سودہ بنت زمعہ

اسلامی پیغمبر محمد عليه الصلاة والسلام کی بیوی

ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ(61ق.ھ / 23ھ) ازواج مطہرات میں سے ایک ہیں۔آپ ابتدائے نبوت میں مشرف بہ اسلام ہوئیں۔آپ حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شریک تھیں۔حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں۔ آپ نے 23ھ میں وفات پائی ۔

سودہ بنت زمعہ
(عربی میں: سودة بنت زمعة‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 589ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 ستمبر 674ء (84–85 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات سکران بن عمرو (–)[1]
محمد بن عبداللہ (619–632)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ صحابی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤمنین کی والدہ
ام المؤمنین
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)

امہات المومنین

نام و نسب

سودہ نام تھا، قبیلہ عامر بن لوی سے تھیں، جو قریش کا ایک نامور قبیلہ تھا، سلسلہ نسب یہ ہے، سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبدود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر ابن لوی، ماں کا نام شموس تھا، یہ مدینہ کے خاندان بنو نجار سے تھیں، ان کا پورا نام و نسب یہ ہے، شموس بنت قیس بن زید بن عمرو بن لبید بن فراش بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار۔[3]

خاندانی پس منظر

آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب مبارک سے” لُوَیْ“ میں جا کر مل جاتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہا کے نانا قیس بن زید، آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم کے پردادا ہاشم کے” برادرِ نسبتی“ تھے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ یثرب کے معروف قبیلہ بنو نجار کے چشم و چراغ قیس بن زید کی ہمشیرہ سلمیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا ہاشم کی شادی ہوئی تھی۔[4][5]

ولادت

آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے 40 سال قبل ہوئی۔[6]

پاکیزہ مزاجی

آپ رضی اللہ عنہا کے اخلاق و مناقب کے ابواب میں محدثین کرام نے بکثرت روایات نقل کی ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا بہت پاکیزہ مزاج کی حامل تھیں۔[7]

نکاح اول

آپ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد سکران بن عمرو بن عبد شمس سے ہوا۔ حضرت سکران رضی اللہ عنہ کا قدیم الاسلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شمارہوتا ہے۔ حضرت سکران رضی اللہ عنہ سے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا ایک بیٹا عبد الرحمٰن پیدا ہوا۔ جو جنگ جلولا میں شہید ہو گئے۔سکران بن عمرو سے جو ان کے والد کے ابن عم (چچا کے بیٹے) تھے ، شادی ہوئی ۔[8]

قبول اسلام

ابتدائے نبوت میں مشرف بہ اسلام ہوئیں، ان کے ساتھ ان کے شوہر بھی اسلام لائے۔ اس بنا پر ان کو قدیم السلام ہونے کا شرف حاصل ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دین مکہ کے ہر گھر تک پہنچ رہی تھی، اسی دوران سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا اپنے خاندان میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون ہیں۔اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کرنا اور پھر اس کا اظہار کرنا بہت مشکل تھا، جو کوئی بھی اسلام قبول کرتا تو اس کے گھروالے، اس کا خاندان اور سرداران مکہ مل کر اس مسلمان کو قبول اسلام کی پاداش میں اپنے ظلم کا نشانہ بناتے اور انسانیت سوز تکالیف سے گزارتے تاکہ کسی طریقے وہ اسلام کو چھوڑ دے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے جب اسلام قبول کیا تو کفار مکہ کی طرف سے آپ کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑااور ایک عرصے تک آپ ان سب مظالم کو سہتی رہیں۔ قبول اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہا ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہیں بلکہ اسلام کی مبلغہ بن گئیں اور اپنے خاندان میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی،چنانچہ آپ کی پُر اثر تبلیغ سے متاثر ہو کر آپ کے شوہر نامدار مسلمان ہو گئے۔مورخین نے لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی داعیانہ و مبلغانہ مساعی جمیلہ کی بدولت عبد اللہ بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ، حاطب بن عمرو رضی اللہ عنہ، سلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ، فاطمہ بنت علقمہ رضی اللہ عنہا، مالک بن زمعہ رضی اللہ عنہ، ابو صبرہ بن ابی رہم رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔حبشہ کی پہلی ہجرت کے وقت تک سودہ اور ان کے شوہر مکہ ہی میں مقیم رہے، لیکن جب مشرکین کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہ رہی اور مہاجرین کی ایک بڑی جماعت ہجرت کے لیے آمادہ ہوئی تو ان میں سودہ اور ان کے شوہر بھی شامل ہو گئے۔[9] [10]

