نظام الملک طوسی
جس طرح ہارون الرشید کا دور برامکہ کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے اسی طرح سلجوقیوں کا عہد نظام الملک طوسی کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ نظام الملک کا اصل نام حسن بن علی اور لقب نظام الملک تھا۔ وہ طوس کے ایک زمیندار علی کا بیٹا تھا۔ 408ھ میں پیدا ہوا اور بچپن سے ہی بہت ذہین اور کئی خوبیوں کا مالک تھا۔ اپنی ذہانت سے انتہائی کم عمری میں کئی علوم پر عبور حاصل کیا۔ سلجوقی عہد میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوا۔ اس عہد کے تمام کارنامے نظام الملک کے تیس سالہ دور وزارت کے مرہون منت ہیں۔ یہ عہد سلجوقیوں کا درخشاں عہد کہلاتا ہے۔ الپ ارسلان جو ایک مجاہدانہ صفت رکھنے والا بادشاہ تھا نے اپنے کمسن بیٹے ملک شاہ کو نظام الملک کے سپرد کر دیا تا کہ وہ اس کی تربیت کرے اور عصری علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومت کرنے کے ڈھنگ بھی سکھائے۔ انہی دنوں گرجستان کی مہم پیش آئی جس کے لیے فوج کو نظام الملک کی سربراہی میں بھیجا گیا۔ گرجستان والوں نے ہتھیار پھینک دئے اور مسلم فوج کی شرائط پر صلح کرلی۔ جارجیا کے بادشاہ بقراط کی بھتیجی ہیلینا جو ایک حسین و دلکش دوشیزہ تھی مگر راہبانہ زندگی گزار رہی تھی۔ خواجہ حسن نظام الملک اس سے شادی کرنے کا خواہش مند تھا مگر حالات کے برعکس اس شہزادی ہیلینا کو الپ ارسلان سے نکاح کے لیے مخصوص کر لیا گیا اور شرائط میں اس شرط کو بھی شامل کیا گیا جس پر مسیحی آبادی میں غم و غصہ پایا جانے لگا جبکہ دوسری طرف گرجستان کے اعلیٰ و شاہی خاندان کے نوجوان بھی شہزادی کے طالب تھے مگر اس کی راہبانہ زندگی کے پیش نظر اس سے مدعا بیان نہ کرسکتے تھے۔ شہزادی کوالپ ارسلان کے نکاح میں دے دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ایک گرجستانی شاعر جو الپ ارسلان کے دربار میں آیا ہوا تھا نے ایک قصیدہ موزوں کرکے گوش گزارنے کی اجازت طلب کی۔ الپ ارسلان نے اجازت دے دی تو اس گرجستانی شاعر نے انتہائی واہیات انداز میں شہزادی ہیلینا اور نظام الملک طوسی کی کردار کشی کی جس کے بعد الپ ارسلان نے اس شرط پر شہزادی ہیلینا کو طلاق دے دی کہ نظام الملک اس سے شادی کرے یا شہزادی گرجستان واپس چلی جائے مگر شہزادی نے واپس جانے سے اس بنا پر انکار کیا کہ اب میری وہاں پہلے والی عزت نہیں رہے گی اور یہ کہ وہ خود کو مسلمانوں میں محفوظ و مامون محسوس کرتی ہے لہذا اس نے نظام الملک سے شادی کرلی۔ سلجوقی سلطان الپ ارسلان نے نظام الملک کی صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے وزارت کا منصب اس کے سپرد کر دیا۔ اس نے الپ ارسلان کے عہد میں ایسے جوہر دکھائے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ہزاروں شمعیں روشن ہوگئیں۔ اس نے ملک کو گوشے گوشے میں مدارس کا جال بچھا دیا اور سب سے بڑا اور اہم مدرسہ بغداد کا مدرسہ نظامیہ تھا جس کی تعمیر پر بے پناہ روپیہ صرف کیا گیا۔ اس کے علمی و ادبی کارناموں کی طویل فہرست کے ساتھ مذہبی اور دینی خدمات بھی بے شمار ہیں اور رفاہ عامہ کے کارنامے تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں۔ اس کی تحریر کردہ کتاب "سیاست نامہ" کو انتہائی شہرت حاصل ہوئی اور اس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ یورپ کی مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔
نظام الملک طوسی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سلجوق سلطنت کا وزیر | |||||||
مدت منصب 29 نومبر 1064 – 14 اکتوبر 1092 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائشی نام | (عربی میں: الحسن بن علي بن إسحاق الطُوسي) | ||||||
