الحافظ محمد عبد المجید
اس مضمون میں کئی امور غور طلب ہیں۔ براہِ مہربانی اسے حل کرنے میں ہماری مدد کریں یا ان امور پر گفتگو کے لیے تبادلہ خیال صفحہاستعمال کریں۔ (ان پیامی اور انتظامی سانچوں کو کب اور کیسے نکالا جائے)
(جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے)
|
مولانا حافظ محمد عبد المجید رحمۃ اللہ علیہ
ترمیم(عالم ……فاضل……مفتی…… عارف……حکیم …… شاعر……ادیب)
اجمالی تعارف
ترمیمنام : حافظ محمد عبد المجید تخلص : مجیدؔ ولدیت : حافظ محمد نور عالمؒ
حسب و نسب: بنی اسماعیل کی فاروقی شاخ سے تعلق
تاریخ پیدائش: بروز منگل شعبان المعظم1302ھ بمطابق مئی1885ء بوقتِ ساعت مریخ
تعلیم : فارغ التحصیل درسِ نظامیہ و علوم متداولہ
درسگاہ : دار العلوم والحکمت خانقاہ شریف کڑی
اساتذہ : حافظ محمد نور عالمؒ(والد بزرگوارم)حافظ محمد عبد الرحیمؒ (بڑے بھائی)
شغل : شاعری اور تبلیغِ دین……پیشہ و ملازمت: امامت، حکمت اور فوج میں خطابت
بیعت : جلالپور شریف، ضلع جہلم، پیر سید حیدر علی شاہ بادشاہؒ کے دستِ دستِ اقدس پر
حلیہ : مضبوط جسم، قد 6فٹ سے زائد، خوبصورت چہرہ، ہزاروں میں الگ تھلگ نظر آنے والے
طرز عمل: سنتِ نبوی کی پیروی ……دین کی تبلیغ و اشاعت……دکھی لوگوں کی امداد
تخلیقات کی تعداد: دو درجن سے زائد
کتب خانہ : نوریہ کتب خانہ، خانقاہ شریف کڑی
شادی : 1913ء
اولاد : چار بیٹے، دو بیٹیاں (اک بیٹا حیات۔ باقی سب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں)
وصال : 10رجب المرجب 1382ھ بمطابق 8دسمبر 1962ء
مدفن : خانقاہ شریف کڑی (آبائی قبرستان)
قطعہئ تاریخ ِوصال: حافظ نذر حسین شاد فاروقیؔ (صاحبزادہ)
شجرہ نسب حافظ محمد عبد المجید:
ترمیمحضرت حافظ سروانی یزدانی……علامہ حافظ اللہ داد حضوری…… علامہ حافظ غلام محی الدین…… علامہ حافظ تاج الملوک…… علامہ حافظ ظہور الدین المعروف دھوری صاحب……علامہ شیخ حافظ محمد مراد قادری …… علامہ حافظ صلاح الدین غازی …… علامہ حافظ محمد سلیمان مہنگوی……علامہ حافظ روح اللہ نوری……علامہ حافظ محمد اسلم بے ریا قادری……علامہ حافظ محمد اشرف قادری…… علامہ حافظ غلام علی……علامہ حافظ محمد نور عالم ……حافظ محمد عبد المجید
سلسلہ طریقت:
ترمیمحضرت محمد مصطفی ﷺ……حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم……حضرت خواجہ ابو محمد حسن بصریؓ……حضرت خواجہ عبد الواحد بن زیدؒ……حضرت خواجہ فضیل بن عیاضؒ……حضرت خواجہ ابراہیم بلخی بادشاہ ؒ……حضرت خواجہ حذیفہ مرعشیؒ……حضرت خواجہ ہبیر بصریؒ……حضرت خواجہ ممشاد علودینوریؒ……حضرت ابو اسحاق شامی چشتیؒ……حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتیؒ……حضرت خواجہ ناصر الدین ابو محمد چشتیؒ……حضرت خواجہ ناصر الدین ایو یوسف چشتیؒ……حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتیؒ……حضرت خواجہ حاجی شریف زندانیؒ……شیخ الاعظم حضرت خواجہ عثمان ہاروَنیؒ……شیخ الاعظم حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ……شیخ الاعظم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ……شیخ الاعظم حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ……حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلویؒ……حضرت خواجہ کمال الدین علامہؒ……حضرت خواجہ سراج الدینؒ……حضرت خواجہ علم الدین علم الحقؒ……حضرت خواجہ جمال الدین عرف جُمنؒ……حضرت خواجہ ابو صالح حسن محمدؒ……حضرت خواجہ شمس الدین محمد حامدؒ……حضرت خواجہ ابو یوسف محی الدین یحییٰ مدنیؒ……حضرت خواجہ شاہ کلیم اللہ جہان آبادیؒ……حضرت خواجہ شاہ نظام الدین اورنگ آبادیؒ……حضرت خواجہ شاہ فخر الزماں فخر الدینؒ……حضرت خواجہ نور محمد مہاوریؒ……حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ……حضرت خواجہ شمس العارفین شمس الدین سیالویؒ……حضرت خواجہ سید غلام حیدر علی شاہ جلالپویؒ……حضرت مولانا الحافظ محمد عبد المجید ؒ۔
تفصیلی تعارف
ترمیمآپ کا نام محمد عبد المجید، حافظ قرآن ہونے کی نسبت ’حافظ‘کا لاحقہ لگاتے تھے۔ خاندانی بزرگی اور دینی تعلیم و تدریس کی وجہ سے ”مولوی صاحب“ کے نام سے مشہور تھے۔ آپ 1302ہجری بمطابق ماہ مئی 1885ء میں ضلع جہلم کے ایک گاؤں کڑی شریف میں پیدا ہوئے جو قصبہ سنگھوئی سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں واقع ہے۔ حافظ محمد عبد المجیدؒ اپنے علاقے کا تعارف اپنی تصنیف ”تذکرۃُالْحسن“ میں یوں بیان فرماتے ہیں۔
پڑھنے سننے والیاں ساریاں واقف کراں بھراواں
حال وطن تے جال اپنی دا تھوڑا ذکر سناواں
تھانہ تے تحصیل ضلع ہے جہلم وچ اساڈا
ساڈھے یاراں میل اساڈی جائیوں ہوگ دُراڈا
جہلم کولوں لہندے دکھن موضع کڑی ہمارا
سدھی سڑک سنگھوئی والی جہلم تھیں چل یارا
سنگھوئی تھیں سدھا لہندے کوہ ہک کوہ صحرائی
لبھ لوے گا آپوں جہڑا پہنچیا آن سرائی]ڈاک بنگلہ سنگھوئی[
ٹِلہ بال گندائی والا چھ کوہ ساتھوں لہندے
جتھے کَن پڑوائے رانجھے ہن وی جوگی رہندے
وڈکے اساڈے گوجر وچوں ایس ملک تے آئے
الفت حُب مریداں والی ایتھے بنھ بہائے
حافظ ابن الحافظ آہے عالم ابن العالم
تبلیغوں تدریسوں ماہر جانے سارا عالم
حافظ اللہ داد حضوریؒ پہلے وڈکے ساڈے
تیرھویں پشت مجیداؔ ساڈی ہین اوہ مرد خدا دے پ
اک مزار شریف اوہناں دی اٹک ندی دے دندے
حضرت جی کر سدن اوہناں عام خدا دے بندے
اوتھوں لے لگ ایتھے توڑی سارے حافظ عالم
شالا روز قیامت توڑی رہے گھرانہ سالم[1]
تعلیم
ترمیممولانا الحافظ محمد عبدالمجیدنے حفظِ قرآنِ مجید کا آغاز اپنے والدِ محترم حافظ محمد نور عالمؒ سے کیا۔ آپ کی عمر تقریباً آٹھ برس تھی جب والدِ ماجد کا وصال ہو گیا۔اس کے بعد حفظِ قرآن اور ظاہر ی و باطنی علوم کی منازل اپنے بڑے بھائی حافظ محمد عبد الرحیمؒ سے دار العلوم والحکمت خانقاہ شریف کڑی میں طے کیں۔آپ کے والد بزرگوارم نے تحصیلِ علم اور حضور پیر سیال خواجہ شمس الدین سیالوی سے خرقہئ خلافت حاصل ہونے کے بعد اپنے آبائی گاؤ ں کڑی میں ایک مکتبہ دار العلوم والحکمت کی بنیاد رکھی تھی جہاں صرف، نحو، تفسیر، حدیث، فقہ، منطق، نظم، نثر اور حکمت وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ چنانچہ تعلیمی ماحول اورکتب، مکتبہ پر موجود ہونے کی وجہ سے آپ کو کہیں اور جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اورآپ نے نہایت تیزی سے علومِ متداولہ کی تحصیل کر لی۔آپ کے بڑے بھائی حافظ محمد عبد الرحیمؒ چونکہ مفتی تحصیل جہلم تھے جس کی بنا پر آپ کو فقہ سمجھنے کا بہت زیادہ موقع ملا۔ اپنی تعلیم کے بارے میں وہ تذکرۃ الحسن میں یوں بیان فرماتے ہیں۔
شروع قرآن مجید میں کیتا اپنے قبلہ گاہوں
شفقت نال پڑھاندے آہے دل دی الفت چاہوں
سبق رکوعے دوجے ہیسی سورت آل عمرانوں
چھوڑ یتیم اسانوں بابل کر گئے کوچ جہانے
مینتھوں وڈے بھائی جنھاں مینوں علم پڑھایا
مولوی عبد الرحیمؒ اوہناں دا نام مبارک آیا
حکمت بھی اپنے محترم بھائی حافظ محمد عبد الرحیمؒ سے سیکھی لیکن حکمت میں ثقاہت کا درجہ حاصل کرنے کے لیے دورانِ ملازمت دہلی میں حکیم اجمل خان سے فنِ حکمت میں دسترس حاصل کی۔[1]
ملازمت:
ترمیمحافظ محمد عبد المجیدؒ اپنے بڑے بھائی ]حافظ محمد عبد الرحیمؒ[ کی جلالپور شریف روانگی کے بعد ایک عرصہ تک اپنے گاؤں کی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔اور ساتھ ساتھ گرد و نواح کے لوگوں کو قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم سے بھی سرفراز فرماتے رہے لیکن ایک مجبوری کی بنا پر جون 1930ء میں انگریز فوج میں بھرتی ہو گئے۔اس وقت انگریز کے زمانے میں مذہبی علما کو باقاعدہ بھرتی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ یونٹ میں موجود فوجیوں کی سفارش پر انھیں نوکری دی جاتی تھی۔ مذہبی علما کے نہ تو منظم فوجیوں کی طرح کاغذات بنتے تھے اور نہ انھیں سرکاری تنخواہ دی جاتی تھی بلکہ گاؤں کے امامانِ مساجد کی طرح اپنی مدد آپ تحت انھیں تنخواہ وغیر ہ دی جاتی تھی۔ آپؒ جس یونٹ میں بھرتی ہوئے وہاں پہلے سے موجود امام صاحب (مولوی نور الدین ساکن ڈھوک میانی داخلی بڑا گواہ ضلع جہلم) کے انتقال کے بعد پنجابیوں اور پٹھانوں میں ایک چھوٹی سی بات پہ جھگڑا ہو گیا، پٹھان بضد ہو گئے کہ اب اس یونٹ میں امام پٹھان ہوگا، بات بڑھتے بڑھتے یونٹ کمانڈر کرنل شیپرڈتک جا پہنچی۔طرفین کی جانب سے دلائل سننے کے بعد یونٹ کمانڈر نے فیصلہ کیا کہ اس وقت فضا چونکہ مکدر ہو چکی ہے (اس زمانہ میں کانگریس کا بڑا زور و شور شروع ہو گیا تھا) اور کانگریس ذہنیت کا غلبہ ہے اس واسطے تم دونوں قومیں (پنجابی اور پٹھان) اپنے اپنے امام منتخب کر کے چھاؤنی جہلم کے برگیڈیر جنرل گارڈن کے پیش کرو۔ وہ دونوں ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں اورپولیس سپرنٹنڈنٹ صاحبان سے چھان بین کر لینے، قریب کے علاقہ کی دو ذیلداروں اور گاؤں کے نمبرداروں سے صفائی کے کاغذات واضح اور بے داغ ہونے اور ڈاکٹری میں پاس ہونے کے بعد جو منظوری ہمارے پاس آئے گی وہی مولوی پلٹن میں رکھیں گے۔ چنانچہ جمعدار علی خان کو جو اس وقت پٹھانوں کا سنئیر سردار تھا اور صوبیدار چوہدری خان کو جو پنجابیوں نے سنئیر سرداروں کی رائے سے منتخب کیا تھا دونوں سردار صاحبان کو یونٹ صوبیدار میجر فتح محمد کی قیادت اور نگرانی میں کرنل صاحب نے تین تین ماہ رخصت دے کر بھیجاکہ کسی اچھے خاندان کے مولوی صاحب کو منتخب کر کے چھاؤنی جہلم کے برگیڈ دفتر میں پیش کرو۔ چنانچہ تمام چھان بین کے بعد آپؒ کو منتخب کیا گیا۔ اس بابت مولانا الحافظ محمد عبد المجیدؒ خود لکھتے ہیں کہ