ہجرت حبشہ اولیٰ

جب کفار مکہ کے مظالم کا سلسلہ نہ تھما تو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت ملی یہ نبوت کے پانچواں سال رجب المرجب کا مہینہ تھا، 11 مرد اور 4 خواتین پر مشتمل ایک قافلہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا۔ اس دوران آپ رضی اللہ عنہا اور آپ کے شوہر حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مکہ میں رہنے کو ترجیح دی اور حبشہ ہجرت نہ فرمائی۔

ہجرت حبشہ ثانیہ

اس کے ایک برس بعد نبوت کے چھٹے سال میں دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا چنانچہ اس بار 20 خواتین اور 83 مرد وں پر مشتمل قافلہ حبشہ پہنچا۔ اس قافلہ سخت جاں میں سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اور آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت سکران رضی اللہ عنہ نے بھی شامل ہونے کا ارادہ کیا، آپ رضی اللہ عنہا کے قبیلہ والوں نے پوری کوشش کی کہ آپ ہجرت نہ کرنے پائیں اور آپ کے خاندان کا کوئی فرد آپ کے ہمراہ ہجرت نہ کرے، لیکن کفار مکہ کی خواہشات پر اوس پڑ گئی اور آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کے شوہر حضرت سکران رضی اللہ عنہ اور خاندان کے کئی دیگر افراد ہجرت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان ہجرت کرنے والے مہاجرین میں سے کچھ تو واپس مکہ تشریف لے آئے سیدہ سودہ اور ان کے شوہر بھی واپس مکہ مکرمہ لوٹ آئے۔جبکہ بعض لوگ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ ہی میں مقیم رہے اور وہ غزوہ خیبر کے موقع پر مدینہ منورہ پہنچے لیکن اکثر لوگ ان سے پہلے ہی مکہ مکرمہ واپس آگئے تھے ان میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔[11] .[12]

پہلا خواب

حبشہ میں کچھ عرصہ گزرانے کے بعد آپ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر حضرت سکران سمیت واپس مکہ تشریف لائیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو ایک خواب آیا، اس میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ رضی اللہ عنہا کی گردن پر قدم مبارک رکھے۔آپ رضی اللہ عنہا نے اس خواب کا ذکر اپنے شوہر حضرت سکران رضی اللہ عنہ سے کیا، حضرت سکران رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: یوں لگتا ہے کہ میں بہت جلد فوت ہو جاؤں گا اور تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بن جاؤ گی۔

دوسرا خواب

ایک اور خواب بھی آپ رضی اللہ عنہا کو آیا اس میں آپ نے دیکھا کہ چاند ان کی آغوش میں آ کر گرا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اس خواب کا تذکرہ بھی اپنے شوہر نامدار حضرت سکران رضی اللہ عنہ سے کیا۔ حضرت سکران رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس خواب میں یہ اشارہ مل رہا ہے کہ میں عنقریب فوت ہوجاؤں گا اور میرے بعد تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل کرو گی۔[13]

سکران رضی اللہ عنہ کی وفات

حبشہ میں کچھ عرصہ تک رہنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ہمراہ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئیں۔ واپس آ کر کچھ دنوں بعد حضرت سکران رضی اللہ عنہ کی طبیعت ناساز رہنے لگی۔ چنانچہ وہ اسی بیماری میں انتقال فرما گئے۔

شادی کی ضرورت

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر نامدار کی وفات پر صدمے سے دو چار تھیں اور دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جانثار زوجہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات پر پریشان تھے۔ کسی تحریک سے وابستہ قیادت کو گھریلو ذہنی سکون کی کتنی ضرورت ہوتی ہے؟؟یہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کی سب سے بڑی عالمگیر دینی، سماجی، معاشرتی اور انسانی تحریک کی تنِ تنہا قیادت فرما رہے تھے اور کفار ِمکہ کی اذیتوں کو حوصلہ مندی اور صبر وتحمل سے برداشت کر رہے تھے۔ ایسے حالات میں تسلیاں دینے اور دکھ بانٹنے والی اہلیہ کی وفات، گھر میں اکیلی بچیوں کی تربیت اور دیکھ بھال اور سب سے بڑھ کر خدا کے دین کو ساری دنیا میں پھیلانے کی منظم منصوبہ بندی اور پیش رفت۔ یہ سب مسائل اس بات کے متقاضی تھے کہ آپ کی ذہنی یکسوئی اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ایسی رفیقہ حیات ہو جو بچوں کی پرورش، آپ سے دکھ درد بانٹنا اور اسلام کی عالمگیر محنت میں دست بازو بنے۔[14][15]

