نور عالم خلیل امینی

اردو و عربی کے مشہور ہندوستانی ادیب

نور عالم خلیل امینی (1952–2021ء) ایک ہندوستانی عالم دین، نقاد، سوانح نگار، تذکرہ نویس، خاکہ نگار، مقالہ نگار اور عربی و اردو کے مایۂ ناز ادیب تھے۔ وہ دار العلوم دیوبند میں تقریباً 40 سال عربی ادب کے استاذ اور مجلہ الداعی کے مدیر رہے۔ وہ عربی و اردو؛ دونوں ہی زبانوں کے باکمال مصنف بھی تھے اور ان کی کتاب مفتاح العربیہ اور متی تكون الكتابات مؤثرة؟ مختلف مدارس میں بالترتیب درس نظامی و تکمیلِ عربی ادب کے نصاب میں شامل ہیں اور اول الذکر کتاب کئی اسکولوں کے نصاب میں بھی داخل ہے۔

ادیبِ دوراں، مولانا

نور عالم خلیل امینی
رئیسِ تحریر مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1982ء تا 2021ء
پیشروبدر الحسن قاسمی
جانشینمحمد عارف جمیل مبارکپوری
ذاتی
پیدائش18 دسمبر 1952ء
ہرپوربیشی، ضلع مظفرپور، بہار، بھارت
وفات3 مئی 2021(2021-50-03) (عمر  68 سال)
مدفنقاسمی قبرستان
مذہباسلام
مدرسہمدرسہ امدادیہ دربھنگہ
دارالعلوم مئو
دار العلوم دیوبند
مدرسہ امینیہ
شاہ سعود یونیورسٹی
بنیادی دلچسپیعربی ادب ، اردو ادب
قابل ذکر کامفلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، پسِ مَرگ زندہ، وہ کوہ کَن کی بات، رفتگانِ نارفتہ
اساتذہمحمد میاں دیوبندی، وحید الزماں کیرانوی، عبد الحق اعظمی، سعید الرحمن اعظمی ندوی، رابع حسنی ندوی، ابو الحسن علی حسنی ندوی
مرتبہ
شاگرد

ابتدائی و تعلیمی زندگی ترمیم

ان کی ولادت 1 ربیع الآخر 1372ھ بہ مطابق 18 دسمبر 1952ء میں اپنے نانیہال ہرپوربیشی، ضلع مظفرپور (بہار) میں ہوئی، جب کہ ان کا آبائی وطن رائے پور، ضلع سیتامڑھی تھا۔ ان کے والد محمد خلیل صدیقی تھے۔[1][2][3][4]

ان کی تعلیم کی ابتدا ان کے نانا جان کے پاس بغدادی قاعدہ سے ہوئی، پھر رائے پور میں مولوی ابراہیم کے پاس ہوئی۔ پھر مدرسہ نور الہدیٰ پوکھریرا، ضلع سیتا مڑھی میں تعلیم حاصل کی، وہاں سے 1380ھ بہ مطابق 1960ء میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ چلے گئے، 1961ء میں سات پارہ حفظ قرآن کرنے کے بعد، درجہ ششم اردو میں داخل ہوئے۔ وہاں ان کے اساتذہ میں محمد ادریس رائے پوری، محمد تسلیم سدھولوی اور محمد ہارون الرشید جمال پوری تھے۔[1][4]

1383ھ بہ مطابق 1964ء میں دار العلوم مئو گئے اور وہیں پر عربی اول سے عربی چہارم تک کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے دار العلوم مئو کے اساتذہ میں ریاست علی بحری آبادی، امین ادروی، شیخ محمد مئوی، نذیر احمد مئوی، نیاز احمد جہان آبادی، سلطان احمد مئوی، ریاض الحق مئوی، عبد الحق اعظمی، محمد یاسین اور محمد اسلام الدین اعظمی شامل تھے۔[1][4] 16 شوال 1387ھ بہ مطابق 20 دسمبر 1968ء کو دار العلوم دیوبند کے درجہ عربی پنجم میں ان کا داخلہ ہوا؛ لیکن کچھ اسباب کی وجہ سے وہاں سے سند فراغت حاصل نہ کرسکے۔[1][4] پھر مدرسہ امینیہ، دہلی میں داخلہ ہوا اور وہیں سے اپنے مشفق استاذ محمد میاں دیوبندی کے زیر نگرانی؛ 1970ء میں سند فضیلت حاصل کی۔[1][4]

ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں وحید الزماں کیرانوی، معراج الحق دیوبندی، محمد حسین بہاری، نصیر احمد خان بلند شہری، فخر الحسن مرادآبادی، شریف الحسن دیوبندی، قمر الدین احمد گورکھپوری، خورشید عالم دیوبندی، حامد میاں دیوبندی اور بہاء الحسن مرادآبادی شامل تھے۔[1]

تدریسی و عملی زندگی ترمیم

فراغت کے بعد 1972ء تا 1982ء دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں دس سال مدرس رہے۔ اس عرصہ میں انھوں نے محمد ثانی حسنی ندوی اور ابو الحسن علی حسنی ندوی سے خوب استفادہ کیا۔[1] پھر 1403ھ بہ مطابق 1982ء ہی میں دار العلوم کے انتظامی انقلاب کے بعد؛ ان کے خاص استاذ وحید الزماں کیرانوی (اس وقت کے نائب مہتمم دار العلوم دیوبند) نے ان مجلہ الداعی کی ادارت کے لیے دار العلوم دیوبند مدعو کیا،[4] وہ دار العلوم گئے پھر چند مہینے شاہ سعود یونیورسٹی، ریاض میں عربی زبان کی تدریسی ڈگری حاصل کی۔[1][3]

شاہ سعود یونیورسٹی سے واپسی کے بعد مجلہ الداعی کی ادارت کے ساتھ انھیں دار العلوم دیوبند میں عربی ادب کا استاذ مقرر کیا گیا[1] اور وہ تاوفات ان دونوں مناصب پر فائز رہے اور اس طرح سے ان کے دار العلوم دیوبند کا تدریسی زمانہ تقریباً 40 سال کے عرصہ کو محیط رہا۔[5][6] دار العلوم دیوبند میں: دیوانِ متنبی اور عربی ادب کی کئی کتابوں کے اسباق؛ ان سے وابستہ تھے۔[7] اور انھیں کی ادارت میں مجلہ الداعی نے اپنی جامعیت و جاذبیت اور اصحاب علم و فضل کے پر مغز و معلومات سے بھرپور مضامین کے پیش نظر، اطرافِ عالم میں اپنا رتبہ و مقام، اپنی شناخت و پہچان بنائی۔[8]


تلامذہ ترمیم

حقانی القاسمی، محمد عارف جمیل مبارکپوری، فہیم الدین قاسمی بجنوری، اشرف عباس قاسمی، مصلح الدین قاسمی سدھارتھ نگری، محمد نجیب قاسمی، نایاب حسن قاسمی، ابرار احمد اجراوی، محمد ساجد کُھجناوَری، محمد اسجد قاسمی استاذ ادب عربی مظاہر علوم سہارنپور سمیت ان کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔[9][2][10][11][12]

اعزازات ترمیم

ان کی کتاب فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں کے خصوصی حوالہ سے نور عالم خلیل امینی کی تحریروں میں سماجی و سیاسی پہلووں پر آسام یونیورسٹی میں ابو الکلام نے اشفاق احمد کی نگرانی میں اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ پیش کیا۔[13] 27 رجب 1440ھ مطابق 14 اپریل 2019ء بہ روز جمعرات اشوکا ہوٹل، نئی دہلی میں منعقدہ ایک تقریب میں نائب صدر جمہوریہ ہند؛ وینکیا نائیڈو نے[14][15][16][17] انھیں عربی زبان و ادب پر ان کی خدمات کے لیے ”صدارتی اعزازی سند بابت 2017ء“ [Presidential Certificate of Honour] سے نوازا۔[18][19]