”اس عاجز کے ضعیف کندھوں پر امامت جیسے جلیل القدر منصب اور اہم ذمہ داری کا بوجھ رکھا گیا۔ یہ نیاز مندی اور ضرورت مندی دونوں انسان کی ازلی رفیقہئ حیات ہیں گویا انسان انہی کی گود میں پیدا ہوتا ہے اور وہیں پرورش پاتا ہے اور پھر انسان جہاں جائے یہ ساتھ ہی رہتی ہیں۔حتٰی کہ ترقی کے زینے طے کرتا کرتا خواہ انسان کتنے ہی اعلیٰ مدارج پر کیوں نہ پہنچ جائے، یہ دونوں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔چونکہ میں بھی انسان ابنِ انسان تھا اس لیے میری نگرانی کرنا بھی انہی دونوں منصبی فرض تھا۔ اس لیے میں نے بھی ان کے مشورے کے ماتحت یہ بوجھ اٹھانا منظور کر کے پلٹن 3/12فرنٹئیرفورس کے اندر چھاؤنی علی پور کلکتہ میں پہنچ کر اس کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا“۔
آزادیئ طبع، جوشِ ایمانی اور فاروقی خون کی جلالی کی وجہ سے فوج میں نوکری کے دوران بہت زیادہ اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ہر روز کا یہ معمول تھا کہ صبح ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اپنے بستر کو باندھ جایا کرتے کہ شاید کسی بھی وجہ سے اگر نکال دیا جائے توفوراً بستر اٹھا کر چلا جاؤں گا لیکن اپنے ضمیر اور ایمان پہ حرف نہ آنے دوں گا۔ حق بات کہنے سے بالکل نہیں ڈرتے تھے جوسچ ہوتا اور جو ٹھیک ہوتا منہ پر کر دیتے تھے۔ ایک دفعہ کسی فوجی تقریب میں آپ کو تلاوت کے لیے مدعو کیا گیا۔ آپ جوں ہی منبر (Rostrum) پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک انگریز جنرل سگا پی رہا ہے۔آپ نے بھرے دربار میں جنرل صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ذرا سخت لہجے میں فرمایاکہ میں نے ابھی تلاوتِ کلام پاک کرنی ہے اس لیے ادب کا تقاضا ہے کہ آپ سگار بجھا دیں۔ جنرل صاحب نے فوراً سگار بجھا دیا اور با ادب ہو کر بیٹھ گئے۔ لیکن یہ بات آپ کے کرنل صاحب اور صوبیدار میجر کو فوجی آداب کے خلاف لگی کہ ایک خطیب جنرل (اور وہ بھی انگریز) سے یوں مخاطب ہو۔تلاوت کے بعد صوبیدار میجر نے آپ کو بلایا اور نہایت لجاجت سے کہا ”مولوی صاحب تسیں کسے نوں تے ولا چھڈیا کرو۔ لگدائے تسیں سہاڈی پیٹی (بیلٹ) لہوا کے ای رہوو گے“۔ آپ نے فرمایا کہ یہ میرا فرض ہے کہ میں کوئی بھی ایسا کام نہ ہونے دوں جو غیر شرعی ہو، جہاں ہاتھ کا کام ہوگا وہاں ہاتھ سے روکوں گا اور جہاں زبان استعمال کرنی پڑی ضرور کروں گا اور اس کے لیے مجھے صرف اللہ کا خوف مدنظر ہوگا باقی کسی عارضی چیز کی پروا نہ ہو گی۔ جب تقریب اختتام پزیر ہوئی تو آپ کو کرنل صاحب نے بلایا اور کہا کہ جنرل صاحب آپ کی قوتِ ایمانی پہ بہت خوش ہوئے اور اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ کاش ہمارے مذہبی عالم (پادری حضرات) بھی اسی طرح کی جرأت کا مظاہرہ کیا کریں۔
دوسری بہت بڑی سعادت جو آپ ؒکو نصیب ہوئی وہ یہ تھی آپؒکی پلٹن میں گذشتہ چھیاسی سالوں سے مسجد میں جو اذان ہوتی تھی وہ صرف اتنی آواز سے دی جاتی جو صرف مؤذن ہی سن سکے، لیکن آپ نے پلٹن کی مسجد میں بآوازِ بلند اذان دینی شروع کر دی۔ اس بارے میں حافظ محمد عبد المجیدؒ لکھتے ہیں:
”صوبیدار میجر فتح محمد خان آنریری کپتانی کا عہدہ پاتے ہی 355روپیہ پنشن پا کر بڑی دھوم دھام کے ساتھ ریٹائر ہوئے اور ان کی جگہ ایک سترہ سالہ سروس والا سکھ صوبیدار گردیال سنگھ کو (مسمیان پریم سنگھ، اندر سنگھ، بندر سنگھ صوبیداران ڈوگرہ۔مسمیان شیر باز خان، عبد المالک، پنجابی صوبیداران اور صوبیدار عطا گل ساغری خٹک پٹھان) سب کو کراس کر کے اور ان پر ترجیح دے کر صوبیدار میجر بنا دیا گیا۔ مگر ایک ضد کا قلعہ گردیال سنگھ کے صوبیدار میجر بننے پر اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کے ہاتھ سے جو گرایا وہ یہ ہے کہ اس پلٹن میں پچھلے چھیاسی سالوں سے مسلمانوں کی اذان بند تھی اور ڈوگروں کا سنکھ بند تھا اور سکھوں کی خدا جانے کیا چیز بند تھی کیوں کہ ڈھولکی چھینے تو وہ کھلم کھلا پیٹتے تھے۔ مسلمان صرف اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہماری اذان بالکل تو بند نہیں ہے اور ڈوگروں کا سنکھ تو ٹُوں بھی نہیں کر سکتا، مسلمانوں کے لیے صرف اتنی اجازت تھی کہ وہ اذان جو دیں تو اتنی کہ مؤذن کی آواز مسجد کی چاردیواری سے باہر نہ نکلنے پائے۔ اس عاجز ]مولانا الحافظ محمد عبد المجیدؒ[ نے تمام صوبیداران سے مشورہ کیا تو سوائے ایک دو پنجابی سرداروں کے سب نے صدائے تحسین و آفرین بلند کی۔ جب اس طلسم کے توڑنے کی اطلاع یونٹ کمانڈر ]کرنل فینس[ صاحب کو دی گئی،جو ایک منصف مزاج انگریز تھا، یہ سن کر بہت خوش ہوا“[1]
حافظ محمد عبد المجیدؒ نے فوج میں کب تک نوکری کی، اس کا مصدقہ یا تحریری ثبوت نہیں ملا۔لیکنمختلف اوراق پر کی گئی شاعری کی جگہ و تاریخ کو مدِنظررکھتے ہوئے 1954-55ء تک کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
بقیہ قصہ جاگیر خود
ترمیمجب ملک پنجاب رنجیت سنگھ کے تصرف میں آگیا تو اس نے اعلان جاری کیا کہ جو پرانے جاگیر دار ہیں اگر اپنی اپنی جاگیروں کا ثبوت پیش کریں تو ان کی جاگیریں جاری کی جاویں گی چنانچہ میرے جد امجد حافظ غلام علی صاحب یہاں موضع کڑی سے اپنے پرانے کاغذات لے کر لاہور چلے گئے ان وقتوں میں اکثر لوگ پیدل چلا کرتے تھے چنانچہ صاحب ممدوح بھی پیدل ہی گئے۔ آپ بادامی باغ کے کھلے میدان میں بیٹھے تھے کہ مہاراج رنجیت سنگھ کے دو جرنیل فوجوں کے قیام کے لیے جگہ کا انتخاب کرنے آگئے اور جگہ کا معائنہ کر کرتے جب وہاں پہنچے جہاں پر ہمارے جد امجد بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے اٹھتے ہی ان جنر ل صاحب کو جو آپ کی طرف آ پہنچے اپنی چادر بچھا دی اور وہ خوش ہو کر اس پر بیٹھ گئے اور آپ سے تعریف پوچھی تو جب آپ نے اپنے موضع کڑی کا نام لیا تو ان کو اپنی طالب علمی کا وہ زمانہ یاد آگیا جب وہ حافظ فتح دین کی خدمت میں پڑہتے تھے اور ان کے بزرگ کسی زمانہ میں حافظ فتح دین کے پڑدادا حافظ روح اللہ نوری صاحب سے فیضاب ہو چکے تھے اس پرانی واقفیت کے نکلنے پر اگرچہ وہ بہت خوش ہوئے پھر انھوں نے اپنی جیب سے کاغذ نکال کر ان کو دیا جو کسی دوسری زبان میں لکھا ہوا تھا، جنرل صاحبان وہ زبان نہیں جانتے تھے، جب آپ نے کاغذ پڑھ کر سنا دیا تو انھوں نے آپ کے عالم فاضل ہونے کا اعتراف بھی کر لیا پھر آپ سے جنرل صاحبان نے لاہور آنے کی غرض پوچھی تو آپ نے وہ جاگیر والے کاغذنکال کر دکھائے جنہیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور ہر طرح کی تسلی کر کے آپ کو مہاراج رنجیت سنگھ کے پیش کیا اور مہاراج کو کہا میں ان حافظ غلام علی صاحب کو اور ان کے پورے خاندان کو اچھی طرح جانتا پہچانتا ہوں جس پر مہاراجا نے مہر لگا کر حافظ غلام علی صاحب کو اپنی جاگیر قبضہ کر لینے کا حکم لکھ دیا کہ گجرات کا حاکم میرے حکم کی تعمیل کر کے دربار میں خبر پہنچا دیوے، چنانچہ آپ نے وہ دستی حکم حاکم گجرات کو جو ایک سکھ تھا آکر دکھایا۔ اس نے حکم دیا کہ تم چل کر جاگیر کے مرکز میں مناسب جگہ تلاش کر کے گاؤں کی آبادی کا احاطہ انتخاب کرو اتنے میں میں خود اپنے ماتحت عملے سمیت وہاں پہنچ کر تجھے نشان دہی کر کر قلبہ رانی کے ذریعہ جاگیر اور چریندے کی تمام زمین پر تمھارا دخل کروا دوں گا لیکن ہوا یہ کہ جاگیر کا بند موضع کھوڑیاں کی دیواروں کے قریب تک پہنچتا تھا اس لیے اہل دیہہ نے اپنے داماد چوہدری سرفراز خان چیلیانوالہ سے استمداد چاہی۔ چونکہ چوہدری موصوف علاقہ بھر میں ایک بڑا زمیندار اور رؤسائے علاقہ میں سے تھا اس واسطے حاکم گجرات نے اس کی لحاظ داری کی وجہ سے دخل کے معاملہ کو معرض التوا میں ڈال دیا اورابھی اسی لیت و لعل میں تھے کہ مہاراج کی فوجوں کا چیف کمانڈر ہری سنگھ نلوافرنٹئیر میں پٹھانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور فوج کی کمان مہاراج نے اپنے ہاتھ میں لے کرخود فرنٹئیر پر چڑھائی کر دی اس وقت کے رواج کے مطابق بڑے بڑے زمیندار بھی جنگی ضرورت پیش آنے پر اپنے اپنے زیر اثر علاقوں سے کمک دیا کرتے تھے اور خود بھی بحیثیت کمک کمانڈر کے میدان جنگ میں شامل ہوا کرتے تھے اس لیے چوہدری سرفراز خان اور حاکم گجرات کو بھی شامل ہونا پڑا اور چلتی دفعہ کہہ گئے کہ اب یہ کام نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہوگا۔ اس مایوس کن جواب کو سن کر حافظ غلام علی صاحب کو دوبارہ پشاور کے کیمپ میں مہاراج کے پیش ہونا پڑا جب دوبارہ آپ پیش ہوئے تو بادشاہ نے غصے میں آ کر حکم دیا کہ حاکم گجرات اسی وقت سائل کے ہمراہ جاکر مکمل دخل دلا کر فلاں تاریخ سے پہلے پہلے رپورٹ پیش کرے چنانچہ اس نے بادشاہ کے حکم کے مطابق سائل کی تسلی کر کے رپورٹ پیش کر دی جب صاحب ممدوح کا جاگیر پر چریندے پر مکمل دخل ہو گیا تو آپ نے اپنے تینوں بھائیوں مسمیان غلام محی الدین و محمد بخش و محمد فضل کو بھی بلا لیا اور بلا کر پانچ پانچ سو بیگہ زمین تینوں کو ان کے گھروں کے دروازوں کے محاذ کے بالمقابل الگ الگ بَنّے ڈال کر دے دی اور چریندے کو مشترک رکھا[1]۔
مزارعہ لانے کا دلچسپ ذکر
