے رجوع کرتی تھی۔ اسی زمانے میں طبریہ میں عبرانی رسم الخط کی تنقیط ایجاد ہوئی۔
- 711ء
- مسلمان فوجوں نے سپین پر حملہ کرکے اس کے اکثریتی علاقے پر قابض ہوئے (اس وقت تک یہود تمام تر ہسپانوی آبادی کا %8 بنتے تھے )۔ مسیحیحکومت کے دور میں ، یہود کو بکثرت متشدد مظالم کا نشانہ بنایا گیا ، جبکہ مسلمانوں نے دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ انھیں بھی باقاعدہ دوسرے درجے کا شہری (ذمی )بنایا ، جو جزیہ ادا کیا کرتے تھے – جبکہ کچھ ذرائع اس دور کو سپین میں یہود کاسنہرا دور گردانتے ہیں ۔
- 740ء
- خزر۔ وسطی ایشیاء کے ایک ترک قفقازی خانہ بدوش قبیلے کے سردار اور بڑوں نے یہودیت قبول کی ۔ ان کی مملکت 10 ویں صدی تک رہی، جسے روسیوں نے آلیا ،اور حتمی طور پہ 1016ء روسیوں اور بازنطینیوں کے بیچ تقسیم ہوا، کچھ سام مخالف دانشوروں کے خیال میں یہی قبیلہ سد ذوالقرنین کے یاجوج ماجوج ہیں۔
- 760ء
- یہود کے فرقے قرائیم نے زبانی قانون کی عمل داری رد کی اور ربیائی یہودیت سے علیحدگی اختیار کی۔
نویں صدی
ترمیم- 807ء
- عباسی خلیفہ ہارون الرشید اپنی خلافت میں موجود تمام تر یہود کو حکم جاری کرتا ہے کہ وہ زنار – زرد نشان یا کمر بند زیب تن کریں جبکہ مسیحیوں کو نیلا زیب تن کرنے کا حکم تھا ۔
- 846ء
- سورا(عراق) میں امرام گاون اپنی ثدر کی کتاب تالیف کرتا ہے ۔
- 850ء
- المتوکل ایک حکم نامہ جاری کرتا ہے کہ تمام تر یہود اور مسیحی ذمی ایسے لباس زیب تن کریں کہ ان کی مسلمانوں سے تمیز کی جاسکے، ان کے عبادت خانے مسمار کر دئے جائیں اور سرکاری و دفتری معملات میں ان کی کم از کم مداخلت ہو۔
- 871ء
- اس سال کا ایک نامکمل ازدواجی معاہدہ جو قاہرہ کے بن عزرا کنیسہ سے ملحقہ کمرے سے ملے دستاویزات میں سے قدیم ترین دستاویز ہے جواسی سال مورخہ 6 اکتوبر کودریافت ہوئے۔
دسویں صدی
ترمیم- 1013–912ء
- یہودی ثقافت کا ہسپانیہ میں سنہرا دور – عبدالرحمن سوم 912ء میں ہسپانیہ کا خلیفہ بنا اور اس کے ساتھ ہی رواداری کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ مسلمان یہودیوں اور مسیحیوں کی لازمی عسکری خدمت ختم کی ، انھیں اپنے قاضی اور شریعت کی اجازت اور جائداد کی حفاظت کی ضمانت دی گئی۔ یہودی شعرا، دانشور، علما، سائنس دان ، فلسفی اور سیاست دان ترقی پاتے عظیم تر عربی تہذیب کا لازمی حصہ بنے۔ یہ دور قرطبہ کے قتل عام کے ساتھ یعنی 1013ء میں ختم ہوا۔
- 940 ء
- عراق میں سعادیا گاؤن نے اپنی ثدر (دعائیہ کتاب) تالیف کی
گیارہویں صدی
ترمیم- 1013ء ۔ 1008ء
- فاطمی حکمران حکم بامراللہ نے یہود پر کئی پابندیاں لگائی، تمام یہود کو لکڑی کا سنہرا بچھڑا گلے میں لٹکانا ضروری تھا ، جبکہ مسیحیوں کو لکڑی کی صلیب لٹکانے کی پابندی تھی اور تمام زمیوں کو کالے ہیٹ پہننا لازمی تھا
- 1013ء
- سقوط قرطبہ کے دوران میں قتل عام ہوا ،جس کی وجہ سے بہت سے نامور یہود جیسے سموئیل بن نغریلہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
- 1073۔ 1013ء
- مراکش کے راہب اسحا ق الفاسی نے ہلاخہ کی ابتدائی دستاویزات لکھیں جو یہودی شریعت کا مجموعہ ضوابط کی تحریرایک اہم کام تھا
- 1016ء
- تیونس ۔قیروان کی یہودی برادری کو جلاوطنی اور تبدیلی مذہب میں سے چننے پرمجبور کیا گیا۔[12]
- 1033ء
- تمیم کی فوج اور مغراوہ قبیلے نے شہر فتح کرنے کے بعد، قبیلے کے سردار زناتہ بربر بنو عرفان نے فاس میں یہود کا قتل عام کیا۔
- 1105–1040ء
- راہب شلمو یتذاخی(راشی) نے تنخ اور تالمود کی اہم ترین تفسیر لکھی
- 30دسمبر 1066ء
- غرناطہ قتل عام : مسلمان بلوائیوں نے غرناطہ کے شاہی محل پر ہلہ بول دیا ، یہودی وزیر یوسف بن نغریلہ کی تصلیب کی اور شہر کی بیشتر یہودی آبادی کا قتل عام کیا۔1500 سے زائد یہودی خاندانوں جن میں 4000 افراد ایک دن میں قتل ہوئے ۔[13]
- 1090ء
- غرناطہ کو مرابطین کے بادشاہ یوسف بن تاشفین نے فتح کیا جبکہ یہودی برادری کے بارے میں مانا جانے لگا کہ انھوں نے مسیحیوں کی طرف داری اختیار کرلی، جس کی وجہ سے انھیں تباہی کا سامنہ کرنا پڑا۔ بہت سے یہود کسمپرسی کی حالت میں مسیحی حکومت کے زیر تسلط شہر طلیطلہ (تولیدو) کی جانب فرار ہوئے۔[14]
- 1095۔1291ء
- صلیبی جنگیں شروع ہوتے ہی فلسطین میں آگ بھڑکی۔ صلیبیوں نے عارضی طور پہ 1099ء میں یروشلم پر قبضہ کیا۔لاکھوں یہودیوں کو یورپی صلیبیوں نے تمام تر یورپ اور مشرق وسطی میں قتل کیا۔
بارہویں صدی
ترمیم- 1100ء۔ 1275ء
- توسفوت ( قرون وسطی ) کی تالمودی تفاسیر کے دور میں ، تالمودی مفسروں نے راشی کے تفسیری کام کو جاری رکھا۔ ان مفسروں میں سے کچھ اس کے جانشین بھی تھے۔
- 1107ء
- مراکشی مرابط حاکم یوسف بن تاشفین ان مراکشی یہود کو جلاوطن کر دیتا ہے جو قبول اسلام نہیں کرتے۔
- 1135ء۔1204ء
- ربط موسی بن میمون المعروف میمونائیدث یا رمبام سفاردی یہودیت کا نمایاں ربی ہے۔ اس کے کارناموں میں سے ، یہودی تاریخ کی سب سے بااثر یہودی شریعت کی عربی کتاب(مشنہ تورات) لکھی ، جبکہ دوسری فلسفیانہ تصانیف میں بشمول (دلالة_الحائرين رہنمائے مضطرب) یہودی ادب میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
- 1141ء
- یہودا لاوی یہود کو فلسطین کی جانب ہجرت کرنے کے لیے آواز لگاتا ہے ، وہاں جاکر آباد اور یروشلم میں مدفون ہوتا ہے۔
- 1148ء
- قرطبہ کے بربر یہود کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں ، میمونائیڈث قرطبہ کو چھوڑ دیتا ہے ۔
- 1187ء
- یروشلم پر قبضہ کے بعد ، صلاح الدین ایوبی نے یہود کو طلب کرکے شہر میں بسنے کی اجازت دی[15] ، خاصکر عسقلانی یہودی اس کے بلاوے پر آباد ہوئے۔ [16]
- 1189ء
- رچرڈ اول کی تاجپوشی کے دوران میں لندن میں سام مخالف فسادات میں اوغلین کا جیکب قتل ہوا، بعد ازاں بادشاہ نے مرتکبین کو سزا دی۔
- 1190ء
