عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی (عطیہ عوفی کوفی) جو بعض تاریخی کتابوں کے مطابق 36 سے 40 ہجری کے درمیان میں عرب کے مشہور بکالی خاندان میں پیدا ہوئے۔ بعض تحقیقات کے مطابق چونکہ ان کی پرورش کوفہ میں ہوئی، اس لیے انھیں کوفی کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض کے مطابق وہ کوفہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے، کیونکہ ان کا والد سعد بن جنادہ کوفہ کا رہنے والا نہیں تھا۔ بکالی خاندان قبیلہ بنی عوف بن امر القیس سے تعلق رکھتے تھے اور عرب قبائل میں اس قبیلہ کو ایک خاص مقام و منزلت حاصل تھا، چونکہ وہ بنی عوف قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، اس لیے اسے عطیہ عوفی کہا جاتاہے۔[1]

عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی
معلومات شخصیت
مقام پیدائش کوفہ
مقام وفات کوفہ، اموی سلطنت
عملی زندگی
پیشہ تابعی، محدث، مفسر، کماندار، سیاسی کارکن

جنادہ مشہور روایوں میں سے ہیں، جنھوں نے بہت ساری روایتوں کو نقل کیا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امام علی علیہ السلام کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے اور آپ کے ساتھ بہت سے جنگوں میں شرکت کی اور اس بارے میں بہت سی روایات ان سے نقل ہوئی ہیں۔ مشہور مورخ ابن سعد کہتے ہیں: سعد بن محمد ابن الحسن، عطیہ کا بیٹا نقل کرتا ہے: سعد بن جنادہ کوفہ میں امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کہا: یا امیر المومنین علیہ السلام: مجھے ایک بیٹا پیدا ہوا ہے، آپ اس کے لیے کوئی مناسب نام انتخاب کریں۔ امام نے فرمایا: یہ بیٹا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عطا اور ہدیہ ہے۔ پس وہ عطیہ کے نام سے مشہور ہوا، اس کی والدہ اہل روم تھیں۔[2]

زیارۃ اربعین کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: مومن کی نشانیوں میں سے ایک زیارۃ اربعین کی تلاوت کرناہے۔[3] جب بھی زیارت اربعین اور چہلم امام حسین علیہ السلام کا ذکر ہو، وہاں حتما ان دو ہستیوں یعنی جابر اور عطیہ کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہستیاں اسلامی تاریخ کی معروف شخصیات میں سے ہیں۔ لیکن جو چیز انھیں دوسری شخصیات اور افراد سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کا شمار امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائروں میں ہوتا ہے۔ بعض افراد عطیہ عوفی کو جابر بن عبداللہ انصاری کا غلام تصور کرتے ہیں، جبکہ یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ کسی بھی مستند منابع میں اس بات کا ذکر نہیں ہوا ہے، بلکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بزرگ صحابی کا قابل اعتماد شاگرد رہا ہے۔ عطیہ عوفی اور جابر بن عبد اللہ انصاری 20 صفر 61ء ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہونے والے پہلے زائر تھے، جو شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی مرقد پر پہنچے۔

عطیہ عوفی بہت بڑے عالم، محدث، مفسر اور سماجی اور سیاسی معاملات میں متحرک مسلمان تھے۔ عطیہ تابعین میں سے تھے، جنھوں نے رسولؑ خدا کو درک نہیں کیا وہ امام علی علیہ السلام کے اصحاب اور ان کے بعد باقی آئمہ علیہم السلام کے بھی اصحاب تھے، انھوں نے امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کو بھی درک کیا۔ عطیہ نے اپنے استاد سے حدیث غدیر کے علاوہ زیارت اربعین کو بھی نقل کیا ہے۔ جابر بن عبد اللہ انصاری پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی اصحاب میں سے ہیں، جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ امام باقر علیہ السلام کو ان کا سلام پیش کرنا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو یہ بشارت دی تھی کہ وہ زندہ رہیں گے اور پانچویں امامؑ سے ملاقات کریں گے۔ عطیہ عوفی نے برجستہ استادوں سے تربیت حاصل کی، جن میں سب سے مشہور جابر بن عبد اللہ انصاری اور عبد اللہ ابن عباس ہیں، جبکہ بعض کتابوں میں ان کے آٹھ اساتذہ کا نام ذکر کیا گیا ہے۔ عطیہ نے پانچ جلدوں پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے۔[4]