آپﷺ سے نکاح

سودہ کو تمام ازواج مطہرات میں یہ فضیلت حاصل ہے کہ خدیجہ بنت خویلد کے بعد سب سے پہلے وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت پریشان و غمگین تھے، چنانچہ ان حالات کے پیش نظر حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو ایک غمگسار رفیقہ حیات کی ضرورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں! کیونکہ پہلے تو گھر بار کا انتظام اور بال بچوں کی پرورش سب خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کیا کرتی تھیں۔ اس پر خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا میں آپ کے لیے کہیں نکاح کا پیغام دے دوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالکل مناسب بات ہے خواتین ہی اس کام کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس جگہ پیغام دینے کا خیال ہے؟خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ کسی کنواری سے نکاح فرمانا پسند کریں تو آپ کے نزدیک تمام مخلوق میں جو سب سے زیادہ محبوب ہے ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ، اُس کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے موجود ہے ان سے نکاح فرمالیں اور اگر کسی بیوہ سے نکاح فرمانا چاہیں تو سودہ بنتِ زمعہ رضی اللہ عنہا موجود ہے جوآپ پر ایمان بھی لا چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں جگہ پیغام دے دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اجازت ملی تو سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا پہلے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر خیر وبرکت کے دروازے کھول دیے ہیں، میں آپ کے پاس جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح لائی ہوں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائی ہوں، وہ میرے ہادی بھی ہیں اور میرے رہنما بھی، میری ذات کے متعلق انھیں مکمل اختیار ہے۔ وہ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔“ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدہ سودہ اس پر رضا مند ہیں تو وہ آپ رضی اللہ عنہا کے بوڑھے والد زمعہ بن قیس کے پاس گئیں اور جا کر کہا کہ میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب کی طرف سے آپ کی بیٹی سودہ کے لیے نکاح کا پیغام لائی ہوں۔ زمعہ نے یہ سن کر کہا: ھو کفو کریم۔ بے شک میری بیٹی کی خوش قسمتی ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس رشتے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔ لیکن آپ سودہ بنت زمعہ کی رائے بھی معلوم کر لیں۔ اس پر سیدہ خولہ بنت حکیم نے کہا کہ میں نے ان سے بات کر لی ہے اور انھیں یہ پیشکش قبول ہے۔ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے وہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے لگے جو آپ نے حضرت سکران رضی اللہ عنہ کی وفات سے پہلے دیکھے تھے۔ زمعہ بن قیس نے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی اجازت طلب کی اور کہا:اے میری لخت جگر! خولہ بنت حکیم مجھ سے کہتی ہیں کہ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب نے تجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے کیا تو اس کے لیے راضی ہے؟ دیکھ بیٹی! میرے نزدیک تو وہ نہایت عزت دار گھرانہ ہے اگر تو بھی راضی ہو تو میں اس معاملہ کو پکا کر دوں؟ سیدہ سودہ بنت زمعہ نے جواب دیا کہ جی ابو جان ! میری رائے بھی یہی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے والد زمعہ بن قیس نے آپ کا نکا ح پڑھایا اور 400 درہم حق مہر مقرر ہوا۔نکاح کے بعد عبد اللہ بن زمعہ سودہ کے بھائی جو اس وقت کافر تھے، آئے اور ان کو یہ حال معلوم ہوا تو سر پر خاک ڈال لی کہ کیا غضب ہو گیا، چنانچہ اسلام لانے کے بعد اپنی اس حماقت و نادانی پر ہمیشہ ان کو افسوس آتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجۃ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رمضان 10نبوی میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا یہ نکاح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی پہلے فرمایا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آگئیں اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ [16] سودہ کا نکاح رمضان سنہ دس نبوی میں ہوا اور چونکہ ان کے اور امی عائشہ کے نکاح کا زمانہ قریب قریب ہے، اس لیے مؤرخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے، ابن اسحاق کی روایت ہے کہ سودہ کو تقدم ہے اور عبد اللہ بن محمد بن عقیل ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو مقدم سمجھتے ہیں۔[17] بعض روایتوں میں ہے کہ سودہ نے اپنے پہلے شوہر کی زندگی میں ایک خواب دیکھا تھا ، ان سے بیان کیا تو بولے کہ شاید میری موت کا زمانہ قریب ہے اور تمھارا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گا، چنانچہ یہ خواب حرف بہ حرف پورا ہوا۔[18] [19] [20]