- یارک قتل عام میں 150 یہود یارک لندن کے ایک پوگروم میں مسیحیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
تیرھویں صدی
ترمیم- 1240 ء
- بادشاہ ہنری سوم کے ماتحت یہود پر جعلی سکے بنانے کا الزام لگا اور جب مقامی آبادی نے انھیں بدلے کا نشانہ بنایا تو بادشاہ نے انھیں بچانے کے لیے جلا وطن کر دیا[17]
- 1250–1300 ء
- موسی ڈی لیون تورات کی راہب شمعون بار یوحائی اور اس کے مریدوں کی پوشیدہ تفسیر زوہر کی تدوین اور اشاعت کی، اس کے بعد سے جدید قسم کی قبالہ (مخفی یہودی تصوف ) کا آغاز ہوتا ہے
- 1500–1250 ء
- رشونیم (دانہائے قرون وسطی) کا دور – زیادہ تر یہود اس دور میں بحیرہ روم اور مغربی یورپ میں جاگیردارانہ نظام کے ماتحت آباد تھے۔عراق میں مسلم اور یہودی مرکز قوت کے انحطاط کے ساتھ ہی کوئی دنیا بھر میں یہودی قابل ذکرقوت نافذہ نہ رہی جو یہودی قانون ، معملات اور رواج کا فیصلہ کرسکتی۔چنانچہ راہبوں نے تورات اور تالمود کی ایسی تفاسیر اور یہودی قوانین لکھنے کی ضرورت محسوس کی جو دنیا بھر کے یہود کو ان کے علاقوںمیں ہی اس قابل بنا سکیں کہ وہ یہودی روایات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔
- 1267 ء
- موسی بن نحمان یروشلم میں آکر آباد ہوا اور رمبان کنیسہ بنایا۔
- 1343–1270 ء
- اسپین کا راہب یعقوب بن اشر نے مشہور اربعہ طوریم ( یہودی قانون کی چار صفیں) لکھی
- 1290ء
- ایڈورڈ اول کی جانب سے انگلینڈ میں 1275ء کے کلعدمی سود کے قانون کے جاری ہونے کے 40 سال بعد یہود کو وہاں سے بیدخل کیا گیا۔
چودھویں صدی
ترمیم- 1300 ء
- راہب لیوی ابن گروشم المعروف جرثونائیڈس چودھویں صدی کا فرانسیسی یہودی فلسفی تھا،جس نے 1317–1329 میں کتاب سفر ملھموت آدونائی (آقا کی جنگوں کی کتاب) لکھی ، جسے بعد میں یہودی ادب میں خاص مقام ملا، ان کے ادبی کام میں دیگر فلسفیانہ تصانیف بھی ہیں ۔
- 1304۔1394ء
- یہود کو متعدد بار فرانس سے جلا وطن کیا گیا اور قیمت لے کر پھر سے آنے کی اجازت دی گئی
- 1343 ء
- مغربی یورپ کے مظلوم یہود کو کزیمیر اعظم نے پولینڈ مدعو کیا
- 1348 ء
- پوپ کلیمنٹ ششم نے 6 جولائی اور 26 ستمبر 1348 کو فرمان جاری کیے ، بعد والا قوآمویس پرفیڈیم کہلایا ، جس میں یہود پر ظلم و ستم کی مذمت کی گئی تھی اور یہ کہ جنھوں نے یہود کو وبا کا ذمہ دار ٹہرایا وہ خود شیطان کاذب کا شکار ہوئے[19] ۔اس نے اہل کلیسا پر زور دیا کہ یہود کی حفاظت کے لیے اقدامت کریں جیسے اس نے کیے ۔
- 1349ء
- سٹراسبرگ قتل عام
- 1350ء کی دہائی
- اشکنازی یہود پر منعقد موجودہ جینیاتی پرکھ کی نشان دہی کے مطابق چودھویں صدی میں اشکنازی یہودی آبادی مذہبی تعصب کی بنا پر کم ہوتے ہوتے 250 سے 420 نفوس تک رہ گئی تھی [20]
- 1370۔ 1369 ء
- پیٹر شاہ قشتالہ(پیڈرو) اور قشتالہ کا ہنری دوم(انریکو) کے درمیان میں ہسپانوی خانہ جنگی میں 38,000 یہود مارے گئے جو اس تصادم میں ملوث تھے۔[21]
پندرھویں صدی
ترمیم- 1478ء
- سپین کے کیتھولک حکمرانوں شاہ فرڈیننڈ ا ور ملکہ ازابیلا اول نے ہسپانوی مہم جوئی کی بنیاد رکھی
- 1486ء
- اٹلی میں پہلی یہودی دعائیہ کتاب کی اشاعت
- 1488۔1575ء
- راہب یوسف کارو بیس سال لگا کر بیت یوسف مرتب کی، جو یہودی شریعت کی اعلیٰ ترین شرح ہے۔اس نے اس کے بعد مزید مختصر شرح شولکان اروخ لکھی ، جو اگلے 400 سال تک یہودی شریعت پر معیار ٹہری۔ وہ پیدا سپین میں ہوا اور اس کا انتقال صفد ، فلسطین میں ہوا۔۔
- 1488ء
- عبیدہ بن ابراہیم ، مفسرِِ مشناہ یروشلم پہنچا اور ایک نئی یہودی برادری کو نقطہ آغاز دیا۔
- 1492ء
- فرمان ِ الحمرا : تقریباً دو لاکھ یہود کو سپین سے ملک بدر کیا گیا ، جو عرب اور ترک علاقوں کے علاوہ نیدرلینڈز اور کچھ فلسطین میں جا بسے،کچھ وسطی اور جنوبی امریکا گئے۔ تاہم ، زیادہ تر پولینڈ ہجرت کر گئے۔ بعد کی صدیوں میں تمام دنیا کی یہودی آبادی کا 50% پولینڈ ہی میں رہتی رہی۔جبکہ بہت سے یہود نے اعلیٰ الاعلان مسیحیت تسلیم کر کے سپین ہی میں رہے یا آنوسی ہوکر در پردہ یہودی ہی رہے۔
- 1492ء
- سلطنت عثمانیہ کے بایزید دوم نے باقاعدہ دعوتنامے کے ذریعے سمندری جہاز بھیج کر سپین اور پرتگال سے جلاوطن کیے گئے یہود کو اپنے ملک بلوایا۔
- 1493ء
- 137,000 یہود کو صقلیہ، اٹلی سے بیدخل کیا گیا۔
- 1496ء
- پرتگال سے اور جرمنی سے بہت سے یہود بیدخل کیے گئے۔
سولہویں صدی
ترمیم- 1501ء
- پولینڈ کے شاہ الیکزنڈر نے یہود واپس لتھوینیا کی عظیم ڈچی کی ریاست میں آنے کی اجازت دی
- 1516ء
- یورپ کا پہلا یہودی پاڑہ وینس اٹلی میں قائم ہوا۔
- 1572–1525ء
- راہب موشے اسرلس(رے ما) کراکوفی نے شلخان اروخ کی اشکنازی یہودیت پر اطلاق بارے جامع تفسیر لکھی
- 1534ء
- شاہ پولینڈ صجیسمند اول یہود کے امتیازی لباس پہننے کے قانون کو منسوخ کی
- 1534ء
- پولینڈ میں پہلی یدشی کتاب شائع ہوا
- 1572–1534ء
- اسحاق لوریہ (اریزل) نے یروشلم اور صفد میں مخصوص مریدوں کو قبالہ کی تعلیم دی، جن میں سے ابن تبل، اسرائیل ساروگ خاصکر خائیم ویٹل نے اس کی تعلیمات قلمبند کیں، جبکہ ساروگ کا نسخہ تو فورا ہی اٹلی اور ہالینڈ میں شائع ہوا لیکن ویٹل کا نسخہ تین صدیوں تک مخطوطہ (ہاتھ کا لکھا ) ہی رہا اور شائع نہ ہو سکا۔
- 1547ء
- لوبلیون میں پہلا یہودی (مطبوعۃ) چھاپہ خانہ شروع ہوا۔
- 1550ء
- جینوا، اٹلی سے یہود بیدخل کیے گئے،
- موسی بن یعقوب کوردوویرو نے صفد ،فلسطین میں قبالہ اکیڈمی قائم کی
- 1567ء
- پولینڈ میں پہلی یہودی یونیورسٹی یشیوا قائم کی گئی
- 1577ء
- ایشیا کا پہلا یہودی (مطبوعۃ) پریس صفد فلسطین میں قائم کی گئی
- 1764–1580ء
- پولینڈ کے چار علاقوں عظیم تر پولینڈ ، پولینڈ صغیر، روتہینیہ ، والہینیہ کے یہودی کونسل کا پہلا اجلاس لوبین پولینڈ میں ہوا۔کحال (یہودی مجلس شوری) کے 70 ارکان نے محصول و خراج اور دیگر اہم یہودی امور کا جائزہ لیا گیا۔
سترھویں صدی
