احمد علی بدر پوری
احمد علی بدر پوری (1915–11 جون 2000ء)، جو احمد علی آسامی اور احمد علی بانسکنڈی کے نام سے بھی معروف ہیں، ایک ہندوستانی عالم دین، صوفی، مجاہد آزادی اور ماہر تعلیم تھے۔ انھوں نے 44 سال تک جمعیۃ علمائے آسام کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
احمد علی بدر پوری | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
جمعیۃ علماء آسام کے دوسرے صدر | |||||||
مدت منصب 1957ء – 11 جون 2000ء | |||||||
| |||||||
امیر شریعت، شمال مشرقی ہند | |||||||
مدت منصب 1990ء – 11 جون 2000ء | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 1915ء بدر پور |
||||||
وفات | 11 جون 2000ء (84–85 سال) ممبئی |
||||||
شہریت | برطانوی ہند (1915–1947) بھارت (1947–2000) |
||||||
اولاد | محمد یحیی بدر پوری | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | سلہٹ گورنمنٹ عالیہ مدرسہ دار العلوم دیوبند |
||||||
پیشہ | عالم ، مصنف ، فعالیت پسند | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | بنگلہ ، آسامی زبان ، اردو ، عربی | ||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی و تعلیمی زندگی
ترمیماحمد علی بدر پوری 1915ء میں بدر پور (جو اس وقت برطانوی ہند کے سلہٹ ضلع میں آتا تھا) کے ایک صوفی خاندان میں پیدا ہوئے۔ [1] وہ منور خادم یمنی کی اولاد تھے، جو شاہ جلال مجرد کے مجاز سکندر خان غازی کے خادم تھے۔ [2][3][4]
بدر پوری نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن بدر پور میں حاصل کی اور پھر آگے کی تعلیم سلہٹ گورنمنٹ عالیہ مدرسہ سے مکمل کی، جہاں انھوں نے 1938ء سے 1940ء تک رہ کر درس نظامی میں باقاعدہ فضیلت کی۔ اس کے بعد انھوں نے پھر سے دورۂ حدیث کے لیے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا لیکن صحت کے بعض اعذار کی وجہ سے اس وقت وہاں مزید تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ 1950ء میں، انھوں نے ایک بار پھر دیوبند کے مدرسے میں دورۂ حدیث اور دورۂ تفسیر کے سال پڑھ کر تعلیم کی تکمیل کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے ڈھائی ماہ کی قلیل مدت میں حفظ قرآن مکمل کر لیا۔ ان کے اساتذہ میں حسین احمد مدنی، عبد السمیع دیوبندی، اعزاز علی امروہوی، فخر الحسن مرادآبادی اور عبد الاحد دیوبندی شامل تھے۔ [5][6][7][8] وہ حسین احمد مدنی کے اجل خلفاء میں شامل ہیں۔ [9][10][11][12][13][14]
عملی زندگی
ترمیمبدر پوری نے دار العلوم بانسکنڈی سے بہ حیثیت استاد اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ سنہ 1955ء میں حسین احمد مدنی نے انھیں ادارے کی طرف سے کسی بلاوے کے بغیر وہاں بھیج دیا۔ ادارے کے انتظامیہ نے انھیں بہ حیثیت استاد قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم بعد میں مدنی کی طرف سے خط ملنے کے بعد انھوں نے ان کا تقرر کر لیا۔ [15][16][17]