قلمی خدمات ترمیم

مقالہ نویسی و مضمون نگاری ترمیم

وہ عربی و اردو دونوں ہی زبانوں کے یکساں شہسوار تھے[20] انھوں نے 1982ء میں الداعی کے مدیر بننے کے بعد سے وفات تک کے عرصے میں کم و بیش تین سو شخصیات پر عربی میں سوانحی و تاثراتی مضامین لکھے۔[21] ملک و بیرون ملک کے کئی رسالوں اور اخباروں جیسے: الداعی دیوبند، البعث الاسلامی لکھنؤ، الرائد لکھنؤ، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، آئینۂ دار العلوم دیوبند، ہفت روزہ تعمیر حیات، الدعوۃ ریاض، الحرس الوطنی ریاض، الفیصل ریاض، الجزیرة ریاض، العالم الاسلامی مکہ مکرمہ، الندوۃ مکہ مکرمہ، روزنامہ راشٹریہ سہارا، اردو نئی دہلی، نئی دنیا دہلی، منصف حیدرآباد، انقلاب ممبئی و دہلی، اردو ٹائمز ممبئی، اخبار مشرق کلکتہ و دہلی، سہ روزہ دعوت نئی دہلی، ہفت روزہ نقیب پٹنہ، عالمی سہارا نئی دہلی، الجمعیۃ دہلی، الفرقان لکھنؤ، ترجمان دار العلوم جدید دہلی، رسالہ الحق پاکستان، اذان بلال آگرہ، ریاض الجنۃ گورینی جونپور، ماہنامہ ہدایت جے پور، البدر کاکوری، خبر دار جدید نئی دہلی، ترجمان دیوبند دیوبند میں ان کے پانچ سو سے زائد اردو و عربی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔[22][3][23][16][24]

تصانیف ترمیم

انھوں نے اردو و عربی میں تقریباً 60 کتابیں لکھیں ہیں، جن میں 11 اردو کی اور 11 عربی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔[25][22][26] انھوں نے اپنی اور اشرف علی تھانوی، حسین احمد مدنی، ابو الحسن علی حسنی ندوی، محمد منظور نعمانی، محمد طیب قاسمی، محمد تقی عثمانی، سعید الرحمن اعظمی ندوی امین احسن اصلاحی، کرشن لال (نو مسلم غازی احمد) اور خورشید احمد جیسے کئی علما و دانشوران کی تقریباً 35 اردو کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔[26][22][2][27] نیز انھوں نے دو سو سے زائد مقالات کا عربی میں ترجمہ کیا، جو ہند و بیرون ہند شائع ہو چکے ہیں۔[16] ان کی اردو و عربی کی کتابیں اور تراجم کی فہرست بالترتیب ذیل میں درج ہیں: [22][26]

اردو
  • وہ کوہ کَن کی بات (وحید الزماں کیرانوی کی سوانحِ حیات)
  • فَلَسطین: کسی صلاح الدین کے انتظار میں
  • پسِ مَرگ زندہ
  • رفتگانِ نارفتہ
  • حرفِ شيریں
  • موجودہ صلیبی صہیونی جنگ: حقائق، دلائل و شواہد اور اعداد و شمار
  • عالم اسلام کے خلاف حالیہ جنگ
  • کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟
  • صحابۂ رسول اسلام کی نظر میں
  • خط رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں؟
  • خاکی مگر افلاکی (غیر مطبوعہ)
عربی
  • مفتاح العربیہ (مکمل دو حصے)؛ یہ کتاب مختلف مدرسوں میں داخلِ نصاب ہے۔[6]
  • فِلِسطين: فی انتظارِ صلاحِ دين (عربی)
  • المسلمون في الهند بين خدعة الديمقراطية وأكذوبة العلمانية في النصف الأول من القـرن العشرين
  • الصحابة و مكانتهم في الإسلام
  • مجتمعاتنا المعاصرة والطريق إلى الإسلام
  • الدعوة الإسلامية بين دروس الأمس و تحديات اليوم
  • متی تكون الكتابات مؤثرة؟
  • تعلّموا العربیة فإنہا من دینکم
  • العالم الهندي الفريد: الشيخ المقرئ محمد طيب
  • من وحي الخاطر (پانچ جلدیں)
  • في موكب الخالدين (غیر مطبوعہ)
دیگر مصنفین کی اردو کتب کے عربی تراجم
  • التفسير السياسي للإسلام في مرآۃ کتابات الأستاذ أبی الأعلى مودودي والشہید سید قطب (ابو الحسن علی حسنی ندوی کی ”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ کا عربی ترجمہ)
  • أحاديث صريحة في باكستان (ابو الحسن علی حسنی ندوی کی ”پاکستانیوں سے صاف صاف باتیں“ کا عربی ترجمہ)
  • الداعية الكبيرة الشيخ محمد إلياس الكاندهلوي (ابو الحسن علی حسنی ندوی کی ”مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت“ کا عربی ترجمہ)
  • سيدنا معاوية رضي اللّٰه عنه في ضوء الوثائق الإسلامية والحقائق التاريخية (محمد تقی عثمانی کی ”حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق“ کا عربی ترجمہ)
  • مـاهي النصرانية؟ (محمد تقی عثمانی کی ”عیسائیت کیا ہے؟“ کا عربی ترجمہ)
  • علما ديوبنـد واتجاههم الـديني ومـزاجهم الـمـذهبي (محمد طیب قاسمی کی ”علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج“ کا عربی ترجمہ)
  • مأساةُ شاب هندوسي اعتنـق الإسلام (”من الظلمات الی النور“ (کرشن لال) کا عربی ترجمہ)
  • الحالة التعليمية في الهند، فيما قبل عهد الاستعمار الإنجليزي وفيما بعده (حسین احمد مدنی کی ”ہندوستان کی تعلیمی حالت انگریزی سامراج سے پہلے اور اس کی آمد کے بعد“ کا عربی ترجمہ)
  • بحوث في الدعوة والفكر الإسلامي (حسین احمد مدنی کے مختلف مضامین و محاضرات کے مجموعہ کا عربی ترجمہ)
  • الثورة الإيرانية في ميزان الإسلام (منظور نعمانی کی ”ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت“ کا عربی ترجمہ)
  • دعايات مكثَّفة ضـد الشيخ محمد بـن عبـد الوهــاب النـجـدي (منظور نعمانی کی ”بر صغیر میں شيخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے خلاف پروپیگنڈہ کے علمائے حق پر اثرات“ کا عربی ترجمہ)
  • لآلي منثورة في التعبيرات الحكيـمـة عـن قـضـايـا الـدين والأخلاق والاجتماع (اشرف علی تھانوی کی ”مقالات حکمت ومجادلات معدلت“ کا عربی ترجمہ)
  • الإسلام والعقلانية (اشرف علی تھانوی کی ”الانتباھات المفیدۃ عن الاشتباھات الجدیدۃ“ کا عربی ترجمہ)
  • الدعوة الإسلامية: قضــايا ومشكلات (سعید الرحمن اعظمی ندوی کے ساتھ مل کر امین احسن اصلاحی کی ”دعوت اسلامی ۔ مسائل ومشکلات“ کا عربی ترجمہ)
  • الإسلام والاشتراكية (سعید الرحمن اعظمی ندوی کے ساتھ مل کر ڈاکٹر خورشید احمد کی ”اشتراکیت اور اسلام“ کا عربی ترجمہ)