ترمیمجس زمانہ میں حافظ اللہ داد حضوریؒ اپنے پیر طریقت کے حکم کے مطابق موضع سروانی کو چھوڑ کی موضع خواص پور میں آکر سکونت پزیر ہوئے تھے اس زمانہ میں یا کہ تھوڑا پس و پیش شاہان مغلیہ کی کشمیر سے آنے والی ڈالی موضع سروانی اور خواص پور اور لالہ موسیٰ کے مشترکہ علاقہ میں سے گزرتی ہوئی لوٹی گئی تو دربار میں خبر پہنچنے پر جو فوج کا دستہ ان لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے آیا تو کچھ مشتبہ لوگ وہاں سے بھاگ کر جموں کشمیر کے پہاڑوں میں جا کر پناہ گزین ہو گئے ان میں سے قوم سود کے بندے جو سود کی ڈھوکوں میں ضلع تحصیل اکھنور میں آباد ہو گئے تھے وہ ہمارے خاندان کے قدیمی مزارعوں میں سے تھے جو ادھر سے بھاگ کر جموں میں جا آباد ہوئے تھے ان کی دلی خواہش اور دیرینہ آرزو کے مطابق ان کو حافظ غلام علی صاحب یہاں لائے اور اس گاؤں کا نام سود پورہ رکھا گیا اس گاؤں کے آباد ہو نے پر چھوٹی چھوٹی لڑکیاں پنجابی میں گیت گایا کرتی تھیں کہ؎ رنگ لگا مینئیے دے سود پورے۔
پنجابی میں ضرب المثل ہے کہ ”زنانی دی مت کُھری تھلے ہوندی اے“۔ پاپوش کی ایڑی کو کھُری کہتے ہیں اور مت عقل نصیحت آموز کو کہتے ہیں یعنی عورت نصیحت آموز عقل ایڑی کے پیچھے ہوتی ہے اسی لیے جھانسے میں آ جاتی ہے۔ جیسا کہ حافظ غلام علی صاحب کی بھاوج نے اس ضرب المثل کو عملی جامہ پہنا کر پورے خاندان کو نقصان پہنچایا، آپ کے سنجلے بھائی کی بیوی کو کسی کہنے والے نے یوں کہہ کر بھکادیا کہ یہ جاگیر تو حافظ فتح دین صاحب کے بڑے لڑکے کے نام ہی رہے گی اور اس کے اور اس کی اولاد کے سامنے تمھاری حیثیت ہمیشہ مزارعانہ رہے گی اور حال یہ ہے کہ جاگیر پر قبضہ تو ہو چکا ہے پھر کیوں نہ غلام علی کا کام تمام کر کے تم اپنے بھائیوں کی مدد سے غلام محی الدین اور محمد فضل کو یہاں سے نکال کر خود قبضہ جما کر مشہور کر دو کہ یہ زمین تو ہم کو میرے بھائیوں نے بزور شمشیر لے کر دی ہے پھر یہ زمین تمھاری سمجھی جائے گی کیونکہ حافظ غلام علی کے بیٹے ابھی بھر پور بالغ ہی نہیں اور غلام محی الدین اور محمد فضل سر اٹھانے کے قابل ہی نہیں اس واسطے تم حافظ غلام علی والا کانٹا نکال دو، یہ مشورہ مائی جی کو پسند آگیا اور انھوں نے ایسا کرنے پر کمر باندھ لی۔ چنانچہ حافظ غلام علی صاحب نے جب ایک دن ظاہر کیا کہ مجھے کچھ زکام کی شکایت ہے تو مائی جی نے جھٹ لال کھنڈ کا شربت ان کو پلایا جس کے پیتے ہی وہ دو گھنٹہ کے اندر اندر راہیئ ملکِ عدم ہو گئے، (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ آپ چونکہ حافظ،عالم اور شہہ زور جوان اور علاقہ بھر میں مانی ہوئی ہستی تھے اس لیے پہلے تو مائی لال کھنڈ بہت ڈری اور اس کے کچھ اوسان بھی خطا ہو گئے مگر چونکہ گرمیوں کے دن تھے اور ماہ جیٹھ کی گرمی زوروں پر تھی اور آپ اسی تنو مندی کی حالت میں فوت ہو گئے تھے اس لیے عرض میں آپ کے دونوں شانے اور بازو چارپائی کے عرض سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ والد ضعیف العمر تھے اور موضع کڑی تحصیل جہلم کو جانے میں بارہ چودہ میل پہاڑ کا سفر تھا جس کے بیچ دریائے جہلم سب سے بڑی رکاوٹ بن کر حائل تھا اس واسطے مکار لوگوں کو بہانہ ہاتھ آگیا اور آپ کو باپ کے پہنچنے سے پہلے موضع دہدڑ میں لے جا کر دفن کر دیا گیا تاکہ لوگوں کی چہ میگوئیاں ختم ہو جائیں۔ یہ بات تو ہو گئی مگر اس سیاسی مشیر کار نے مائی لال کھنڈ کو دوسرا مشورہ پیش کیا کہ انگریزی بندوبست اول عنقریب ہونے والا ہے اور یہ زمین جاگیر والے کاغذات کی رو سے حافظ غلام علی کے لڑکوں کے نام لگ جائے گی تو معاملہ پہلے سے بد تر ہو جائیگا۔ اب تو ایسا کر کہ لگتے ہاتھ ہی جاگیر کے تمام کاغذات کو چولہے میں ڈال کر جلا دے تاکہ کوئی سراغ ہی نہ رہے۔ چنانچہ مائی لال کھنڈ نے ایسا ہی کیا اور اپنے مشیر کار کو بتلا دیا کہ میں نے جاگیر کے تمام کاغذات کو آگ میں جلا کر ان کا کام بھی تمام کر دیا ہے۔ بس پھر کیا تھا مشیر کار کی کینہ توزی رنگ لائی اس نے جھٹ سے موضع کھوڑیاں والوں کو کہہ دیا کہ حافظ غلام علی چل گئے اور جاگیر کے کاغذات جل گئے تم لوگ اپنی من مانی کرو چنانچہ کھوڑیاں اور ندھیر والوں نے اودھم مچا دیا اور انقلاب کو جگا دیا۔ مائی لال کھنڈ کے گھمنڈ کو توڑا دیا تو مائی جی کو اپنی کوتہ بینی اور حماقت کا پتہ چلا مگر اب کیا ہو سکتا تھا اب تو پانی سر سے گذر چکا تھا۔ جلدی سے مشیر کار کی طرف گئی تواس نے کہا چل بھاگ پاگل اب لوگ بھلا مجھ سے رکتے ہیں۔ اپنے مزارعوں سے جا کر ملو، جب ان کی طرف آئی تو انھوں نے کہا ہمارے مالکانہ حقوق تسلیم کرو تو ہم تمھاری مدد کرتے ہیں تو بقول شخصے ”مرتا کیا نہ کرتا“ کے مصداق مائی لال کھنڈ نے اپنے مزارعوں کو اپنے برابر حقوق دے دیے تو انھوں نے کچھ بچ بچا کر بیس پچیس ایکڑ مائی لال کھنڈ کے لیے بچا لیے لیکن 0681ء والا بندوبست آیا جس کو کنجاہ والا بندوبست بھی کہتے ہیں تو وہ پچیس ایکڑ بھی پٹواریوں نے حافظ غلام علی کے بیٹوں کے نام بنا دیے لیکن مائی لال کھنڈ کی ہشیاری دیکھیے کہ حافظ غلام علی کے دونوں بڑے لڑکووں کو خود بخود بلا کر اپنی دو لڑکیاں نکاح کر کے ان سے مہتمم بندوبست کے سامنے بیان دلوائے کہ ہم نے موضع کڑی والی زمین سے سود والی زمین کا عوض پورا کر لیا ہے اور کڑی والی زمین کے بدلے سود والی ساری زمین دے دی ہے یہ تو مائی جی کا داؤ چل گیا ابھی شکر ہے کہ دوسرے دو بھائیوں نے کڑی سے حصہ نہیں مانگا ورنہ حافظ غلام علی کے بڑے بیٹے حافظ غلام مصطفیٰ نے اپنے چاروں بھائیوں کو ٹِنڈ پر بٹھا دیا تھا جیسے کہ مائی لال کھنڈ کو جوع الارض کی بیماری تھی اسی طرح صرف اس کے پوتوں پڑپوتوں کو ہی نہیں بلکہ جہاں تک اس کے دودھ کا اثر گیا ہے وہاں تک یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے اور امید ہے کہ پھیلتی جائے گی۔ مائی لال کھنڈ کی کہانی کو میں نے بہت اختصار کے ساتھ کئی ایک جگہ سے قطع کر کے لکھا ہے پھر بھی یہ ذکرِ خیر ختم ہونے میں نہیں آتا۔
الامان از مائی صاحبہ لال کھنڈ۔۔الامان از خشک سردی مالا کنڈ
موضع کڑی میں سکونت پزیر ہونے اور کڑی کی وجہ تسمیہ کا ذکر
ترمیمبروایت پیرانِ کہن سال اور راویانِ صدق مقال اور تحریراتِ کہن کے مطابق روایت اس طرح ہے کہ موجودہ موضع کڑی ہمارے جداعلیٰ حافظ روح اللہ نوری کے توسل سے آباد ہوئی، موجودہ کڑی سے مشرق کی طرف ایک تھوڑا سا بلند ٹیلا ہے جسے گوراں والی ڈھیری کہتے ہیں اس گوراں والی ڈھیری بالکل متصل ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی جس کو اس وقت کے لوگ ڈھوک جمبرگال کہا کرتے تھے۔ یہاں سے شمال کی طرف تقریباً دو سو کرم یا کم و بیش ایک چھوٹے سے بلند ٹیلے پر بابا جنگو شہید کے نام پر مشہور ایک خانقاہ ہے جس کے مجاور جمبرگال قوم کے آدمی اور لوگ پہلے سے یہاں آباد تھے جس کی وجہ سے اس چھوٹی سی بستی کا نام ڈھوک جمبرگال ہوا اور بابا جنگو شہید کے ساتھ ہی جنوب کی طرف تقریباً نوے فٹ گہرا ایک کنواں ہے جس سے دلوکشی کے ذریعے سے پانی نکالا جاتا ہے یہ کنوئیں والی جگہ اور ڈھوک جمبرگال موجودہ گاؤں کڑی کی سطح سے تقریباً تیس فٹ پست جگہ پر واقع ہے اور فاصلہ دوری کا تقریباً یکساں ہے۔ موضع کڑی میں قوم جٹ جمبرگال، گنگال، پتھال، رینال، کھنب، دھمیال، طمع عجائب کے قبیلے آباد ہیں۔ ان میں سے رینال، دھمیال اور طمعہ عجائب تو موجودہ کڑی کے آباد ہونے سے بہت پیچھے آئے ہیں اور دوسرے قبیلے ڈھوک جمبرگال میں آکر آباد ہو چکے ہیں۔
حافظ روح اللہ نوری اپنے اسلاف کے طریقہ کے مطابق ٹبی محی الدین سے اٹھ کر دریائے بِہت یعنی دریائے جہلم کو عبور کر کے دارا پور والی جگہ سے لے کر پنڈ سوکہ تک اور پنڈ سوکہ سے لے کر ناڑہ کی پٹی کو عبور کرتے ہوئے نتھوالہ تک اور نتھوالہ سے لے کر رہتاس اور مضاف رہتاس کے تمام دیہات میں اور لہڑی اور دینہ وغیرہ کے ارد گرد کے کل دیہات میں گلزار اسلام کے ان تمام پودوں کی آب پاشی اور دیکھ بھال کے لیے تشریف لایا کرتے تھے جن کو آپ نے خود یا آپ کے بزرگوں نے اپنی نگاہ کرم سے سینچا تھا تاکہ تبلیغی سلسلہ ختم نہ ہو جائے۔ چونکہ رہتاس جاتے وقت ڈھوک جمبرگال راستہ میں پڑتی تھی اس واسطے یہ لوگ حافظ صاحب ممدوح کو وہاں ٹھہرا لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سب قبیلوں کے سربراہوں نے عرض کیا کہ ہماری بڑی مدت کی آرزو ہے کہ ہم کوہ ٹلہ کی ان وادیوں کے دامن میں ]جہاں کہ اب کڑی آباد ہے[ اشارہ کر کے کہا کہ ایک مستقل گاؤں آباد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم اس برہنہ منظر سے ذرا ہٹ جائیں تو بیگار پکڑنے والوں کی نظروں سے ذرا اوجھل ہو جائیں گے۔ یہ جگہ چونکہ راجگان نتھوالہ کی ملکیت ہے اس لیے اگر آپ ہمارے ہمراہ چل کر ان سے یہاں گاؤں آباد کرنے کی اجازت لے دیں گے تو ہمیں راجگان کے زیرِ سایہ ہونے کا دوہرا فائدہ ہو جائے گا کہ کوئی سپاہی پیادہ دوڑ کر ہمیں ہاتھ بھی نہیں ڈالے گا۔ اس لیے آپ صبح ہمارے ہمراہ چل کر ہمیں اجازت لے دیں کہ ہم راجگان کے زیرِ تصرف رقبہ میں اپنی حسب منشأ گاؤں آباد کر لیں اگر راجگان کی طرف سے تھانہ پتی (یعنی جگہ کی ملکیت کی بابت) جو جو شرائط پیش کی جائیں گی ہمیں بطیب خاطر منظور ہوں گی۔