جہانگیر خان ایک پاکستانی کاروباری کھلاڑی ہیں جو سیاست دان کے طور پر زیادہ مشہور ہيں ۔ ترین خان 2002 سے 2017 کے درمیان تین بار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ ترین کو سابق وزیر اعظم پاکستان اور چیئر مین تحریک انصاف عمران خان کا دایاں ہاتھ اور اہم ترین مشیر سمجھا جاتا ہے۔مگر بعد میں انھوں نے عمران خان سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ان کے بیٹے علی ترین بھی سیاست میں مصروف ہيں ۔

جہانگیر ترین
 

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رکن
آغاز منصب
2011
رکن پاکستان کی قومی اسمبلی
مدت منصب
December 2015 – 15 December 2017
مدت منصب
October 2002 – January 2012
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار
مدت منصب
August 2004 – November 2007
صدر پرویز مشرف
وزیر اعظم شوکت عزیز
مشیر برائے زراعت وزیر اعلیٰ پنجاب
مدت منصب
2002 – 2004
سیکرٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف (PTI)
مدت منصب
2015 – 2017
معلومات شخصیت
پیدائش 4 جولا‎ئی 1953ء (71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کومیلا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان مسلم لیگ ف
پاکستان مسلم لیگ ق
پاکستان تحریک انصاف [1]
استحکام پاکستان پارٹی (2023–)  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد 3 بشمول علی ترین
بہن/بھائی
رشتے دار سیمی ایزدی (بہن)
مخدوم سید احمد محمود (بہنوئی)
اختر عبدالرحمن (چچا)
ہمایوں اختر خان (کزن)
ہارون اختر خان (کزن)[2]
شوکت ترین (کزن)[3]
عملی زندگی
مادر علمی فورمن کرسچین کالج
صادق پبلک اسکول   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

ترین 4 جولائی 1953 کو کومیلا ، مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے۔ [4] بنیادی طور پر ترین کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشین سے تھا۔جہانگیر خان ترین کے والد اللہ نواز ترین ایوب خان کے دور میں کراچی پولیس میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں اس عہدے تک رسائی میں ان کی قابلیت سے زیادہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے ان کی رشتہ داری کا دخل رہا۔ ان کی آبائی زمینیں تربیلا کے مقام پر بننے والے ڈیم میں آگئں جن کے بدلے انھیں جنوبی پنجاب کے شہر لودھراں میں زرعی زمین الاٹ کی گئی۔پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ نواز نے ملتان میں رہائش اور لودھراں میں کاشتکاری اختیار کر لی۔ 20 سال ملتان میں رہے،

جہانگیر ترین کو تعلیم کے لیے لاہور بھجوایا گیا جہاں سے انھوں نے 1971 میں فارمن کرسچن کالج ، لاہور سے گریجویشن کیا [4]

1974 میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا ، USA سے MBA بزنس ایڈمنسرٹیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔۔تدریس کی بنکر بھی رہے، پھر کاشتکاری کرنے لگے، والد کی 400 ایکڑ جگہ پر زراعت سے امدن ہوئی تو، شوگر مل لگائی، مخدوم حسن محمود ان کے سسر ہیں [7]

انھوں نے 1997 سے 1999 تک زراعت پر پنجاب ٹاسک فورس اور 2001 سے 2002 تک گندم کی خریداری اور مارکیٹنگ کے لیے پنجاب ٹاسک فورس کی سربراہی کی [4]

سیاسی حالات

ترمیم

نیوز ویک پاکستان کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ترین نے کہا کہ "ان کا تعلق کسی سیاسی خاندان سے نہیں ہے، لیکن انھوں نے ایک سیاسی خاندان میں شادی کی"۔ [8]

انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 2002 میں کیا [8][9] جب وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر حلقہ این اے 195 سے 2002 کے پاکستانی عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ [4][10][11]

انھوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے زراعت اور سماجی شعبے کے اقدامات پر خصوصی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ [11][8] [11][12] .[13][9] اگست 2004 میں انھیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا اور انھیں شوکت عزیز کی وزارت میں وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار [11] بنایا گیا جہاں وہ 2007 تک رہے ان کی شوگر ملیں اس دور میں پروان چڑھیں جب وہ وزیر صنعت تھے ۔ [14]

2008 کے پاکستانی عام انتخابات میں، ترین پاکستان مسلم لیگ (ف) کی نشست پر حلقہ این اے 195 سے دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ [10][15][9]


وہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ف) کے پارلیمانی لیڈر تھے۔ [16] بعد میں اس نے ایک فارورڈ بلاک بنایا جسے "ترین کا گروپ" کہا جاتا ہے جس میں کئی تجربہ کار سیاست دان شامل تھے۔ [17] [9][16][18][19][20] 2011 میں، انھوں نے کہا کہ وہ بدعنوانی کے الزامات سے پاک سیاست دانوں پر مشتمل اپنی سیاسی جماعت کا آغاز کرنے والے ہیں۔ بعد ازاں انھوں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا اور نومبر 2011 میں کئی ساتھیوں کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، یہ کہتے ہوئے کہ ان کا نظریہ پی ٹی آئی جیسا ہی تھا۔ [9] [13][21] ستمبر 2013 میں عمران خان نے ترین کو پاکستان تحریک انصاف کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا

2013 کے پاکستانی عام انتخابات میں، ترین نے حلقہ این اے 154 ( لودھراں ) سے پی ٹی آئی کی نشست پر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا، لیکن وہ ناکام رہے۔ جہاں بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا تھا ۔ [11][10][22] .[13][11]

2015 کے ضمنی انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کی نشست پر حلقہ این اے 154 ( لودھراں ) سے تیسری بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ نشست ترین کی جانب سے 2013 کے عام انتخابات کے دوران حلقے میں بے ضابطگیوں کا الزام لگانے والی درخواست کے بعد خالی ہوئی تھی۔ [23][24][25][26]

اثاثے

ترمیم

ترین کو پاکستان کے امیر ترین سیاست دانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، ان کے اثاثوں کی مالیت تقریباً 150 ارب روپے ہے۔ وہ پاکستان میں ہزاروں ایکڑ کھیتی باڑی اور کچھ بڑی شوگر ملوں اور بہت سے دوسرے کاروباری اداروں کے مالک ہیں۔ ان کے پاس پرائیویٹ طیارے ہیں جو وہ اکثر پی ٹی آئی کی اہم قیادت کو سفر کے لیے پیش کرتے ہیں۔ [13]

جے ڈی ڈبلیو گروپ کے اکثریتی شیئر ہولڈر اور سی ای او ہیں، [27] یہ شوگر مینوفیکچرنگ میں مہارت حاصل کرنے والا ایک گروپ ہے اور اس کے چار شوگر یونٹ ہیں، بایوماس ( باگاس ) کو جنریشن اور دو پاور یونٹ ہیں، پیپر مینوفیکچرنگ ، گنے کی کارپوریٹ فارمنگ ۔ 30,000 ایکڑ اراضی اور ایوی ایشن سروسز پر۔ [28] جہانگیر ترین جے کے گروپ کے چیئرمین اور مالک بھی ہیں، جو [27] شوگر مینوفیکچرنگ میں مہارت رکھتا ہے اور اس کے دو شوگر یونٹ ہیں، دودھ کی پیداوار اور پروسیسنگ اور گنے کی کارپوریٹ فارمنگ ۔ [28] وہ یونائیٹڈ فوڈز پرائیویٹ لمیٹڈ (علی ترین فارمز، لودھراں)، انڈس مائننگ کے چیئرمین اور مالک بھی ہیں۔

ترین پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکس ادا کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔

تنازعات

ترمیم

2016 میں، مسلم لیگ (ن) نے ترین کو ان کی قومی اسمبلی کی نشست سے "الیکشن کمیشن آف پاکستان میں غلط بیانات جمع کرانے" پر نااہل قرار دینے کے لیے ایک ریفرنس دائر کیا۔ [29] 2017 میں، ای سی پی نے ترین کے خلاف نااہلی کے ریفرنسز کو مسترد کر دیا۔ [30]

