ایرانی مظاہرے، 2017ء-18ء
سنہ 2017–18 میں ایرانی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز ایران کے متعدد شہروں میں جاری ہے۔ مظاہروں کا آغاز ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد میں 28 دسمبر 2017ء کو ہوا۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر حسن روحانی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر «گرانی نہیں » کے عنوان سے شروع ہونے والے احتجاج کا یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے حکومت مخالف سیاسی نعروں تک پہنچ گیا۔
ایرانی مظاہرے، 2017ء-18ء | |||
---|---|---|---|
[[File:|frameless|upright=1.35]] کرمانشاہ میں 29 دسمبر 2017ء کو جاری مظاہرے | |||
تاریخ | 28 دسمبر 2017ء – جاری (2525 دن) | ||
مقام | |||
وجہ |
| ||
مقاصد | مذہبی حکومت میں تبدیلی، دیرینہ حکومت رہنما خامنہ ای کی برطرفی[3][4][4][5][6][7] | ||
طریقہ کار | مظاہرے، فسادات، سول نافرمانی | ||
صورتحال | جاری | ||
تنازع میں شریک جماعتیں | |||
| |||
مرکزی رہنما | |||
| |||
تعداد | |||
| |||
متاثرین | |||
گرچہ ان مظاہروں میں حکومت مخالف نعرے لگائے جا رہے ہیں، تاہم ایرانی کے متعدد افراد، جماعتیں اور ذرائع ابلاغ انھیں درست سمجھ رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ عوام سے مذاکرات کرے نیز عوام کی رہنمائی بھی رہے ہیں تاکہ دشمنان ایران ان مظاہروں سے فائدہ نہ اٹھائیں۔
تفصیلات
ترمیم28 ستمبر 2017ء کو ایرانی شہر مشہد میں چند ناکام مالی اداروں نے بے روزگاری، غربت اور افراط زر کے خلاف مظاہرے شروع کیے، اس دوران میں ان کے مطالبات محض اقتصادی نوعیت کے تھے۔ بعد ازاں سماجی ذرائع ابلاغ پر ان مظاہروں میں «گرانی نہیں » کے عنوان سے شرکت کی دعوت دی گئی، لیکن جلد ہی ان مظاہروں کا دائرہ وسعت اختیار کر گیا اور حکومت مخالف اور سیاسی نعرے بازی شروع ہو گئی۔ چنانچہ جو افراد پہلے گرانی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے جب انھوں نے ان سیاسی نعروں کو دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے۔ ان مظاہروں میں افراط زر اور گرانی کے خلاف لگائے جانے والے نعروں میں «مالدار افراد عوام کے لیے باعث ننگ»، «گرانی مردہ باد»، «بے روزگاری مردہ باد» قابل ذکر ہیں۔ نیز حکومت مخالف نعرے کچھ اس طرح تھے : «روحانی مردہ باد، آمر مردہ باد»، «ہمیں اسلامی جمہوریہ نہیں چاہیے » وغیرہ۔ اسی طرح بعض مظاہرین نے اپنے بینروں پر ایران کی عرب ممالک میں مداخلت کے خلاف اظہار نفرت درج کیا تھا مثلاﹰ «سوریہ سے واپس آؤ اور ہماری فکر کرو» اور «نہ لبنان نہ غزہ۔۔ بس ایران» وغیرہ۔ خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق یہ مظاہرے صوبہ خراسان کے دار الحکومت مشہد سے بڑھ کر نیشاپور تک پہنچ گئے ہیں۔
گرفتاریاں
ترمیم29 دسمبر 2017ء کو ایک نیم سرکاری خبر رساں ادارے فارس نے بتایا کہ گذشتہ رات مظاہرے میں شامل 52 افراد کو پولس نے گرفتار کیا ہے۔
خط زمانی
ترمیمیہ مظاہرے ایران بھر میں ہجوم کی صورت میں شروع ہوئے، بشمول مشہد، جو ایران کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ دیگر شہروں میں نیشاپور، کاشان، کرمان، کرمانشاہ، کاشمر، رشت، اصفہان، اراک، بندر عباس، اردبیل، قزوین، ہمدان، ساری، ایران، بابل، ایران، آمل،شاہین شهر، شہر کرد، شیراز، خرمآباد، زنجان، گرگان، زاہدان، ارومیہ (ایران)، دورود، یزد اور شاہ رود شامل ہیں۔[15]
پورے ملک میں کئی مظاہرین "اپنی روح کو برکت دو" اور رضا شاہ پہلوی کی تعریف میں کئی دیگر نعرے لگا رہے ہیں،[16][17][18][19] رضا شاہ کو انقلاب ایران کے دوران میں معزول کر دیا گیا تھا، اس انقلاب کے نتیجے میں جدید اسلامی ایران کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ مظاہرین محمد رضا شاہ پہلوی [20] اور اس کے بیٹے اور سابق شاہی وارث جلاوطن رضا پہلوی کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ مظاہرین طویل عرصے سے رہنما علی خامنہ ای سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے منصب سے دستبردار ہو جائیں،[3][17] نیز خامنہ ای کے پوسٹر گرائے گئے[5] اور تہران میں خامنہ ای کے پوسٹر کو آگ لگائی گئی۔[21] مظاہرین نعرے لگا رہاے ہیں : “خامنہ ای، شرم کرو اور ملک کی جان چھوڑو!”[17] اور “آمر مردہ باد۔”[7] مظاہرین کا ایک نعرہ یہ بھی ہے"لوگ کنگال ہیں اور ملا خداؤں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔”[22]
حکومتی رد عمل
ترمیمانگریزی کی تدریس پر پابندی
ترمیمایران نے بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد پرائمری اسکول میں انگریزی کی تعلیم پر پابندی لگا دی۔ خامنہ ای نے دعوی کہ انگریزیک زبان مغربی اقدار کی "ثقافتی یلغار" کی راہ ہموار کر رہی ہے۔[23][24]
تصاویر
ترمیم-
30 دسمبر 2017ء فردوسی چوک پر
