احمد علی سہارنپوری
احمد علی محدث سہارنپوری (1810ء – 17 اپریل 1880ء) ایک ہندوستانی محدث تھے، ہندوستان کے اندر اشاعت حدیث میں جن کی سنہری خدمات ہیں۔ وہ مظاہر علوم کے اولین اساتذہ و بانیان میں سے تھے۔
احمد علی سہارنپوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1810ء |
تاریخ وفات | 17 اپریل 1880ء (69–70 سال) |
عملی زندگی | |
استاذ | مملوک علی نانوتوی ، محمد اسحاق دہلوی |
تلمیذ خاص | محمد قاسم نانوتوی ، محمد یعقوب نانوتوی ، شبلی نعمانی ، امام الدین پنجابی ، محمد علی مونگیری |
شعبۂ عمل | علم حدیث |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیماحمد علی 1810ء کو سہارنپور میں پیدا ہوئے۔[1] انھوں نے میرٹھ میں حفظِ قرآن کیا اور سہارنپور میں سعادت علی فقیہ کے پاس عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔[1] پھر وہ دہلی گئے، جہاں انھوں نے مملوک علی نانوتوی کے زیر سرپرستی تعلیم حاصل کی۔[2] انھوں نے وجیہ الدین صدیقی سے "صحیح بخاری" کا بعض حصہ پڑھا۔ اور 1261 ہجری کو مکہ میں شاہ محمد اسحاق دہلوی کے پاس حدیث کی تکمیل کی۔[2] سید احمد خان کے مطابق احمد علی نے ابتدا سے اختتام تک محمد اسحاق سے حدیث کی تمام کتابیں پڑھیں، جن میں کتب ستہ بھی شامل تھے۔[3] تاہم ابو سلمان شاہجہانپوری اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ سید احمد خان کے اس بیان کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے کہ احمد علی نے محمد اسحاق سے "صحیح بخاری" پڑھی تھی۔[1] سید محبوب رضوی نے احمد علی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے سہارنپور میں وجیہ الدین صدیقی سے صحیح بخاری کا خاصا حصہ پڑھا، پھر سے مکہ میں شاہ محمد اسحق سے دوبارہ بخاری پڑھی۔[4] احمد علی 1845ء میں ہندوستان واپس آئے اور کتب حدیث کی نشر و اشاعت کے لیے دہلی میں "احمدی پریس" شروع کیا۔[4] انھوں نے "صحاح ستہ" کے اپنے تحقیق شدہ نسخے شائع کیے اور زندگی بھر کتب حدیث کے نسخوں پر کام کیا۔[5] انھوں نے پچیس حصوں پر مشتمل صحیح بخاری کی شرح لکھے۔[5] جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران ان کے پریس کو نقصان پہنچا، پھر انھوں نے اسے میرٹھ منتقل کر دیا۔[6] دس سال کولکاتا کی حافظ جمال الدین مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے۔[1] وہ 1291 ہجری میں مظاہر علوم سہارنپور آ کر تدریس میں مشغول ہو گئے۔[7] سعادت علی فقیہ کی وفات کے بعد انھیں مدرسہ کا نائب مہتمم بنا دیا گیا۔ 1294 ہجری میں محمد مظہر نانوتوی کی غیر موجودگی میں صدر مدرس رہے۔[7] مدرسہ کی ابتدائی ترقی میں ان کے اہم کردار کے لیے انھیں بھی بانیانِ مظاہر علوم میں شمار کیا جاتا ہے۔[8] ان کے تلامذہ میں محمد قاسم نانوتوی، محمد یعقوب نانوتوی، احمد حسن امروہوی، احسن نانوتوی اور شبلی نعمانی شامل ہیں۔[9]
احمد علی سہارنپوری کا انتقال 17 اپریل 1880ء کو سہارنپور میں ہوا۔[10][5]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت شاہد سہارنپوری۔ علمائے مظاہر علوم اور ان کی تصنیفی و علمی خدمات۔ 1 (2005 ایڈیشن)۔ صفحہ: 83
- ^ ا ب سید محبوب رضوی۔ مدیر: نواز دیوبندی۔ سوانح علمائے دیوبند۔ 1۔ صفحہ: 243
- ↑ سید احمد خان۔ مدیر: ابو سلمان شاہجہانپوری۔ تذکرہ خانوادہ الی اللہی۔ صفحہ: 291
- ^ ا ب سید محبوب رضوی۔ مدیر: نواز دیوبندی۔ سوانح علمائے دیوبند۔ 1۔ صفحہ: 244
- ^ ا ب پ نظام الدین اسیر ادروی۔ تذکرہ مشاہیر ہند: کاروان رفتہ (2nd, April 2016 ایڈیشن)۔ دیوبند: دار المؤلفین۔ صفحہ: 22–23
- ↑ سید محبوب رضوی۔ مدیر: نواز دیوبندی۔ سوانح علمائے دیوبند۔ 1۔ صفحہ: 245
- ^ ا ب شاہد سہارنپوری۔ علمائے مظاہر علوم اور ان کی تصنیفی و علمی خدمات۔ 1 (2005 ایڈیشن)۔ صفحہ: 84
- ↑ شاہد سہارنپوری۔ "بانیان مدرسہ"۔ علمائے مظاہر علوم اور ان کی تصنیفی و علمی خدمات۔ 1 (2005 ایڈیشن)۔ صفحہ: 70–108
- ↑ سید احمد خان۔ مدیر: ابو سلمان شاہجہانپوری۔ تذکرہ خانوادہ ولی اللہی-۔ صفحہ: 295
- ↑ سید محبوب رضوی۔ مدیر: نواز دیوبندی۔ سوانح علمائے دیوبند-۔ 1۔ صفحہ: 251
کتابیات
ترمیم- شاہد سہارنپوری۔ علمائے مظاہر علوم اور ان کی تصنیفی و علمی خدمات۔ 1 (2005 ایڈیشن)۔ سہارنپور: مکتبہ یادگار شیخ۔ صفحہ: 83–95
- سید محبوب رضوی۔ "حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری"۔ $1 میں نواز دیوبندی۔ سوانح علمائے دیوبند۔ 1 (جنوری 2000 ایڈیشن)۔ دیوبند: نواز پبلیکیشنز۔ صفحہ: 243–255
- سید احمد خان۔ "جناب مولوی احمد علی صاحب مرحوم"۔ $1 میں ابو سلمان شاہجہانپوری۔ تذکرہ خانوادہ ولی اللہی۔ جامشورو: جامعہ سندھ۔ صفحہ: 289–296