ترمیم- 1630–1621ء
- شیلاہ حکادوش نے ارض مقدسہ کی جانب ہجر ت کے بعدیہودی مذہب کا اپنا تحریر کردہ سب سے مشہور ادب لکھا۔
- 1623 ء
- لتھوینیا کی عظیم ڈچی ریاست کی میں پہلی مرتبہ الگ سے (واعد )یہودی پارلیمان قائم ہوا ۔
- 1676–1626ء
- سباتائی زیوی جھوٹا مسیح منظر عام پر آیا۔
- 1633 ء
- پوزنان کے یہود نے مسیحیوں کو اپنے شہر میں آنے پر پابندی عائد کی ۔
- 1648 ء
- پولینڈ کی یہودی آبادی 4,50,000 تک جاپہنچی ( جو پولش لتھوینی دولت مشترکہ کے 1,1000,000 کی آبادی کا 4% بنتا ہے) جس میں بوھیمیہ 40,000 ، موراویہ 25,000۔جبکہ اس وقت کی دنیا بھر کی یہودی آبادی کا تخمینہ 750,000 لگایا گیا۔
- 1655–1648 ء
- قوضاق بوھدان چمیلنکی نے یوکرین میں پولش اشرافیہ اور یہود کے قتل عام کی قیادت کی ، جس میں 65,000 یہود اور اشرفیہ مارے گئے – جبکہ تمام تر یہود کی تعداد100,000تک تھی[22]
- 1655 ء
- اولیور کرامویل نے یہود کو واپس انگلینڈ میں آنے کی اجازت دی۔
- 1679ء
- یمنی یہود کی بیدخلیِ ماوضہ
اٹھارویں صدی
ترمیم- 1760–1700ء
- اسرائیل بن الیزر، المعروف بعل شیم توو نے حسیدی یہودیت کی بنیاد رکھی ، خدا تک پہنچنے کے لیے پرجوش مراقبے کا ایک طریقہ اختیار کیا۔اس کے اور اس کے مریدوں کے بہت سے معتقدین ہوئے اور کئی حاسیدی فرقے قائم کیے۔ حاسیدیت کے یورپی یہودی مخالفین (مثناگدیم) کا ماننا ہے کہ علمانہ طرز یہودیت پر ہی عمل کرنا چاہیے نہ کہ روحانی یہودیت پر۔ آج کل کہ مشہور حاسیدی فرقوں میں بابور، بسلور،جرجر، لوبائچ اور سطمر شامل ہیں۔
- 1700ء
- راہب یودہ ہی حاسید فلسطین کی جانب مع اپنے سینکڑوں مریدین کے علیا اختیار کیا اور پہنچنے کے کچھ ہی دن بعد اچانک فوت ہوا ۔
- سر سلیمان ڈی مدینہ کو ولیم سوم شاہ انگلستان کی جانب سے نائٹ کا اعزاز دیا گیا ، وہ انگلستان میں یہ اعزاز حاصل کرنے والا پہلا یہودی بنا ۔
- 1720ء
- یودہ ہی حاسید کی موت کے بعد ان کے مرید منتشر ہوئے ،جو رہ گئے انھوں نے چالیس گھروں کا اشکنازی محلہ اور کنیسہ بنایا، کچھ ہی عرصہ بعد انھوں نے اس کنیسہ میں عالیشان توسیع شروع کی ، جس کے لیے انھیں بڑ ے سرمایہ کی ضرورت تھی، انھوں نے مقامی عربوں سے قرض لینا شروع کردیاجنھیں وہ ادا نہ کرسکے ، اتنے میں عربوں نے زیر تعمیر کنیسہ کو تحویل میں لے لیا ،چنانچہ انھوں نے چندہ اکھٹا کر نے کی غرض سے یورپ کی جانب قاصدین کی جماعتیں(مشولاخ) بھیجیں ، بیس سال بعد جب یہود قرض کی ادئیگی میں ناکام رہے تو غصہ میں عرب سرمایہ داروں نے قبضہ میں لیا کنیسہ خرابہ کو نذر آتش کر دیا، مقامی اشکنازی برادری کے زعماء کو قید کر لیا اور تمام اشکنازی یہود کو شہر سے بیدخل کر دیا –وقت گزرتے اس کنیسہ کے اطراف میں دکانیں بن گئیں اور بقیہ کھنڈر کو ربی ہاحاسیدی کا کھنڈرکہا جانے لگا۔
- 1797–1720ء
- ویلنیوس کے متقی عبقری (جینئیس) ویلنا گاؤن – ربی الیاس کی پیدائش۔
- 1786–1729ء
- موسی مندلسون اور حثکالا تحریک۔ موسی مندلسؤن نے یہود کی تفرید ختم کرنے کی جدوجہد کی تاکہ وہ مغربی ثقافت و تہذیب سے ہم آغوش ہوں اور غیر یہودی (جنٹایل ) انھیں برابری پر تسلیم کریں۔ حثکالا نے جدید یہودی گروہوں اور بطور گفتاری زبان عبرانی کے لیے ترقی کے دروازے کھول دئے۔ لیکن ساتھ ہی اس تحریک نے مسیحی معاشرے میں مکمل طور پہ قبولیت کے خواہشمندوں یہود کے لیے راستہ ہموار کیا جنھوں نے مسیحیت اختیار کی یا یہودیت میں رہ کر مسیحیت کی مشابہت اور اس کی تقلید اختیار کی۔
- 1740ء
- یہود کو امریکی نوآبادیاتی کالونی میں شہریت دینے کے لیے برطانوی مقننہ نے قانون بنایا، اس سے قبل کئی اور کالونیوں نے بھی یہود کو رائج العام طریقہ یعنی مسیحی ایمان پر حلف لیے بغیر شہریت دی۔
- عثمانی حاکم ظاهر العمر نے مشہور قبالوی اور ازمیر ، ترکی کے راہب ، ربی ہائیم ابولفیہ کو ارض مقدسہ ، طبریہ میں آنے کی دعوت دی جو تقریباً 70 سال سے غیر آبادتھا اور انھیں کنیسہ بنانے کی اجازت دی،بہت سے دانشور اس شہر کی آبادی کے مسیح آخر الزماں کے ظہور کی نشانی سے جوڑتے ہیں[24]
- 1750–1740ء
- مسیح موعود کی پیشنگوئ کے پیش نظر ہزاروں کی تعداد میں یہود فلسطین کی جانب ہجرت کی،اس بڑی ہجرت سے فلسطینی یہودی آبادی کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوا۔[24]
- 1747ء
- کوٹی ، یوکرین کا ربی ابراہیم گرشوم حاسیدی مہاجروں میں سے پہلا تھا –وہ ایک محترم تلمودی دانشور ، روحانی پیر اورربی اسرائیل بعل شیم توو (حاسیدی تحریک کے بانی)کا بہنوئی تھا۔ ربی ابراہیم پہلے پہل الخلیل میں جا بسا ، لیکن پھر اسنے یروشلم کے رہائشیوں کی فرمائش پر ان کے شہرنقل مکانی کی۔[25]
- 1759ء
- یعقوب فرانک پولش شلختا (اشرفیہ) کی صفوں میں شامل ہوئے۔
- 1795–1772ء
- روس ،پروشیا اور آسٹریا کے مابین انقسام پولینڈ کے بعد یہودی دنیا تین ملکوں میں رہتی رہی۔پولینڈ کے یہود کو دئے گئے استحقاق ختم کیے گئے۔
- 1781–1775ء
- انقلاب امریکہ برپا ہوا، جس میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔[26]
- 1789ء
- فرانسیسی انقلاب کے تحت فرانس نے کچھ شرائط سمیت یہود کو مکمل حقوق اور شہریت دی۔[28]
- 1790ء
- ریاست ہائے امریکا میں صدر جارج واشنگٹن جزیرہ روڈز کی یہودی برادری کو خط لکھا کہ میں ایسے ملک کا تصور کر رہا ہوں جہاں ’’ تعصب کو حلت نہیں۔۔۔عقوبت کی تائید نہیں ‘‘ باوجود اس کے کہ امریکا ایک پروٹسٹنٹ ملک تھا،نظریاتی طور پہ یہود کو مکمل حقوق دئے گئے۔ مزید برآں مشرقی یورپ کے یہود کے تجارت کے کردار نے امریکا میں آئے یہودی مہاجروں کی ذہن سازی کی ،جس کا مطلب تھا کہ وہ امریکی معاشرے میں تجارتی مقابلے کے لیے خوب تیار تھے۔
- 1791ء
- روس نے ملفوف نوآبادی (محدود علاقہ) تخلیق کیا جو یہودی آبادی والے پولینڈ اور کریمیا کے مكتسب (حاصل کردہ) علاقوں پر مشتمل تھا۔اس ملفوف علاقے کی یہودی آبادی 75,000 تھی جس میں سے 450,000 پروشیا اور آسٹریا پر مشتمل پولینڈ کے حصوںمیں سے تھے[29]