-
برلن میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے ایرانی لوگ، رضا شاہ پہلوی کے دور کا ایرانی پرچم لیے احتجاج کر رہے ہیں
-
درود کے ایک بینک جسے مظاہرین نے آگ لگائی
-
حکومت کی حمایت میں صوبہ ہمدان میں نکلنے والا جلوس
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ Reuters (30 دسمبر 2017)۔ "Protests over alleged corruption and rising prices spread to Tehran"۔ دی گارڈین۔ 29 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2017
- ↑ Phil Gast and Dakin Andone, CNN۔ "Here's why the Iran protests are significant"۔ CNN۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2018
- ^ ا ب Thomas Erdbrink (30 دسمبر 2017)۔ "Iran Confronts 3rd Day of Protests, With Calls for Khamenei to Quit"۔ 30 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ – NYTimes.com سے
- ^ ا ب "Iranian protesters attack police stations, raise stakes in unrest"۔ 2 جنوری 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2018 – Reuters سے
- ^ ا ب Laura Smith-Spark, Dakin Andone and Jennifer Hauser, CNN۔ "Iran warns against 'illegal' gatherings after protests"۔ CNN۔ 30 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2017
- ↑ "Protesters set fire to picture of leader Khamenei in Tehran – Daily Mail Online"۔ Mail Online۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2018
- ^ ا ب Saeed Kamali Dehghan، Emma Graham-Harrison (31 دسم 2017)۔ "Iranians chant 'death to dictator' in biggest unrest since crushing of protests in 2009"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2018 – www.theguardian.com سے
- ↑ حسن قلي پور خطير (1 جنوری 2018)۔ "تصویری متفاوت از نیروهای یگان ویژہ در تهران - - " دهمین - تصویری متفاوت از نیروهای یگان ویژہ در تهران"۔ موتور جستجوی قطرہ (بزبان فارسی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2018
- ↑ Radio Farda (30 دسمبر 2017)۔ "Latest On Continuing Unrest In Iran – Basij Enters The Foray To Crack Down"۔ RFE/RL۔ 31 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2018
- ↑ Crisis of expectations: Iran protests mean economic dilemma for government آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ uk.reuters.com (Error: unknown archive URL)، Reuters, 1 جنوری 2018
- ↑ 22 people died,[1] 2 of which were security forces members,[2][3] leaving a total of 20 protesters reported dead
- ↑ "Ex-Iranian president, seen by some as moderate, condemns violence and US"۔ 2 جنوری 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2018
- ↑ Saeed Kamali Dehghan Iran correspondent، agencies (2 جنوری 2018)۔ "Nine more reported dead in Iran as protests enter sixth day"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0261-3077۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2018
- ↑ "Iranian policeman killed, three hurt in protests: police spokesman"۔ 1 جنوری 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2018 – Reuters سے
- ↑ "Iranians protest against high prices in Mashhad"۔ بی بی سی نیوز۔ 28 دسمبر 2017۔ 29 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2017
- ↑ "UPDATE 10-Iran protesters rally again despite warning of crackdown"۔ 1 جنوری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب پ "Iran protesters rally again despite warning of crackdown"۔ 1 جنوری 2018۔ 1 جنوری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ – Reuters سے
- ↑
- ↑ "Rouhani urges against violence amid anti-government protests"۔ PBS NewsHour۔ 1 جنوری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Two reportedly killed in Iran protests as nation clamps down"۔ 31 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Protesters set fire to picture of leader Khamenei in Tehran – Daily Mail Online"۔ Mail Online۔ 1 جنوری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑
- ↑ "After mass protests, Iran bans English in schools to fight Western 'cultural invasion'"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2018
- ↑ "Iran Bans English in Primary Schools After Leaders' Warning"۔ Voanews.com۔ 4 نومبر 2017۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 جنوری 2018
بیرونی روابط
ترمیم- ویکی ذخائر پر 2017–18 Iranian protests سے متعلق تصاویر