سنہ 1957ء میں، مدنی نے انھیں ادارے کا شیخ الحدیث مقرر کیا اور ادارے کی باگ ڈور انھیں کے حوالے کر دی۔ وہ تا دم آخر ان مناصب پر برقرار رہے۔ اس طرح سے ان کی تدریسی زندگی کا دورانیہ 45 سال پر محیط ہے۔ [15][16][17] انھوں نے تحریک آزادی ہند میں بھی اپنا حصہ پیش کیا۔ [18][6][7][8]
سنہ 1957ء میں وہ جمعیۃ علماء آسام کے صدر منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے انھوں نے سیکرٹری، کنوینر اور عام کارکن کی حیثیت بھی خدمات انجام دی تھیں۔ انھوں نے اپنی قیادت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے پاکستانی جلاوطنی کی تحریک کا بھی سامنا کیا، جسے بنگال کھیدا تحریک بھی کہا جاتا ہے، جو 1960ء کی دہائی میں تیز ہوئی اور 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں تک جاری رہی۔ [19][20][21]
انھوں نے اس وقت کی چالِہا حکومت کے خلاف مضبوط آواز اٹھائی اور اسے غیر ملکیوں کے نام پر اقلیتوں پر کیے جانے والے غیر انسانی تشدد کو روکنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے آسام تحریک کی مخالفت کی، جو نیلی قتل عام کے واقعے کے ساتھ ساتھ عروج پر تھی۔ انھوں نے ہتیشور سیکیا، وزیر قانون عبد المحب مزومدار اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اقلیتوں کے لیے بعض خصوصی تحفظات فراہم کرنے پر مجبور کیا، جس کے بعد 1983ء کا آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ پاس ہوا۔ [22][23][21]
سنہ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں، بدر پوری نے ایک اور تحریک میں حصہ لیا، جسے بوڑو تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں زیریں آسام میں ظالمانہ قتل عام ہوا۔ بدر پوری نے حکومت سے، متاثرین کی حفاظت اور بحالی کا پر زور مطالبہ کیا۔ اس تحریک سے متاثر ہونے والے 600 بے گھر یتیموں کو، انھوں نے بانسکنڈی مدرسہ (دار العلوم بانسکنڈی) میں پناہ دی۔ اس طرح، انھوں نے کسی بھی قسم کی ناانصافی کے خلاف اور آخر کار حکومت کی طرف سے یکم اپریل 2000ء کو گوہاٹی میں جمعیت کے ایک تاریخی اجلاس کا اہتمام کرکے بعض فرقہ وارانہ تبصروں کے خلاف آواز اٹھائی۔ [19][20][21]
بدر پوری نے اپنے استاد حسین احمد مدنی سے متاثر ہوکر تحریک آزادی میں بھی حصہ لیا۔ انگریز مخالف سرگرمیوں کے الزام میں متعدد بار انھیں قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کی حمایت میں کام کیا اور تقسیم ہند کی مخالفت کی۔ انھوں نے جولائی 1947ء میں سلہٹ ریفرنڈم (سلہٹ استصواب عمومی) کے دوران سلہٹ کو ہندوستان میں شامل کرنے کے لیے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ [24][25][26][27]
انھوں نے ہزاروں مساجد، مدارس اور خانقاہوں اور اخیر میں گوہاٹی خانقاہ کی بنیاد رکھی، جہاں ہر سال ہزاروں لوگ روحانی رہنمائی کے لیے آتے ہیں۔ انھوں نے قادیانیوں کی منافقت اور انحراف کی بھی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انھوں نے بنگلہ میں ختمِ نبوتیر و قادیانیتیر گمراہیر اکاٹیا دلیل سموہ (ترجمہ: ختم نبوت اور قادیانیوں کے انحراف کا ناقابل تردید ثبوت) نامی ایک کتاب لکھی۔ [28][29] [30][31][32][33]