- 1798ء
- برسلو کے ربی ناکھمن نے فلسطین کا سفر کیا
- 1799ء
- جب فلسطین میں موجود فرانسیسی دستے عکہ شہر کا محاصرہ کر رہے تھے، نپولین نے اعلان مددتیار کیا کہ ایشیائی اور افریکی یہود پیش قدمی اور فتح یروشلم میں اس کی مدد کریں، لیکن عکہ کے ناکام محاصرہ کی وجہ سے وہ اعلان جاری نہ کر سکا۔
انیسویں صدی
ترمیم- 1900–1800ء
- یدیش ادب کا سنہری دور ، عبرانی زبان کا بطور گفتاری زبان اور عبرانی ادب کا احیا ہوا۔[30]
1840–1808ء
- 1840ء آمدِ مسیح کی توقع کے پیشِ نظر عجلتِ نجات کی امید میں بڑے پیمانے پر علیا ہوا۔[31]
1860–1820ء
- یورپی یہودی روشن خیالی اور آزادی کی تحاریک جو ہلاخاہ پر سختی سے عمل پیراہی کا خاصہ رہی ہیں اس کے رد عمل میں روایت پرست راسخ العقیدہ یہودیت کی تحاریک ابھری جو ان کا مزاحمت کرتی رہیں۔
- 1830ء
- یونان نے یہود کو شہریت دی۔
- 1831ء
- رضاکار یہودی ملیشیا نے وارسا کی روسیوں سے حفاظت میں حصہ لیا۔
- 1835–1834 ء
- فلسطینی کاشتکاروں نے مصر کے حکمران ابراہیم پاشا کے جبری بھرتی اور ہتھیار ڈالنے کے حکم خلاف مسلح بغاوت کی ،حکومت نواز دروزیوں اور کاشتکار فلسطینی باغیوں کی افراتفری میں صفد، الخلیل اور یروشلم کے یہود بھی درمیان میں مارے گئے۔[32][33][34][35][36] (دیکھیں صفد کی لوٹمار)۔.
- 1837ء
- ملکہ وکٹوریہ نے موسی ہائم مونٹے فیورے کو نائٹ (شہہ سوار ) کا درجہ دیا ۔
- الجلیل (گلیلی) کےزلزلہ نے صفداور طبریہ کی یہودی برادریوں کو تباہ و برباد کیا۔
- 1933–1838 ء
- ربی یسروئیل میئر ہاکوہن (شوفتض کھائم) نے ایک اہم مدرسہ کھولا۔اس کی ھلاخائی تصنیف مشنیٰ برورہ سند ٹھرا۔
- وسط 19 ویں صدی
- کلاسیکی اصلاحی یہودیت کا آغاز اور ترقی۔
- ربی اسرائیل صلانطر نے موسر تحریک کی بنیاد رکھی، اس کے مطابق اگرچہ یہودی شریعت پر عمل واجب ہے ، لیکن اسنے موجودہ فلسفیانہ بحث کو رد کیااور اخلاقی تعلیمات کی بطورروحِ یہودیت کی حمایت کی ۔
- مثبت تاریخی یہودیت جوبعد میں رجعت پسند یہودیت کہلائی نمودار ہوئی۔
- 1841 ء
- متحدہ امریکی ریاستہائے سینٹ کی کانگریس میں پہلا یہودی ڈیوڈ لیوی یولی منتخب ہوا۔
- 1851 ء
- ناروے نے یہود کو واپسی کی اجازت دی، وہ 1891 ءتک آزاد نہ ھوسکے۔
- 1858 ء
- انگلستان کے یہود کو آزادی ملی۔
1860 ء
- ایک بین الاقوامی یہودی تنظیم الائنس اسرائیلائٹ یونیورسل (عالمی اسرائیلی اتحاد) برائے تحفظ یہودی شہری حقوق ،پیرس میں قائم ہوئی۔
- 1875–1860ء
- موشے مونٹےفیورے نے قدیم شہر (یرو شلم) کے باہر یہودی بستی کے قیام کا آغاز مشکنوت شنانیم سے کیا۔
- 1864–1860ء
- پولستان کے یہود قومی پولش تحریک میں حصہ لیا جس کے بعد بغاوتِ جنوری ہوئی۔ [توضیح درکار]
- 1943–1860ء
- مشہور امریکی صہیونی راہ نُما ، معلمہ ، سماجی کارکن اور صہیونی تنظیم برائے امریکی خواتین حداثہ کی بانیہ ہنریٹا زولڈ کا عرصہ حیات۔
- 1861 ء
- فرینکفرٹ ، جرمنی میں صہیونی مجلس کا قیام ہوا۔
- 1862ء
- روسی زیر نگرانی مملکت پولستان کے یہود کو مساوی حقوق دئے گئے۔کچھ بستیوں میں یہودی آبادکاری کی پابندی ختم کی گئی۔
- لائپزش، جرمنی میں موسی حص نے کتاب روم اور یروشلم شائع کی ، جو فلسطین میں یہودی اشتراکی دولت مشترکہ کے قیام بارے لکھی جانے والی پہلی کتاب تھی، اسی کتاب نے سوشلسٹ ( اشتراکی)صہیونی تحریک کو قوت دی۔
- 1867 ء
- مجارستان کے یہود کوآ زادی ملی۔
- 1868 ء
- بینجمن ڈزرائیلی مملکت متحدہ کے پہلے وزیر اعظم بنے، وہ پہلے نسلی یہودی تھے جو کسی یورپی حکومت کے سربراہ ہوئے اگرچہ انھوں نے بچپن میں ہی مسیحیت قبول کر لی تھی۔
- 1890–1870 ء
- روسی صہیونی جماعت ہوویوے صہیون (محبان صہیون) اور بیلو (قائم از 1882 ء) نے ارض اسرائیل میں یہودی آبادکاری کاسلسلہ کھڑا کیا،جس کی مالی معاونت بیرن(انگریز نواب) ایڈمنڈ جیمز ڈی رتھشایلڈ نے کی۔
- ریشون لصہیون میں علیزر بن یہوداہ عبرانی زبان کی بطور گفتاری زبان احیاء کی۔
- 1870 ء
- اطالیہ کے یہود کوآ زادی ملی۔
- 1871 ء
- جرمنی کے یہود کوآ زادی ملی۔
- 1875 ء
- امریکی اصلاحی یہودیت کے بانی اسحاق مائر وائز نے اصلاحی یہودیت کے عبرانی یونین (انجمن) کالج کی بنیاد سنسیناٹی میں رکھی ۔[37]
- 1877 ء
- نیو ہیمپشائر آخری امریکی ریاست تھی جسنے یہود کو مساوی سیاسی حقوق دئے۔
- 1878 ء
- یروشلم کے مذہبی پہل کاروں نے یہوشواہ سٹامپفر کی زیرقیادت اور ایڈمنڈ جیمز ڈی رتھشایلڈ کی مالی معاونت سے فتح تکو قائم کی۔
- 1880 ء
- عالمی یہودی آبادی 77 لاکھ تک جا پہنچی ، جو 90% یورپ اور وہاں اکثرمشرقی یورپ میں تھی جبکہ 33 لاکھ کی آبادی سابقہ پولش صوبوں میں تھی۔
- 1884–1881 ء
- 1906–1903 ء
- 1920–1918 ء
- روس اور یوکرین میں پوگروم کے تین نمایاں لہروںمیں ہزاروں یہود قتل ہوئے۔جبکہ 22 لاکھ روسی یہود نے وہاں سے ہجرت کی۔
- 1881 ء
- دسمبر 31۔30 کو فلسطین میں یہودی آبادکاری بارے تمام صہیونی انجمنان کی مجلس فوکشانی ، رومانیہ میں ہوئی۔
- 1886 ء
- ربی سباتو مورائس اور سکندر کوہت نے امریکی اصلاحات کے رد عمل میں رجعت پسند یہودیت کی حمایت شروع کی اور راسخ العقیدہ روشن خیال امریکی یہودی دینیاتی درسگاہ قائم کی۔
- 1890 ء
- 'صہیونیت' کی اصطلاح آسٹریائی مروج نیتھن برنبام نے اپنے اخبار سلف امنسپیشن(خود خلاصی) میں پہلی بار وضع کی اور اس کی تعریف یہود کی آبائی وطن ارض اسرائیل واپسی اور یہودی حاکمیت کی بحالی کی قومی تحریک کی۔
- 1895 ء
- سگمنڈفرائڈ کی پہلی کتاب کی اشاعت ہوئی۔
- 1897 ء
- فرانسیسی کیپٹن الفرڈ دریفس معاملے کے رد عمل میں تھیوڈور ھرتزل نے درجودن سٹاٹ (اسرائیلی ریاست) نامی کتاب لکھی،جس میں اس نے آزاد اور خومختار اسرائیلی کے قیام کا تصور پیش کیا۔
- جنرل یہودی لیبر بند(پارٹی) کا روس میں قیام۔
