عبد القادر (کرکٹ کھلاڑی)
عبد القادر خان انگریزی میں:Abdul Qadir Khan (پیدائش: 15 ستمبر 1955ء لاہور، پنجاب) | (وفات: 6 ستمبر 2019ء لاہور، پنجاب) ایک پاکستانی کرکٹ کھلاڑی تھے جنھوں نے 67 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ 104 ایک روزہ بین الاقوامی میچز بھی کھیلے تھے عبد القادر نے پاکستان کے علاوہ حبیب بینک لمیٹڈ, لاہور اور پنجاب کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی۔ان کے بیٹوں رحمان قادر' سلیمان قادر' عمران قادر' عثمان قادر کے علاوہ ان کے بھائی علی بہادر اور داماد عمر اکمل بھی کرکٹ سے وابستہ ہیں۔ رحمان قادر نے نیشنل بینک کی طرف سے 6 فرسٹ کلاس' سلمان قادر نے لاہور کی طرف سے 26 فرسٹ کلاس' عمران قادر نے اسلام آباد کرکٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے 10 فرسٹ کلاس اور عثمان قادر نے لاہور کی طرف سے 26 فرسٹ کلاس میچ کھیلے۔ عبد القادر کے بھائی علی بہادر نے واپڈا کی طرف سے 10 فرسٹ کلاس میچوں میں شرکت کی جبکہ عمر اکمل 16 ٹیسٹ' 121 ون ڈے اور 84 ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میں شرکت کا اعزاز رکھتے ہیں عبد القادر نے پاکستان کے علاوہ حبیب بینک لمیٹڈ لاہور اور پنجاب کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی۔ رحمان قادر نے نیشنل بینک کی طرف سے 6 فرسٹ کلاس' سلمان قادر نے لاہور کی طرف سے 26 فرسٹ کلاس' عمران قادر نے اسلام آباد کرکٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے 10 فرسٹ کلاس اور عثمان قادر نے لاہور کی طرف سے 26 فرسٹ کلاس میچ کھیلے۔ عبد القادر کے بھائی علی بہادر واپڈا کی طرف سے 10 فرسٹ کلاس میچوں میں شرکت کی جبکہ عمر اکمل 16 ٹیسٹ' 121 ون ڈے اور 84 ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میں شرکت کی ہے۔
عبدالقادر1990ء میں | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | عبد القادر خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | 15 ستمبر 1955 لاہور, پنجاب, ڈومنین پاکستان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 6 ستمبر 2019 لاہور, پنجاب، پاکستان | (عمر 63 سال)|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا لیگ بریک، گوگلی گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعلقات | رحمان قادر (بیٹا) سلیمان قادر (بیٹا) عمران قادر (بیٹا) عثمان قادر (بیٹا) عمر اکمل (داماد)[1] | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 78) | 14 دسمبر 1977 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 6 دسمبر 1990 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 43) | 11 جون 1983 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 2 نومبر 1993 بمقابلہ سری لنکا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 9 جنوری 2019 |
فرسٹ کلاس کیریئر
ترمیمعبد القادر نے 1975-95ء کے دوران اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کے دوران 75 مواقع پر ایک اننگز میں 5 یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کیں اور 21 بار میچ میں 10 یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 2 سنچریاں اور 8 نصف سنچریاں بھی بنائیں۔ قادر نے 1975-76ء کے سیزن کے دوران نیشنل اسٹیڈیم میں یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے خلاف حبیب بینک کے لیے اپنا ڈیبیو کیا۔ انھوں نے میچ میں 93 رنز دے کر سات وکٹیں حاصل کیں جن میں پہلی اننگز میں 67 رنز کے عوض 6 وکٹیں بھی شامل تھیں۔ لاہور سی کے لیے کھیلتے ہوئے، اس نے بہاولپور کے خلاف 17 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں، جو اس سیزن کی ان کی بہترین بولنگ ہے۔ عبد القادر نے 209 فرسٹ کلاس میچ کھیلے اور 23.24 کی اوسط سے 960 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک اننگز کے لیے ان کی بہترین باؤلنگ کے اعداد و شمار 56 رنز کے عوض 9 وکٹیں ہیں، جبکہ ایک میچ کے لیے ان کی بہترین کارکردگی 101 رنز کے عوض 13 وکٹیں تھیں۔ ایک بلے باز کے طور پر، انھوں نے 247 اننگز میں 18.33 کی اوسط سے 3,740 رنز بنائے۔ انھوں نے دو سنچریاں اور آٹھ نصف سنچریاں بھی بنائیں۔ عبد القادر کا فارمیٹ میں سب سے زیادہ اسکور 112 رنز تھا۔ نومبر 1989ء میں نیشنل اسٹیڈیم میں پہلے ٹیسٹ سے پہلے کھیلے گئے وارم اپ میچ میں 16 سالہ سچن ٹنڈولکر نے قادر پر لگاتار چار چھکے لگائے۔ بعد میں اسی دن، قادر نے پیشین گوئی کی کہ ٹنڈولکر عظیم ترین بلے بازوں میں سے ایک بن جائیں گے۔ قادر نے اپنا آخری فرسٹ کلاس میچ 1994ء میں کھیلا تھا۔
ٹیسٹ کرکٹ کیرئیر
ترمیمعبد القادر نے اپنا پہلا ٹیسٹ انگلستان کے خلاف لاہور میں کھیلا جس میں انھوں نے 82 رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی جبکہ بیٹنگ میں انھوں نے 11 رنز بنائے۔ عبد القادر نے انگلش فاسٹ بولر بوب ولس کو اقبال قاسم کے ہاتھوں کیچ کروا کے اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کی۔ نووارد عبد القادر کے بارے میں کسی کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ 1977ء سے 1990ء تک کے 13 سال کیریئر میں یہ سلو گگلی بولر ٹیسٹ کرکٹ کے میدانوں پر کیا کرشمہ سازیاں انجام دے گا۔ سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں حیدرآباد کے مقام پر عبد القادر نے اپنے پر کھولنے شروع کیے۔ انگلستان کی اننگز 191 اور 186 میں عبد القادر نے پہلی اننگ میں 44 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ انھوں نے برائن روز ڈیرک رینڈل، گراہم روپ، باب ٹیلر، فل ایڈمنڈ اور جان لیور کو آئوٹ کرکے اپنی پہلی پانچ وکٹوں کا کارنامہ مکمل کیا۔ دوسری اننگز میں وہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔ کراچی کے اگلے ٹیسٹ میں 5 انگلش کھلاڑی ان کے ہتھے چڑھے۔ پہلی اننگ میں 81 رنز کے عوض 4 اور دوسری باری میں 26/1 کے ساتھ انھوں نے دوسری بار اپنے 5 وکٹ مکمل کیے۔ 1979ء کی سیریز میں پاکستان نے بھارت کا دورہ کیا۔ بنگلور میں 114/1، دلی میں 16/0، ممبئی میں 43/1 کے ساتھ انھوں نے اپنے پہلے بیرونی دورے میں توقع کے مطابق کارکردگی پیش نہیں کی۔ 1980ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم گرائونڈ پر وہ ایک بار پھر نظروں میں آئے۔ لاہور کے ٹیسٹ میں انھوں نے ویسٹ انڈیز کی 297 رنز کی اننگ میں ایلون کالی چرن، ڈیوڈ مرے، جیول گارنر، سلوسٹر کلارک کی وکٹیں 131 رنز دے کر حاصل کیں۔ یہ ٹیسٹ برابری پر ختم ہوا۔ فیصل آباد کے ٹیسٹ میں بھی انھوں نے 4/93 کے ساتھ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 2 سال کے بعد 1982ء میں جب پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو عبد القادر ٹیم کے لیے کچھ منفرد کرنا چاہتے تھے۔ برمنگھم کے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کو 113 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم عمران خان میچ میں 9وکٹیں حاصل کرنے کے علاوہ 65 رنز بنا کر میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔ عبد القادر نے پہلی اننگ میں ایک اور دوسری میں 2 کھلاڑی کریز سے رخصت کیے۔ لارڈز کے دوسرے ٹیسٹ میں جو محسن خان کی سنچری کے حوالے سے ایک یادگار ٹیسٹ قرار دیا جاتا ہے پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 428 رنز بنائے اور باری ختم کردی۔ محسن خان کے 200 رنز کے علاوہ ظہیر عباس 75 اور منصور اختر 57 نمایاں باریاں تھیں۔ پاکستان جواب میں انگلش ٹیم صرف ایک رن کے کمی سے فالو آن کا شکار ہو گئی۔ جب ساری ٹیم 227 رنز پر پویلین لوٹ گئی تھی۔ عبد القادر کی ٹرن ہوتی گیندوں نے 4 انگلش کھلاڑیوں کو صرف 39 رنز پر کریز چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سرفراز نواز 3 اور عمران خان 2 وکٹوں کے ساتھ اسی مشن پر تھے۔ دوسری اننگ میں انگلستان کی ٹیم 276 پر ڈھیر ہو گئی۔ اس بار عبد القادر کے حصے میں 2/94 آئیں۔ پاکستان نے درکار 76 رنز بغیر نقصان کے بنا لیے اور پاکستان یہ ٹیسٹ 10 وکٹوں سے جیت گیا۔ لیڈز کے آخری ٹیسٹ میں صرف ایک وکٹ حاصل کرسکے۔ 1982ء میں آسٹریلیا نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں عبد القادر ایک بار پھر مرکز نگاہ تھے۔ انھوں نے پہلی اننگ میں 2/80 کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ 29 قیمتی رنز بھی بنائے۔ انگلینڈ دونوں اننگز میں 284 اور 179 بنانے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوا۔ دوسری اننگ میں عبد القادر نے 76 رنز کے عوض 5 آسٹریلوی کھلاڑی اپنے شکار بنائے تھے۔ یوں صرف چوتھی اننگ میں پاکستان کو 45 رنز کا ہدف ملا جسے اس نے ایک وکٹ کے نقصان پر پورا کرکے 9 وکٹوں سے پورا کرکے کامیابی کو اپنا مقدر بنایا۔ پاکستان نے پہلی اننگ میں ظہیر عباس 91، ہارون رشید 82، محسن خان 58 اور مدثر نذر 52 کی مدد سے 419 رنز 9 وکٹوں پر اننگ ڈکلیئر کردی تھی۔ 48 بالوں پر 64 منٹس میں عبد القادر نے بھی 5 چوکوں کی مدد سے 29 رنز اس مجموعے میں شامل کیے تھے۔ فیصل آباد کا اگلا ٹیسٹ جو سیریز کا دوسرا ٹیسٹ تھا۔ عبد القادر کی زبردست کارکردگی کے باعث ایک اننگ اور 3 رنز سے پاکستانی فتح پر ختم ہوا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 6 وکٹوں پر 501 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کردی۔ ظہیر عباس 126، منصور اختر 111، مدثر نذر 79، محسن خان 76 اور ہارون رشید کے 51 رنز بنانے کی وجہ سے سکور یہاں تک تو پہنچنا ہی تھا۔ جواب میں آسٹریلوی ٹیم صرف 168 پر پویلین لوٹ گئی۔ گریم ووڈ 49 اور گریگ رچی 34 رنز کے ساتھ کچھ مزاحمت دکھانے والوں میں شامل تھے۔ پاکستان کی طرف سے عبد القادر نے 4/76 سے آسٹریلوی کھلاڑیوں کو رنز بنانے سے روکا تھا۔ فالو آن کے بعد آسٹریلوی ٹیم دوسری اننگ میں کچھ بہتر پرفارمنس دکھانے میں کامیاب ہوئی مگر پہلی اننگ کا خسارہ اس کارکردگی پر حاوی ہو گیا۔ گریگ رچی نے ناقابل شکست 106، بروس لائرڈ 60 اور جان ڈائسن 43 سکور کو آگے لے جانے میں معاون ثابت ہوئے تھے۔ عبد القادر نے آسٹریلوی اننگ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے 142 رنز تو دیے مگر 7قیمتی وکٹیں لے کر آسٹریلیا کے بچنے کے تمام راستے مسدود کر دیے۔ لاہور کے تیسرے ٹیسٹ میں عبد القادر 188 رنز کے عوض 4 وکٹیں لے پائے۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ 9 وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ عبد القادر نے پہلی اننگ میں 2/86، دوسری اننگ میں 102/2 کے ساتھ پاکستان کی فتح میں اہم کردار کیا تھا اور اس ٹیسٹ کے اختتام پر انھیں 22 وکٹوں لینے پر سیریز کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔ 1982-83ء کی سیریز میں بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا۔ عبد القادر نے اس ٹیسٹ سیریز میں مجموعی طور پر 11 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں جس میں کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں انھوں نے 6 وکٹیں لے کر اچھا آغاز کیا مگر بعد کے ٹیسٹوں میں انھیں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ کراچی میں پہلی اننگ میں بھارت 169 رنز بنا کر آئوٹ ہوا۔ عمران، سرفراز اور عبد القادر نے بھارتی بلے بازوں کے لیے مشکلات کھڑی کریں۔ عبد القادر نے 67/4 کا جادو جگایا تھا جبکہ دوسری اننگ میں عبد القادر کے حصے میں 2 وکٹ آئے مگر اس کے لیے انھیں 75 رنز جھونکنا پڑے۔ پاکستان نے عمران خان کی تباہ کن بولنگ کے سبب یہ ٹیسٹ ایک اننگ اور 86 رنز سے جیت لیا تھا۔ عمران خان نے میچ میں 79 رنز دے کر 11 وکٹ حاصل کیے جبکہ بیٹنگ میں 33 رنز کی ایک باری بھی کھیلی تھی۔