ہجرتِ مدینہ

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تین سال رہیں اس کے بعد اللہ کی طرف سے ہجرت مدینہ کا حکم آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ طیبہ ہجرت فرما گئے۔ چونکہ حالات اس قدر سنگین ہو چکے تھے کہ اس وقت اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے جانا خطرے سے خالی نہیں تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر والوں کو ساتھ نہ لے جا سکے۔ چھ ماہ تک سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بچیوں کی دیکھ بھال، تربیت کی کٹھن ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کرتی رہیں۔ ایک سن رسیدہ خاتون کے لیے اپنی سوتیلی اولاد سے شفقت و محبت کا برتاؤ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے مگر آپ رضی اللہ عنہا نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادیوں کے ساتھ باوجود یکہ وہ سوتیلی اولاد تھیں، انھیں حقیقی ماں جیسا پیار دیا۔ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کم و بیش پانچ چھ سال تک سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی زیرِ تربیت رہیں لیکن ساری زندگی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیشں نہیں آیا، نہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اور نہ ہی سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کی طرف سے۔ مدینہ طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی تعمیر کی اور ساتھ ہی دو مکان بھی تعمیر کرائے۔ ا س کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان 1 ہجری کو حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ مقامِ قدید قُدَیْد……ق پر پیش اور پہلے د پر زبر کے ساتھ پڑھنا ہے سے مزید ایک اور اونٹ بھی خرید لینا تاکہ سیدہ سودہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما آسانی سے سوار ہو سکیں، چنانچہ زید بن حارثہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہما حسب حکم مکہ آئے اور خاندان نبوت کو بحفاظت ہمراہ لے گئے۔ سنہ دس ہجری میں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو سودہ بھی ساتھ تھیں، چونکہ وہ بلند و بالا و فربہ اندام تھیں اور اس وجہ سے تیزی کے ساتھ چل پھر نہیں سکتی تھیں۔ اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ اور لوگوں کے مزدلفہ سے روانہ ہونے کے قبل ان کو چلا جانا چاہیے، کیونکہ ان کو بھیڑ بھاڑ میں چلنے سے تکلیف ہو گی۔[21] [22]

:[23]

وفات

ایک دفعہ ازواج مطہرات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں، انھوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سے سب سے پہلے کون مرے گا، فرمایا جس کا ہاتھ سب سے بڑا ہے، لوگوں نے ظاہرہ معنی سمجھے، ہاتھ ناپے گئے تو سب سے بڑا ہاتھ سودہ کا تھا[24] لیکن جب سب سے پہلے زینب بنت خزیمہ کا انتقال ہوا۔ تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی بڑائی سے آپ کا مقصد سخاوت و فیاضی تھی، بہرحال واقدی نے سودہ کا سال وفات 54 ہجری بتایا ہے[25] لیکن ثقات کی روایت یہ ہے کہ انھوں نے عمر فاروق کے اخیر زمانہ خلافت میں انتقال کیا۔[26] عمر نے سنہ 23ھ میں وفات پائی ہے اس لیے سودہ کی وفات کا سال 22ھ ہو گا خمیس میں یہی روایت ہے اور یہی اصح ہے،[27] اور اس کو امام بخاری، ذہبی، جزری ، ابن عبد البر اور خزرجی نے اختیار کیا ہے۔

اولاد

محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، پہلے شوہر سکران بن عمرو نے ایک لڑکا یادگار چھوڑا تھا، جس کا نام عبد الرحمن تھا، انھوں نے جنگ جلولاء فارس میں شہادت حاصل کی۔[28] [29]

حلیہ

ازواج مطہرات میں سودہ بنت زمعہ سے زیادہ کوئی بلند بالا نہ تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے جس نے ان کو دیکھ لیا، اس سے وہ چھپ نہیں سکتی تھیں۔[30] زرقانی میں ہے کہ ان کا قد لمبا تھا۔[31]

فضل و حدیث

ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللّٰہ عنہا سے صرف پانچ حدیثیں مروی ہیں، جن میں سے بخاری میں صرف ایک ہے، صحابہ میں ابن عباس، ابن زبیر اور یحی بن عبد الرحمن بن اسعد بن زرارہ نے ان سے روایت کی ہے۔[32]

فضل و اخلاق

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:[33] "سودہ بنت زمعہ کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قالب میں میری روح ہوتی۔"

اطاعت و فرماں برداری میں وہ تمام ازواج مطہرات سے ممتاز تھیں، آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔ کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا،[34] چنانچہ سودہ نے اس حکم پر اس شدت سے عمل کیا کہ پھر کبھی حج کے لیے نہ نکلیں، فرماتی تھیں کہ میں حج و عمرہ دونوں کر چکی ہوں اور اب خدا کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھونگی،[35][8][36]