پیدائش | 10 اپریل 1018ء [1][2][3][4][5][6][7] طوس |
||||||
وفات | 14 اکتوبر 1092ء (74 سال)[8][9][10] صحنہ |
||||||
وجہ وفات | تیز دار ہتھیار کا گھاؤ [11][10][12] | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | سلطنت غزنویہ دولت عباسیہ سلجوقی سلطنت |
||||||
مذہب | اہل سنت (اشعری)[13] | ||||||
اولاد | احمد بن نظام الملک شمس الملک عثمان ابو الفتح فخر المالک مؤید الملک جمال الملک فخر الملک عز الملک عماد الملک ابو قاسم صفیہ |
||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سائنس دان ، مصنف ، سیاست دان ، ریاست کار ، وزیر ، جنگجو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | فارسی [14] | ||||||
کارہائے نمایاں | سیاست نامہ [11] | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | سلجوقی سلطنت | ||||||
درستی - ترمیم |
عروج کی انتہائی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد برامکہ کی طرح اس کی قسمت کا ستارہ بھی زوال میں آگیا اور ملک شاہ اول نے اسے وزارت سے علاحدہ کر دیا۔ زوال کے اسباب بھی برامکہ کے اسباب کی طرح تھے۔ بہرحال اس کے کارنامے سلجوقی حکومت کے لیے لاتعداد ہیں بلکہ اس درخشاں دور کی کامیابیاں سلجوقی سلاطین کے علاوہ اس کی مرہون منت بھی ہیں۔
وہ 1063ء تا 1072ء الپ ارسلان کے دور حکومت اور 1072ء تا 1092ء ملک شاہ اول کے دور حکومت میں وزارت کے عہدے پر فائز رہا۔
نظام الملک نے اپنی مشہور تصنیف "سیاست نامہ" میں سلطنت کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک جدید نظریے کی بنیاد رکھی اور سلطان کو نئے معنی سے مدلل کرنے کی کوشش کی۔ مصنف نے سلطنت کی ابتدا اور سلطان کے معنی پر بحث کی ہے۔
علاوہ ازیں اس نے اپنے بیٹے ابو الفتح فخر الملک کے لیے ایک کتاب "دستور الوزراء" بھی تحریر کی۔ نظام الملک 10 رمضان 485ھ بمطابق 14 اکتوبر 1092ء کو اصفہان سے بغداد جاتے ہوئے حسن بن صباح کے فدائین "حشاشین" کے ہاتھوں شہید ہوا۔ مؤرخین کے مطابق ملک شاہ اول جو خواجہ حسن نظام الملک کو خواجہ بزرگ اور پدر معنوی جیسے القاب سے نوازتا تھا اور خواجہ حسن کو خاص مقام حاصل تھا کہ وہ بادشاہ کے کمرہء خاص یا آرام کرنے کے کمرے میں بھی آمد و رفت رکھتے تھے۔ چونکہ وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے اور ان کو علوم خاص و عام میں رسوخ حاصل تھا۔ ملک شاہ اول کی شادی سلجوقی خاندان کی ایک خاتون جن کا نام زبیدہ خاتون تھا سے ہوئی اور ان کے بطن سے ملک شاہ اول کا سب سے بڑا بیٹا تولد ہوا۔ ملک شاہ اول نے ایک شادی قاراخانی شہزادی سے بھی کی تھی جس کا نام ترکان خاتون تھا۔ کہتے ہیں کہ ملک شاہ اول کے دو بڑے بیٹوں داوود اور احمد جن کا بالترتیب 1082 اور 1088میں انتقال ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود جو سب سے کم سن تھا کو ولی عہد نامزد کروانا چاہتی تھی جبکہ خواجہ حسن نظام الملک طوسی نے ترکان خاتون کی مخالفت کی اورزبیدہ خاتون کے بڑے بیٹے برکیارق کو ملک شاہ اول کا جانشین و ولی عہد نامزد کرنے پر اصرار کیا جس پر ترکان خاتون کی نظام الملک کے ساتھ سرد جنگ شروع ہو گئی اور اس نے اپنے معتمد خاص تاج الملک المعروف بہ المزرزبان کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے نظام المک کو ان کے عہدۂ وزارت سے ہٹانے کی سازشیں شروع کیں مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔ خواجہ حسن نظام الملک کی وفات کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ ایک دن ملک شاہ اول جو پہلے ہی وزیر مملکت کے خلاف ہونے والی محلاتی