1983-84ء کا کرکٹ سیزن
ترمیماس سیزن میں اس نے آسٹریلیا کے دورے سے اپنی کامیابیوں کا سفر شروع کیا۔ پرتھ کے پہلے ٹیسٹ میں اس نے 3 وکٹیں اپنے نام کیں۔ برسبین کے دوسرے ٹیسٹ میں انھیں محض ایک ہی وکٹ مل سکی جبکہ ایڈلیڈ کے ٹیسٹ میں انھوں نے 228 رنز دے کر 3 وکٹیں اپنے نام کیں۔ یہ ٹیسٹ ڈرا ہو گیا تھا جہاں پاکستان نے 624 رنز کی بڑی اننگ کھیلی تھی جس میں محسن حسن خان 149، جاوید میانداد 131، قاسم عمر کی 113 رنز کی سنچریاں شامل تھیں۔ عبد القادر کے حصے میں 96/1 اور 132/2 ہی آ سکیں۔ میلبورن کے چوتھے ٹیسٹ میں عبد القادر نے بیٹنگ میں 45 رنز سکور کیے۔ ساتھ ہی انھوں نے 166 رنز دے کر ایلن بارڈر، گریگ چیپل، روڈنی مارش، جیف لارسن اور جان میگیور کی وکٹیں اپنے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔ سڈنی کے اگلے ٹیسٹ میں انھیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ اسی سیزن میں انگلستان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کا ٹیسٹ عبد القادر کے ہاتھوں انگلش کھلاڑیوں کی بے بسی تصویر بنا۔ اس لو سکورنگ میچ میں پاکستان نے 3 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ اس کا سبب عبد القادر کی شاندار کارکردگی تھی جنھوں نے پہلی اننگز میں 5/74 اور دوسری اننگز میں 40 رنز بنانے کے علاوہ 3/59 کی شاندار پرفارمنس کے سبب پاکستان کی فتح کو ممکن بنایا اور مین آف دی میچ کا اعزاز بھی لے اڑے۔ فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں انھیں صرف ایک ہی وکٹ مل سکی مگر سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں اپنے ہوم گرائونڈ پر انھوں نے ایک مرتبہ پھر وکٹوں کے حصول کو مشن بنالیا۔ انگلستان کی ٹیم پہلی اننگ میں 241 رنز بنا سکی۔ عبد القادر نے 84 رنز دے کر 5 انگلش کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا تھا۔ پاکستان نے جواب میں 343 رنز بنائے تھے جس میں سرفراز نواز 90، ظہیر عباس 82 اور قاسم عمر 73 رنز کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ عبد القادر نے دوسری اننگ میں بھی 5 وکٹیں لیں مگر اس بار انھیں 110 رنز دینے پڑے تھے۔ 19 وکٹوں کے ساتھ سیریز کا اختتام اس کی ایک اور بہترین سیریز کا پیغام دے رہا تھا۔ 1984ء میں اسے بھارت کے دورہ پاکستان میں صرف فیصل آباد کا ایک ٹیسٹ ہی کھیلنے کو ملا جس میں اس نے 104 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں۔ 1984-85ء میں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ یہاں اس نے لاہور کے ٹیسٹ میں 140 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بنایا لیکن اس سیریز میں ان کی قابل دید کارکردگی حیدرآباد کے دوسرے ٹیسٹ میں سامنے آئی۔ یہ میچ پاکستان نے جاوید میانداد کی دونوں اننگز میں سنچریوں کے منفرد کارنامے کی وجہ سے 7 وکٹوں سے اپنے نام کر لیا تھا لیکن عبد القادر نے پہلی اننگ میں 5/108 اور دوسری باری میں 3/59 کے ساتھ کہیں نہ کہیں اس فتح میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اگلا ٹیسٹ کراچی۔میں تھاجہاں ان کے حصے میں کوئی وکٹ نہ آ سکی اس کے بعد پاکستان نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا ولنگٹن کے پہلے ٹیسٹ میں عبد القادر کافی مہنگے ثابت ہوئے جہاں ان کو ایک وکٹ 160 رنز کے عوض ملی اکلینڈ ٹیسٹ میں بھی ایک ہی کھلاڑی ان کے ہتھے چڑھا
1985-86 کے سیزن میں کارکردگی