عطیہ اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے عالم دین تھے اور علمی اعتبار سے ان کو اتنا مقام حاصل تھا کہ اہل سنت علما بھی ان پر اعتماد کرتے تھے۔ عطیہ کے علمی آثار اہل سنت علما کے درمیان میں بھی معتبر تھے، خاص کر طبری اور خطیب بغدادی جیسی عظیم شخصیات نے اس عظیم عالم کے علمی آثار سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ عطیہ کو قرآن اور علوم قرآنی سے اس قدر محبت تھی کہ خود ایک روایت میں نقل کرتا ہے: میں نے ابن عباس سے قرآن پاک کی تین دورہ تفسیر سیکھا ہے اور ستر مرتبہ قرآن اس کے پاس پڑھا ہے۔[5] عطیہ نے بھی بعض افراد کی تربیت کی، جن میں سے بعض کے نام کتاب تہذیب التہذیب میں ذکر ہے۔ اس کے اہم ترین شاگردوں میں مشہور راوی اعمش اور اس کے اپنے تین بچے حسن، عمرو اور علی شامل ہیں۔[6]

عطیہ عالم، مفسر قرآن اور ایک عظیم محدث ہونے کے علاوہ ایک سماجی اور سیاسی کارکن بھی تھے جیسے: 1۔ عطیہ نے حدیث ثقلین، حدیث ائمہ اثنا عشر، حدیث سفینہ نوح، حدیث غدیر، حدیث منزلت، حدیث سد الابواب وغیرہ اور وہ احادیث جو سیاسی اعتبار سے بھی زیادہ اہم سمجھے جاتے تھے، نقل کیا ہے اسی طرح آیت تطہیر کی تفسیر بیان کی ہے۔

2۔ عطیہ جابر کے ساتھ اس انتہائی حساس اور خطرناک صورت حال میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، کیوں کہ امام حسین کی علیہ السلام شہادت کے بعد یزید اپنے آپ کو فاتح کربلا سمجھتا تھا اور اپنے ظلم و ستم اور جنایتوں کے لیے کسی کو مانع نہیں سمجھتا تھا اور ہمیشہ اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے ذریعہ، قیام عاشورا کو اپنی جائز حکومت کے خلاف بغاوت قرار دیتا تھا۔ اس صورت حال میں جناب جابر اور جناب عطیہ کا مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا قصد کر کے کربلا جانا اور اس مقدس مرقد پر عزاداری کرنا حقیقت میں آپ کے حقیقی فتح کی ترجمانی کرنا تھا۔

3۔ عطیہ قیام مختار ثقفی میں شریک ہوئے اور مختار کے حکم پر عبداللہ بن زبیر کے ہاتھوں سے بنی ہاشم اور محمد بن حنفیہ کو بچانے کے لیے ابو عبد اللہ جدلی کی سربراہی میں مکہ روانہ ہو گئے۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو ابو عبد اللہ جدلی نے عطیہ کو آٹھ سو فوجیوں کی کمان دے کر شہر روانہ کیا۔ یہ گروہ مکہ میں تکبیر کی آواز بلند کرتے مکہ میں وار ہو گئے۔ عبد اللہ بن زبیر نے جب یہ آواز سنا تو بھاگ کر دارالندوہ میں داخل ہو گئے۔ بعض کے مطابق عبد اللہ بن زبیر نے کعبہ کے غلاف سے پکڑ کر پناہ لی اور کہا کہ میں خدا کی پناہ میں ہوں۔ عطیہ کہتے ہیں: ہم ابن عباس اور ابن حنفیہ کے پاس گئے، جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھروں میں قید تھے، جن کے چاروں طرف اس طرح سے لکڑی کی دیواریں بنائی گئی تھی کہ اگر کوئی اسے آگ لگا دے تو وہ سب جل جائیں۔ ان افراد کو بچانے کے بعد ہم نے ابن عباس اور محمد بن حنفیہ سے اجازت طلب کی کہ وہ عبد اللہ بن زبیر کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اجازت دیں، لیکن انھوں نے خانہ کعبہ کے وقار کی وجہ سے اس بات کی اجازت نہیں دی۔[7]