وفات اور اظہار تعزیت ترمیم

نور عالم خلیل امینی کا انتقال 20 رمضان المبارک 1442ھ بہ مطابق 3 مئی 2021ء کو دیوبند میں واقع اپنی رہائش گاہ پر ہوا۔[9] علمائے کرام؛ بالخصوص ابو القاسم نعمانی، سید ارشد مدنی، محمد سفیان قاسمی اور محمود مدنی نے ان کی وفات پر غم کا اظہار کیا۔[28] ان کی نماز جنازہ سید ارشد مدنی نے پڑھائی اور انھیں قاسمی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔[29]

 
دیوبند میں قاسمی قبرستان میں نور عالم خلیل امینی کی آخری آرام گاہ پر کتبہ

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی - آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو از مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشا_ماخوذ: ماہنامہ دار العلوم دیوبند، شوال- ذی الحجہ 1442ھ بہ مطابق جون-جولائی 2021ء، صفحہ: 72 تا 77۔
  2. ^ ا ب پ محمد نجیب قاسمی۔ "آہ! عربی واردو زبان وادب کا شہسوار چل بسا"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مئی 2021 
  3. ^ ا ب پ نور عالم خلیل امینی۔ "حالات مصنف"۔ پس مرگ زندہ (پانچواں، فروری 2017 ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ علم و ادب۔ صفحہ: 933 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث الشيخ نور عالم خليل الأميني باق حبه في القلوب ما بقي الليل و النهار از مولانا ابو عائض عارف جمیل مبارکپوری، ایڈیٹر مجلہ الداعی_ماخوذ: مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند، محرم- ربیع الاول 1443ھ م اگست- نومبر 2021ء، صفحہ: 33 تا 49۔
  5. محمد منہاج عالم ندوی۔ "حضرت مولانانور عالم خلیل امینیؒ کا انتقال ملت اسلامیہ کا بڑا علمی خسارہ: امارت شرعیہ"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی 2021 
  6. ^ ا ب "Maulana Noor Alam Khalil Amini nominated for President's Award" [مولانا نور عالم خلیل امینی صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد]۔ سیاست (اخبار) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2020 
  7. مولانا نور عالم خلیل امینی: ایک خود ساز شخصیت از مولانا محمد ساجد قاسمی، استاذ دار العلوم دیوبند_ماخوذ: ماہنامہ دار العلوم دیوبند، شوال- ذی الحجہ 1442ھ بہ مطابق جون-جولائی 2021ء، صفحہ: 33۔
  8. نایاب حسن قاسمی۔ "دار العلوم دیوبند اور عربی صحافت"۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (2013ء ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ صفحہ: 126–129 
  9. ^ ا ب "معروف عالم دین مولانا نور عالم خلیل امینی کا انتقال ، علمی وادبی حلقہ سوگوار"۔ ملت ٹائمز۔ 3 مئی 2021۔ 02 مئی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مئی 2021 
  10. دکھ تو ایسا ہے کہ دل آنکھ سے کٹ کٹ کے بہے! از نایاب حسن قاسمی___ماخوذ: ماہنامہ دار العلوم دیوبند، شوال- ذی الحجہ 1442ھ بہ مطابق جون-جولائی 2021ء، صفحہ: 69۔
  11. مولانا فہیم الدین بجنوری۔ "پیش رخ"۔ نور درخشاں (اکتوبر 2021ء ایڈیشن)۔ دیوبند، بنگلور: مکتبہ مسیح الامت۔ صفحہ: 5 
  12. محمد ساجد کُھجناوری (29 جون 2021ء)۔ "خوش فکر اہل زبان وقلم حضرت مولانا نور عالم خلیل الأمینی"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2022ء 
  13. الکلام ابو (2013)۔ Socio-Political Aspects in the Writings of Noor Alam Khalil Amini with Special Reference to Falastin Fi Intezari Salahidin (ڈاکٹریٹآسام یونیورسٹی 
  14. "President Awards the Certificate of Honour and MaharshiBadrayan Vyas Samman for the Year 2017" [صدر جمہوریہ نے سال 2017ء کے لیے سرٹیفکیٹ آف آنر اور مہرشی بدریان ویاس سمان سے نوازا]۔ pib.gov.in (بزبان انگریزی)۔ پریس انفارمیشن بیورو، حکومت ہند، وزارت تعلیم۔ 15 اگست 2017ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2021 