- پہلی روسی مردم شماری : مجموعی طور پہ5,200,000 شمار کیے گئے جن میں سے یہودی علاقے میں 4,900,000 تھے، سابقہ پولستان کے علاقوں میں[توضیح درکار] 1,300,000 یا مجموعی آبادی کا 14% تھے۔
- پہلی صہیونی کانگریس (شوری) کا اجلاس بازل شہرمیں ہوا، جس میں عالمی صہیونی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔
بیسویں صدی
ترمیم- 1902ء
- ربی ڈاکٹر سلیمان شیکٹر نے امریکی یہودی دینی مدرسے کی تنظیم نو کی اور اسے رجعت پسند یہودیت کی سب سے بہترین درسگاہ بنایا۔
- 1903ء
- سینٹ پیٹر برگ کے اخبار ضنامایہ نے آدابِ صہیونی بزرگان شائع کی –
- یہود پہ آدمخوری کے الزامات کی وجہ سے کشنیو پروگروم رونما ہوئے۔
- 1905ء
- پوگروم کے ساتھ ساتھ 1905ء کا روسی انقلاب بھی برپا ہوا۔
- 1915ء
- یشیوا کالج (بعد میں جامعہ)اور اس کے ربی اسحاق علقنان نے جدید راسخ العقیدہ سماجی ماحول کی تربیت کے لیے نیو یارک شہر میں راہبانہ مدرسہ قائم کیا۔
- 1916ء
- لوئس برانڈیس یکم جون کو ریاستہائے متحدہ امریکا کے عدالت عظمیٰ کا پہلا یہودی قاضی ہوا، اسے امریکی صدر ووڈرو ولسن نے نامزد کیا تھا۔
- 1917ء
- برطانیہ نے ترکوں کو شکست دیکر فلسطین کا قبضہ حاصل کیا اور اعلانِ بالفور جاری کیا جو فلسطین میں یہود کے لیے قومی وطن کے قیام کی باضابطہ طور پہ برطانوی منظوری اور حمایت تھی۔ جس سے یہ واضح طور پہ سمجھا گیا کہ فلسطین میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جائے گا جس سے غیر یہودی طبقے کے شہری اور مذہبی حقوق کو ضرر پہنچے۔ بہت سے یہود اس سے یہ تعبیر اخذ کرتے ہیں کہ فلسطین کو یہودی ریاست بننا تھا۔[39]
- فروری 1917ء
- تحدیدی آبادکاری کو منسوخ کیا گیا اور یہود کو مساوی حقوق ملے – روسی خانہ جنگی سے دو ہزار پوگروموں نے جنم لیا جس میں ہزاروں افرادکا قتل ہوااور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
- 1939ء–1918ء
- دونوں عالمی جنگوں کے درمیان کا زمانہ جسے دعائیہ عبادت کے اماموں ( هزّانت ) کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور کے مشہور اماموں میں ابراہیم ڈیویس، موشے کوسےویٹسکی، زیول کوآرٹین(1953ء۔1874ء) ، جان پیرص، یوسف یوسیلے روزنبلاٹ(1933ء۔1882ء)، گرشؤن سیروٹا (1943ء۔1874ء) اور لائبہلے ولدمن شامل ہیں۔
- 25 مارچ : تقریباً 4000 یہودتتیو میں کسک کے فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
- 1920ء
- متحدہ مملکت برطانیہ میں منعقدہ سین ریمو کانفرنس میں جمعیت الاقوام اور انتداب فلسطین کا استقبال کیا گیا۔
- اپریل 4 سے7 کے یروشلم فسادات میں پانچ یہود قتل اور 216 زخمی ہوئے۔
- 1920ء–تاحال
- متعددیہودی ادیب گرٹروڈسٹائین،ایلن گنسبرگ ،سال بیلو ، ادریان ریچ اور فلپ روتھ کوعروج حاصل ہوا اور انگریزی بولنے والے ملکوں کے ادب پر کافی اثر انداز ہوئے۔
- 1921ء
- انتداب فلسطین کی برطانوی عسکری انتظامیہ سویلین حکمرانوں سے تبدیل ہوئی۔
- برطانیہ نے اعلان کیا کہ دریائے اردن اور اس کے مشرق میں فلسطینی علاقے یہودی آبادکاری کے لیے ہمیشہ کے لیے بند رہیں گے تاہم عرب آبادکاری جاری رہے گی۔
- ریگا شہر میں پولستانی ۔ سوویت اتحاد کا امن معاہدہ ہوا۔ دنوں اطراف کی عوام کو اپنا ملک منتخب کرنے کا حق دیا گیا۔ سوویت اتحاد میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے کاروباروں پر پابندی لگی، خصوصا یہودی تاجروں پر اور وہ پولستان ہجرت کر گئے۔
- 1922ء
- اصلاحی یہودی ربی سٹیفن س وائز نے نیو یارک میں یہودی مذہبی ادارہ قائم کیا، یہی ادارہ بعد میں 1950ء میں عبرانی یونین کالج میں ضم کیا گیا۔
- 1923ء
- سطح مرتفع گولان کو برطانیہ نے فرانسیسی تعہد برائے سوریہ اور لبنان کے حوالے کیا جس کے بعد وہاں عربوں کو ہجرت کی اجازت ہوئی لیکن یہودی ہجرت پر پابندی جاری رہی۔
- 1924ء
پولستان کی مذہبی مردم شماری کے مطابق پولستانی آبادی کا 10.5% تقریباَ 29,89,000 انتیس لاکھ نواسی ہزار یہود تھے جن میں سے 23% ہائی اسکول اور 26% یونیورسٹی کے طلبہ تھے۔
- 1926ء
- جنگ عظیم اول سے قبل یورپ میں حسیدی مدرسے کچھ ہی تھے۔ لگ باعمر کے دن ربی شلومو چانوخ ،حاکوہن ربینوویکز ، چوتھا رادومسکر ربی نے اعلان کیا
” | وقت آچکا کہ (مذہبی) مدرسے قائم کئے جائیں جہاں نئی نسل تورات کی تعلیم حاصل کرے اور اس پر تحقیق کرے | “ |
چنانچہ قبل از جنگ کے پولستان میں کیسر تورات کی 36 مدارس کا جال بچھایا گیا۔[41]
- 1929ء
- مسلمانوں اور یہود کے درمیان مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار پر جاری دیرینہ تنازع سے 1929ءکے فلسطینی فسادات نے جنم لیا، جس سے عرب اور یہود کے درمیان 1929ءکے الخلیل کا قتل عام ، 1929ء صفد پوگروم اور یروشلم کے دنگے ہوئے
- 1930ء
- تخمینہ
- دنیائے یہودیت: 15,000,000
- ریاستہائے امریکا متحدہ: 4,000,000
- پولستان: 3,500,000 کل آبادی کا 11%
- سوویت اتحاد: 2,700,000 کل آبادی کا 2%
- رومانیہ: 1,000,000 کل آبادی کا 6%
- فلسطین: 175,000کل آبادی کا 17%
- 1933ء
- ہٹلر جرمنی کا حکمران ہوا، ساتھ ہی ضد سامیت میں اضافہ ہوا ، بہت سے یہود نے جرمنی سے انخلاء اور ہجرت کی۔
- 1935ء
- پہلی یہودی خاتون ریجینہ یونس کو ربی کا درجہ دیا گیا۔[42]
- 1937ء
- 11ویں صدی کے یہودی مفسر راشی کے بعدپہلے عالم ،ادین سٹائنسالٹز نے بابلی تالمود کی تفسیر لکھی۔
- 1939ء
- برطانوی حکومت نے سفید کاغذ جاری کیا – جس کے مطابق 1944ء–1940ء تک ہر سال 10,000 یہود کو ہجرت کی اجازت دی گئی ، جبکہ مزید 25,000 یہود کو کسی ہنگامی کی صورت حال میں اجازت دی گئی۔
- 1945ء–1938ء
- مرگ انبوہ کا دورانیہ: تمام تر یورپ میں سے 60 لاکھ یہود کی باقاعدہ نسل کشی کا دعوی کیا گیا۔
- 1940ء–تاحال
- بہت سے یہودی فلم ساز جیسے بلیوائلڈر ، وڈی ایلن، میل بروکس اور کوین برادران نے یہودی فلسفہ اور ظرافت پر فلم سازی کی اور اس زمین میں مشہور اور کامیاب ہوئے۔
