عبد اللہ بن یزید
عبد اللہ بن یزید المعروف الاسوار خلافت امویہ کی سفیانی شاخ کا ایک شاہزادہ تھا۔ اُس کا باپ یزید اوّل (دورِ امارت: 680ء - 683ء) تھا۔ اپنے بڑے بھائی معاویہ ثانی (دورِ امارت: 683ء - 684ء) کی وفات پر عبد اللہ اور اُس کا بھائی خالد کم سن تھے اس بنا پر شام میں موجود بنو اُمیہ کے حامی قبائل نے دونوں بھائیوں کو حکومتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے ناقابل پایا اور تخت اُن کے ایک رشتہ دار مروان اوّل (دورِ امارت: 684ء - 685ء) کو مل گیا۔ عبد اللہ تیر اندازی اور گھڑ سواری کے فنونِ حرب میں طاق تھا۔ دوسری خانہ جنگی کے دوران (691ء میں) عبد اللہ اُس لشکر کی سپہ سالاری پر متعین تھا جس نے اُموی مخالف قوتوں کے قبضہ سے عراق کو بازیاب کرایا تھا۔
عبد اللہ بن یزید بن معاویہ | |
---|---|
شریکِ حیات |
|
نسل |
|
شاہی خاندان | اُمویہ |
والد | یزید بن معاویہ |
والدہ | اُمِ کلثوم بنتِ عبد اللہ بن عامر |
مذہب | اسلام |
پیشہ | فوجی کمان دار |
سلسلۂ نسب
ترمیمعبد اللہ بن یزید اوّل بن معاویہ اوّل بن ابی سفیان بن حرب بن اُمیہ بن عبدِ شمس بن عبدِ مناف بن قُصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
والدین
ترمیمعبد اللہ کے باپ کا نام یزید اوّل تھا جو بنو اُمیہ کا دوسرا امیر اور عالم اِسلام کی ایک متنازع اور قابلِ نفرت شخصیت کا مالک تھا۔ ماں کا نام اُمِ كلثوم تھا[1] جو بنو اُمیہ کی ایک شاخ بنو عبدِ شمس سے تعلق رکھتی تھیں اور فاتحِ خراسان عبد اللہ بن عامر کی بیٹی تھیں۔[2]
زبیریوں کا عروج
ترمیم683ء میں یزید اور 684ء میں اُس کے بڑے بیٹے اور جانشین معاویہ ثانی کی وفات کے بعد اقتدار بنو اُمیہ کے ہاتھ سے تیزی سے پھسلنے لگا تھا۔ بیشتر صوبجات اور بالخصوص شام کے فوجی اضلاع کہ جنھیں بنی اُمیہ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، مکہ کے خلیفہ حضرت عبد اللہ بن زبیر کی اطاعت قبول کر چکے تھے۔
وفادار قبائل کا اجلاس
ترمیمسفیانیوں کے پُرانے حلیف بنو کلب نے اُموی دربار میں اپنے عہدوں اور مراعات کے تحفظ کے لیے شام میں موجود سبھی وفادار قبائل کا اجلاس طلب کیا تا کہ معاویہ ثانی کی جانشینی کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔ دمشق میں بنی اُمیہ کے حامیوں اور مخالفوں میں معمولی سی جھڑپ ہونے پر دمشق کے زبیری گورنر ضحاک بن قيس نے یزید اوّل کے چچا زاد ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو گرفتار کر لیا لیکن عبد اللہ نے اپنے بھائی خالد اور بنو کلب کے حامیوں کے ہمراہ اُسے زبیریوں کی قید سے چھڑا لیا۔ یزید کے ماموں زاد بھائی ابن بحدل نے اس اجلاس میں یزید کے بیٹوں عبد اللہ اور خالد کو امارت کا اُمید وار ظاہر کیا مگر دیگر وفادار قبائل نے اس نامزدگی کی مخالفت کی کیوں کہ تب دونوں بھائی اس عہدے کے لیے ناموزوں اور ناتجربہ کار تھے۔ آخر اُن کے ایک دُور کے رشتہ دار مروان بن الحکم کو اس منصب کے لیے منتخب کر لیا گیا اور اُس نے شام سے زبیری اقتدار کا خاتمہ کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ 684ء میں مروان نے مرج راہط کی جنگ میں ضحاک بن قیس کو شکست دے کر شام پر بنی اُمیہ کا اقتدار از سر نو بحال کر دیا۔[1]
بہترین گھڑ سوار
ترمیمعبد اللہ کو اپنے زمانہ کا بہترین عرب گھڑ سوار مانا جاتا تھا۔ طبری کا بیان ہے کہ عبد اللہ کو الاسوار کے لقب سے شہرت حاصل تھی، یہ فارسی زبان کا لفظ تھا جس کے معنی گھڑ سوار کے ہیں۔ طبری نے اس حوالے سے کسی گم نام شاعر کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے جس میں عبد اللہ کی گھڑ سواری کی تعریف کی گئی ہے اور اُسے الاسوار کے لقب سے یاد کیا گیا ہے: [2]
زعم الناس أن خير قريش
كلهم حين يذكر الأسوار[3]
اعلیٰ فوجی عہدے کا حصول
ترمیممروان کے بعد اُس کا بیٹا عبد الملک تخت نشین ہوا اور اس طرح جانشینی کی سابقہ وصیت منسوخ ہو کر رہ گئی جس کے مطابق مروان کے بعد عبد اللہ کے بھائی خالد اور اُس کے بعد الاشدق کو تخت ملنا تھا۔ اس کے ردِ عمل میں الاشدق نے 689ء میں عبد الملک کے خلاف دمشق میں علمِ بغاوت بلند کیا مگر عبد الملک نے یہ بغاوت کچل ڈالی۔ عبد الملک نے اُسے پیغام بھیجا کہ اُس کے دربار میں حاضر ہو۔ عبد اللہ کی الاشدق سے سسرالی رشتہ داری تھی، اُس نے الاشدق کو عبد الملک کے پاس نہ جانے کا مشورہ دیا[4] مگر الاشدق نے اُس کے مشورے پر کان نہ دھرے اور بے فکر ہو کر عبد الملک سے ملاقات کو چل دیا جہاں اُسے قتل کر دیا گیا۔ عبد الملک نے عبد اللہ اور اُس کے بھائی خالد سے اچھا سلوک کیا اور اُن دونوں کو اپنے لشکر میں اہم عہدے سونپ دیے۔ عبد اللہ کو اُموی لشکر کے میمنہ کی اور خالد کو میسرہ کی سالاری سونپی گئی تھی۔ اس حیثیت سے عبد اللہ 691ء میں دیر الجثالیق کی جنگ میں شریک ہوا اور عراق کا صوبہ دوبارہ بنی اُمیہ کے تحت لانے میں کامیابی پائی۔[5]
ازواج و اولاد
ترمیمعبد اللہ نے متعدد نکاح کیے جن کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے:
- عتیقہ: یہ خاتون عبد اللہ بن معاویہ بن ابی سفیان کی بیٹی اور عبد اللہ کی چچا زاد تھی۔[6]
- اُم کلثوم: یہ عنبسہ بن ابی سفیان کی بیٹی اور معاویہ کی بھتیجی تھی۔[6]
- رملہ بنت ابی سفیان[7]
- عائشہ: خلیفۂ سوم کی پوتی اور معاویہ کے دور میں خراسان کے والی سعید بن عثمان بن عفان کی بیٹی تھیں۔[7]
- اُم عثمان: یہ خلیفۂ سوم کے پوتے خالد بن عمرو بن عثمان بن عفان کی بیوی اور سعید بن العاص کی بیٹی تھیں۔ خالد بن عمرو کی وفات پر عبد اللہ کے نکاح میں آئیں۔ ان سے عبد اللہ کے دو بیٹے ابو عتبہ اور ابو ابان ہوئے۔[8]
- اُم موسیٰ: یہ الاشدق کی بیٹی تھیں۔[6]
- عائشہ بنت الزبان: یہ بنو کلب کی ایک خاتون تھیں۔[9]
عبد اللہ کی اولاد میں سے ایک بیٹی ہشام (دورِ امارت: 724ء - 743ء) سے بیاہی گئی۔[8] ایک بیٹا زیاد نامی تھا جو ولید ثانی کے لشکر میں سالار تھا، جب بنو عباس نے بنو اُمیہ کا تختہ اُلٹا تو اس نے السفیانی کے لقب سے عباسیوں کے خلاف بغاوت کی تھی۔[8]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب خلافتِ یزید بن معاویہ (680ء - 683ء / 60ھ تا 64ھ)، الطبری، ایڈیٹر: آئی کے اے ہاورڈ، صفحہ 226
- ^ ا ب محمد ﷺ کے قبیلے میں شادیاں: ابتدائی عربی نسباتی ادب کا شماریاتی مطالعہ، ڈاکٹر مجید رابنسن، صفحہ 143
- ↑ البدایہ و النہایہ، ابن کثیر، ذکر اولادِ یزید بن معاویہ
- ↑ مروانیوں کی فتح (66ھ - 73ھ / 685ء - 693ء)، الطبری، مدیر: میکائیکل فش بین، صفحات 154 - 159
- ↑ خلفاء کی افواہج، ہیو کینیڈی، صفحہ 33
- ^ ا ب پ محمد ﷺ کے قبیلے میں شادیاں: ابتدائی عربی نسباتی ادب کا شماریاتی مطالعہ، ڈاکٹر مجید رابنسن، صفحہ 144
- ^ ا ب ابتدائی اسلامی حجاز کی مذہبی اشرافیہ، اسد احمد، صفحہ 113
- ^ ا ب پ ابتدائی اسلامی حجاز کی مذہبی اشرافیہ، اسد احمد، صفحہ 119
- ↑ محمد ﷺ کے قبیلے میں شادیاں: ابتدائی عربی نسباتی ادب کا شماریاتی مطالعہ، ڈاکٹر مجید رابنسن، صفحہ 143
کتابیات
ترمیم- ابتدائی اسلامی حجاز کی مذہبی اشرافیہ، اسد احمد، یونیورسٹی آف آکسفورڈ لیناکر کالج یونٹ برائے پروسوپوگرافیکل ریسرچ، آکسفورڈ، 2010ء
- تاریخ طبری، جلد 21، مروانیوں کی فتح (66ھ - 73ھ / 685ء - 693ء)، الطبری، مدیر: میکائیکل فش بین، اسٹیٹ یونی ورسٹی آف نیو یارک پریس، البانی، نیو یارک، 1990ء
- تاریخ طبری، جلد 20، سفیانی حکومت کا خاتمہ اور مروانیوں کا ظہور: معاویہ ثانی اور مروان اوّل کی امارت اور عبد الملک کی حکومت کا آغاز (64ھ - 66ھ / 683ء - 685ء)، الطبری، مدیر: جیرالڈ آر ہاٹنگ، اسٹیٹ یونی ورسٹی آف نیو یارک پریس، البانی، نیو یارک، 1989ء
- تاریخ طبری، جلد 19، خلافتِ یزید بن معاویہ (60ھ - 64ھ / 680ء - 684ء)، الطبری، مدیر: آئی کے اے ہاورڈ، الطبری، اسٹیٹ یونی ورسٹی آف نیو یارک پریس، البانی، نیو یارک، 1990ء
- خلفاء کی افواہج: ابتدائی اسلامی ریاست میں فوج اور معاشرہ، ہیو کینیڈی، روٹلیج پبلشرز، لندن اور نیو یارک، 2001ء
- محمد ﷺ کے قبیلے میں شادیاں: ابتدائی عربی نسباتی ادب کا شماریاتی مطالعہ، ڈاکٹر مجید رابنسن، والٹر ڈی گروئٹر پبلشرز، برلن، 2020ء