  15. الصحف والمجلات تنعت الداعية الإعلامي الشيخ نور عالم خليل الأميني از مولانا ابو عائض عارف جمیل مبارکپوری، ایڈیٹر مجلہ الداعی_ماخوذ: مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند، محرم- ربیع الاول 1442ھ م اگست- نومبر 2021ء، صفحہ: 74۔
  16. ^ ا ب پ رفتگانِ نارفتہ: مختصر تعارف مؤلفِ کتاب، نور عالم خلیل امینی_سن طباعت: شعبان 1442ھ/ مارچ 2021ء، پہلا ایڈیشن، صفحہ: 703-704۔
  17. نایاب حسن قاسمی۔ "مختصر سوانحی نقوش حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی"۔ اک شخص دل ربا سا (2022ء ایڈیشن)۔ نئی دہلی: مرکزی پبلیکیشنز۔ صفحہ: 361–363 
  18. "President Awards the Certificate of Honour and Maharshi Badrayan Vyas Samman for the Year 2017" (بزبان انگریزی)۔ وزارت ترقی انسانی وسائل، حکومت ہند۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2021 
  19. "Maulana Noor Alam Khalil Amini to be Conferred On the President Award for his Prestigious Work as a Scholar of Arabic Language & Literature" [مولانا نور عالم خلیل امینی کو عربی زبان و ادب کے اسکالر کی حیثیت سے شاندار کام پر صدر ایوارڈ سے نوازا جائے گا]۔ millattimes.com (بزبان انگریزی)۔ ملت ٹائمز۔ 16 اگست 2018ء۔ 15 دسمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2021 
  20. "مولانا نور عالم خلیل امینی عربی و اردو کی مشترکہ لسانی روایت کے علم بردار تھے:ابرار احمد اجراوی"۔ قندیل آنلائن۔ 3 مئی 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مئی 2021 
  21. "مولانا نور عالم خلیل امینی:اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا: نایاب حسن قاسمی"۔ قندیل آنلائن۔ 20 جون 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2022 
  22. ^ ا ب پ ت مولانا فہیم الدین بجنوری۔ "مختصر سوانحی خاکہ"۔ نور درخشاں (اکتوبر 2021ء ایڈیشن)۔ دیوبند، بنگلور: مکتبہ مسیح الامت۔ صفحہ: 41،42 
  23. نایاب حسن قاسمی۔ "مولانا نور عالم خلیل امینی"۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (2013 ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ صفحہ: 247–252 
  24. نسیم اختر شاہ قیصر (24 مئی 2021)۔ مولانا نور عالم خلیل امینی: قرطاس و قلم کا ایک عہد۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2022 
  25. احسن مہتاب، مدیر (16–31 جنوری 2017)۔ "فکر انقلاب: اردو کے فروغ میں علمائے دیوبند کا ڈیڑھ سو سالہ کردار (اشاعت خصوصی)"۔ فکر انقلاب۔ دہلی: آل انڈیا تنظیم علماء حق فکر انقلاب۔ 5 (112): 535 
  26. ^ ا ب پ قراءة في مؤلفات الشيخ الأميني از مولانا ابو عاصم عارف جمیل مبارکپوری، ایڈیٹر مجلہ الداعی_ماخوذ: مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند، محرم- ربیع الاول 1443ھ م اگست- نومبر 2021ء، صفحہ: 78-102۔
  27. من وحي الخاطر: المؤلف في سطور، نور عالم خلیل امینی_سن طباعت: جمادی الاخری 1442ھ/ جنوری 2021ء، پہلا ایڈیشن، صفحہ: 503-504۔
  28. "देवबंद: नहीं रहे दारुल उलूम के वरिष्ठ उस्ताद मौलाना नूर आलम, दुनिया के इस्लामिक जगत में था बड़ा नाम" [دیوبند: نہیں رہے دارالعلوم کے سینئر استاذ مولانا نور عالم، عالم اسلام میں تھا بڑا نام]۔ امر اجالا (بزبان ہندی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مئی 2021 
  29. "Maulana Noor Alam Khalil Amini, a senior maestro of the Islamic educational institution Darul Uloom and a great scholar of Arabic language, died after a long illness" [اسلامی تعلیمی ادارے دارالعلوم کے بزرگ استاد اور عربی زبان کے عظیم اسکالر مولانا نور عالم خلیل امینی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔]۔ دی نیوز چراون (بزبان انگریزی)۔ 06 مئی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2021 