- 1941ء
- یکم جون کو بغداد کے مسلم شہریوں نے بغدادی یہود کے خلاف پوگروم کر دیا، جسے الفرھود کہا گیا۔اس میں 200 یہود ہلاک ہوئے یہودی املاک لوٹی گئیں اور گھر نذر آتش ہوئے۔
- 1948ء–1945ء
- بعد از مرگ انبوہ متاثرین بحران: مملکت متحدہ کی جانب سے غیر قانونی طور پہ فلسطین میں داخل ہونے والے یہود پر داخلے کی پابندی۔
- 1948ء–1946ء
- انتداب فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد دہشت گردی میں بدلی اور ہگاناہ، اِرگن اور لیہی جیسے گروپ وجود میں آئے۔
- 29 نومبر, 1947ء
- اقوام متحدہ نےانتداب فلسطین میں یہودی اور عرب ریاستوں کے قیام کی باقاعدہ منظوری دی۔
- 14 مئی, 1948ء
- اسرائیل ی ریاست نے اپنی آزادی کا اعلان انتداب فلسطین کے اختتام سے کچھ ہی گھنٹوں قبل کر دیا اور گیارہ منٹوں میں ہی ریاستہائے متحدہ امریکا نے اسے تسلیم کیا۔ سوویت اتحاد کے اقوام متحدہ میں سفیر اندرے گرومکو نے اسے اجلاس بلا کر بطور رکنی ریاست اسرائیل کوقبول کیے جانے کی قرارداد پیش کی جسے اقوام متحدہ نے قبول کیا اور یوں جدید دور میں مذہب کے نام پہ بننے والی پاکستان کے بعد دوسری ریاست ٹھہری۔دیکھیں مماثلت پاکستان و اسرائیل
- 15 مئی, 1948ء
- 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ: سوریہ،عراق ،اردن،لبنان اورمصر نے اسرائیلی ریاست کے بنتے ہی گھنٹوں بعد اس پہ حملہ کر دیا، اسرائیل نے حملہ پسپا کر دیا اور فلسطین کے مزید علاقہ پرقبضہ کر لیا۔ بہت سے مسلم اسرائیل اور یہود نےعرب ریاستوں سے ہجرت کی ؛ دیکھیں 1949 التوائے جنگی سمجھوتہ.
- 1949–1948ء
- ڈھائی لاکھ مرگ انبوہ سے بچ رہنے والے اسرائیل آن پہنچے، آپریشن طلسماتی قالین میں ہزاروںیمنی یہودکو اسرائیل لایا گیا۔
- 1956ء
- سوئز بحران: مصر نے خلیج عقبہ کی ناکہ بندی کی اور اسرائیل کے لیے بحری جہازوں کی آمدورفت کے لیے بند کردی۔ مصری صدر جمال عبدالناصر نے عربوں کو اسرائیل تباہ کرنے کی دعوت دی، برطانیہ اور فرانس اسرائیل و مصر کی جنگ میں شامل ہوئے اور مصر کا سوئز نہر سے ناکہ بندی ختم کروا کر اسرائیل کو ترسیل جاری کروا دی۔
- 1964ء
- یہودی – عیسائی تعلقات میں رومن کاتھولک کلیسیا ویٹیکن دوم کی جانب سے نیا انقلابی موڑ آیا۔
- 1966ء
- پہلے یہودی ادیب سیمویل یوسف اگنون (1970ء۔1888ء)نے ادب کا نوبل انعام جیتا۔
- 16 مئی, 1967ء
- مصری صدرجمال عبدالناصر نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ اسرائیل اور مصر کے درمیان ایمرجنسی فورس کو ختم کرے اور اقوام متحدہ کی امن فوج سینا اور غزہ سے 19مئی تک نکل جائے۔
- مئی 1967ء
- مصری صدرجمال عبدالناصر آبنائے تیرا ن میں بحری آمدورفت کواسرائیل کے لیے اس بنیاد پر بند کیا کہ مصر اسرائیل کیساتھ حالت جنگ میں تھا۔تو جزیرہ نما سینا میں مصریوں کو اسرائیل نے اغوا کرنا شروع کیا۔
- 10–5 جون ,1967ء
- 6 روزہ جنگ اسرائیل نے مصر ، اردن اور شام پہ پیشگی حملہ کر دیا، اسرائیلی فضائی قوت نے اکثر زمین پر کھڑے عربوں کے ہوائی جہازوں کو غیر متوقع حملے میں تباہ کیا جس کے بعد زمینی حملہ کردیاجس میں اس نے جزیرہ نما سینا،مغربی کنارہ اور سطح مرتفع گولان پر قبضہ کر لیا۔
- یکم ستمبر ,1967ء
- خرطوم سوڈان میں عرب حکمرانوں کی بیٹھک ہوئی، تین نقاط پر فیصلہ ہوا، اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور کوئی امن نہیں کیا جائیگا۔
- 1968ء
- ربی موردے چائی نے باقاعدہ طور پہ ایک علاحدہ تحریک تشکیل نو یہودیت کا رہبانی تشکیل نو کالج فلاڈلفیہ قائم کر کے شروع کی[43][44]
- 1969ء
- افریکن عبرانی یہودکا پہلا جتھہ بن عمی بن اسرائیل کی قیادت میں اسرائیل ہجرت کرنا شروع کی۔
- 1972ء
- سیلی پریسنڈ امریکا کی پہلی خاتون ربی بنی، جو یہودیت کی تاریخ میں باقاعدہ طور پہ بنی دوسری خاتون ہیں ۔[46]
- 1972ء
- 1972ء گرمائی اولمپکس میں مارک سپیٹز نے ایک کھلاڑی کی جانب سے کسی گرمائی اولمپکس مقابلوںمیں جیتے گئے طلائی تمغوں میں سب سے زیادہ یعنی 7 جیت کر پچھلوں پہ سبقت لی اورنیا کارنامہ (ریکارڈ)سر انجام دیا۔
- سیاہ ستمبرتنظیم نے اسرائیلی کھلاڑیوں کومیونخ کے گرمائی اولمپکس میں یرغمال بنایا جو بعد ازاں انھیں بچانے کی ناکام کوشش کے دوران قتل ہوئے۔
- اکتوبر 24–6, 1973ء
- جنگ یوم کپور: مصر اور شام نے دیگرعرب قوموں کی مہم جو فوجوں کے ساتھ ملکر اسرائیل پر یوم کپور کے دن حملہ کیا، ابتدائی حملوں کو پسپا کرنے کے بعداسرائیل نے کھوئے ہوئے علاقے واپس لیے اور مصر و شام میں پیش قدمی کی –بالاخر اوپیک نے تیل کی پیداوار میں کمی کی جس سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ اورعالمی اقتصادی بحران پیدا ہوا۔
- 1975ء
- صدر جیرالڈ فورڈ نے جیکسن وانیک ترمیم سمیت قانون سازی پر دستخط کیے، جس نے کہ امریکی تجارتی مفادات کو سویت یونین و دیگر کمیونسٹ ممالک سے سے یہود کی ہجرت و انخلا سے جوڑا۔
- اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق صہیونیت کو نسل پرستی سے جوڑا جو بعد ازاں 1991ء میں منسوخ کی گئی۔
- 1976ء
- اسرائیل نے انٹیبے ، یوگانڈا لیجائے گئے یرغمالیوں کو چھڑوا کر آزاد کرایا۔
- 18 ستمبر, 1978ء
- کیمپ ڈیوڈ نزد واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیل اور مصر نے ایک جامع معاہدہ پر دستخط کیا جسے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کہا گیا، جس میں اسرائیل کے صحرائے جزیرہ نما سینا سے انخلاء کی شق بھی شامل تھی۔
- 1978ء
- یدیش زبا ن کے امریکی ادیب و لکھار ی آئزک بشویس سنگر کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔
- 1979ء
- اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن اور مصری صدر انور سادات کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا.