اس زمانہ میں راجگان کے ہاں سے اپنی رعایا پر یہ اصطلاحی حکم نافذ تھا کہ اپنی بیویوں کے کنگنوں کو کَڑے اور رعایا کی بیویوں کے کنگنوں کو کَڑیاں کہاں کرتے تھے اور تھیہ (جگہ) آباد کرنے کی اجازت دینے سے پہلے وہ رعایا کے قبیلوں کے سربراہوں سے فی قبیلہ ایک جوڑی کنگن یعنی کڑے اور ایک بکرا اور روپے بطور نذرانہ تھانہ پتی کے لیا کرتے تھے اور آئندہ کے واسطے ہر شادی بیاہ کے موقع پر صرف ایک بکرا اور پانچ روپے مقرر کر کے کنگن چھوڑ دیا کرتے تھے اور یہ اس وقت کا آئینی رواج تھا۔ مذکور الصدر لوگوں کی بار بار گزارش کرنے پر صاحب ممدوح ان کے ساتھ گئے اور راجگان سے مل کے ان کی دلی خواہش اور درخواست کا جب ذکر کیا تو راجگان نے درخواست منظور کرتے ہوئے جب تھانہ پتی کا نذرانہ طلب کیا تو انھوں نے صرف ایک بکرا اور پانچ روپے اور ایک عدد کڑی پیش کی تو راجگان کو یہ بات بڑی ناگوار گذری لیکن صاحب ممدوح کے لحاظ سے وہ خشک جواب نہ دے سکے۔ باہم مشورہ کے بعد راجگان نے اس تھوڑے نذرانہ تھانہ پتی کو اس شرط پر قبول کرنا کیا کہ اگر صاحب ممدوح بھی موضع مسؤلہ میں سکونت پزیر ہو کر ہمیشہ کے لیے یہاں کا مقیم باشندہ ہونا قبول کر لیں تو ہم یہاں گاؤں آباد کرنے کی اجازت تمھیں دے دیتے ہیں ورنہ خیر۔ راجگان کی اس شرط کو صاحب ممدوح نے جب نامنظور کیا تو ان لوگوں نے صاحب ممدوح کو اپنی منت سماجت اور لجاجت سے مجبور کر لیا تو صاحب موصوف نے طوعاً و کرہاً رہنا تو منظور کیا مگر اس شرط پر کہ ہم یہاں سکونت پزیر ہو کر عطا کردہ رقبہئ راجگان کو بطور دھرمت یا جاگیر یا انعام کے بحیثیت مزارعانہ یا موروثانہ کے نہیں بلکہ مالکانہ حیثیت سے مساوی الحقوق شریک حق تسلیم کیے جانے پر رہیں گے۔ صاحب موصوف نے تو ان کڑی شرائط کو اس لیے پیش کیا کہ نہ تو من تیل ملے نہ رادھا ناچے یعنی نہ راجگان ان شرائط کو قبول کریں اور نہ ہم رہیں۔ لیکن راجگان نے صاحب ممدوح کی پیش کردہ شرائط کو بطیب خاطر منظور کر لیا اور صاحب موصوف کو یہاں مقیم ہونا پڑ گیا ورنہ کھلی زمینیں او کھلے پانی اور جاگیریں اور رشتے دار چھوڑ کر اس بارانی زمین اور دلوکشی کو کون قبول کرتا تھا اور ان پتھروں میں رہنا کون گوارا کرتا تھا۔اب اپنی غرض اور مطلب کے لیے ان لوگوں نے صاحب موصوف کو یہاں کا باشندہ بننے پر مجبور تو کر لیا مگرجس حیثیت سے صاحب ممدوح نے یہاں کا باشندہ بن کر رہنا منظور کیا یہ بات اور یہ حیثیت ان کو ناگوار گذری اور اس غیر متوقع اقتدار کے حاصل ہونے کے یہ اندر سے مخالف ہو گئے۔ جب تک ان کی حیثیت مزارعانہ یا محکومانہ رہی تب تک تو یہ قہر درویش بر جان درویش کے مصداق بنے رہے لیکن جب سے زمانے نے پلٹا کھایا اور پے در پے القابات نے ان لوگوں کو بھی مالکانہ حیثیت بخشی تو یہ نئے منصوبے سوچنے لگے اور طرح طرح کی سکیمیں تیار کر کے زہر اگلنے لگے۔ مگر حقیقت بین آنکھوں سے رقبہئ اول کی اصلی حالت پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھی دوسرا یہ لوگ تھانہ پتی کی رقوم تو سنہ 2191ء تک ادا کرتے رہے ہیں اس کے بعد رفتہ رفتہ بند ہوئی ہے۔ اب اس جملہ معترضہ کو چھوڑ کر میں اصل کہانی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ سو یوں ہوا کہ جب صاحب ممدوح کی پیش کردہ شرطیں تسلیم کر لی گئیں اور ان کی منظوری کا اعلان کر دیا گیا تو اب نئے موضع بننے والے کے نام کی تجویز بھی حسبِ دستور سابق چونکہ خود راجگان نے ہی پیش کر کے اس رسم کو خود ہی ادا کرنا تھا اس واسطے تھوڑی دیر ان کی کنجوسی اور غلامانہ ذہنیتوں پر بحث تمحیص کر نے کے بعد ان کی پیش کردہ ایک عدد کڑی کو بار بار ایک دوسرے کی طرف اچھال اچھال کر پھینکتے ہوئے استہزاءً کہ اس ایک کڑی کی یادگار کو قائم رکھنے کے لیے اس نئے آباد ہونے والے گاؤں کا نام بھی کڑی رکھا جائے تاکہ ہمیشہ ہم ان کو یاد کرایا کریں گے یہ ہے کڑی کی وجہ تسمیہ اور یہ ہے ہمارے یہاں آباد ہونے کا سبب۔
والدِ محترم حافظ محمد نور عالم ]1823-1894ء[
ترمیمآپ کے والدِ ماجد مولانا الحافظ محمد نور عالمؒ کا مفصل بیان مولانا مرید احمد چشتیؒ کی تصنیف ”فوز المقال فی خلفائے پیر سیال“ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں پر نہایت اختصار کے ساتھ اجمالی تعارف اس طرح سے ہے کہ حافظ محمد عبد المجیدؒ کے جد امجد حافظ غلام علی صاحب کی شہادت مخفیہ کے وقت ان کے والد بزرگوار مولانا الحافظ محمد نور عالم صاحب محدث کی عمر ڈیڑھ سال تھی اور بعد میں آپ نے اپنی حقیقی والدہ کی منشأ کے مطابق چار سال کی عمر میں اپنے گھر موضع کڑی کو خیر باد کہتے ہوئے گھر سے دس بارہ کوس کے فاصلہ پر موضع ملوانہ میں حافظ ہست صاحب کی خدمت میں جو شاہ عبد الرحیم نقشبندی کے خلیفہ مجاز بھی تھے سولہ سال تک تعلیم پائی۔ قرآن مجید بھی موضع ملوانہ میں ہی یاد کیا یہاں سے پھر کچھ عرصہ لاہور تشریف فرما رہے مگر ایک خاص وجہ سے جو آگے چل کر انشأ اللہ بیان کی جاوے گی کوچ کرنا پڑا پھر ضلع کیمل پور (اٹک) کی موضع میکی ڈھوک میں حضرت علامہئ عصر مولانا غلام یحیٰی کے درس میں داخل ہوئے مگر یہاں بھی وہ علت آ موجود ہوئی پھر وہاں سے پر اسرار طریقہ پر گم ہوکر حضرت علامۃ الدہر وحید العصر مولانا مولوی قاضی احمد الدین کرسالوی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب آپ میکی ڈھوک سے کرسال شریف کے لیے روانہ ہوئے تودورانِ سفر حضرت قاضی احمد الدین کرسالوی صاحبؒ کی بینائی اور علالت کا سن لیا تھا۔لیکن آپ شوقِ زیارت لے کر قاضی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ قاضی صاحب ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے ہیں آپ نے مودبانہ سلام عرض کیا اور معمولی تعارف کے بعد اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ قاضی صاحب نے اپنی معذوری بیان فرمائی تو آپ نے عرض کی کہ حضور میں نے راستہ میں آپ کے بارے میں سن لیا تھا لیکن زیارت کاشوق آپ کے پاس لے آیا۔ آپ کی تڑپ کو دیکھ کر قاضی صاحب نے پوچھا کہ کدھر کے رہنے والے ہو۔ عرض کی جناب کڑی شریف، لیکن تعلیم موضع ملوانہ سے حاصل کی ہے۔ قاضی صاحب نے فرمایا، وہاں توحفاظ بہت زیادہ ہیں۔عرض کی جناب میں بھی حافظ ہوں۔ تو قاضی صاحب نے فرمایا کہ ٹھیک ہے اگر تمھیں شوق ہے تو روزانہ روزہ رکھ کر تلاوتِ منزل کے حساب سے دم کیا کرو اور اس حساب سے پورے اکتالیس دن دم کرنا ہے۔ آپ نے بخوشی قبول کر لیا اور قاضی صاحب کے بتلائے ہوئے طریقہ پر روزانہ روزہ رکھتے اور منزل وار دم کرتے۔ یوں اللہ کے فضل و کرم سے قاضی صاحب کی بینائی نہ صرف واپس آگئی بلکہ پہلے سے زیادہ ہو گئی تو قاضی صاحب نے فرطِ محبت میں کہا کہ حافظ اب میں تمھیں ایسا پڑھاؤں گا جس کی مثال نہ ہو گی۔قاضی صاحب نے علمی فیض و اکتساب مفتی صدر الدین دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہا اللہ سے لیا تھا تو پھر ان کے علمی مدارج کو وہی جان سکتا ہے جو ان ہستیوں کے علم سے بہرہ مند ہو۔یوں قاضی صاحب کی خدمت میں اٹھارہ سال گزارے اس طرح چونتیس سال تحصیل علم پر صرف کر کے علامہ ابنِ علامہ کی سند حاصل کی۔ یہ وہ دور تھاجب حضرت خواجہ شمس العارفین شمس الدین سیالویؒ کا شہرہ پنجاب کے گوشہ گوشہ میں اور باقی علاقوں میں دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ لہٰذا قاضی صاحب اور حافظ محمد نور عالم دونوں استاد شاگرد عازمِ سیال شریف ہوئے۔قاضی صاحب کو چالیس دن رکھا اور خلافت عطا فرمائی اور آپ کو چار سال بعد خلافت و اجازت سے نوازا۔اس طرح علمی و روحانی منازل طے کرنے کے بعد سن بارہ سو ستر ہجری 0721ھ میں دوبارہ موضع کڑی میں آ کر مکتب نورالحکمت کی بنیاد رکھی اور سلسلہئ تعلیم جاری کیا جہاں، صَرف، نحو، تفسیر، حدیث، فقہ، منطق، نظم، نثر اور حکمت وغیرہم کی تعلیم دی جاتی تھی، ہر ایک علم کے طالب کی آرزوپوری کی جاتی، پیرانِ کہن سال و دانایانِ صاحب کمال کا بیان ہے کہ اس سے پہلے اس زور شور کا درس کبھی دیکھا نہیں گیا۔ غرض کہ اسلام کے عالمگیر اثر اور مقبول الطرفین تعلیم کی دلوں میں اتر جانے والی خوبیوں کا فیض ہمارے اسلاف کے سینوں میں اس طرح جاگزین تھا جس طرح پھول میں خوشبو، یہی وجہ ہے کہ ہندو مسلمان برابر اس چشمہئ شیریں سے اپنی پیاس بجھاتے اور اکثر نو اسلام کے حلقہ بگوش غلام ہو کر رہ جاتے مگر کیا مجال کہ کوئی شکایت کرے، چاروں طرف سے خلقت اسی طرح آتی جیسے شمع پر پروانے، ویسے تو دور دور سے لوگ آتے تھے اور فارغ التحصیل ہو کر چلے جاتے تھے مگر موضع کڑی کے ارد گرد کے وہ لوگ جو مضافات کے دائرہ میں فارغ التحصیل ہو کر مشاہیر علما میں سے تھے وہ یہ ہیں، مولوی احمد شاہ صاحب پھڈیالوی، مولوی نیک عالم شاہ صاحب کوٹلی سیداں، مولوی شمس الدین بھمبروی، مولوی محمد دین ڈھوک ساہیاں، حافظ اللہ لوک کوٹ بلوچ، مولوی محمد دین کھوہاروی، مولوی محمد امین خرقولی، مولوی محمد فضل صاحب سنبلوی، مولوی نیاز احمد قصبوی، مولوی مطیع اللہ صاحب چک جانی، مولوی عباس علی شاہ وحید، بہاول شاہ و جعفر شاہ صاحب و مولوی مرتضیٰ و مولوی محمود صاحب چوٹالوی وغیرہم۔ [1]
آپ منکسر المزاج اور عاجزی پسند تھے۔ اپنے تلامذہ اور عقیدت مندوں کو ہمیشہ سادہ زندگی گزارنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ مختلف کتب پر آپ کے حواشی درج ہیں لیکن خود نمائی سے اس قدر پرہیز کہ نام تک درج نہیں کیا۔ آپ کا وصال 3رمضان المبارک 1311ھ بمطابق 10مارچ 1894ء بروز ہفتہ ہوا۔ان کی وفات کی بابت مولاناالحافظ محمد عبد المجیدؒ یوں بیان کرتے ہیں:
تیراں سو یاراں اوڑک سن ہجرت دا آیا