مزید پڑھیے ترمیم

  • نور عالم خلیل امینی۔ "حالات مصنف"۔ پس مرگ زندہ (پانچواں، فروری 2017 ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ علم و ادب۔ صفحہ: 933 
  • نایاب حسن قاسمی۔ "مولانا نور عالم خلیل امینی"۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (2013 ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ صفحہ: 247–252 
  • نایاب حسن قاسمی۔ "مختصر سوانحی نقوش حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی"۔ اک شخص دل ربا سا (2022ء ایڈیشن)۔ نئی دہلی: مرکزی پبلیکیشنز۔ صفحہ: 361–363 
  • فہیم الدین بجنوری قاسمی۔ نور درخشاں (مولانا نور عالم خلیل امینی کی زندگی کے مختلف زاویوں پر مشتمل کتاب) (اکتوبر 2021ء ایڈیشن)۔ دیوبند و بنگلور: مکتبہ مسیح الامت 
  • محمد سلمان بجنوری، مدیر (شوال المکرم - ذی الحجہ1442ھ- بہ مطابق جون - جولائی 2021ء)۔ "مولانا نور عالم خلیل امینی پر خصوصی شمارہ"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ دیوبند: مکتبہ دار العلوم۔ 105 (6-7) 
  • محمد عارف جمیل مبارک پوری، مدیر (محرم - ربیع الاول 1443ھ م اگست - نومبر 2021ء)۔ "مولانا نور عالم خلیل امینی پر خصوصی شمارہ"۔ مجلہ الداعی (بزبان عربی)۔ دار العلوم دیوبند: دفتر مجلہ الداعی۔ 46 (3-1) 
  • نور عالم خلیل امینی (شعبان 1442ھ/ مارچ 2021ء)۔ "مختصر تعارف مؤلفِ کتاب"۔ رفتگانِ نارفتہ (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ علم و ادب۔ صفحہ: 703–704 
  • نور عالم خلیل امینی (جمادی الاخری 1442ھ/ جنوری 2021ء)۔ "المؤلف في سطور"۔ من وحي الخاطر (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ علم و ادب۔ صفحہ: 503–504