- 1983ء–1979ء
- آپریشن الیہ:حبشی یہود کو چھڑوایا گیا۔
- جون۔ دسمبر ,1982ء
- 1982ء کی جنگ لبنان : اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کر دیا تاکہ تنظیم آزادی فلسطین کو وہاں سے نکالا جاسکے۔
- 1983ء
- امریکی اصلاحی یہودیت نے باقاعدہ پدری نسب کو تسلیم کیا ، جس سے'یہودی کون ہے' کی نئی تعریف تخلیق ہوئی۔
- 1985ء–1984ء
- آپریشن موسی، یوشع: اسرائیل نے حبشی یہود کو چھڑوایا۔[47]
- 1986ء
- امریکی یہودی ادیب ایلی ویزل کو نوبل امن انعام دیا گیا
- سویت نژاد اسرائیلی سیاست دان ، انسانی حقوق کاسرگرم کارکن نیتھن شارنسکی کو جیل سے رہائی ملی۔
- 1987ء
- اسرائیل مخالف انتفاضہ اول کا آغازہوا۔
- 1989ء
- مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان دیوار برلن ڈھا دی گئی مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت ختم ہوئی اور جرمن اتحاد مکرر کا آغاز ہوا ، جو باقاعدہ اکتوبر َ1990ء کو ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق شامیر کو اندیشہ تھا کہ
” | جس ملک نے یہود کی نسل کشی کی کوشش کی وہ اتحاد مکرر سے دوبارہ یہی کر سکتا ہے | “ |
کھلے عام اس اتحاد مکررکی مخالفت صرف اسرائیل نے کی ، اگرچہ یورپی ممالک اور نیٹو نجی اور خانگی مخالفت کرتے رہے۔[48]
- 1990ء
- سویت یونین نے تیس لاکھ سویت یہود کے لیے اپنے حدود کو کھول دئے،علیہ کے تحت بہت سے یہود نے وہاں سے اسرائیل اور امریکا ہجرت کی۔
- 1991ء–1990ء
- عراق نے کویت پرحملہ کر دیا جس سے عراق اور کویت مع امریکا میں جنگ چھڑ گئی اور امریکی اتحادی اسرائیل پر عراق نے 39 سکڈ میزائل داغے۔
- 1991ء
- آپریشن سلیمان: 24 گھنٹوں پر محیط فضائی انتقال میں بچے کچھے حبشی یہود کو حبشہ سے منتقل کیا گیا۔
- 30 اکتوبر, 1991ء
- اسرائیل اور فلسطین کے درمیان میڈرڈ امن کانفرنس ہسپانیہ میں شروع ہوئی، جس میں ہسپانیہ میزبان جبکہ سویت اتحاد اور متحدہ امریکا شریک معاون تھے۔
- 22 اپریل, 1993ء
- ریاستہائے متحدہ امریکا کا مرگ انبوہ یادگاری عجائب گھر منوسب کیا گیا۔
- 13 ستمبر, 1993ء
- اسرائیل اور تنظیم آزادی فلسطین نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے۔
- 1994ء
- لوباؤچر (چبعد)فرقے کا راہب ،مناکھیم مینڈل شنیرسن کا انتقال ہوا۔
- 26 اکتوبر, 1994ء
- اسرائیل اور اردن نے باقاعدہ امن معاہدے پر دستخط کیے۔اسرائیل نے متنازع زمین کا کچھ حصہ اردن کو تفویض کیااور ان ممالک نے کھلی سرحدوں اور آزادانہ تجارت سمیت سفارتی تعلقات قائم کیے۔
- 10 دسمبر, 1994ء
- اسحاق رابیناوریاسر عرفات کیساتھاسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کو ایک ہی نوبل امن انعام دیا گیا۔[49]
- 4 نومبر, 1995ء
- اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو قتل کیا گیا ۔
- 1996ء
- شمعون پیریز نے بنیامین نیتن یاہو کی لوکیڈ پارٹی سے شکست کھائی۔
- 1999ء
- ایہود باراک بطور اسرائیلی یوزیراعظم چنے گئے۔
اکیسویں صدی
ترمیم- 24 مئی, 2000ء
- اسرائیل نے یکطرفہ طور پر اس کی بقیہ فوجیں جنوبی لبنانی جنگی علاقے سے نکال لیں اور اقوام متحدہ کی قرارداد 425 پرمکمل عمل درآمد کیا۔
- موسم گرما 2000ء
- سنیٹر جوزف لیبر مین پہلا امریکی یہودی جو کسی قومی دفتر ( نائب صدر ریاستہائے متحدہ امریکا)کے لیے کسی بڑی امریکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزد ہوا۔
- 29 ستمبر, 2000ء
- الاقصی انتفادہ کا آغاز ہوا۔
- 2001ء
- آرئیل شارون کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا
- ترک یہود نے ترکی میں یہودی عجائب گھر قائم کیا
- 2004ء
- ٹیکنیون کے اورام ہرشکو اور ہارون چیکونور نے نوبل انعام برائے کیمیا جیتا۔
- خود مختار یہودی اوبلاست(روسی صوبہ) نے اپنا پہلا کنیسہ بنایا،بیروبدضہان کنیسہ، جو یہودی شریعت(ہلاخاہ)کے عین مطابق تھا،[51]
- افریقی عبرانی اسرائیلی برادری کے اوریاھو بٹلر پہلے رکن تھے جو اسرائیلی فوج میں شامل ہوئے۔
- 31 مارچ, 2005ء
- اسرائیلی حکومت نے شمال مشرقی بھارت کے بنی مناشے لوگوں کو باقاعدہ دس گمشدہ قبائل میں سے تسلیم کیا،جس سے ہزاروں لوگوں کے اسرائیل ہجرت کا دروازہ کھلا۔
- اگست 2005ء
- حکومت اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے اپنی عسکری فوجیں اور نو آبادلوگ واپس بلائے۔
- دسمبر 2005ء
- آرئیل شارون قومہ میں گئے جبکہ نائب وزیر اعظم ایہود المرٹ قائم مقام وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
- مارچ 2006ء
- ایہود المرٹ نے کدیمہ پارٹی کو اسرائیلی انتخابات میں فتح دلا کر وزیر اعظم کی کرسی سنبھالی۔
- جولائی تا اگست 2006ء
- حزب اللہ کے سرحد پار حملے کے بعد، 12 جولائی کو لبنان اور شمالی اسرائیل کے مابین عسکری تنازعہ شروع ہوا، 34 دن کی لڑائی اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی منظوری پر ختم ہوئی، جس میں 159اسرائیلی قتل اور تقریباْ 2000 لبنانی شہید ہوئے،جبکہ بہت سے شہری املاک کو بھی سخت نقصان پہنچا۔
- دسمبر 2008ء
- غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیلی فوج نے سیسہ ڈھالو آپریشن(2008ء۔2009ء) شروع کیا۔
- مارچ 2009ء
- بنیامین نیتن یاہو لوکیڈ پارٹی کے چیرمین اور اسرائیلی وزیراعظم منتخب ہوئے۔
- جنوری 2014ء
- آرئیل شارون کا انتقال تیز تر صحت کی خرابی اور 8 سال قومہ میں رهنے کے بعد ہوا۔
- دسمبر 2017ء
- ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا باقاعدہ اعلان کرکے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کیا ۔
- مارچ 2019ء
- امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سطح مرتفع گولان پراسرائیلی عملداری تسلیم کرکے ریاستہائے متحدہ امریکا کو اس علاقے پرصہیونی خود مختاری تسلیم کرنے والادنیاکاپہلاملک بنایا[52] ۔
اگست 2020ء
متحدہ عرب امارت اور اسرئیل نے امن معاہدے پر دستخط کیے.[53]
7اکتوبر 2023ء
ترمیمیہ دن ہولوکاسٹ کے بعد یہود و سرائیل کی تاریخ کا سب سے مہلک دن سمجھا جانے والا دن ،جب 7 اکتوبر 2023 ءکو اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1,390 افراد مارے گئے۔[54]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Mladen Popovi? (2011-01-01)۔ The Jewish Revolt Against Rome: Interdisciplinary Perspectives (بزبان انگریزی)۔ BRILL۔ ISBN 9004216685۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولائی 2018
- ↑ Torah آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shamash.org (Error: unknown archive URL) (Shamash.org)
- ↑ The Iggeres of Rav Sherira Gaon (ed. Nosson Dovid Rabinowich)، Jerusalem 1988, p. 98
- ↑ Israel Joseph Benjamin (1975)۔ Three Years in America, 1859–1862۔ Arno Press۔ صفحہ: 59–60۔ ISBN 978-0-405-06693-1۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولائی 2018
- ↑ James Massey، I.S.P.C.K. (Organization) (1996)۔ Roots of Dalit history, Christianity, theology, and spirituality۔ ISPCK۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-81-7214-034-2۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولائی 2018
- ↑ Bernard Lewis, The Crisis of Islam (London, 2003)، p. XXVII
- ^ ا ب Peterson, Muhammad: the prophet of God، p. 125-127.