قدرت رب دی بیٹیاں نالوں بابل جدا کرایا
عالم نور عالم دا آہے عالم نوں چھڈ چلے
خاکی خاکوں پیدا ہوئے خاک اندر ونج دے
ہالے اساں تھیں اوہلے ہوئے اوہ مکھڑے نورانی
[1]پہلے حشر کرے رب سائیں مشکل کرے آسانی
والدہ ماجدہ
ترمیمحافظ محمد عبد المجیدؒ کی والدہ ماجدہ موضع ڈھلیان کے ایک مجذوب بزرگ حضرت مولانا حافظ اللہ دینؒ کی صاحبزادی تھیں۔نہایت عابدہ، زاہدہ، صابرہ اور شاکرہ ہستی تھیں۔ بہت کٹھن حالات میں نہ صرف صبر کرتیں تھیں بلکہ تکلیفوں کو اللہ کی دین سمجھ کر اس کا شکر ادا کرتی تھیں۔اپنے شوہرِ نامدار کے وصال کے بعد انھوں نے اپنا بستر زمین پر بچھا لیا اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ میری زندگی کے ساتھی ایک ولی اللہ اور بزرگ و برتر ہستی تھے وہ اب خاکی بستر پر آرام فرما ہیں تو مجھے یہ کسی صورت بھی زیب نہیں دیتا کہ میں اپنا بستر چارپائی پر رکھوں۔ان کی وفا داری اور احترام کا یہ عمل ان کی موت تک رہا۔اپنی والدہ ماجدہ کے ان صبر آزما حالات کا ذکر حافظ محمد عبد المجیدؒ یوں بیان کرتے ہیں۔
پونے بتری سال اینھاں نے راتاں جاگ لنگھائیاں
دھن خدا دے بندے جنھاں کیتیاں ایڈ کمائیاں
لذت دار عجائب کھانے کیتے ترک تمامی
نہ اوہ نیندر بھر کے سُتے نہ ہوئے آرامی
ہائے اف نہ نکلی مونہوں نہ کوئی ہور شکایت
اللہ ہُو پکارن جس دم ہوون تنگ نہایت
تیراں سو ترتالی ہجری ماہ جمادی الاوّل
چھوڑ چلے جگ فانی تائیں وقت صبح دن اوّل
ہائے اساں تھیں اوہلے ہویا چشمہ فیض روحانی
عبد مجیداؔ وِرلے ہوسن ایسے لوگ گیانی
شادی اور اولاد:
ترمیم1913ء میں آپ کی شادی ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا جن سے آپ کی نسل آگے بڑھی۔ اس بارے میں یوں بیان فرماتے ہیں:
نذر، نذیر تے فضل مظفر بیٹے چار ہمارے
بھیناں دو ایہناں دیاں سکیاں بندہ عرض گزارے
سائے ہیٹھ فضل دے رکھیں روز قیامت تائیں
پھلن پھُلن برکت پاون رد تمام بلائیں
علم عمل تے دانش حکمت دولت تے اقبالاں
سدا حضور تیرے تھیں پاون دشمن زیر نعالاں
حافظ محمد عبد المجیدؒ کی ساری اولاد دینی اور علمی حوالے سے شہرت رکھتی ہے۔ان کے بڑے صاحبزادے حضرت علامہ قاضی فضل حسین ؒ (1924-2010ء) عرصہ تیس سال تک پاک آرمی میں بطورِ خطیب اپنے فرائض انجام دیتے رہے اور خطیبِ اعلیٰ کے منصب سے ریٹائر ہوئے۔حکمت میں ثقاہت کا درجہ رکھتے تھے، روحانی اعتبار سے اللہ کریم نے بلند مقام پر سرفراز فرمایا تھا لیکن خاندانی روش پہ چلتے ہوئے مرید کرنے میں بہت ہی زیادہ گریز کرتے تھے۔ اس کے باوجود آپ کے معتقدین کی کافی تعداد ہے جن میں بطورِخاص جناب تنویر اصغر صاحب ہیں جنھوں نے نہ صرف آپ کا بہت خوبصورت مزار تعمیر کروایا بلکہ لاہور سے مہینے میں ایک دفعہ مزار پہ حاضری دینے کے لیے ضرور تشریف لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر دے۔اور قاضی صاحب ؒ کے درجات بلند فرمائے۔
قاضی صاحبؒ سے چھوٹے صاحبزادے حضرت علامہ حافظ نذر حسین شاد فاروقیؔ(1928-2017ء) علمی اعتبار سے ایک بحرِ بیکراں تھے اور ساتھ ساتھ اردو، فارسی اور پنجابی شاعری میں بھی ایک مقام رکھتے تھے۔ان کی اردو کلام پر مشتمل ایک کتاب ”سوزوسازِ حیات“ 2016ء میں شائع ہو چکی ہے۔پنجابی اور فارسی کلام کی تدوین بھی ہو چکی ہے اور انشأ اللہ مستقبل قریب میں طبع آشنا ہو گی۔
چھوٹے صاحبزادے جناب مولوی مظفر حسین مرحوم اور میاں نذیر حسین مرحوم گھر یلوذمہ داریوں میں مصروف رہے جس کی وجہ سے بڑے صاحبزادوں جیسا علم حاصل نہ کرسکے۔یہ دونوں صاحبزادگان عرصہ دراز تک گاؤں کی مسجدوں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ [1]
شاعری:
ترمیممولانا الحافظ محمد عبدالمجیدچونکہ خالصتاً مذہبی، علمی اور روحانی پس منظر میں پروان چڑھے اور آپ نے ساری زندگی علم و ادب کو اوڑھنا بچھو نا بنائے رکھا۔آپ عربی،فارسی، اردو اورپنجابی زبانوں پر ایک جیسی دسترس رکھتے تھے۔ اس لیے انھیں لفظوں کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کے ساتھ ساتھ موقع محل کے مطابق استعمال کا سلیقہ بھی قدرت کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ پنجابی شاعری میں عربی، فارسی اور اردو کے الفاظ کو یوں استعمال کرتے تھے جیسے یہ پنجابی کے ہی الفاظ ہوں۔حافظ محمد عبد المجید کی پرانی سے پرانی تخلیق 1906ء کی ملتی ہے۔ جو انھوں نے 21سال کی عمر میں تخلیق کی تھی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بہت چھوٹی عمر سے اس راہ چل پڑے تھے۔ شاعر، پیدائشی طور پر شاعر ہوتا ہے۔ اس لیے اس بات کا اندازہ لگانا آسان نہیں کہ اُنھوں نے کس عمر میں شعر کہنا شروع کیا۔ ان کی شاعری کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ وہ ایک قادرالکلام، پیدائشی اور فطری شاعر تھے۔مولانا محمد عبد المجید کے شعری مقام کا اندازہ مختلف ناقدین ومحقیقین کے درج ذیل تبصروں سے بخوبی ہو جاتا ہے:
٭ حضرت علامہ مولانا غلام جیلانی:
ایہ کتاب ماہتاب منور چانن دیوے نوروں
پڑھنے والے تائیں ہر دم بخرا ملے حضوروں
تذکرۃ الحسن اس نانواں رکھیا رکھن والے
پیر غلام حسن دا قصہ دسیا نال سمہالے
صرف سوانح عمری ناہیں پیر غلام حسن دی
اولیاواں دیاں ذکراں اندر بات کیتی ہر فن دی
مُڈھوں لگ کے آخر توڑی پڑھے جو سارا قصہ
ان شأ اللہ رہوے نہ خالی لیوے فقروں حصہ
واہ عجیبہ باغ لگایا حضرت عبدؔ مجیدے
اے پر دیکھن والا دیکھے سالم جس دے دیدے
مولانا محمد عبد المجید کی کتاب ”تذکرۃ الحسن“ پریہ منظوم تبصرہ حضرت علامہ مولانا غلام جیلانی مرحوم نے اس وقت کیا جب یہ کلام انھوں نے حافظ محمد عبد المجید کی زندگی میں اپنے پاس نقل کیا تھا۔
٭ پروفیسر قدرت علی سیالوی:
”حافظ]محمد عبد المجید[ علیہ الرحمۃ کا تعلق کڑی شریف ضلع جہلم کے ایسے خانوادہ جلیلہ سے ہے جو نسلاً بعد نسل ایک تسلسل کے ساتھ تصوف اور معرفت کے رنگ میں رنگا نظر آتا ہے۔ اس خانوادے میں آسمانِ تصوف کے ایسے ایسے ستارے نمودار ہوئے جنھوں نے اپنے نورِایمانی سے دنیا کے بت کدوں سے کفر و جہالت کے اندھیروں کو دور کر کے انھیں روشن و تابناک بنا دیا۔ان کی طہارت و پاکیزگی، قلب و نظر کی صفائی اور دانش نورانی کی گواہی حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ اور حضرت پیر سید حیدر شاہ بادشاہؒ جلالپور شریف جیسی برگزیدہ ہستیوں نے دی۔فکرِ بلند رکھنے والے حافظ محمد عبد المجید ؒمسلم امہ کی مذہبی معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زبوں حالی پر رنجیدہ خاطر ہوتے، اس کا اظہار بھی کرتے لیکن بایں ہمہ ان کی قومی و ملی غیرت کو بیدار کرنے کی بھر پور سعی فرماتے رہے۔ حافظ محمد عبد المجید کا کلام محض ایک شاعر کا کلام نہیں یہ ایک صوفی با صفا اور ولیئ کامل کے پاکیزہ خیالات، صالح جذبات اور شعوری تجربات ہیں“۔(تذکرۃ الحسن)
٭ عنایت علی قریشی، ملتان یوں لکھتے ہیں:
”حضور قبلہ حافظ محمد عبد المجیدؒ کا شمار عام شعرا میں نہیں ہوتا وہ سر زمینِ پاک کے صفِ اول کے چند صوفی شعرأ میں کھڑے ہیں۔فنِ شعر کے حوالے سے اتنا پختہ کلام خال خال نظر آتا ہے۔ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ تک یہ کلام زمانہ کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اس وقت اگر یہ کلام منظرِ عام پر آیا ہوتا تو اہلِ نظر آج اس کا موازنہ حافظ شیرازی، حضرت وارث شاہ، حضرت بلھے شاہ، حضرت خواجہ غلام فرید اور عارفِ کھڑی حضرت میاں محمد بخش رحہم اللہ کے کلام سے کر رہے ہوتے“۔(تذکرۃ الحسن، عنوان: اکیسویں صدی کا حافظ شیرازی)
٭ پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد:
”عشق تے کرم دو الگ الگ نعمتاں نیں۔ عشق محبوب نوں اپنے اندر جذب کرن دا ناں اے جدوں کہ ایس جذب دے اظہار دا ناں کرم اے۔ جدوں ایہہ دوویں نعمتاں کسے اک وجود وچ اکٹھیاں ہو کے اپنا اثر وکھاندیاں نیں تے ایہہ اثر تخلیقی مراحل وچوں گزردا ہویا موزوں لفظاں راہیں پوری نفاست نال نعت دے شعر دا روپ دھار لیندا اے۔ جیہدے وچ عقیدت، ارادت تے چاہت دے رنگ دے نال نال ابلاغ دی خوبی تے ریاضت دی روشنی وی ہوندی اے تے ایہہ سارا کجھ زمزمہ نعت دے خالق مولوی عبد المجید ہوراں دی شاعری وچ موجود اے۔اُنج تے ساڈی پوری پنجابی کلاسیکی خصوصاً صوفیانہ شاعری وچ ایہہ رنگ تے ڈھنگ کسے نہ کسے انداز وچ ہمیشہ توں وکھالی دیندا آ رہیا اے پر تن شاعر اجیہے نیں جیہناں کول ایہہ سارا کجھ ہمہ وقت موجود اے۔ پہلے مولوی غلام رسول عالمپوری، دوجے غلام محمد جلوی تے تیجے مولوی عبد المجید۔ پہلے دوویں شاعراں دے ناں توں لوک ایس لئی چنگی طرح جانو نیں کہ اوہناں دا کلام منظر عام اُتے وے جدوں کہ مولوی عبد المجید ہوراں دے پنجابی نعتیہ کلام توں ایس لئی بہت گھٹ لوک واقف نیں کہ اوہ پوری طرح چھپ کے سامنے نہیں آسکیا۔۔۔۔ اوہ عربی فارسی اردو تے پنجابی اُتے اکو جیہی دسترس رکھدے سن۔ ایس لئی اوہناں نوں لفظاں دے لغوی تے اصطلاحی مفہوم دے نال نال اوہناں نوں موقع محل دے مطابق استعمال دا سلیقہ وی قدرت ولوں عطا ہویا اے۔ اوہ عربی فارسی تے اردو لفظاں نوں پنجابی وچ انج ورتدے نیں جیویں ایہہ اوہناں دی مادری زبان دے لفظ ہون۔۔۔۔ زبان و بیان دے کئی خوبصورت تجربے مولوی صاحب دی فنی ریاضت تے قادر الکلام شاعر ہون دی دس پاندے نیں۔ بین الاقوامی سچائیاں نوں شعری روپ وچ بڑی روانی نال بیان کیتا گیا اے۔ ایس روانی نوں دلکش بنان لئی عربی فارسی اردو تے پنجابی لفظاں نوں مولوی صاحب نے اکو جیہی آسانی نال ورتیا اے۔ سگوں عربی آیتاں، محاوریاں تے لفظاں نوں انج ورتیا اے جیویں اوہ شاعر دی مادری زبان دا حصہ نیں۔ عربی فارسی لفظاں دا دل کھول کے استعمال مولوی غلام رسول عالمپوری تے سیف الملوکی بحر دی روانی میاں محمد بخش دی یاد تازہ کر دیندی اے“۔(ثنائے محمد ﷺ)
