سید ساغرؔ مہدی بہرائچی کی ولادت 14 جولائی 1936ء کو شہر بہرائچ کے محلہ سیدواڑہ قاضی پورہ میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام سید خورشید حسن زیدی اور والدہ کا نام محترمہ رقیہ بیگم تھا ۔

سید ساغر مہدی ساغر بہرائچی
پیدائشسید ساٖغر مہدی
14جولائی1936ء
محلہ سیدواڑہ قاضی پورا شہر بہرائچ اتر پردیش ہندوستان
وفات20 دسمبر 1980ء
محلہ سیدواڑہ قاضی پورا شہر بہرائچ اتر پردیش ہندوستان
آخری آرام گاہکربلا شہر بہرائچ اتر پردیش ہندوستان
زباناردو
قومیتبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمانٹر
دورترقی پسند شاعری
موضوعغزل
ادبی تحریکترقی پسند تحریک
نمایاں کامدیوانجلی ،حرف جاں ،تحریر اور تحلیق

حالات

ترمیم

سید ساغر مہدی کے والد کا انتقال آپ کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ آپ کے بڑے بھائی سید اصغر مہدی نجمی ؔ 1954ء میں کراچی پاکستان گئے تھے اور وہیں بس گئے۔ والد کی وفات کے بعد آپ کی کفالت کی ذمہ داری آپ کے ماموں سید ہدایت حسین زیدی قمر نے لی اور بہن اور بھانجوں کی کفالت مذہبی ذمہ داری کے ساتھ نبھائی۔ ساغر مہدی کے ماموں سید ہدایت حسین زیدی کو شعر و شاعری کا شوق تھا،ان کی رہائش گاہ پر اکژ ادبی محفلیں ہو تی رہتی تھی۔ جس کی وجہ سے ساغر مہدی کو بھی شعری ذوق پیدا ہوا۔ بچپن میں آپ کی والدہ میر ؔ انیس کے مرشیے انھیں یاد کراتی تھی اور سنا بھی کرتی تھی۔ جس کی وجہ سے ان طبعت میں ایک خاص قسم کی موزونیت اور سوزوگراز پیدا ہوا۔1958ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔1967ء میں مقامی آزاد انٹر کالج سے تعلیم مکمل کی اوربعد میں مقامی مہاراج سنگھ انٹر کالج میں اردو کے استاد ہوئے۔

ادبی خدمات

ترمیم

عرفان ﻋﺒﺎسی اپنی کتاب تذکرہ شعرائے اترپردیش جلد دو م میں ساغر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ﺳﺎﻏﺮ صاحب زمانۂ طالب علمی سے ہی شعر و ادب سے والہانہ دلچسپی اور گہرا لگاؤ رکتھے تھے۔ شاعری کے ابتدائی زمانے میں بہرائچ کے معروف شاعر اور مشہور مزاح نگار شوق بہرائچی سے اصلاح لی[1]۔ تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد 1960ء میں ساغر مہدی ایک صاحب فکر شاعر کی شکل میں افق ادب پر ابھرے اور آپ کا کلام ملک کے ادبی و دینی رسالوں میں شائع ہونے لگا۔ مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے۔ مقامی اور قل ہند مشاعروں میں آپ کا کلام پسند کیا جاتا تھا۔1967ء میں مقامی مہراج سنگھ انٹر کالج میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ شوق ؔ بہرائچی کے شاگرد ہونے کے بعد بھی تادم آخر ان سے اپنی وابستگی کا اظہار نہیں کیا ۔[2] ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی آپ کے پروگرام نثر ہوئے ۔[2] ملک کے تمام معتبر رسالوں اور جریدوں میں خوب چھپتے تھے۔ بہرائچ کے مشہور شاعر عبرت بہرائچی اپنی کتاب نقش رفتگاں میں ﺳﺎﻏﺮمہدی کے بارے میں لکھتے ہینں کہ ﺳﺎﻏﺮ بڑے سلیقہ کے ساتھ اپنے مقاصد کو ایک سلجھے ہوئے مربوط فکری پہلو میں رعنائی و دلکشی کے ساتھ پیش کرتے تھے ،ان کی مربوط اور غنائی طبیعت کی کار فرمائی ہر جگہ یکساں نظر آتی ہے۔ ان کی طبیعت میں غور فکر استغراق بھی تھا ،اور مذہب کی تڑپ بھی۔ شاغر صرف بہرائچ کے صف اول کے ﺳﺎﻏﺮنہیں تھے بلکہ وہ آل انڈیا شہرت کے حامل تھے۔ ﺳﺎﻏﺮکو دنیا میں اپنا تخلیقی عمل سب سے زیادہ عزیز تھا اوراس نے اپنا سب کچھ گنوا کر بھی فن کی آبروں نہیں بیچی۔[3]