اعزازات و مناصب
ترمیمبدر پوری کے انتقال کے بعد، ترون گوگوئی حکومت نے ان کے اعزاز میں ان کے نام پر ایک ایوارڈ احمد علی بانسکندی ایوارڈ کے نام سے جاری کیا۔ [34][35][36][37] سنہ 1990ء سے تا وفات، وہ شمال مشرقی ہند کے امیرِ شریعت کے طور پر بھی خدمت انجام دے چکے ہیں۔ [38][39][40]
قلمی خدمات
ترمیمبدر پوری نے بنگلہ، آسامی اور اردو میں متعدد کتابیں لکھیں، جن میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں[41][42][43][44]
- عالم برزخ (بنگلہ و آسامی)
- پبتر حرم ترائیر اتہاس (بنگلہ؛ ترجمہ: تین مقدس مساجد کی تاریخ)
- جمعیتیر-مُول کوتھا (بنگلہ؛ ترجمہ: جمعیۃ علمائے ہند کے اہم نکات)
- علمے معرفتیر بِشسٹو وہانترائے او مشائخ چرترے (بنگلہ؛ ترجمہ: علم معرفت کی تین اہم گاڑیاں اور مشائخ کی سوانح عمریاں)
- فضائلِ شعبان، رمضان و فضائلِ نفل روزہ (آسامی؛ ترجمہ: شعبان، رمضان اور نفلی روزے کے فضائل)
- ختمِ نبوتیر و قادیانیتیر گمراہیر اکاٹیا دلیل سَموہ (بنگلہ؛ ترجمہ: ختم نبوت اور قادیانیوں کے انحراف کا ناقابل تردید ثبوت)
- ظہورِ مہدی و نزولِ عیسیٰ (اردو اور بنگلہ؛ ترجمہ: امام مہدی کا ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد)
- سلاسلِ طیبہ (بنگلہ؛ ترجمہ: صوفیا کے روحانی سلسلے)
- فیوضِ مدنی (اردو)[45]
وفات
ترمیمبدر پوری کا انتقال 11 جون سنہ 2000ء کو ممبئی میں ہوا۔ ان کے جسدِ خاکی کو بہ ذریعہ ہوائی جہاز آسام لے جایا گیا۔ 13 جون کو انھیں دار العلوم بانسکنڈی کے احاطے ہی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ [46][47][48][27][49] ان کے پسماندگان میں ان کے بیٹے محمد یحییٰ بدرپوری ہیں، جو شمال مشرقی ہند کے موجودہ امیر شریعت ہیں۔[50][51] بہت سے لوگوں نے بدر پوری کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔ اسعد مدنی نے ان کی وفات کو 20ویں صدی کے سب سے بڑے سانحات میں سے ایک قرار دیا۔ سونیا گاندھی نے انھیں ایک مجاہد آزادی قرار دیا جس نے ہمیشہ لوگوں کے مختلف طبقات کے درمیان امن اور سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ آسام کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرفل کمار مہنت نے انھیں امن، محبت اور سماجی ہم آہنگی کی علامت قرار دیا۔ سنتوش موہن دیو نے ان کی وفات کو پورے ملک کا نقصان بتایا۔ [52][27]
حوالہ جات
ترمیممآخذ
ترمیم- ↑ بدر پوری 1996، ص 6
- ↑ قاسمی 2010، ص 8–9
- ↑ بدر پوری 1992، ص 1
- ↑ آسامی 2016، ص 19–21
- ↑ بدر پوری 1992، ص 1–8، 13
- ^ ا ب احمد 2000، ص 6–7، 54–55
- ^ ا ب قاسمی 2010، ص 10–14
- ^ ا ب بدر پوری 1996، ص 7
- ↑ بدر پوری 1997، ص 7
- ↑ بدر پوری 1992، ص 12–13، 18
- ↑ قاسمی 2010، ص 7، 16