وفات ترمیم

تاریخ ان کی سیاسی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ تاریخی منابع میں ان کے بارے میں کچھ اس طرح ذکر ہیں: کوفہ میں ظالم و جابر حکومتوں کے خلاف بے شمار تحریکیں وجود میں آئی ہیں، جن میں سے ایک عبدالرحمٰن ابن محمد اشعث کی تحریک تھی۔ یہ تحریک خراسان سے شروع ہوئی تھی اور عراق کے کچھ بڑے دانشمند اور قاریان، جیسے سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی اور عطیہ عوفی بھی عبد الرحمٰن کے ساتھ اس تحریک میں شامل تھے۔ جب عبد الرحمٰن کو شکست ہوئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا تو عطیہ فارس بھاگ جانے میں کامیاب ہوا۔ حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم ثقفی کو ایک خط لکھا اور یہ حکم دیا کہ وہ عطیہ کو اپنے پاس بلا لیں اور اسے کہہ دیں کہ وہ علی بن ابی طالب پر لعنت بھیجیں۔ (معاذاللہ)۔ اگر اس نے اس عمل کو انجام دیا تو ٹھیک ہوا ورنہ اسے چار سو کوڑے مارنا اور اس کے سر کے بال اور داڑھی کو منڈوانا۔ چنانچہ اس نے عطیہ کو طلب کیا اور حجاج کے خط کو پڑھ کر اسے سنایا۔ عطیہ نے اس کی اطاعت سے انکار کر دیا اور اس نے بھی حجاج کے حکم پر عمل کیا اور اس پر چار سو کوڑے مارا اور اس کے سر کے بال اور داڑھی کو منڈوا لیا۔ [8] جب قتیبہ بن مسلم نے خراسان کی گورنری سنبھالی تو، عطیہ اس کے پاس چلا گیا اور خراسان میں رہا، یہاں تک کہ عمر بن ہبیرہ نے عراقی حکومت کا اقتدار سنبھال لیا۔ اس وقت، عطیہ نے اسے ایک خط لکھ کر کوفہ واپس آنے کا مطالبہ کیا تو ہبیرا نے اسے کوفہ آنے کی اجازت دی۔ عطیہ کوفہ واپس آئے اور 111 ہجری میں وفات پانے تک کوفہ میں مقیم رہے۔ [9]

حدیث غدیر ترمیم

ابن مغازلی نے اپنی کتاب میں عطیہ عوفی سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عطیہ نے کہا: میں نے ابن ابی اوفی کو اس کے گھر کے پاس دیکھا جب وہ نابینا ہو چکا تھا۔ میں نے اس سے حدیث غدیر کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: اے کوفہ کے رہنے والو: کس قدر تم بد بخت ہو۔ وائے تمھاری اس حالت پر۔ میں نے کہا: خدا تمھارے کام کو آسان اور اصلاح کرے، میں کوفہ سے نہیں ہوں اور تجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ میں کوفہ کا رہنے والا نہیں ہوں۔ اس نے پوچھا: تمھاری مراد کونسی حدیث ہے؟ میں نے کہا حدیث غدیر کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں، جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روز غدیر علیؑ ابن ابی طالب کے بارے میں فرمایا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خم کے میدان میں غدیر کے دن علیؑ ابن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوا: اے لوگو! کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین سے زیادہ ان کے جسموں پر تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں اے رسول خدا۔ اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: جس جس کا میں مولا ہوں، اس کا علیؑ ابن ابی طالب بھی مولا ہے۔[10] ۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں: حافظ ابونعیم نے اپنی کتاب (مانزل من القرآن فی علیؑ) میں اعمش (عطیہ عوفی کا شاگرد) سے اور اعمش، عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ اس آیہ شریفہ (یا آیھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک)[11]۔ کی شان نزول کے بارے میں کہتا ہے کہ: (نزلت ہذہ الآیہ علیؑ رسول اللہ فی علیؑ بن ابی طالب) یہ علیؑ بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوا ہے۔[12]

خطبہ فدک ترمیم

عطیہ کا دوسرا لازوال کام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا خطبہ فدک ہے۔ آپؑ نے یہ خطبہ مسجد نبوی میں دیا تھا۔ عطیہ نے اسے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے فرزند عبد اللہ بن مثنی کو نقل کیا اور اس طرح یہ خطبہ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں ایک یاد گار کے طور پر ثبت ہوا۔