2022 میں انھوں نے عمران خان سے بغاوت کر دی اور پی ٹی آئی کے مخالف کے طور پر کھڑے ہو گئے ۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب https://www.workwithdata.com/person/jahangir-khan-tareen-1953 — اخذ شدہ بتاریخ: 21 اکتوبر 2024
  2. "32 ministers take oath: Cabinet includes 11 new faces"۔ DAWN.COM۔ 2 September 2004۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2018 
  3. Syed Irfan Raza (1 April 2021)۔ "Ex-PPP minister Shaukat Tarin to head economic advisory board"۔ DAWN.COM 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث "New federal ministers"۔ DAWN.COM۔ 2 September 2004۔ 09 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  5. "Detail Information"۔ Pildat۔ 23 March 2011۔ 23 مارچ 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولا‎ئی 2017 
  6. "Tareen, wife 'discretionary lifetime beneficiaries' of 'camouflaged' £7 million UK home"۔ جیو نیوز۔ 6 November 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مارچ 2022 
  7. "عمران خان اور جہانگیر ترین: اقتدار کے دوست اور ہوتے ہیں اور اپوزیشن کے دوست اور"۔ بی بی سی اردو۔ بی بی سی۔ 9 اپريل 2020 
  8. ^ ا ب پ "Silence is Not an Option: An interview with Jahangir Tareen"۔ نیوز ویک پاکستان۔ 29 July 2011۔ 13 فروری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2019 
  9. ^ ا ب پ ت ٹ
  10. ^ ا ب پ "NA-154 (Lodhran-I): In a first, army given anti-terror powers for by-elections – The Express Tribune"۔ The Express Tribune۔ 23 December 2015۔ 06 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2017 
  11. ^ ا ب پ ت ٹ ث "Jahangir Tareen – one of Pakistan's wealthiest lawmakers"۔ DAWN.COM۔ 15 December 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2017 
  12. "Jehangir Tareen among 14 ex-ministers to join PTI"۔ The Nation۔ 6 November 2011۔ 14 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  13. ^ ا ب پ ت "Jahangir Tareen: PTI's money man"۔ Herald Magazine۔ Dawn۔ 25 October 2016۔ 09 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  14. "Disqualification 2.0: Jahangir Tareen's political journey – The Express Tribune"۔ The Express Tribune۔ 15 December 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2017 
  15. "Resignation of six MNAs accepted"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 5 January 2012۔ 06 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2017 
  16. ^ ا ب "Tareen to launch 'party of the clean' in September"۔ DAWN.COM۔ 12 July 2011۔ 09 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  17. "Tareens clean men divided on PTI"۔ The Nation۔ 22 September 2013۔ 22 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  18. "Influential figures likely to join PTI"۔ DAWN.COM۔ 19 December 2011۔ 09 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  19. "Hurtling ahead: 'Clean' Tareen, Leghari brothers join PTI - The Express Tribune"۔ The Express Tribune۔ 20 December 2011۔ 09 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  20. "Legharis, Tarin, Kasuri to jump aboard PTI ship"۔ Pakistan Today۔ 19 December 2011۔ 09 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  21. "Imran's 'war on three fronts'"۔ DAWN.COM۔ 11 May 2015۔ 09 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  22. "PTI's Tareen trounces PML-N's Baloch in NA-154 Lodhran by-poll: unofficial results"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 24 December 2015۔ 06 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2017 
  23. "Voting ends as Baloch, Tareen face off in NA-154 by-poll"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 23 December 2015۔ 06 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2017 
  24. "PTI's Jehangir Tareen wins NA-154 by-poll"۔ The News۔ 24 December 2015۔ 09 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  25. "Election tribunal orders re-election in NA-154, deseats PML-N lawmaker"۔ DAWN.COM۔ 26 August 2015۔ 12 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  26. "PTI's Tareen trounces PML-N's Baloch in NA-154 Lodhran by-poll: unofficial results"۔ DAWN.COM۔ 24 December 2015۔ 24 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2017 
  27. ^ ا ب "JDW Accounts 2018"۔ www.jdw-group.com۔ 30 September 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2018 [مردہ ربط]
  28. ^ ا ب "JDW Sugar Mills Limited"۔ بزنس ریکارڈر۔ 24 January 2019 
  29. "PML-N files disqualification reference against PTI's Jahangir Tareen"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 18 August 2016۔ 06 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2017 
  30. "ECP rejects disqualification references against Imran Khan, Jehangir Tareen"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 16 March 2017۔ 06 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2017 

بیرونی روابط

ترمیم