سازشوں سے دل برداشتہ ہو رہا تھا کو وزارت سے معزول کر دیا اور معزولی کا حکم سننے کے بعد نظام الملک واپس اپنی جاگیر یا بغداد جا رہے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ملک شاہ اول کے حکم پر ضروری کام سے بغداد جا رہے تھے کہ اچانک ایک درویش نے ان سے دادرسی چاہی، شفیق و مہربان نظام الملک نے دادرسی کرنے کی خاطر اس درویش کو قریب بلایا مگر وہ درویش کے روپ میں قلعہ الموت کی طرف سے بھیجا گیا ایک فدائی تھا اس کا وار خواجہ حسن نظام الملک کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ خواجہ حسن جانبر نہ ہو سکے اور خالق حقیقی سے جا ملے ان کی وفات پر پورا عالم اسلام اور بالخصوص رے غمزدہ و اداس ہو گیا۔ نوحہ گروں نے نوحہ کیا اور مرثیہ لکھنے والوں نے مرثیے لکھے۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ان دنوں شیعہ سنی مناظرے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں ملک شاہ اول اور نظام الملک طوسی بھی بہ نفس نفیس شریک ہوتے تھے خواجہ حسن بزرگ نظام الملک طوسی کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا اور جس دن ان پر حملہ ہوا اسی دن ملک شاہ اول کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا مگر ملک شاہ اول پر حملہ کامیاب نہ ہو سکا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118588222 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: آرون سوارٹز — او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL4485882A?mode=all — بنام: Nizam al-Mulk — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ناشر: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انک. — دائرۃ المعارف یونیورسل آن لائن آئی ڈی: https://www.universalis.fr/encyclopedie/nizam-al-mulk/ — بنام: NIẒĀM AL-MULK — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/159087 — بنام: Niẓām al-Mulk — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Vatican Library VcBA ID: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=8034&url_prefix=https://opac.vatlib.it/auth/detail/&id=495/233677 — بنام: Nizām ul-Mulk
- ↑ بنام: Nizam al-Mulk — پی یو ایس ٹی آئی ڈی: https://pust.urbe.it/cgi-bin/koha/opac-authoritiesdetail.pl?marc=1&authid=5019
- ↑ عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana — گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0046172.xml — بنام: Niẓām al-Mulk
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Nizam-al-Mulk-Seljuq-vizier — بنام: Nizam al-Mulk — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/nisam-al-mulk — بنام: Nisam al-Mulk
- ^ ا ب https://islamonline.net/archive/%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%B2%D9%8A%D8%B1-%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%84%D9%83-%D8%A7%D9%84%D8%B7%D9%88%D8%B3%D9%8A/
- ^ ا ب https://www.aljazeera.net/midan/intellect/history/2019/6/23/%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%84%D9%83-%D8%A7%D9%84%D8%B7%D9%88%D8%B3%D9%8A-%D9%85%D8%A7%D8%B0%D8%A7-%D8%AA%D8%B9%D8%B1%D9%81-%D8%B9%D9%86-%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%B2%D9%8A%D8%B1
- ↑ https://gate.ahram.org.eg/News/4757141.aspx
- ↑ Henry Corbin (2014)۔ History Of Islamic Philosophy۔ Routledge۔ صفحہ: 119۔ ISBN 1135198896
- ↑ Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020