سخاوت و دریا دلی

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا ذاتی طور پر مزاج دنیا سے دوری کا تھا مزید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص تربیت نے اس سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ دنیا کی محبت سے دل بالکل پاک تھا، اس مزاج اور تربیت نے آپ کو سخاوت و فیاضی کے اس مرتبہ تک پہنچایا جو بہت کم کسی کو ملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا دستکاری میں مہارت رکھتی تھیں اور طائف کی کھالیں خود بنایا کرتی تھیں۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اسے راہ خدا میں خرچ کر دیتی تھیں۔ایک مرتبہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دراہم سے بھری ہوئی ایک تھیلی سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجی، آپ رضی اللہ عنہا نے پوچھا اس میں کیا ہے؟ بتایا گیا کہ اس میں دراہم ہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تھیلی تو کھجوروں کی ہے اور اس میں دراہم ہیں۔ یہ کہا اور تمام دراہم ضرورت مندوں میں کجھوروں کی طرح تقسیم فرما دیے۔ آپ کی ساری زندگی غریب پروری، دریا دلی، فیاضی، سخاوت اور شان استغنا کی غماز تھی۔ سخاوت و فیاضی بھی ان کا ایک اور نمایاں وصف تھا اور عائشہ کے سوا وہ اس وصف میں بھی سب سے ممتاز تھیں، ایک دفعہ عمر نے ان کی خدمت میں ایک تھیلی بھیجی، لانے والے سے پوچھا، اس میں کیا ہے؟ بولا درہم، بولیں کھجور کی طرح تھیلی میں درہم بھیجے جاتے ہیں۔ یہ کہ کر اسی وقت سب کو تقسیم کر دیا،[37] وہ طائف کی کھالیں بناتی تھیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی تھی، اس کو نہایت آزادی کے ساتھ نیک کاموں میں صرف کرتی تھیں،[38]

ایثار میں بھی وہ ممتاز حیثیت رکھتی تھیں، وہ اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آگے پیچھے نکاح میں آئیں تھیں لیکن چونکہ ان کا سن بہت زیادہ تھا۔ اس لیے جب بوڑھی ہوگئیں تو ان کو شبہ ہوا کہ شاید محمد صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں اور شرف صحبت سے محروم ہو جائیں، اس بنا پر انھوں نے اپنی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دے دی اور انھوں نے خوشی سے قبول کر لی،[39]

مزاج تیز تھا، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان کی بے حد معترف تھیں، لیکن کہتی ہیں کہ وہ بہت جلد غصہ سے بھڑک اٹھتی تھیں، ایک مرتبہ قضائے حاجت کے لیے صحرا کو جا رہی تھیں، راستے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مل گئے، چونکہ سودہ کا قد نمایاں تھا، انھوں نے پہچان لیا،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ازواج مطہرات کا باہر نکلنا ناگوار تھا اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پردہ کی تحریک کر چکے تھے، اس لیے بولے سودہ تم کو ہم نے پہچان لیا۔ سودہ کو سخت ناگوار ہوا۔،[40]

آیتِ حجاب کا نزول

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حجاب کے حکم نازل ہونے کے بعد سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے گھر سے باہر نکلیں۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہا کا جسم بھاری بھر کم تھا اس وجہ سے وہ لوگ آپ رضی اللہ عنہا کو باوجود پردے کے بھی قدو قامت کی وجہ سے پہچان لیتے تھے جنھوں نے حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا کو دیکھا ہوتا تھا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدہ سودہ کو دیکھا تو فرمایا: میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ چنانچہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا الٹے پاؤں واپس پلٹیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو میرے گھر میں کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہڈی تھی۔اس دوران سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بیان کیا۔ آپ علیہ السلام پر کیفیتِ وحی طاری ہو گئی۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو ہڈی کو ہاتھ میں تھامے ہوئے فرمایا۔ تمھیں اپنی حاجات کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: اصل بات یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو برا لگتا تھا کہ اجنبی لوگ، ازواج نبی کو دیکھیں، حتی کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً اس بارے کہہ بھی دیا کہ اپنی ازواج کو پردہ کرائیں۔ پھر اس پر اصرار فرماتے رہے۔حتی کہ حجاب کے بارے سورۃ احزاب کی آیت نمبر 53 نازل ہوئی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا اس کے باوجود بھی یہ چاہتے تھے کہ اس میں بھی مزید مبالغہ ہو یعنی اگر وہ پردے میں بھی ہوں،تب بھی ان کی پہچان ظاہر نہ ہو۔ چونکہ یہ بہت تنگی و مشقت والا معاملہ تھا تب اللہ تعالیٰ نے سورۃ احزاب کی دوسری آیت 59 نازل فرمائی جس میں اللہ نے انھیں اپنی حاجات کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور عمر کی شکایت کی، اسی واقعہ کے بعد آیتِ حجاب نازل ہوئی۔[41] بایں ہمہ ظرافت اس قدر تھی کہ کبھی کبھی اس انداز سے چلتی تھیں کہ آپ ہنس پڑتے تھے ایک مرتبہ کہنے لگیں کہ کل رات کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی، آپ نے اس قدر دیر تک رکوع کیا کہ مجھ کو نکسیر پھوٹنے کا شبہہ ہو گیا، اس لیے میں دیر تک ناک پکڑے رہی، آپ اس جملہ کو سن کر مسکرا اٹھے۔[42]