- ↑ محمد عثمان قارقلیط، بہار برنی، مدیران (10 جولائی 1998ء)۔ "شیخ الاسلام نمبر"۔ ہفت روزہ الجمعیۃ (دوسرا ایڈیشن)۔ بہادر شاہ ظفر مارگ، نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند: 16
- ↑ فرید الوحیدی (1991ء)۔ "خلفاء و مجازین"۔ مولانا حسین احمد مدنی: ایک سوانحی و تاریخی مطالعہ۔ ذاکر نگر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی: قومی کتاب گھر۔ صفحہ: 828
- ↑ این. حنیف (2000ء)۔ Biographical Encyclopaedia of Sufis: South Asia [صوفیاء کا سوانحی انسائیکلوپیڈیا: جنوبی ایشیا] (بزبان انگریزی)۔ انصاری روڈ، دریا گنج، نئی دہلی: سروپ اینڈ سنز۔ صفحہ: 357۔ ISBN 9788176250870
- ^ ا ب قاسمی 2010، ص 17–21
- ^ ا ب قاسمی 2000، ص 3–4
- ^ ا ب بدر پوری 1992، ص 18–21
- ↑ بدر پوری 1992، ص 1–8, 13
- ^ ا ب قاسمی 2010، ص 20–23، 39–42
- ^ ا ب راغبی اور مصطفِی 2000، ص 41–47، 51
- ^ ا ب پ الاسلام 2000، ص 9
- ↑ قاسمی 2010، ص 20–23, 39–42
- ↑ راغبی اور مصطفِی 2000، ص 41–47, 51
- ↑ راغبی 1994، ص 4–6
- ↑ بدر پوری 1992، ص 4–5
- ↑ راغبی اور مصطفِی 2000، ص 11–17، 51
- ^ ا ب پ "চিরনিদ্রায় মৌলানা আহমেদ আলি..." [مولانا احمد علی ابدی نیند میں...]۔ روزنامہ سونار کچھار (بزبان بنگالی)۔ کچھار، آسام۔ 12 جون 2000ء۔ صفحہ: 1
- ↑ احمد 2000، ص 15، 38–39
- ↑ سید یاسین علی (1998)۔ خانقاہ - ایک مختصر تعارف (بزبان آسامی)۔ علی نگر، سجوباڑی، گوہاٹی، آسام: سید یاسین علی۔ صفحہ: 2–5
- ↑ قاسمی 2010، ص 29–32
- ↑ راغبی اور مصطفِی 2000، ص 27، 54
- ↑ بدر پوری 1998، ص 21–38
- ↑ نور عالم خلیل امینی، مدیر (نومبر–دسمبر 2013ء)۔ "فضيلة الشيخ أحمد علي وجهوده التربوية والإصلاحية بولاية «آسام» الهندية؛ بقلم فريد الدين أحمد" [شیخ احمد علی اور ہندوستانی ریاست آسام میں ان کی تعلیمی اور اصلاحی کوششیں از فرید الدین احمد]۔ الداعی (بزبان عربی)۔ دیوبند: دار العلوم دیوبند۔ 38 (1–2)
- ↑ قاسمی 2010، ص 23–24، 98–100
- ↑ "Ahmed Ali Baskandi Award presented" [احمد علی باسکندی ایوارڈ پیش کیا۔]۔ www.sentinelassam.com (بزبان انگریزی)۔ دی سینٹینیل۔ 2 مارچ 2016ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2023ء
- ↑ آشا کھوسہ (3 جولائی 2022ء)۔ "Assam revives awards in the name of historic Muslim personalities" [آسام نے تاریخی مسلم شخصیات کے نام پر اعزازات جاری کیے۔]۔ www.awazthevoice.in (بزبان انگریزی)۔ آواز دی وائس۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی
- ↑ "CM presents Ahmed Ali Baskandi Award" [وزیر اعلیٰ نے احمد علی باسکنڈی ایوارڈ پیش کیا۔]۔ assamtribune.com (بزبان انگریزی)۔ دی آسام ٹریبیون۔ 15 ستمبر 2010ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2023ء
- ↑ قاسمی 2010، ص 23–24, 98–100
- ↑ بدر پوری 1992، ص 26
