کلیم نگروری
کلیم نگروری کی پیدائش 12 ستمبر 1905ء مطابق 13 رجب المرجب 1323 ھ کو قصبہ جرول ضلع بہرائچ میں ہوئی تھی۔ آپ کا سلسلہ نسب سید امیرماہ بہرائچی سے جا کر ملتا ہے ۔(اس پر خاندان امیرماہ کے جو اصل وارث ہے وہ اس بات پر اختلاف کرتے ہے اور کہتے ہے کہ کلیم نگروری اپنے کو امیرماہ کی اولاد سے بتاتے ہے جو غلط ہے اور خاندانی سجرہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے )۔ آپ کے والد کا نام سید معشوق حسین ماہ جعفری تھا۔ جو پرائمری اسکول کے مدرس تھے۔ آپ نے مڈل تک تعلیم حاصل کی ٹیچرس ٹرینگ کی اور نیپال سرحد پر واقع قصبہ روپیڈیہہ میں ایک پرائمری اسکول میں ملازمت کر لی۔
کلیم نگروری | |
---|---|
پیدائش | سید شائق حسین ماہ جعفری 12 ستمبر 1905 ء مطابق 13 رجب المرجب 1323 ھ قصبہ جرول ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت |
وفات | 24مئی 1983ء موضع نگرور ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت |
آخری آرام گاہ | موضع نگرور ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت |
پیشہ | محکمہ تعلیم میں سرکاری ملازمت |
زبان | اردو |
قومیت | بھارتی |
شہریت | بھارتی |
تعلیم | مڈل |
موضوع | مرثیہ سلام و قطعات ،نظم ،رباعیات اور نوحے |
اہم اعزازات | شاعر اہل بیت اور مدّاح فاتح بدر کے خطابات |
حالات
ترمیمآپ جب 3سال کے ہوئے تب آپ کی ماں اس دارفانی سے کوچ کر گئی۔ بعد میں والد کا بھی انتقال ہو گیا۔ اب ان کے چچازاد بھائی جن کا نام مقبول حسین تھا نے انھیں اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ان کی والدہ کی وصیت کے مطابق ان کی شادی سید خادم حسین کی چھوٹی بیٹی سے کرا دی۔ بعد۔ آپ نے مڈل تک تعلیم حاصل کی ٹیچرس ٹرینگ کی اور نیپال سرحد پر واقع قصبہ روپیڈیہہ میں ایک پرائمری اسکول میں ملازمت کر لی۔
ادبی خدمات
ترمیمکلیم نگروری نے عربی و فارسی کی تعلیم مولانا سید سجاد حسین طور جونپوری ثم نانپاروی[1] سے حاصل کی تھی۔ اور اپنے کلام کی اصلاح بھی مولانا سید سجاب حسین طور ؔ سے کرواتے تھے۔ مولانا طور ؔ کی وفات کے بعد اپنے ماموں نسیم جرولی کے شاگرد ہوئے جو مرزا اوج ؔ کے شاگرد تھے جن کا سلسلہ تلامذہ مرزا دبیر سے تھا۔ آپ بغیر زادراہ لیے بہرائچ،جرول،نانپارہ،اترولہ ،فیض آباد ،سلطان پورسیتاپور،لکھنؤ،کانپور وغیرہ مرثیہ خوانی کرنے جاتے تھے۔ آپ کو پروانۂ انیسؔ سوسائٹی کی طرف سے شاعر اہل بیت اور مدّاح فاتح بدر کے خطابات سے نوازا گیا۔ کلیم نگروری کا بہت سا شعری اثاثہ طبع ہو چکا ہے اور بہت سے غیر مطبوعہ کلام بھی ہیں۔ آپ نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن مرثیہ میں ایک فطری انداز پیدا کرکے اپنی ایک باوقار حیثیت بنائی تھی۔ مرثیوں کے علاوہ سلام و قطعات ،نظمیں ،رباعیات اور نوحے بھی ہیں۔ ڈاکٹر عبرت بہرائچی[1] اپنی کتاب نقوش رفتگاں میں لکھتے ہے کہ کلیم صاحب کے کلام میں وقار وتمکنت اور رعنائی خیال کا بڑا دلکش امتزاج ملتا ہے۔ یہ ایک ایک لفظ تول تول کر لکھتے تھے اور بڑے ریاض سے حسن بیاں کا نگار خانہ بناتے تھے۔ انمیں ایک باہمت،خوددار اور سچی تڑپرکھنے والے مرد مومن کی نعرۂ زندگی کی گونج ملتی ہے۔ آپ کے کلام کا ایک ممتاز وصف یہ بھی ہے کہ وہ سخن وہ ،مشاقی کی سطح کہیں سے گرنے نہیں پاتی۔ اور ان میں اول تاآخر ایک حساس ،متین،باوقار،اعلٰی تخلیق طبیعت کی کار فرمائی ملتی ہے۔
ادبی شخصیات سے رابطہ
ترمیمکلیم نگروری کا اپنے وقت کے تمام شاعروں سے گہرا رابطہ تھا۔ جن میں کچھ نام اس طرح ہے شوق بہرائچی،ساغرمہدی، ،نسیم جرولی جمال ؔ بابا، و صفی ؔ بہرائچی، ڈاکٹر نعیم اللہ خیالیؔ بہرائچی،شفیع ؔ بہرائچی،محسنؔ زیدی،اثرؔ بہرائچی ،حاجی لطیف ؔ نوری لطیف ؔ بہرائچی ،،عبرت بہرائچی،واصف القادری نانپاروی، ایمن چغتائی نانپاوری، مہشر نانپاروی،فنا نانپاروی، رافعتؔ بہرائچی ،نعمتؔ بہرائچی شاعر جمالی ،رزمی صاحب، اطہر ؔ رحمانی وغیرہ سے آپ کے قریبی تعلوقات تھے۔ وٖغیر ہ ہیں۔
وفات
ترمیمکلیم نگروری کی وفات 24 مئی 1983ء بروزسہ شنبہ کو ہوئی اور آپ کے جسد خاکی کو موضع نگرور ضلع بہرائچ میں واقع آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ نقوش رفتگاں از ڈاکٹر عبرت بہرائچی
- نقوش رفتگاں از ڈاکٹر عبرت بہرائچی