پابندی شریعت

سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دیگر اوصاف کے ساتھ ساتھ شریعت کی سخت پابند تھیں، عبادات و ریاضت اور زہد و تقویٰ میں بلند شان کی حامل تھیں۔علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حضرت سودہ رضی اللہ عنہا عبادت و تقویٰ اور زہد والی خاتون تھیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا: میرے بعد گھر میں بیٹھنا اس پر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے ایسی سختی سے عمل فرما یا کہ پھر کبھی حج کے لیے بھی تشریف نہ لے کر گئیں اور فرماتی تھی کہ میں حج و عمرہ دونوں کرچکی ہوں اور اب رسول خدا کے حکم کے مطابق گھر ہی میں بیٹھوں گی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد سب ازواج مطہرات نے آپ کے انتقال کے بعد کئی حج کیے لیکن سیدہ زینب بنت جحش اور سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہمانے آپ کے بعد کوئی حج نہیں کیا اور برابر گھر میں رہیں اور فرمایا کرتی تھیں بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد ہم اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گی۔

مناسک حج میں خصوصی رعایت

سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے 10ھ میں حج ادا فرمایا آپ کی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم ہمراہ تھیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا چونکہ سن رسیدہ بھی تھیں اور جسم قدرے بھاری ہو گیا تھا اس لیے تیز رفتاری کے ساتھ چل پھر نہ سکتی تھیں۔ اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہم)سفر حج میں جب (مزدلفہ پہنچے تو اُمُّ المومنین سودہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ لوگوں کے مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونے سے قبل انھیں جانے کی اجازت دی جائے، کیونکہ لوگوں کے ہجوم میں چلنا ان کے لیے دشوار تھا۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت فرماتے ہوئے اجازت مرحمت فرما دی چنانچہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا رات ہی میں لوگوں سے پہلے مزدلفہ سے روانہ ہوگئیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ مزدلفہ میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ نوٹ: اصل مسئلہ یہ ہے کہ دوران حج جب مزدلفہ پہنچیں تو رات یہاں گزاریں اور صبح سورج طلوع ہونے کے بعد یہاں سے منیٰ کی طرف روانہ ہوں۔

خوشنودی نبوت کا حصول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کے لیے کس کے نام قرعہ نکلتا ہے۔مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان ایک رات دن کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی، ماسوائے اس کے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو دی ہوئی تھی اور اس سے ان کا مقصود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی اور رضامندی تھی۔[43][44]

سیدہ عائشہ کی عجب تمنا

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا فرماتی ہیں: مجھے ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا عزیز تھیں، میری تمنا تھی کہ کاش میں میری روح ان کے جسم میں ہوتی، اگرچہ سیدہ سودہ کے مزاج میں جلال جلد غالب آ جاتا تھا، جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انھوں نے اپنے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی باری سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کو دے دی اور عرض کی: یا رسول اللہ! میں نے اپنی باری عائشہ کو دے دی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ہاں دو دن رہتے تھے، ایک دن حضرت عائشہ کی باری کا اور ایک دن حضرت سودہ کی باری کا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ ہو گیا تھا کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں طلاق دے دیں گے چنانچہ انھوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے طلاق نہ دیں مجھے اپنی زوجیت کے شرف سے محروم نہ فرمائیں اور میری باری کا دن عائشہ کو دے دیا کریں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمایا،اس پر آیت نازل ہوئی: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ۔ [45] ترجمہ: اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال، نامناسب رویہ یا بے پروائی کا ہو تو دونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کر لیں اور صلح بہتر ہے۔