٭ پروفیسر شوکت محمود شوکت:
”آپ ایک عالم ِ با عمل اورسچے عاشق ِ رسول ﷺ تھے،آپؒ کی روحانی فیوض و برکات، علمی اور ادبی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔آپ ؒنہ صرف پنجابی زبان کے قادر الکلام شعرا میں سے ہیں بلکہ فارسی زبان پر بھی آپ کو کامل دست گاہ تھی، آپ نے فارسی زبان میں بھی خوبصورت اور میعاری شاعری کی۔اردو زبان میں بھی اعلٰی اشعار تخلیق کیے۔ میں نے ”ثنا ئے محمد ﷺ“ میں مشمولہ تمام نعتیہ شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کیا،یوں لگتا ہے کہ حضرت مولانا الحافظ جناب محمد عبد المجید ؒ نے عشق ِ رسول ﷺ میں ڈوب کر، فن اور تکنیک کو مد نظر رکھتے ہوئے، مذکورہ بالانعتیہ شاعری کی ہے“۔(ثنائے محمد ﷺ)
پروفیسر محمد ثقلین ضیغم:
”آپ کے شاعرانہ کمالات کو دیکھتے ہوئے پنجابی زبان و ادب کے بڑے سے بڑے شاعر کے مقابلے میں آپ کو انتہائی سہولت کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔اگر ماہرین نقد ونظر کی طبع نازک پر گراں نہ گذرے تو یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ حضرت مولانا حافظ عبد المجید ؒ کا کلام پنجابی شاعری کے افق پر جگمگانے والی کئی ہستیوں سے بہتر ہے۔ آپ کا کلام عرصہ دراز تک طاقِ نسیاں میں پڑا رہااورطباعت آشنا نہ ہو سکا۔ اس لیے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے ناقدین سے اوجھل رہا“۔(جھوک مسلم)
محمد سخی خان:
”حضرت مولانا الحافظ عبدلمجید ؒپنجابی زبان کے ایک بہت بڑے شاعر تھے۔شعر کہنے کی جو صلاحیت آپ کو حاصل تھی وہ کم ہی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے۔عصرِ حاضر تک پنجابی زبان کا جو شعری ادب سامنے آیا ہے اس کے مقابلے میں یہ تازہ ہوا کا ایک دلنشین جھونکا ہے۔آپؒ کے کلام میں وارث شاہ جیسا محاورہ بھی ہے اورسلطان باہوؒ جیسا وعظ بھی۔میاں محمد بخش جیسی نصیحت بھی ہے اور بلھے شاہ جیسا سوز و گداز بھی۔آپؒ کے کلام میں علامہ اقبال کی طرح قوم کا درد بھی سمویا ہے اور غالب کی طرح کی خیال آفرینی بھی ہے۔کلام میں کمال عاجزی اور انکسار ہے۔ آپؒ فنا فی المرشد، فنا فی الرسولؐ اور فنا فی اللہ کی منزلوں سے آشنا معلوم ہوتے ہیں …… فارسی الفاظ کو اِس خوبی سے پنجابیانے کی کاوش کی کہ ان الفاظ کی ساری اجنبیت رفع ہو گئی۔معجزاتِ رسولؐ کے طویل واقعات کو ایسا اختصار بخشا کہ غزل جیسی چاشنی پیدا ہو گئی۔کسی ایک بحر کے قیدی نہیں ہیں بلکہ کئی بحروں کو بخوبی نبھایا۔ کلام کی روانی سے آپ ؒ کی قادر الکلامی کا پتہ چلتا ہے“۔ (جھوک مسلم)
٭ پروفیسرڈاکٹر عبد العزیز ساحر:
”جمالِ حیدری“حافظ عبد المجید کاپنجابی مجموعہئ کلام ہے۔ اس مجموعے میں ارادات کے رنگ بھی ہویدا ہیں اور عقیدت کی خوشبو بھی۔ شاعری میں کسی معلوم اور موجودمحبوب کے اوصاف ِحمیدہ کی عکس گری کو اپنے تخلیقی اظہاریہ کاموضوع بنانا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے،کیونکہ اس طرح شاعری ایک لمحے میں بقائے دوام کے دربار سے نکل کر، منظوم کلام کا روپ دھار کر، فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہے،مگر حیرت ہے کہ پیشِ نظر مجموعے میں شاعر نے اپنے پیرومرشد کی پرانوار زندگی کو اپنے تخلیقی اظہاریے کاموضوع بنایا،لیکن شعریت اور تغزل کو متأثر نہیں ہونے دیا۔اس حوالے سے یہ مجموعہئ کلام تخلیقی جمالیات اور شعری شعور کی عمدہ مثال ہے۔”جمالِ حیدری“ فکری اور معنوی اعتبار سے بھی حافظ عبد المجید صاحب کے حسنِ طبیعت کاعکاس ہے اور فنی حوالے سے بھی اُن کے حسنِ اظہار کی رنگارنگی کابیانیہ ہے۔ اس مجموعے کی زبان: تہذیبی اور روحانی آہنگ میں گندھی ہوئی ہے اور شاعر کااسلوب ِنگارش خانقاہی نظام کی جمالیات سے ہم آہنگ ہے۔ جب کسی شاعر کا کلام فکری وفنی اعتبار سے وجدانی اور مکاشفاتی بیانیے میں ڈھل کر، خانقاہی نظامِ عرفان کا آئینہ دار بن جائے توپھر اس کی آفاقیت اور ہمہ گیریت میں کیاشک رہ جاتاہے؟یقیناً کوئی نہیں۔اس اعتبار سے بھی یہ مجموعہ اس عرفان اور وجدان کا عکاس ہے، جوشاعر کے سینہئ دل پر نزول کر رہا ہے،کیونکہ اگر شاعر کسی فقیر کی عرش مقام مجلس میں باریابی سے ہمکنار ہو جائے تو پھر اس کے شعری آفاق پر سورج طلوع ہونے لگتا ہے اور یہ مقام انہی کا مقسوم ہوتا ہے،جن کے:حوصلے ہیں زیاد“۔(جمال حیدری)
٭ حسنین ساحر:
”جمالِ حیدری“ میں مولانا عبد المجیدؒ نے جس انداز میں اپنے مرشد سے محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک با عمل صوفی تھے اور اپنے مرشد پیر حیدر علی شاہؒ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ انھوں نے توحید اور رسالت کا بیان جس پیرائے میں کیا اس سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ وہ شریعت اور تصوف کو الگ نہیں سمجھتے بلکہ تصوف کو شریعت کا پابند دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے علمی مرتبہ کا اندازہ ان کے کلام سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ ”جمالِ حیدری“ پنجابی زبان و ادب کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ راہروانِ شوق کی روحانی تسکین کا باعث بھی ہو گی۔ ان کا کلام نہ صرف پنجابی زبان و ادب کے لیے گوہرِ گراں مایہ ہے بلکہ پڑھنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو گا“۔(جمال حیدری)
٭ راشد عزیز وارثی:
”مولانا حافظ قاضی عبد المجید صاحبؒ ایک ہمہ گیر قسم کی شخصیت تھے۔ رہبر ِ شریعت، واقف ِ رموزِ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک صاحب ِ طرز شاعر بھی تھے۔ تقریباً درجن بھر کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ کے کلام میں موضوعات کا انتخاب، اسلوبِ بیان، حسین منظر کشی، دلچسپ اندازِ دعوت و اصلاح، حکمت و موعظت، سلاست اور شستگی جیسے بے شمار اوصاف قاری کے لیے بے پناہ کشش رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کلام گہرائی اور گیرائی کے کمال کا احاطہ بھی کیے ہوئے ہے۔سب سے بڑی خوبی یہ کہ آپ کا کلام قاری کی دینی، روحانی، علمی، ادبی اور معاشرتی ہر اعتبار سے رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کے کلام کا منبع قرآن و حدیث اور فقہ ہے۔ لہٰذاپنجابی زبان و ادب میں آپ کا کلام ایک نمایاں ا ور منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ اور اس قابل ہے کہ اس پہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالہ جات تحریر کیے جائیں“۔ (پنج گنج اسلام)
مولانا محمد عبد المجید کا زیادہ تر کلام غیر مدوّن اور منتشر اوراق کی صورت میں ہے۔ ابھی تک اُن کی سات کتابیں اشاعت آشنا ہو چکی ہیں۔ مطبوعہ و غیر مطبوعہ کلام کی تفصیل یوں ہے:
مطبوعہ کلام
ترمیم”ابر%20نیساں“%20اشاعت2014ء%20(سانجھ%20پبلیکیشنز،%20لاہور ٭ ”ابر نیساں“ اشاعت2014ء (سانجھ پبلیکیشنز، لاہور[مردہ ربط])https://commons.wikimedia.org/wiki/File:Abr-e-NaisaN.pdf
٭ ”تذکرۃالحسن“ اشاعت2016 ء(سانجھ پبلیکیشنز، لاہور) https://commons.wikimedia.org/wiki/File:Tazkira_Tul_Hasan.pdf
(اس کتاب کو حکومت پنجاب (PILAC) کی طرف سے فروری 2017 ء میں شفقت تنویر مرزا ایوارڈ سے نوازا گیا)
٭ ”پنج گنج اسلام“ اشاعت2016ء (دار العلوم والحکمت خانقاہ کڑی شریف، جہلم) https://commons.wikimedia.org/wiki/File:Punj_Gunj.pdf
٭ ”جمالِ حیدری“ اشاعت 2016ء (دار العلوم والحکمت خانقاہ کڑی شریف، جہلم) https://commons.wikimedia.org/wiki/File:JAMAL-E-HAIDERI.pdf
٭ ”جھوک مسلم“ اشاعت 2017ء (دار العلوم والحکمت خانقاہ کڑی شریف، جہلم) https://commons.wikimedia.org/wiki/File:Jhoke_Muslim.pdf
٭ ”ثنائے محمدﷺ“ اشاعت 2017ء(دار العلوم والحکمت خانقاہ کڑی شریف، جہلم) http://commons.wikimedia.org/wiki/File:Sanaey_Muhammad.pdf
٭ ”بھاہ پریم دی“ اشاعت2017 ء(سانجھ پبلیکیشنز، لاہور)https://commons.wikimedia.org/wiki/File:Bhah_Prem_Di.pdf
غیر مطبوعہ کلام
ترمیم٭ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات
٭ ریل نامہ، جوگی نامہ، فراق نامہ
٭ نصیحت الغافلین (پنجابی شاعری و سی حرفیاں)
٭ تجوید القرآن (نظم۔نثر)
٭ حمدیہ، عشقیہ، فراقیہ سی حرفیاں
٭ مدحات و کراماتِ غوث اعظم
٭ مکتوباتِ مجید
٭ سیک ہجر دا
٭ احسن القصص فی بیان الحصص
٭ تحفہ پنجاب
٭ پنڈ دی ڈائری
٭ اردو کلام
ٍ ٭ دیوانِ مجید
٭ طبی نسخہ جات
٭ تکرار (ہیرتے رانجھا۔ہیرتے قاضی)
٭ اَن مُلّے نَگ
٭ ویراگ
٭ آئینہ۔حقیقت نما (اردو۔نثر)
٭ مبلّغِ کڑی (اردو۔نثر)
٭ شانِ غازی (اردو۔نظم)
کرامات:
ترمیمایک واقعہ خواب جو قبلہ مولانا الحافظ محمد عبد المجیدؒ کو بچپن میں پیش آیا لیکن اس کا اظہار تحریری طور پرانھوں نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں کیا۔ اور اس بات کا انھیں یقین تھا کہ میری زندگی میں یہ تحریر کسی کی نظروں سے نہیں گذرے گی۔کمال کی بات یہ ہے کہ آج اس مضمون کو مرتب کرتے ہوئے یہ تحریر معجزانہ طور پر سامنے آگئی۔ مولانا الحافظ محمد عبد المجیدؒ لکھتے ہیں کہ