ترمیماس سیزن میں سب سے پہلے سری لنکا نے پاکستان کا دورہ کیا فیصل آباد میں سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے اروندا ڈی سلوا لے 122 ارجنا رانا ٹنگا 79 رومیش رتنائیکے 56 اور سداتھ ویٹیمنی کے 52 کی مدد سے 479 رنز بنائے عبد القادر نے 132 رنز کے عوض 3 کھلاڑیوں کو میدان سے باہر بھیجا قاسم عمر 206 اور جاوید میانداد 203 ناقابل شکست رنز کی بدولت پاکستان نے 3 وکٹوں پر 555 رنز ہی بنائے تھے کہ میچ برابری پر ختم ہونے کا اعلان ہوا کراچی ٹیسٹ میں پاکستان کا پلڑا ایک بات پھر بھاری رہا سری لنکا کی ٹیم کے سکور 162 کے جواب میں پاکستان نے 295 رنز بنائے عبد القادر نے 44 رنز دے کر 5 وکٹوں کا خاتمہ کیا تھا پاکستان کی طرف سے جاوید میاں داد اور عمران خان 63,63 کے ساتھ اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کر گئے تھے دوسری اننگ میں سری لنکا نے اروندا ڈی سلوا کے 105 کے باعث 230 رنز بنائے عبد القادر 105 مہنگے رنز کی بدولت صرف ایک وکٹ ہی لے سکے پاکستان نے 98 کا ہدف بغیر وکٹ گنوائے بنا کر 10 وکٹوں سے جیت کر 0-2 سے اپنے نام کرلی اسی سیزن میں پاکستان نے سری لنکا کا جوابی دورہ کیا کینڈی کے پہلے ٹیسٹ میں 3/48 اور کولمبو کے اگلے ٹیسٹ میں 126/2 کے ساتھ یہ دورہ زیادہ برا نہیں تھا اگلا معرکہ ویسٹ انڈیز کے ساتھ درپیش تھا جس کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی فیصل آباد ٹیسٹ گگلی ماسٹر کی عمدہ کارکردگی پر ختم ہوا پاکستان کی ٹیم صرف 159 رنز تک محدود رہی کپتان عمران خان نے سب سے زیادہ 61 رنز بنائے ویسٹ انڈیز نے جواب میں 248 کا ہدف عبور کیا عبد القادر محض ایک وکٹ لے سکے پاکستان نے دوسری اننگ میں 328 رنز بنا کر ویسٹ انڈیز کو جیتنے کے لیے 240 کا ہندسہ مقرر کیا لیکن پاکستان کی باولنگ نے ویسٹ انڈیز کو محض 25.3 اوورز میں 53 رنز پر ہی ڈھیر کر دیا اس ذلت آمیز شکست سے دوچار کرنے میں عبد القادر اور عمران خاں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا عبد القادر نے 9.3 اوورز میں صرف 16 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو پیویلین کا راستہ دکھایا جبکہ عمران خاں کے حصے میں 3 وکٹ آئے
1986-87 کے سیزن کا احوال
ترمیماس سیزن میں بھارت نے پاکستان ،اور پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تھا ان دونوں سیریز کے دوران عبد القادر وکٹوں کی تلاش میں بھرپور جدوجہد میں مصروف دکھائی دیے بھارت کے خلاف 4 اور انگلستان میں انھیں محض ایک ہی وکٹ تک رسائی مل سکی جو لارڈز کے ٹیسٹ میں تھی تاہم لیڈذ اور برمنگھم کے ٹیسٹوں میں ان کا اکاونٹ خالی رہا لیکن اوول میں ان کا داو چل گیا پہلے تو پاکستان کے بلے بازوں نے رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا جاوید میاں داد 250 کپتان عمران خان 118 سلیم ملک 102 اور مدثر نذر 73 کی باریں 708 رنز تک سکور بننے کا ہدف مکمل کیا جواب میں انگلش کھلاڑی 232 تک ہی پہنچ سکے کپتان مائیک گیٹنگ 61,اور جان ایمبری 53 نے ہی کچھ مزاحمت پیش کی تھی عبد القادر نے 96/7 کے ساتھ انگلینڈ کے میچ بچانے کی سعی کی تاہم انگلستان میچ بچانے میں کامیاب رہا عبد القادر نے دوسری اننگ میں مزید 3 وکٹ لے کر میچ میں دس وکٹیں مکمل کیں یہ سیزن گگلی ماسٹر کے لیے بہت یادگار تھا
1988-89ء میں عبد القادر کی کارکردگی
ترمیم1988-89ء میں بھی عبد القادر کی کامیابیوں کا سلسلہ دراز رہا۔ اپریل میں پاکستانی ٹیم کے دورئہ ویسٹ انڈیز میں عبد القادر نے 3 ٹیسٹ میچوں میں 14 وکٹیں لیں۔ جارج ٹائون میں 4/197 اور برج ٹائون میں 2/150 کے علاوہ اس نے پورٹ آف سپین کے ٹیسٹ میں کالی آندھی کی 8 وکٹیں حاصل کیں۔ میچ کے مرد میدان ویوین رچرڈ تھے۔ ویسٹ انڈیز نے پہلی اننگ میں 174 رنز بنائے۔ عبد القادر نے 83 رنز دے کر گس لوگی، ویوین رچرڈ، کارل ہوپر اور ونسٹن بنجمن کی وکٹیں اپنے نام کیں۔ پاکستان کی ٹیم بھی کچھ بہتر کارکردگی نہ دکھا سکی اور 194 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ سلیم ملک 66 اور سلیم یوسف 39 کے ساتھ نمایاں سکورر رہے۔ میلکم مارشل 55/4 اور ونسٹن بنجمن 32/3 اس کے ذمہ دار تھے۔ ویسٹ انڈیز نے دوسری اننگ میں ویوین رچرڈ کی سنچری 123 اور جیف ڈوجان کے 106 کی صورت میں تیسرے ہندسے تک رسائی کی بدولت 391 رنز بنا لیے۔ اس بار پھر عبد القادر نے 148 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو پویلین واپس بھجوایا تھا۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے 372 رنز کا ہدف ملا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم 9 وکٹوں پر 341 رنز بنا سکی۔ چوتھی اننگ میں یہ رنز بہت نمایاں کارکردگی کے حامل تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی ٹیم ہدف عبور نہ کرسکی۔ جاوید میانداد 102، رمیز راجا 44 اور اعجاز احمد 43 کے ساتھ کریز پر قیام کرتے نظر آئے۔ اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کی اننگ میں ایکسٹرا رنزوں کی تعداد 61 تھی جس میں 17 بائی، 17 لیگ بائی، 25 نو بال اور 2 وائڈ بال بھی شامل تھے۔ اسی سیزن میں آسٹریلیا کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں عبد القادر کے حصے میں 11 وکٹ آئے۔ کراچی کا ٹیسٹ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ایک اننگ اور 188 رنز سے جیتا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 9 وکٹوں پر 474 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کردی۔ اس میں جاوید میانداد کے 211، شعیب محمد 94 رنز شامل تھے۔ شعیب محمد اور جاوید میانداد کے درمیان 196 کی شراکت دیکھنے کو ملی۔ آسٹریلیا کی ٹیم 165 رنز پر ہی ڈھیر ہوکر فالو آن کا شکار ہو گئی۔ پیٹر ٹیلر 54 کے سب سے زیادہ سکور کے ساتھ ٹیم کی مدد کو آئے تھے۔ اقبال قاسم نے 35/5 اور عبد القادر نے 54/2 کے ساتھ آسٹریلوی کھلاڑیوں کے تمام راستے مسدود کر دیے تھے۔ فالو آن کے بعد بھی نتیجہ زیادہ مختلف نہ تھا جہاں کیوی بلے باز 116 تک محدود رہے۔ اقبال قاسم 4/49 اور عبد القادر 3/34 کے ساتھ پاکستان کی فتح کے ضامن بنے۔فیصل آباد کے اگلے ٹیسٹ میں 118/3 اور لاہور میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے آخری ٹیسٹ میں 114/3 عبد القادر کی عمدہ کارکردگی کا سبب تھے۔ فروری 1989ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ دورہ پر گئی۔ ولنگٹن کے پہلے ٹیسٹ میں عبد القادر خاصے مہنگے ثابت ہوئے۔ انھوں نے 122 رنز دے کر ایک ہی وکٹ پر اکتفا کیا لیکن آکلینڈ کے دوسرے ٹیسٹ میں وہ کیوی بیٹسمینوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے باز نہ رہ سکے۔ یہ ٹیسٹ جاوید میانداد کی 271 رنز کی اننگز کے لیے مشہور ہے۔ جس کی بدولت پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 5 وکٹوں پر 516 رنز سکور کیے۔ شعیب محمد کے 112، سلیم ملک 80، عمران خان 69 اور عامر ملک 56 رنز کے ساتھ اس پہاڑ جیسے مجموعے کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرگئے تھے۔ جواب میں نیوزی لینڈ کی ٹیم 403 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی۔ مارٹن کرو 78، مارک گریٹ بیچ 76 اور برڈ وینس 68 رنز کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ عبد القادر نے 160 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ اس نے 58.1 اوورز میں 18 اوورز ایسے کیے جس میں کوئی رن نہ بن سکا تھا۔ دوسری اننگ میں عبد القادر نے 27 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی۔ اسی سال کے آخر میں بھارت کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورہ پر آئی تو عبد القادر توقعات کے خلاف زیادہ وکٹوں کے حصول میں ناکام رہے۔ لاہور کے ٹیسٹ میں 39 ناقابل شکست رنز بنانے کے علاوہ 97 رنز کے عوض 3 وکٹیں لینے کے علاوہ انھوں نے کراچی میں 152/2 اور فیصل آباد میں 57/1 کی کارکردگی دکھائی تاہم سیالکوٹ کے ٹیسٹ میں انھیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ ایک سال کے وقفے کے بعد نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دورئہ پاکستان میں عبد القادر نے کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں ایک اور لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں 3/48 کی کارکردگی دکھائی اور اگلے مہینے 1990-91ء میں ویسٹ انڈیز کے دورئہ پاکستان میں بھی عبد القادر قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے حالانکہ یہ ان کی آخری سیریز تھی۔ کراچی کے ٹیسٹ میں 78/1 اور لاہور کے ہوم گرائونڈ میں 94 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کرکے ان کے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام ہو گیا۔
ون ڈے کرکٹ
ترمیمعبد القادر کو 1983ء کے تیسرے عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف برمنگھم کے میدان پر ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ انھوں نے ناقابل شکست 41 رنز بنانے کے علاوہ 21 رنز دے کر 4 کیوی کھلاڑی پویلین بھجوائے بروس ایڈگر اس کی پہلی ون ڈے وکٹ بنے۔ اس کے علاوہ اس نے جان رائٹ، لارنس کیرنس اور جیف ہاروتھ کی بھی وکٹیں حاصل کیں۔ انگلستان، سری لنکا کے میچوں میں بھی ان کی کارکردگی نمایاں نہ رہی لیکن سری لنکا کے خلاف لیڈز کے میدان میں 44 رنز کے عوض 5 کھلاڑیوں کی اننگ کا خاتمہ کیا۔ اس طرح انھوں نے 1983ء کے عالمی کپ میں 12 وکٹ حاصل کیے۔ 1984ء کے بینسن اینڈ ہیجز مقابلوں میں بھی انھوں نے 16 وکٹیں اپنے کھاتے میں جمع کیں جن میں آسٹریلیا کے خلاف میلبورن میں 5/53، سڈنی میں آسٹریلیا کے خلاف 3/27، سڈنی میں ہی آسٹریلیا کے خلاف 3/43 اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ایڈیلیڈ میں 3/34 کے اعداد و شمار حاصل کیے تھے۔ 1984ء میں ہی شارجہ میں منعقدہ 2 میچوں میں انھوں نے سری لنکا کے خلاف 2/42 اور بھارت کے خلاف 0/36 تک ہی ہمت دکھائی۔ 1985ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے خلاف 4 میچوں میں عبد القادر نے 6 وکٹ حاصل کیے۔ اسی سال ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم گرائونڈ پر 5 میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 6 رہی۔ اس میں لاہور کے میچ میں 17 رنز کے عوض 4 کھلاڑیں کی وکٹیں بھی شامل تھیں۔ 1986ء میں سری لنکا میں کھیلے جانے والے ون ڈے ٹورنامنٹ میں سری لنکا، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف عمدہ کارکردگی سرائے جانے کے قابل تھی۔ انھوں نے کینڈی میں سری لنکا کے خلاف3/23، کولمبو میں 2/47 اور کولمبو میں ہی 3/24 کے ساتھ ٹیم کی مدد کی جبکہ بنگلہ دیش کے خلاف 15 رنز دے 3 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ 1986ء میں شارجہ میں منعقدہ آسٹریلیشیا ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف صرف 9 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ پاکستان نے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو صرف 64 رنز پر ہی آئوٹ کر دیا تھا۔ عبد القادر نے 10 اوورز میں 4 میڈن کرکے صرف 9 رنز کے عوض بروس ایڈگر، ٹونی بلیم، جان برسویل اور ایرون میکسوینی کی اننگ کا گلا گھونٹا۔ پاکستان نے مقررہ ہدف بغیر کوئی وکٹ گنوائے 22.4 اوورز میں پورا کر لیا تھا۔ 1987ء میں دورئہ بھارت میں انھوں نے ناگپور کے میچ میں 75/3، انگلستان کے خلاف شارجہ میں 3/47 کی کارکردگی دکھا کر شائقین کو محظوظ کرتے رہے۔ 1987ء میں شارجہ کپ مقابلوں میں انھوں نے آسٹریلیا، انگلینڈ اور انڈیا کے خلاف مجموعی طور پر 4 وکٹ لے کر پاکستان اور انڈیا میں منعقدہ چوتھے عالمی کپ کے لیے بہتر کارکردگی کا عندیہ دے دیا۔ عالمی کپ مقابلوں میں 12 وکٹیں حاصل کیں جن میں انگلستان کے خلاف راولپنڈی کے ایک روزہ میچ میں 31 رنز کے عوض 4 وکٹیں بھی شامل تھیں۔ 