- ↑ محمد اللہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 736–737
- ↑ راغبی اور مصطفِی 2000، ص 65–66
- ↑ قاسمی 2010، ص 171–175
- ↑ الاسلام 2000، ص 4
- ↑ آسامی 2016، ص 221
- ↑ بدر پوری 1996، ص 5
- ↑ قاسمی 2010، ص 119
- ↑ Islam 2000، ص 11
- ↑ راغبی اور مصطفِی 2000، ص 1
- ↑ احمد 2000، ص 92
- ↑ طیب احمد قاسمی (2016ء)۔ خانقاہ (بزبان انگریزی) (پہلا ایڈیشن)۔ احمد علی نگر، ہاٹیگاؤں، گوہاٹی، آسام: خانقاہ شیخ الحدیث حضرت مولانا احمد علی۔ صفحہ: 3
- ↑ "Markazul Maarif Mumbai Holds its 18th Convocation" [مرکز المعارف ممبئی نے اپنا 18واں اجتماع منعقد کیا]۔ deoband.net (بزبان انگریزی)۔ 7 اپریل 2013ء۔ 07 جولائی 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2023ء
- ↑ قاسمی 2000، ص 20–21
کتابیات
ترمیم- عبد القادر قاسمی (جنوری 2010ء)۔ شیخ مولانا احمد علی، جیون آرو کرما [شیخ مولانا احمد علی: حیات اور کارنامے] (بزبان آسامی)۔ ہوجائی، آسام: مفصل علی
- مزمل علی آسامی (جنوری 2016ء)۔ قطب عالم حضرت مولانا احمد علی صاحب: حیات اور کارنامے۔ مدنی روڈ، دیوبند، سہارنپور: ممتاز بک ڈپو
- احمد علی بدر پوری (جنوری 1997ء)۔ پبترا حرم ترائیر اتہاس [تین مقدس مساجد کی تاریخ] (بزبان بنگالی) (چوتھا ایڈیشن)۔ ہوجائی، آسام: جامعہ اسلامیہ جلالیہ
- احمد علی بدر پوری (1992ء)۔ سلاسل طیبہ (بزبان بنگالی)۔ ہوجائی، آسام: مفصل علی
- احمد علی بدر پوری (1996ء)۔ "آئینۂ شخصیت از مزمل علی آسامی"۔ فیوضِ مدنی (دوسرا ایڈیشن)۔ جامعہ جلالیہ، ہوجائی، آسام: مفصل علی
- بشیر احمد (نومبر 2000ء)۔ چراغ مدنی (بزبان بنگالی) (پہلا ایڈیشن)۔ گوہاٹی، آسام: محمد احمد حسین
- محمد نظر الاسلام (2000ء)۔ حضرت شیخ مولانا احمد علی'ر اسمرتی پاترا [مولانا احمد علی کی یادیں] (بزبان بنگالی)۔ بانس کنڈی، کچھاڑ ضلع، آسام: دار العلوم بانسکنڈی
- عبد الجلیل راغبی، اے آر مصطفِی، مدیران (جولائی–اکتوبر 2000ء)۔ "حضرت مولانا شیخ احمد علی کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک خصوصی شمارہ"۔ گیان سمبار (بزبان آسامی)۔ ہوجائی، آسام: مرکز ساہتیہ پریشد۔ 2–3 (1–4)
- طیب قاسمی (2000ء)۔ دارالعلوم بانسکنڈی (بزبان بنگالی)۔ بانسکنڈی، ضلع کچھاڑ، آسام: دارالعلوم بانسکنڈی
- احمد علی بدر پوری (1998ء)۔ ختمِ نبوتر و قادیانیتیر گمراہیر اکاٹیا دلیل سموہ (بزبان بنگالی)۔ علی نگر، سجوباڑی، گوہاٹی، آسام: سید یاسین علی
- عبد الجلیل راغبی (1994ء)۔ پورب بھارتیر ولی کامل (بزبان بنگالی)۔ ہوجائی، آسام: مرکز المعارف
مزید پڑھیے
ترمیم- عبد الجلیل راغبی (2007ء)۔ مشاہیر علماء و مشائخ آسام (شہباز قدس)۔ پہلی۔ نوگاؤں، آسام: نوری اسلامک فاؤنڈیشن۔ صفحہ: 43–90
- امجد علی (11 اکتوبر 2023ء)۔ "Biography of Hazrat Maulana Ahmad Ali Badarpuri (RA)" [سوانح حضرت مولانا احمد علی بدرپوری] (بزبان انگریزی)۔ دیوبند آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2023ء