”مجھے بچپن کی وہ تمام باتیں یاد ہیں اور اوہ تمام صورتیں جو میں نے دیکھی ہیں آج تک میری لوحِ قلب نقش ہیں۔ اس زمانہ کو یاد کرتے ہوئے اب بھی اپنی ہستی کو بھول جاتا ہوں جب کہ چھ سال کی عمر میں میں نے تاجدارِ مدینہ صل اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدارِ حق نگار سے دل کی آنکھوں کو عالمِ رویا میں منور پایا (اللہم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد و بارک وسلم)۔ صبح کا سہانا وقت ہے جبکہ میں اور میرے بڑے بھائی مولوی محمد عبد الرحیمؒ صاحب بابا جنگو شہید کی مزار والی ڈھیری کے جنوبی دامن میں ایک کیری کے درخت کے نیچے سِن سے بنی ہوئی ایک پست قد کی چارپائی پر کسی کے انتظار میں بچشمِ راہ ہیں بلکہ ہمہ تن چشم بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اچانک کسی غیبی خبر رساں کی آواز نے ہمیں چونکا دیا جب کہنے والے نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے یار حضرت ابا بکر صدیق اور حضرت عمر خطاب رضی اللہ عنہما کے ساتھ تشریف فرما ہیں، تو ہم دونوں بھائی مؤدبانہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضور انور (فداہ امی و ابی) نے میرے بڑے بھائی ]حافظ محمد عبد الرحیمؒ[سے نہایت پیشانی سے مسکراتے ہوئے مصافحہ فرمایا اور میری نسبت بھائی صاحب مرحوم سے دریافت فرمایا کہ یہی ہے وہ؟تو آپؒ نے جی ہاں یا کچھ ایسے ہی الفاظ سے جب جواباً عرض کیا تو حضور نے نہایت خوش ہو کر میرے سر پر دست مبارک پھیرا اور دم فرما کر پیٹھ ٹھونکی اور میرے ہاتھ کو اپنے مبارک ہاتھ میں لے کر اس ریگ کے فرش کی طرف رجوع فرمایا جہاں چار تہ والی سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آدھی ]چادر[تک آپ ؐکی دونوں مبارک ایڑیاں ریگ والی زمین پر تھیں اور باقی پاؤں مبارک چادر پر تھے کہ آپؐ نے دو رکعت صبح ہم چاروں کو پڑھائی۔ میں نے خوب دیکھا اور آج تک خوب یاد ہے کہ حضورؐ کی دونوں مبارک ایڑیوں سے نوری لاٹیں نکل نکل کر آسمان کی طرف چاتی تھیں اور وہ ساری زمین منور ہو رہی تھی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو حضورؐ اسی راستے پر جب تشریف لے جانے لگے تو کچھ فاصلہ ہم دونوں بھائیوں کو بھی ساتھ ساتھ جانے کاشرف حاصل ہوا“۔
مولانا الحافظ محمد عبد المجیدؒ ایک بلند روحانی مقام رکھنے کے باوجود حتی الامکان اپنے آپ کو ظاہر نہ ہونے دیتے تھے۔ تذکرۃ الحسن یا ابرِ نیساں میں مذکور کرامات کے علاوہ ایک چھوٹی سی کرامت کا ذکر کروں گا جو مجھے ]راقم محمد فاروق فضل حیدر۔کو[ راجا عبد العزیز ساکن نتھوالہ نے اس دن بتلائی جب وہ میرے والد صاحب قبلہ مرحوم کی عیادت کے لیے ہمارے گھر آئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ”میرے والد کو پیٹ میں بہت زیادہ تکلیف تھی جسے انھوں نے عام درد سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور گھر والوں کو بھی نہ بتلایا۔اپنے تئیں مختلف جگہوں سے علاج معالجہ کروایا لیکن تکلیف کی شدت میں قطعی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ ایک دن جب وہ نہایت لاغر ہو گئے تو میرے داداجان نے ان سے پوچھا کہ تمھیں کیا مسئلہ ہے، والد صاحب نے تمام صورتِ حال مفصل بتا دی تو دادا جان نے کہا کہ تم اسی وقت ’مولوی صاحب‘ کے پاس چلے جاؤ۔میرے والد صاحب نے بتایا کہ ”میں اسی وقت گھوڑی پر سوار ہو کے سیدھا کڑی شریف چلا آیا، مولوی صاحب اس وقت باہر تھلے ’صحن‘ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پاس چند اور لوگ بھی تھے جو کسی نہ کسی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ چونکہ ہمارے گھرانے کا پرانا تعلق تھا اس لیے مجھے اچھے طریقے سے ملنے کے بعد گھر کی خیر خیریت دریافت کی اور پھر دوسرے لوگوں سے مخاطب ہو گئے۔ ایک دو بندے جب اٹھ کے چلے گئے تو میرا دل بھی چاہا کہ اپنا مدعا بیان کروں کہ اسی اثنا میں چائے آ گئی۔ میں نے چائے پینے کے بعد عرض کی کہ مجھے پیٹ میں بہت شدت سے درد ہے جس کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں تو مولوی صاحب نے جواباً فرمایا کہ آپ کا علاج کر دیا ہے۔ میں خاموش ہو گیا کہ بتایا ابھی ہے اور علاج پہلے ہی کر دیا ہے، بہر حال کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوئی،تھوڑا مایوس بھی ہوا لیکن اجازت لے کر چلا گیا۔ راستے میں پاخانے کی حاجت ہو گئی، بس پاخانہ کرنے کی دیر تھی کہ درد سے مکمل آرام آگیا اور پھر زندگی بھر ایسا درد نہ ہوا۔گھر آ کر والد صاحب کو بتایا توانھوں نے کہا کہ مولوی صاحب جسمانی و روحانی دونوں طرح کے علاج کرتے ہیں لیکن ظاہر نہیں ہونے دیتے۔
مضمون کی طوالت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہاں صرف ایک اور کرامت کا ذکر شامل کرتا ہوں جو درج ذیل اشعار میں ہے۔ لیکن بے نفسی کا یہ عالم کہ قدرتِ الٰہیہ کو کرامت پہ اس قدر حاوی کر دیا ہے کہ کرامت کو کرامت کے طور پر نہیں بلکہ شانِ قدرت کے طور پر بیان کیا ہے۔
یفعل اللہ ما یشأ جو چاہندا سو کردا
غیر کسے دا دخل نہ کوئی صرف مجازی پردہ
پیدا کردا بچے تائیں مائی شیر پلاوے
کدے کدے بن مانواں بچے چنگے پال دکھاوے
جو چاہندا سو کر دکھلاندا قادر قدرت والا
میں اک اپنی اکھیں ڈٹھا ایہہ قدرت دا چالا
کیمپ بڑودے اندر ساڈی پلٹن سی تن باراں
ایتھے ایہ اچرج تماشا ڈٹھا سبناں یاراں
ویل گڑُوں لگی وچ مسجد نالے بجلی تاراں
شاخاں تار اُتے چڑھ آئیاں کٹھیاں بنھ قطاراں
ول ول شاخاں کنڈل پائے زلف جینویں محبوباں
وچ اوہناں دے جلدی بجلی جیونکر حسن محبوباں
میں اس بیلے والی طرفوں شاخاں توڑ گھمائیاں
اوہ اجے اس شان حسن وچ جھولن سر لٹکائیاں
ہوئی ختم حیاتی ساڈی اوہناں خبر نہ کائی
پتہ لگا اس ویلے جس دم مکھ پر زردی آئی
ہکے تے ناز جوانی دسن کھا کھا لچک مروڑاں
ہکے ہوئے مکھ ہر وَل پیلے بھلیاں نک تروڑاں
لاغر انگ ہوئیاں رنگ رتیاں دن دن سی رنگ پیلا
مینوں سخت افسوس دلے وچ لیک کراں کی حیلہ
جیوں جیوں ویکھاں دوجیاں شاخاں جھولن ہریاں بھریاں
آپس اندر پنجے پا کے جیویں ترنجن پریاں
(یہاں بطور جملہ معترضہ قلم ٹوٹ گئی)
حق آواز آیا اک واری جاں ات پہنچی کانی
سطر اتلی دے دوجے مصرعے ٹٹی درد رنجانی
کانی درد رنجانی تائیں ہلیا درد جدائی
ماری آہ ہوئی دو ٹکڑے ذرہ نہ رہی خطائی
دوجی آئی اس دی جائی لکھن درد جدائی
دس مجیداؔ کی کجھ تینوں قدرت نظری آئی
جس ویلے میں مسجد جاواں شاخاں دا تک رولا
بھانبڑ مچ اٹھے وچ سینے رب دیا مقبولا
توبہ استغفار پکاراں عرضاں کراں خدایا
میں بے وجہ تروڑ اینھاں نوں سخت دلوں پچھتایا
جیکر وچ حضور تیری دے ایہ میرا پچھتانا
ہے منظور غفور رحیما دس نشان یگانہ
شاخاں خشک ہوئیاں تھیں میں اک شاخ تروڑ لگاواں
اوسے تار اوتے اُس جائی ہری ہوئی میں پاواں
ہر شے اوتے قادر مولا جو چاہندا سو کردا
میں اوہ شاخ توکل کر کے تار اتے رکھ مردا
بیٹھا رکھ اڈیک فضل دی کہڑی گھڑی مبارک
مولا ہری کرے گا اس نوں کر کے کرم تبارک
اللہ اللہ سبحان اللہ واہ قدرت دا سائیں
سُکی ٹُٹّی شاخ نکاری ہری کیتا اس تائیں
ہیٹھ فرش سَمِنٹ ہویا ہے صحن مسیتی والا
لوہے دی اک تار فرش تھیں نو دس فٹ ہے بالا
بجلی تاراں نوں کھچ رہندی اس لوہے دی تاروں
ہری ہوئی جس اوتے ٹاہنی قدرت دے اسراروں
نہ کوئی میل ملاپ کسے سنگ نہ کوئی ہور وسیلہ
نہ کوئی وتّر پہنچن والا ہور ہویا کوئی حیلہ
اوہا خم پئے جیوں کاکُل اوہا لچک مروڑاں
وھددی جاوے ناز دکھاوے خوبی حسن بے اوڑاں
تک تک لوک تعجب کر دے سوچاں عقل دوڑاون
وتّر پہنچن والا ایتھے کوئی سبب نہ پاون
اک اکلی تار لوہے تے کھیڈے حال فریدی
خلقت تک تک ہووے تعجب قدرت رب سچے دی
موئے زندے کر دکھلاندا واہ قدرت دا سائیں
پل وچ کر گلزار دکھاوے اگ چخے دی تائیں
رنگا رنگ دکھاوے قدرت رنگ رنگاں دیاں کھیلاں
سُکے ڈِھینگر رُکھ بناوے شاخوں کردا ویلاں
خس خس جتنے بیج سکے تھیں رُکھ عظیم بناوے
کنڈے پھل نکالے شاخوں قدرت پیا دکھلاوے
وفات:
ترمیمآپ 10رجب 1382ھ بمطابق 8 دسمبر 1962ء کو اس جہانِ فانی سے دارلبقا کی طرف کوچ کر گئے۔حافظ محمد عبد المجید ؒ کی وفات پران کے صاحبزادے حافظ نذر حسین شاد فاروقیؔ نے منقبت کی صورت میں فارسی درج ذیل قطعہ تاریخِ وصال لکھا:
قبلہئ من بابِ من استادِ من
جانشینِ مایہ ناز اجدادِ من
پیکرِ صبر و رضا و مردِ حال
می چکیدش سوز و درد از صدق قال
شاعرِ پنجاب و صنعت را امام
فارسی و اردوہم اندر کلام
عشق و مستی از کلامش آشکار
در کلامش ایں مقامش آشکار
حبِ مولا آیہئ تعمیر او
عشق و مستی مایہئ تخمیر او
سوز و عشق و دردہائش بے پناہ
جملہ تصنیفاتِ او بر ایں گواہ
فکر کردم چوں بہ تاریخش زعم
داد ہاتف ایں جوابِ پر ہمم
شد بجاں مغفور تاریخش جواں (1382ھ)
نسبتش با شیخ او کامل بداں
زانکہ بد مغفور تاریخ وصال (1326ھ)
شیخ او یعنی حیدر با کمال
شد جواں مغفور تاریخ وصل (1386ھ)
میر حزب اللہ مرد لم یزل
اندریں ہر سہ تواریخ عجیب
نسبتے بس کاملست و ہم غریب
چونکہ جوئی از سر صدق و یقین
آشکارا می شود رازش مبین
گفتہ ام تاریخ شیخ خویش را
دادہ ام تسکین قلب ریش را
آہ! از بد و شعر تا ایں زماں
ما سوائے غم نہ دیدم در جہاں
کاشکے مادر نہ زادستے مرا
دیدہ ام نا دیدنی ہائے بسا
تاریخ وصال کی وضاحت:
”بجاں مغفور“ حروف ابجد کے حساب سے اس کے حرف 1382ہوتے ہیں اور اس حساب سے حافظ محمد عبد المجیدؒ کی ہجری سنمیں تاریخِ وصال نکل آتی ہے۔