1987ء میں ہی انگلستان نے پاکستان کا دورہ کیا تو عبد القادر ایک بار پھر انگلش کھلاڑیوں پر بجلی گرانے کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے لاہور میں 32/2، کراچی میں 30/3 اور پشاور میں 49/3 کی عمدہ کارکردگی دکھائی لیکن 1988ء میں دورئہ ویسٹ انڈیز کے 3 ایک روزہ میچوں میں انھیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ اس طرح عبد القادر وقتاً فوقتاً ون ڈے مقابلوں میں شریک ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ 1993ء میں سری لنکا کے خلاف شارجہ میں ان کے کیریئر کا آخری میچ منعقد ہوا جس میں 7 ناٹ آئوٹ رنز بنانے کے علاوہ 35 رنز دینے کے باوجود انھیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔
اعدادو شمار
ترمیمعبد القادر نے 67 ٹیسٹ میچوں کی 77 اننگز میں 11 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 1029 رنز بنائے۔ 61 ان کا سب سے زیادہ کسی ایک اننگ کا انفرادی سکور اور فی اننگ اوسط 15.59 تھی۔ انھوں نے 3 نصف سنچریاں اور 15 کیچز بھی ریکارڈ کا حصہ بنائے۔ عبد القادر نے 104 ایک روزہ مقابلوں کی 68 اننگز میں 26 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 641 رنز بنائے۔ ناقابل شکست رہنے کے ساتھ 41 ان کا سب سے زیادہ سکور اور 15.26 ان کی اوسط تھی۔ 21 کیچز بھی ان کے کھاتے میں درج ہیں۔ اسی طرح 209 فرسٹ کلاس میچوں کی 247 اننگز میں 43 دفعہ بغیر آئوٹ ہوئے 3740 رنز ان کے بلے سے جاری ہوئے جس میں 112 ان کا سب سے زیادہ سکور ہے۔ فرسٹ کلاس میچوں میں 2 سنچریاں' 8 نصف سنچریاں اور 83 کیچز بھی ان کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ عبد القادر نے ٹیسٹ میچوں میں 7742 رنز دے کر 236 وکٹوں کے حصول کو ممکن بنایا۔ 56/9 ان کی کسی ایک اننگ میں بہترین بولنگ ہے جبکہ 101/13 ان کے کسی ایک میچ کا بہترین فگر ہے۔ 32.80 رنز فی وکٹ کی اوسط سے انھوں نے 12 مرتبہ کسی ایک اننگ میں 4' 15 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا 5 سے زیادہ جبکہ کسی ایک میچ میں 5 مرتبہ 10 یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔ عبد القادر کی ون ڈے میچوں میں وکٹوں کی تعداد 132 رہی۔ 44/5 ان کی کسی ایک اننگ میں بہترین بولنگ کا اعزاز ہے جس کے لیے انھیں 26.16 کی اوسط حاصل ہوئی۔ انھوں نے 4 مرتبہ 4 وکٹیں اور 2 دفعہ 5 وکٹیں حاصل کیں۔ 22314 رنز دے کر انھوں نے فرسٹ کلاس میچوں میں 960 وکٹوں کا ہدف حاصل کیا۔ 9/49 ان کی بہترین کارکردگی تھی۔ 23.24 کی اوسط سے فی وکٹ لینے والے عبد القادر نے 75 دفعہ 5 یا اس سے زائد' اور 21 دفعہ کسی ایک میچ میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔ عبد القادر کو کئی منفرد ریکارڈ تک رسائی حاصل رہی۔ عبد القادر نے 1987ء میں انگلستان کے خلاف لاہور میں 37 اوورز میں 13 میڈن پھینک کر 56 رنز کے عوض 9 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ وہ دنیائے بولرز کی اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں جنھوں نے کسی ٹیسٹ میں 2 دفعہ 10 یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے 1987ء کی سیریز میں پہلے انگلستان کے خلاف اوول میں 211/10 اور لاہور میں 101/13 کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے 1987ء میں انگلستان کے خلاف لاہور میں انگلش ٹیم کے خلاف ایک اننگ میں 9 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا جبکہ دوسری باری میں ان کے حصے میں 4 وکٹ آئے۔ یہ پاکستان کی طرف سے بھی کسی لیگ سپن بولر کی بہترین کارکردگی کا آئینہ دار ہے[2]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Umar Akmal in trouble over wedding celebrations"۔ The National۔ 16 April 2014
- ↑ https://www.espncricinfo.com/player/abdul-qadir-38973
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |