رامدھاری سنگھ دنکر

بھارتی شاعر

رام دھاری سنگھ (23 ستمبر 1908ء – 24 اپریل 1974ء) تخلص بہ دِنکر بھارتی ہندی شاعر، مضمون نگار، محب وطن اور استاد تھے۔[4] وہ جدید اہم ہندی شعرا میں سے سمجھے جاتے ہیں۔ وہ باغی شاعر کے طور پر اُبھرے اور آزادی ہند سے قبل قوم پرست شاعری کی۔ ان کی شاعری میں ویر رس کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کے متاثر کن مجموعات کی بدولت وہ راشٹر کوی (قومی شاعر) بھی کہلائے۔[5] وہ ہندی کوی سمیلن کے ہمہ وقت شاعر تھے اور ان ایام میں وہ کافی مشہور ہوئے، جیسے کہ روسیوں کے لیے پوشکن تھے۔[6]

رامدھاری سنگھ دنکر
(ہندی میں: रामधारी सिंह 'दिनकर' ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 23 ستمبر 1908ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 24 اپریل 1974ء (66 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چنئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن بہار   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی پٹنہ کالج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم ،  شاعر ،  سیاست دان ،  صحافی ،  ادبی نقاد ،  مصنف ،  اکیڈمک   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہندی [1]،  میتھلی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سنسکرت کے چار ادھیائے   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
گیان پیٹھ انعام   (1972)[2]
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ   (برائے:سنسکرت کے چار ادھیائے ) (1959)[3]
 پدم بھوشن    ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
باب ادب

دنکر نے ابتدا میں ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کے دوران انقلابی تحریک کی حمایت کی اور بعد ازاں گاندھیائی ہو گئے۔ تاہم وہ خود کو ”بُرا گاندھیائی“ کہلواتے تھے۔[7] ”کروکشیتر“ میں انھوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ جنگ تباہ کن ہے مگر تحفظِ آزادی کے لیے لازمی ہے۔ وہ وقت کی مشہور قوم پرست شخصیات کے بہت قریب تھے، جیسے کہ راجندر پرساد، انوگرا ناراین سنہا، سری کرشن سنہا، رامبرکش بینی پوری اور برج کشور پرساد۔

دنکر بھارتی ایوان بالا، راجیہ سبھا کی نشست کے لیے تین مرتبہ منتخب ہوئے اور ایوان بالا کے 3 اپریل 1952ء سے 26 جنوری 1964ء تک رکن رہے۔[7] 1959ء میں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔[7] وہ بھاگلپور یونیورسٹی (بہار) کے ابتدائی 1960ء کی دہائی میں وائس چانسلر بھی تھے۔

ایمرجنسی کے دوران جے پرکاش ناراین نے رام لیلا میدان میں لاکھ کا مجمع اکھٹا کیا اور دِنکر کی مشہور نظم، ”سنگھاسن خالی کرو کہ جنتا آتی“ (منصب چھوڑ دو نہیں تو عوام آ جائے گی) پڑھی۔[8]

سوانح

ترمیم

دنکر 23 ستمبر 1908ء کو سیماریہ گاؤں، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی راج (موجودہ ضلع بیگو سرائے، بہار) میں بابو روی سنگھ اور مَن روپ دیوی کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کی شادی بہار کے ضلع سمستی پور کے تابھکا گاؤں میں ہوئی تھی۔ زمانہ طالب علمی میں ان کے من پسند مضامین تاریخ، سیاست اور فلسفہ تھے۔ اسکول اور بعد ازاں کالج میں انھوں نے ہندی، سنسکرت، میتھلی، بنگالی، اردو اور انگریزی ادب پڑھا۔ دنکر پر اقبال، رابندر ناتھ ٹیگور، کیٹس اور مِلٹن کا گہرا اثر تھا۔ انھوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی تخلیقات کو بنگالی سے ہندی قالب میں ڈھالا۔[9]


حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb134747447 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. http://www.jnanpith.net/page/jnanpith-laureates
  3. http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#KASHMIRI — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مارچ 2019
  4. Biography and Works anubhuti-hindi.org.
  5. "Special Postage Stamps on Linguistic Harmony of India"۔ Latest PIB Releases۔ Press Information Bureau of the Government of India۔ September 1999۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2008 
  6. Trisha Gupta (9 May 2015)۔ "Interview: Is fiction-writer Siddharth Chowdhury creating a new literary form?"۔ Scroll.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2015 
  7. ^ ا ب پ Singh Vijendra Narayan (2005)۔ Bharatiya Sahitya ke Nirmata: Ramdhari Singh 'Dinkar'۔ New Delhi: ساہتیہ اکیڈمی۔ ISBN 81-260-2142-X 
  8. Harish Khare (16 May 2001)۔ "Obligations of a lameduck"۔ دی ہندو۔ 20 جولا‎ئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2009 
  9. Sabyasachi Bhattacharya (2011)۔ Rabindranath Tagore: An Interpretation۔ New Delhi: Penguin/Viking۔ صفحہ: 320 (at p. 240)۔ ISBN 978-0-670-08455-5