سوکن کو ترجیح دینا

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہاکے ایثارکا یہ عدیم النظیر اور فقید المثال واقعہ ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منظور نظر اورچہیتی بیوی کو اپنی باری کا دن تفویض فرما کر اپنے شوہر کی رضا مندی کا تمغا بھی حاصل کر لیا اور اپنی سوکن کوبھی راضی کر لیا۔ خصوصیت سیدہ سودہ: ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے خصائص میں سے ایک خصوصیت تھی کہ انھوں نے اپنی باری سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سپرد کردی ان کا یہ جذبہ ایثار اس وجہ سے تھا کہ وہ اس حبیبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے بارگاہ نبوّت میں تقرب حاصل کریں۔

ظرافت اور حِسِّ مزاح

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں اگرچہ جلال جلد غالب آجایا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان میں حس مزاح اور ظرافت بھی خوب تھی۔ کبھی کبھار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسانے کی غرض سے عام مزاج سے ہٹ کر چل کر دکھاتیں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑتے۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام اللیل میں کھڑی ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگیں:میں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ نے اتنا لمبا رکوع فرمایا کہ مجھے یوں لگا کہ میری نکسیر پھوٹ پڑے گی اور اپنے ناک کوسہلانے لگیں،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسکرائے۔[5][46] .[8][47]

خوشگوار اور بے تکلف زندگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے لیکن اس کے باوجود آپ صحابہ کی مجلس میں وقتا فوقتا مزاحیہ کلمات اور ظرافت بھرے جملے ارشاد فرماتے،اسی طرح اپنے اہل خانہ کے درمیان بھی خوشگوار موڈ میں رہتے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اہل بیت اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم زندگی پوری طرح فطری انداز میں بسر فرمائی جو تکلفات بالکل پاک تھیں اور یہی تعلیم اپنی امت کو دی ہے۔ دجال سے بہت ڈرتی تھیں، ایک مرتبہ عائشہ اور حفصہ کے پاس آ رہی تھیں دونوں نے مذاق کے لہجہ میں کہا تم نے کچھ سنا؟ بولیں کیا؟ کہا دجال نے خروج کیا، سودہ یہ سن کر گھبرا گئیں، ایک خیمہ جس میں کچھ آدمی آگ سلگا رہے تھے، قریب تھا، فورا اس کے اندر داخل ہوگئیں، عائشہ اور حفصہ ہنستی ہوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور آپ کو اس مذاق کی خبر کی، آپ تشریف لائے اور خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ ابھی دجال نہیں نکلا ہے، یہ سن کر سودہ باہر آئیں۔ تو مکڑی کا جالا بدن میں لگا ہوا تھا، اس کو باہر آ کر صاف کیا،[48] سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں میرے نزدیک یہ روایت مشکوک اور سنداً ضعیف ہے۔