- ^ ا ب Ramadan, In the Footsteps of the Prophet، p. 140f.
- ↑ Hodgson, The Venture of Islam، vol. 1, p. 191.
- ^ ا ب Brown, A New Introduction to Islam، p. 81.
- ↑ Lings, Muhammad: His Life Based on the Earliest Sources، p. 229-233.
- ↑ George F. Nafziger، Mark W. Walton (2003)۔ Islam at War: A History۔ Greenwood Publishing Group۔ صفحہ: 230۔ ISBN 978-0-275-98101-3۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اگست 2018
- ↑ Granada by Richard Gottheil, Meyer Kayserling، Jewish Encyclopedia۔ 1906 ed.
- ↑ "Jewish History 1090–1099"۔ www.jewishhistory.org.il۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ Scharfstein and Gelabert, 1997, p. 145.
- ↑ Rossoff, 2001, p. 6.
- ↑ Gedaliah Ibn Yechia، Shalshelet Ha-Kabbalah
- ↑ ʻAlī ibn ʻAbd Allāh Ibn Abī Zarʻ al-Fāsī، Ṣāliḥ ibn ʻAbd al-Ḥalīm al-Gharnāṭī (23 نومبر 1860)۔ "Roudh el-Kartas: Histoire des souverains du Maghreb (Espagne et Maroc) et annales de la ville de Fès"۔ Impr. impériale۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2018
- ↑ Fred Skolnik، Michael Berenbaum (2007)۔ Encyclopaedia Judaica: Ba-Blo۔ Granite Hill Publishers۔ صفحہ: 733۔ ISBN 978-0-02-865931-2۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2018
- ↑ Diana Gitig (23 ستمبر 2014)۔ "Ashkenazi Jewish population has distinctive, yet similar genomes"۔ Ars Technica۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2018
- ↑ Abraham Zacuto، Sefer Yuchasin، Cracow 1580 (q.v. Sefer Yuchasin، electronic page 265 (in PDF) (Hebrew)۔
- ↑ "Archived copy"۔ 29 جنوری 1999 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2005
- ↑ Joan Peters (1985)۔ From time immemorial: the origins of the Arab-Jewish conflict over Palestine۔ JKAP Publications۔ صفحہ: 178۔ ISBN 978-0-9636242-0-8۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2018
- ^ ا ب Morgenstern, Arie. "Dispersion and Longing for Zion, 1240–1840"۔ Azure. "Archived copy"۔ 11 اکتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2008
- ↑ Encyclopedia Judaica، vol. 9, pp. 514. Gershon of Kitov
- ↑ "Declaring Independence: Drafting the Documents"۔ 30 جون 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ^ ا ب David P. Dolan (1991)۔ Holy war for the promised land: Israel's struggle to survive۔ Thomas Nelson Incorporated۔ صفحہ: 60۔ ISBN 978-0-8407-3325-2۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2018
- ↑ "Archived copy"۔ 01 اکتوبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2002
- ↑ "The Pale of Settlement"۔ 1 دسمبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ "Archived copy"۔ 02 دسمبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2002
- ↑ Hastening Redemption: Messianism and the Resettlement of the Land of Israel, Arie Morgenstern, Oxford University Press, 2007
- ↑ Changes in the Position of the Jewish Communities of Palestine and Syria in the Mid-Nineteenth Century, by Moshe Maoz, Studies on Palestine During the Ottoman Period, Jerusalem, Israel, 1975, pp. 147–148
- ↑ "Palestine Events in History at BrainyHistory.com"۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ "Palestinian History"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ A descriptive geography and brief historical sketch of Palestine by Joseph Schwarz, translated by Isaac Leeser, published by A. Hart, 1850, p. 399 [1] [2] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ utom.org (Error: unknown archive URL)
- ↑ "History of the Jews in Hebron"۔ www.jewish-history.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ "Hebrew Union College—Jewish Institute of Religion"۔ 02 فروری 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ "Aliyah"۔ 15 ستمبر 2000 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ "Balfour Declaration"۔ 04 جولائی 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ "Dubova"۔ jewua.org۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2018
- ↑ Rabbi Gershon Tannenbaum (7 April 2009)۔ "Radomsker Rebbe's Yahrzeit"۔ The Jewish Press۔ 15 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2012
- ↑ Klapheck, Elisa۔ "Regina Jonas 1902–1944"۔ Jewish Women's Archive۔ 29 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اپریل 2011
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 14 جولائی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2021
- ↑ "Jewish Reconstructionist Federation - JRF"۔ 08 مئی 1999 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ "About the Klezmer Revival"۔ Well.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018
- ↑ Blau, Eleanor. "1st Woman Rabbi in U.S. Ordained; She May Be Only the Second in History of Judaism", نیو یارک ٹائمز, June 4, 1972. Retrieved September 17, 2009. "Sally J. Priesand was ordained at the Isaac M. Wise Temple here today, becoming the first woman rabbi in this country and it is believed, the second in the history of Judaism."
- ↑ "The Zionist Century - Concepts - Aliyah"۔ 15 ستمبر 2000 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ Klaus Wiegrefe (29 September 2010)۔ "An Inside Look at the Reunification Negotiations"۔ Der Spiegel۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2010
- ↑ [3]
- ↑ "The 2000 Camp David Summit"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017
- ↑ "FJC | News | Remote Russian Jews Get Synagogues"۔ fjc.ru۔ 2004-09-13۔ 29 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018
- ↑ "US President Donald Trump's decision to recognise Israeli sovereignty over the Golan Heights"۔ www.france24.com۔ (FRANCE 24 with AFP, REUTERS)۔ 25 مارچ 2019ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2019ء
- ↑ "Israel, UAE to normalize relations in shift in Mideast politics; West Bank annexations on hold"۔ روئٹرز۔ 13 August 2020
- ↑ "Hamas attack 'deadliest day for Jews since the Holocaust', says Biden, as Israeli jets pound Gaza"۔ The Guardian۔ 12 October 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2023