”مغفور“ حروف ابجد کے حساب سے اس کے حروف 1326 ہوتے ہیں اوراس حساب سے حافظ صاحب کے پیرو مرشد پیر سید غلام حیدر علی شاہؒ کی ہجری سنمیں تاریخِ وصال نکل آتی ہے۔
”جواں مغفور“ حروف ابجد کے حساب سے اس کے حروف 1386ہوتے ہیں اور اس حساب سے حافظ نذر حسین شاد فاروقیؔ کے پیرو مرشد پیر سیدمحمد فضل شاہ ؒ کی ہجری سن میں تاریخِ وصال نکل آتی ہے۔
نمونہ شاعری:
ترمیم٭ فارسی
ترمیممثنویئ مولوی عبد المجید
ہست بہرِ اند فاع چشم دید
کہ سماعت رہن مقدمہئ مدعی
تحت قانونِ شریعت احمدیؐ
غیر تحقیقات و تنقید اے غلام
کردہ آید یا نہ میگو والسلام
ہاں کہ تحقیقش ضرور است و ضرور
حکم حق فتبینوا اندر فتور
پس بکن تحقیق و تدقیق اے مجید
ہم وجوہاتش بیاں می کن مزید
ہست گر قابل سماعت پس شنو
ورنہ خارج ساز و گو آں را برو
کور ذوقاں وحی حق بہ گزاشتد
دل ز آیات خدا برداشتد
می کنند تاویل ہا دور از صواب
مثل ایشاں مثنوی گوید جواب
لیک مادہئ مثنوی تاریخ و قدر
مادہئ ایشاں خیالا تست و عذر
در محمدؐ و در احمدؐ اے مجیدؔ
قدرتے مادہ نہادہ آں وحید
ہم چو مادہ سائنسے اندر زمیں
پیشتر بنہادہ رب العالمین
تا کہ آں مادہ شہادت می دہد
چند چنداں سوئے قدرت حق رمد
ہم چنیں ایں مادہ اندر ہر دو اسم
می کند تردید چنداں چند قسم
تا کہ لغویت ز تاویلاتِ شاں
چوں لعاب فوق شاں بر ذات شاں
خود بخود افتد بروئے شاں نہ فوق
تاکہ شرمندہ شود آں کور ذوق
٭ اردو
ترمیممیں اک گمنام انساں ہوں کوئی مجھ کو نہ پہنچانے
میں خود قاصر ہوں اپنے جاننے سے یہ خدا جانے
اگر میں خود کو خود پہچانتا پھر تھی ضرورت کیا
کہ مجھ کو کوئی پہچانے کہ سیرت کیا! ہے صورت کیا
غضب یہ ہے کہ میں خود معرفت اپنی سے قاصر ہوں
میں خود خسران میں ہوں اس لیے ہر وقت خاسر ہوں
مگر مجھ کو ہے پھر بھی خاص اطمینانِ قلب حاصل
کہ میرے جاننے والے میں کوئی حد نہیں فاصل
جہاں میں ہوں وہاں پر وہ رگِ جاں سے بھی اقرب ہے
کیا پھر خوف ہے گر دشمنِ جاں مار و عقرب ہے
تملّق بازیوں سے پھر تعلق کی ضرورت کیا
اگر دل صاف ہو جائیں تو پھر ذکرِ کدورت کیا
مگر جب تک گروہ احولوں سے جفت بازی ہے
ندائے مشرکانہ میں ضروری شرک سازی ہے
یہی تخلیط عنصر باعثِ پرواز روحی ہے
یہی تخلیط عنصر باعثِ کیفِ صبوحی ہے
صبوحی طلب عیش و مستیئ لذّاتِ نفسانی
صبوحی طلب کیفِ حالتِ وجدان روحانی
پنجابی
ترمیمجنمو جنم پکاریا، جنم پاپاں دا مول
کُتے گدڑ بلیاں، بھوندا مندی سول
جوناں بن بن بھوگدا، جون نہ سیتی راس
رد ہویا درگاہ تھیں، پھردا پاسو پاس
جس نے اک کر سمجھیا، رب سچا کرتار
محکم قدم نہ ڈولیا، رب نوں رب پکار
اوہ نہ جوناں بھوگدا جنم ہویا اس راس
جیوں نانکؔ فرمایا شبد سنو سب داس
”مسلمان جو مسلمی، جسے وچ مرن
قائم ہون قیامتے، فیر نہ جنم دھرن“
ایکو ایک پکاریا، ہور شریک نہ کو
اوہا سڑسن نرگ وچ، جنہاں سمجھے دو
پاپی پاہن پوجدے، کر پرمیشر روپ
شبد سناون آرتی، دے لوباناں دھوپ
دے لوباناں دھوپ، سناون آرتی
ایہہ نہیں معلوم، جو گئی اکارتی
برتا گئی اکارت، پاہن پوجدے
نہ اوہ کتھن آپ، نہ کتھیا بوجھدے
پاہن روپ نہ دسدا، تن من بھریا کھوٹ
کیا پاہن کا پوجنا، کیا پاہن کی اوٹ
کیا پائن کی اوٹ، جو چلے چائیاں
نہ اس نین نہ کان، نہ سنے بلائیاں
کیا پاہن کا پوجنا، کیا پاہن کا در
پرمیشر کی پاہنوں، ملے نہ کچھ خبر
پاہن اندر پاپیا، ملے نہ پربھو جات
اوہ پرمیشر بے مثل، زندہ سدا حیات
پاہن روپ نہ اس دا، نہ سورج چن نار
ایہہ سب جوتاں اس دیاں، اوہ جگا ونہار
گگن پتال نہ مٹدا، اس دا روپ انوپ
دل مومن وچ وسدا، بھال نہ روپ کروپ
جوتاں اندر جات نہ، جاتوں جوت نہ دور
جوت نہ پوجیں مورکھا، جات پچھانی نور
جوتاں جگن جگائیاں، خوف ہمیش زوال
جات نرنجن مورکھا، دائم لازوال
لازوال ہمیش نہ، خوف زوال ہے
نہ وچ نیر نہ نار، نہ گگن پتال ہے
نہ وچ وقت زمان، نہ کسے مکان دے
ایہہ اس آپ بنائے، سارے جاندے
دھرت اگاسوں پہلے، اوہ موجود سی
نہ اس بودوں سود، نہ سودوں بود سی
نہ اس وقت زمان، نہ تھاں مکان سی
نہ ایہ انبر دھرت، نہ ہور سامان سی
جیوں ہن ہے موجود، تینویں موجود سی
بے زمان مکان سنے، سب جود سی
وسدا لامکان، مکان بغیر سی
نہ ویلا نہ وقت، نہ کعبہ دیر سی
نہ رشی نہ منی، نہ پرش اتار سن
نہ اندر نہ دہول، نہ ایہ وہار سن
نہ کرشن نہ رام، نہ بید پران سن
نہ تورات انجیل، زبور قرآن سن
نہ پنڈت نہ پوتھی، نہ ایہ گیان سن
نہ اسقف نہ ملاں، نہ ایہ بیان سن
نہ ایہ گیان اگیان، نہ ودیا بدھ سی
نہ ایہ پریم پیار، نہ ٹنٹا جدھ سی
نہ ایہ دکھ نہ سکھ، نہ موت حیات سی
نہ ایہ نیندر بھکھ، نہ خوف نجات سی
نہ عاشق معشوق، نہ ہجر وصال سن
نہ ایہ روپ انوپ، نہ حسن جمال سن
نہ ایہ کام کروہد، نہ لوبھ ہنکار سن
نہ ایہ لالچ حرص، نہ شہر بازار سن
نہ ایہ پاپ نہ پن، نہ خوف عذاب سی
نہ ایہ سرگ نہ نرگ، نہ خوف حساب سی
نہ انبر نہ دھرت، نہ ایہ اجرام سن
نہ ارواح نفوس، نہ ایہ سب کام سن
نہ حوراں غلمان، ملک انسان سن
نہ ایہ بھوت چڑیل، تے جن شیطان سن
نہ پرچا پت گربھ، نہ لکھ پرکھ سی
سبھناں کولوں وکھ، فقط الکھ سی
جیوں ہن ہے موجود، تینویں موجود سی
اس نوں کجھ پروا، نہ غیر وجود سی
قدرت عظمت شان، جلال کمال سی
نہ اس حرص کمال، نہ خوف زوال سی
بے نیاز قدیم، نہ لوڑ ندیم سی
حیی قیوم قدیر، سمیع علیم سی
اسماں صفتاں نال، قدیم قدیر سی
کوئی نہ اس دے وانگ، اوہ بے نظیر سی
نہ اس دا آغاز، نہ انتہا ہے
سبھناں دا اوہ مالک، سنے بقا ہے
۔۔۔۔
پنجابی
ترمیمکستوری تے عطر گلابوں مکھ دھونواں لکھ واری
کُرلی تے مسواکوں کریئے دور آلائش ساری
تاں بھی نئیں زبان اساڈی نام گھنن دی کاری
پاکی تے ناپاکی کتھے فضل کرے جد باری
سر نینواں کر عجز نیازوں آکھاں حمد الٰہی
اسدا نام جدہے چت آوے ہووے دور سیاہی
حمد اوہدی کر جانے کہڑا جس دی حد نہ کائی
خاص قریبی بھج بھج تھکے اوڑک انت نہ پائی
ہک کن تھیں جس پیدا کیتے جون ہزار اٹھاراں
عقل فکر وچ فکروں باہر دسن ربدیاں کاراں
دوحرفاں تھیں پیدا ہویا کی انسان بیچارا
حمد ثناؤں پاک الٰہوں سخن کرے ورتارا
ایپر قدر بموجب اپنے ہر ہک زور لگاندا
جو کجھ عقل فکر وچ آوے باندا کر دکھلاندا
(٭……٭……٭)
آ قلمیں لکھ مدح مبارک پاک نبی سرور دی
دو جگ اندر خاص اساں نوں آس جنہاندے در دی
جبرائیل جیہے جس چاکر ٹردے پکڑ رکاباں
صلی اللہ علیہ وسلم آل سنے اصحاباں
خلق تمامی نور اہدے تھیں اوہ خالق دے نوروں
اس دے جیڈ نہ ہور کسے نوں عزت ملی حضوروں
ذات الٰہوں پچھے بزرگ ساری خلقت نالوں
ہور دسو کی قصہ کریئے اس دے شان کمالوں
چار اکابر یار برابر اک تھیں اک چڑہندے
خاص محبت پاروں گویا پنج جُسے ہک جندے
ہک صدیق غریق محبت ٹھیک رہیا ہر ولوں
ثانی اثنین فی الغار سمجھو ہکے گلوں
دوجا عمر خطاب ثوابوں خوب جواب سناوے
واہ فاروق انصاف اہدا تک ہر اک سیس نواوے
تریجا یار عثمان غنی ہے ذی النورین پیارا
سیپارہ دل نال محبت جمع کیتوس سی پارہ
چوتھا شاہ علی مردانہ یار پیارا بھائی
حیدر صفدر ہیبت جس دی خلقت کل نوائی
انہاں دے حسن پیارے بیٹے زہر پیالا پیتا
من رضا ربانی سر پر دتا دم چوپیتا
پاک امام حسین جنہاں دے چھوٹے لعل پیارے
خویش قبیلے پت بھتیجے راہ مولا دے وارے
(٭……٭……٭)
ست جگی مہاتما ملن مشکل اس کلجگ دے دوران اندر
جہڑا بھجن دی لگن وچ مست رہ کے رکھے شری بھگوان دھیان اندر
سدھ آتما یاد پرماتما تھیں جیون خاتمہ نور ایمان اندر
دھرم یوگ سنگ بھوگنے سب بھوگے، درد سوز نیاز دی شان اندر
ہر وقت حاضر ناظر رب جانے پاوے گرہ نہ گرہی گذران اندر
سینہ درد کولوں مالا مال ہووے، ودہے ذوق تے شوق ہر آن اندر
سد ا لان الان تے کھان سادہ، بولے تول کے بول میزان اندر
’ہتھ کا ر ولے دل یار ولے‘ بزم، رزم کھیتی یا دکان اندر
تلقین اپدیش درویش تائیں سدا کر گیان دہیان اندر
مالا مال پریم دے نال مالا تسبی تسبیح سبحان اندر
منکے پھیر من کے کڈہے پھیر من کے، وسن یار من کے شارستان اندر
انت کرن دی ورن وچ ہووے سچا ترن طاقتاں بحرِ گیان اندر
رگ رگ اندر ’ست‘ رہے وسدا ست سمرے جان دی جان اندر
لوہبھ، موہبھ، ہنکار وسار دیوے، جام کام نہ پوے گمان اندر
من راگ ویراگ تیاگ سن کے پوے جاگ جینویں موتی کان اندر
سماں دھان، اپرام، شردہا، شم دم، تتک شا رکھے سکھ مان اندر
کھٹ سمّتی، ودّیا دئے ست گر، جہیڑا ہے بیٹھا ودیا وان اندر
دکھ سکھ ہے اپنی من برتی، من تیر تھیں کرے اشنان اندر
جیکر پریم پرماتماں نال ہووے، کعبہ نظر آوے اس تھان اندر
دنیا دکھ نگری اندر سکھ ناہیں، رکھے رُکھ منکھ نقصان اندر
جیکر اس طرح زندگی کر ے پوری، گیتا من دی پڑھے قرآن اندر
فانی بدل چولا فیر رہے زندہ، مسئلہ ویکھ مجیدؔ فرقان اندر
کتابیات
ترمیممحمد عبد المجید، حافظ، مولانا، آئینہ حقیقت نما (قلمی)، مملوکہ محمد فاروق حیدر فضل (نبیرہ محمد حافظ عبد المجید)، کڑی شریف، جہلم،
محمد عبد المجید، حافظ، مولانا، ابرنیساں، لاہور: سانجھ پبلشرز 2014ء
محمد عبد المجید، حافظ، مولانا، تذکرۃ الحسن، لاہور: سانجھ پبلشرز 2016ء
کھوج (چھماہی) جلد 38، شمارہ 2، مسلسل شمارہ نمبر 76، شعبہ پنجابی یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور
محمد عبد المجید، حافظ، مولانا، ثنائے محمد
محمد عبد المجید، حافظ، مولانا، جھوک مسلم
محمد عبد المجید، حافظ، مولانا، جمال حیدری
محمد عبد المجید، حافظ، مولانا، پنج گنج اسلام
محمد عبد المجید، حفظ، مولانا، ثنائے محمد