حوالہ جات

  1. عنوان : Сауда бинт Зама
  2. https://pantheon.world/profile/person/Sawda_bint_Zamʿa
  3. الطبقات الكبرى لمحمد بن سعد البغدادي، جزء 4 صفحة 204، موقع المكتبة - مدرسة الفقاهة آرکائیو شدہ 2018-03-15 بذریعہ وے بیک مشین
  4. ابن حجر العسقلاني: الإصابة في تمييز الصحابة، دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الأولى، جـ 8، صـ 196 آرکائیو شدہ 2018-03-15 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  5. ^ ا ب ابن عبد البر (الطبعة الأولى، 1412 هـ - 1992م)۔ الاستيعاب في معرفة الأصحاب، جـ 4۔ دار الجيل، بيروت۔ صفحہ: 1867۔ 02 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ أكتوبر 2020 
  6. الأسباب الواردة في هبة سودة ليلتها لعائشة وبيان الراجح منها، فتوى على موقع الإسلام سؤال وجواب آرکائیو شدہ 2018-03-15 بذریعہ وے بیک مشین
  7. ياسر بن وزيري۔ زوجات الرسول۔ صفحہ: 14 
  8. ^ ا ب پ سير أعلام النبلاء لشمس الدين الذهبي، الجزء الثاني، سيرة سودة أم المؤمنين، صـ 265: 269، طبعة مؤسسة الرسالة 2001م آرکائیو شدہ 2017-04-22 بذریعہ وے بیک مشین
  9. معنى اسم سودة في قاموس معاني الأسماء آرکائیو شدہ 2020-01-10 بذریعہ وے بیک مشین
  10. تعريف و معنى زمعة في معجم المعاني الجامع - معجم عربي عربي آرکائیو شدہ 2020-01-10 بذریعہ وے بیک مشین
  11. جمهرة أنساب العرب، ابن حزم، (1/192)، الموسوعة الشاملة آرکائیو شدہ 2015-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  12. سانچہ:استشهاد بويكي بيانات
  13. أحمد ابن حجر العسقلاني (1415 هـ)۔ كتاب الإصابة في تمييز الصحابة۔ 5 (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت: دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 538۔ 20 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2021 
  14. مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، نور الدين علي بن أبي بكر الهيثمي، كتاب المناقب، باب ما جاء في سودة بنت زمعة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2018-04-18 بذریعہ وے بیک مشین
  15. "أم المؤمنين سودة بنت زمعة رضي الله عنها لحسين يوسف العمري"۔ موقع جامعة مؤتة، الأردن (بزبان العربية)۔ 18 أبريل 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 
  16. زرقانی، 261:3
  17. طبقات ابن سعد، 36-39:8؛ زرقانی، 360:3
  18. زرقانی، 260:3؛ وطبقات ابن سعد، 38-39:8
  19. المستدرك على الصحيحين (4301) آرکائیو شدہ 2017-10-13 بذریعہ وے بیک مشین
  20. فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني جـ7،ص:228 "نسخة مؤرشفة"۔ 13 أكتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 أبريل 2018 
  21. صحیح بخارج، 228:1
  22. ابن حجر العسقلاني (الطبعة الأولى، 1415 هـ)۔ الإصابة في تمييز الصحابة، جـ 3۔ دار الكتب العلمية، بيروت۔ صفحہ: 113۔ 15 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ أكتوبر 2020 
  23. "الطبقات الكبرى لمحمد بن سعد البغدادي، جزء 8 صفحة 57، موقع المكتبة - مدرسة الفقاهة"۔ 08 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2023 
  24. ،طبقات، 37:8
  25. طبقات ابن سعد، 37-39:8
  26. اسد الغابہ واستیعاب و خلاصہ تہذیب حالات سودہ
  27. زرقانی، 262:3
  28. زرقانی، 260:2
  29. جزء أبي جهم البغدادي، حديث عروة بن الزبير عن خولة بنت حكيم: أراك قد دخلتك خلة لفقد خديجة، مكتبة إسلام ويب، اطلع عليه في 17 أبريل 2018 آرکائیو شدہ 2018-04-18 بذریعہ وے بیک مشین
  30. صحیح بخاری، 707:3
  31. زرقانی، 459:3
  32. حديث ابن السماك والخلدي، لما ماتت خديجة بنت خويلد جاءت خولة بنت حكيم إلى رسول، إسلام ويب آرکائیو شدہ 2018-04-18 بذریعہ وے بیک مشین
  33. طبقات، 37:8
  34. زرقانی، 291:3
  35. طبقات، 38:8
  36. في هجرة فاطمة من مكة إلى المدينة، موقع الميزان، اطلع عليه في 17 أبريل 2018 آرکائیو شدہ 2017-02-11 بذریعہ وے بیک مشین
  37. اصابہ، 118:8
  38. اصابہ، 65: حالات خیسہ
  39. صحیح بخاری و مسلمکتاب النکاح جواز ہبتہ نوبہتا لصرنتہا
  40. فتح الباري شرح صحيح البخاري، أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، جـ 3، صـ 224،225، كتاب النكاح، باب المرأة تهب يومها من زوجها لضرتها وكيف يقسم ذلك، دار الريان للتراث، 1407هـ - 1986م آرکائیو شدہ 2018-04-18 بذریعہ وے بیک مشین
  41. صحیح بخاری، 26:1
  42. سعد، 37:8
  43. السنن الكبرى للبيهقي، كتاب النكاح، جماع أبواب ما خص به رسول الله صلى الله عليه وسلم دون غيره مما أبيح له وحظر على غيره، باب ما يستدل به على أن النبي من خصائصه من الحكم بين الأزواج لا يخالف حلاله حلال الناس آرکائیو شدہ 2018-04-18 بذریعہ وے بیک مشین
  44. تفسير القرآن العظيم، لابن كثير الدمشقي، تفسير سورة النساء، تفسير قوله تعالى "وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا" آرکائیو شدہ 2018-04-18 بذریعہ وے بیک مشین
  45. سورۃ النساء آیت نمبر 128
  46. محمد حامد۔ الأوائل من الصحابة۔ دار المحرر الأدبي۔ صفحہ: 83۔ 8 ديسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  47. ابن حجر العسقلاني: الإصابة في تمييز الصحابة، دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الأولى، جـ 8، صـ 197 آرکائیو شدہ 2018-03-15 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  48. اصابہ، 65:8