ادبی شخصیات سے رابطہ

ترمیم

ساغرؔ مہدی بہرائچی اپنے وقت میں ضلع بہرائچ میں سب سے زیادہ مشہور شاعر ہوئے۔ آپ کا ادبی حلقہ بہت وسیع تھا جس میں فراق گورکھپوری،کیفی اعظمی،ڈاکڑ عرفان عباسی لکھنؤ،جمال ؔ بابا، و صفی ؔ بہرائچی، ڈاکٹر نعیم اللہ خیالیؔ بہرائچی،شفیع ؔ بہرائچی،محسنؔ زیدی،اثرؔ بہرائچی ،حاجی لطیف ؔ نوری لطیف ؔ بہرائچی ،عمر قریشی گورکھ پوری،عبرت بہرائچی،واصف القادری نانپاروی، ایمن چغتائی نانپاوری، مہشر نانپاروی،فنا نانپاروی، رافعتؔ بہرائچی ،نعمتؔ بہرائچی شاعر جمالی، جون ایلیا،خمار بارہ بنکویملک زادہ منظور احمد، پروفیسر احتشام حسین ،رزمی صاحب، اطہر ؔ رحمانی وغیرہ سے آپ کے قریبی تعلوقات تھے۔

ادبی کاوشیں

ترمیم

ساغرؔ مہدی بہرائچی صاحب کے دو مجموعہ کلام کے دو شعری مجموعے ’حرف جاں‘ اور ’دیوانجلی ‘ کے نام سے شائع ہو کر منظر عام پر آئے جبکہ نثری مضامین کا مجموعہ ’تحریر اور تحلیق‘ بھی شائع ہو اور داد تحسین حاصل کی۔ دیوانجلی پر اردو اکادمی اتر پردیش اور بہار نے انعام سے بھی نوازا تھا۔[1]

وفات

ترمیم

سید ساغر ؔ مہدی کی وفات 20 دسمبر 1980ء کو ہوئی۔ سید شاغر ؔ مہدی کی وفات کا واقعہ عبرت بہرائچی نے اپنی کتاب نقوش رفتگاں میں اس طرح نقل کیا ہے میں بھی اس نشیت میں موجود تھا۔ شاغر اپنی قیام گاہ پر منعقد ہونے والی بزم مسالمہ میں ممبر پر سلام پیش کر تے وقت جیسے ہی یہ شعر زبان پر آیا

ہر ایک چیز لٹاکر پیمبروں کی طرح

صداقتوں کا امیں موت کے دیار میں ہے

ممبر سے نیچے گر پڑے چیخ نکلی پانی مانگا غشی طاری ہو گئی۔ وہاں موجود احباب نے انھیں رکشہ پر لاد پھاند کر ہاسپٹل بھاگے ،لیکن راستہ میں ہی اس عظیم فنکار کی روح پرواز کر گئی۔ اور شاغر کے جسد خاکی کو ہزاروں سوگواروں کے بیچ کربلا کے باہر سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس وقت کے مشہور روزنامہ قومی آواز نے شاغر مہدی کی وفات کی خبر جلی شرخی میں شاغر مہدی کے اسی شعر صداقتوں کا امیں موت کے دیار میں ہے کے ساتھ دی تھی۔[1]

نمونہ کلام

ترمیم
لطیف بات بھی احباب کو کھٹکتی ہے

نہ جانے کون سا کانٹا میری زبان میں ہے

خاک تھی اور جسم و جاں کہتے رہے

چند اینٹوں کو مکاں کہتے رہے

[4]

تم ایک خط میں یہ لفظوں کا سلسلہ رکھنا ہر ایک لفظ کا مفہوم دوسرا رکھنا
تمہارے لب کی مہک راز فاش کر دیگی لفافہ بند نہ کرنا یو نہی کھلا رکھنا
میں زندگی میں کبھی تم سے مل بھی جاؤنگا یہ شرط ہے بچھڑنے کا حوصلہ رکھنا
نہ اتنا ٹوٹ کے ملے کر دل کو شک گزرے خلوص میں بھی ضروری ہے فاصلہ رکھنا
ہمارا کیا ہے کہ بے چیرگی میں مست ہیں ہم کبھی تم اپنے مقابل بھی آینۂ رکھنا
نہیں حسین مگر حرف حق تو زندہ ہے میرا خیال بھی اے دشتِ کربلا رکھنا
میں اپنی ذات کو بھی مطمئن نہ کر پایا وہ کہہ گیا تھا زمانے کو ہم نوا رکھنا
عجب دورِنمائش ہے کیا کہوں ساغرؔ مجھے محال ہوا گھر میں بوریا رکھنا

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ تذکرہ شعرا ئے اترپردیش جلد دو م جلد نمبر 2 از عرفان ﻋﺒﺎسی
  2. ^ ا ب نقوش رفتگاں صفحہ نمبر 23
  3. نیا دور دسمبر 1982ء
  4. https://rekhta.org/poets/saghar-mehdi?lang=Ur

http://www.jadeedmarkaz.com/wp-content/uploads/2017/09/p2-1.jpg[مردہ ربط]