حدیث زیارت اربعین ترمیم

طبری اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: عن عطیّة العوفی: خَرَجتُ مَعَ جابِرِ بنِ عَبدِ اللّہ ِ الأَنصارِیِّ زائِرَینِ قَبرَ الحُسَینِ بنِ عَلِیِّ بنِ أبی طالِبٍ علیہ السلام، فَلَمّا وَرَدنا کَربَلاَ دَنا جابِرٌ مِن شاطِئِ الفُراتِ فَاغتَسَلَ، ثُمَّ اتَّزَرَ بِإِزارٍ وَارتَدى بِآخَر، ثُمَّ فَتَحَ صُرَّةً فیها سُعدٌ فَنَثَرَها عَلى بَدَنِہ، ثُمَّ لَم یَخطُ خُطوَةً إلّا ذَکَرَ اللّہ َ تَعالى۔ حَتّى إذا دَنا مِنَ القَبرِ قال: ألمِسنیهِ فَأَلمَستُهُ فَخَرَّ عَلَى القَبرِ مَغشِیّا عَلَیهِ فَرَشَشتُ عَلَیهِ شَیئا مِنَ الماءِ فَلَمّا أفاقَ قال: یا حُسَینُ ثَلاثا ثُمَّ قال: حَبیبٌ لا یُجیبُ حَبیبَهُ۔ ثُمَّ قال: وأنّى لَکَ بِالجَوابِ وقَد شُحِطَت أوداجُکَ عَلى أثباجِک، وفُرِّقَ بَینَ بَدَنِکَ ورَأسِک، فَأَشهَدُ أنَّکَ ابنُ خاتَمِ النَّبِیّین وَابنُ سَیِّدِ المُؤمِنین وَابنُ حَلیفِ التَّقوى وسَلیلِ الهُدى وخامِسُ أصحابِ الکِساءِ وَابنُ سَیِّدِ النُّقَباءِ وَابنُ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ النِّساءِ وما لَکَ لا تَکونُ هکَذا وقَد غَذَّتکَ کَفُّ سَیِّدِ المُرسَلین ورُبّیتَ فی حِجرِ المُتَّقین ورُضِعتَ مِن ثَدیِ الإِیمانِ وفُطِمتَ بِالإِسلام فَطِبتَ حَیّا وطِبتَ مَیِّتا غَیرَ أنَّ قُلوبَ المُؤمِنینَ غَیرُ طَیِّبَةٍ لِفِراقِک ولا شاکَّةٍ فِی الخِیَرَةِ لَکَ فَعَلَیکَ سَلامُ اللّہ و رِضوانُهُ وأشهَدُ أنَّکَ مَضَیتَ عَلى ما مَضى عَلَیهِ أخوکَ یَحیَى بنُ زَکَرِیّا۔

میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے لیے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادر پہنا، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اور اپنے آپ کو اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم اٹھانا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ حسینؑ ابن علیؑ کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابر نے کہا: میرا ہاتھ قبر حسینؑ پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسینؑ پر رکھا۔ اس نے قبر حسینؑ ابنی علیؑ کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا۔ جب میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسینؑ کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ) کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھر جابر خود جواب دیتا ہے کہ آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس کو جسم سے جدا کیا گیا ہے؟، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبرؑ خاتم اور امیر المومنین علیؑ ابن ابی طالب اور فاطمہؑ زہرا کے فرزند ہیں اور آپ اس طرح کیوں نہ ہوں، کیونکہ خدا کے رسولؑ نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپؑ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپؑ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے، اگرچہ مومنین آپ کی شہادت سے محزون ہیں۔ خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسولؑ خدا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو ایسی شہادت نصیب ہوئی، جیسے یحییٰ بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔

ثُمَّ جالَ بِبَصَرِهِ حَولَ القَبرِ وقال: السَّلامُ عَلَیکُم أیَّتُهَا الأَرواحُ الَّتی حَلَّت بِفِناءِ الحُسَینِ وأناخَت بِرَحلِهِ وأشهَدُ أنَّکُم أقَمتُمُ الصَّلاةَ وآتَیتُمُ الزَّکاةَ، وأمَرتُم بِالمَعروفِ ونَهَیتُم عَنِ المُنکَرِ وجاهَدتُمُ المُلحِدین وعَبَدتُمُ اللّہ َ حَتّى أتاکُمُ الیَقینُ۔ وَالَّذی بَعَثَ مُحَمَّدا بِالحَقِّ نَبِیّا لَقَد شارَکنا کُم فیما دَخَلتُم فیهِ۔ قالَ عَطِیَّةُ: فَقُلتُ لَهُ: یا جابِرُ ! کَیفَ ولَم نَهبِط وادِیا ولَم نَعلُ جَبَلاً ولَم نَضرِب بِسَیفٍ وَ القَومُ قَد فُرِّقَ بَینَ رُؤوسِهِم وأبدانِهِم، واُوتِمَت أولادُهُم و أرمَلَت أزواجُهُم ؟! فَقال: یا عَطِیَّةُ ! سَمِعتُ حَبیبی رَسولَ اللّہ ِصلى اللہ علیہ و آلہ یَقولُ: مَن أحَبَّ قَوما حُشِرَ مَعَهُم و مَن أحَبَّ عَمَلَ قَومٍ اُشرِکَ فی عَمَلِهِم وَالَّذی بَعَثَ مُحَمَّدا بِالحَقِّ نَبِیّا إنَّ نِیَّتی ونِیَّةَ أصحابی عَلى ما مَضى عَلَیهِ الحُسَینُ علیہ السلام وأصحابُهُ خُذوا بی نَحوَ أبیاتِ کوفانَ۔ اس کے بعد جابر نے سید الشہداء علیہ السلام کے اطراف میں موجود قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ لوگوں پر اے پاکیزہ ہستیاں کہ آپ لوگوں نے حسینؑ ابن علیؑ علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے حضرت محمد مصطفٰی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا، ہم بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں۔

عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں، جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے۔ نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہے، لیکن ان لوگوں کے سروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اور ان کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں؟۔ جابر نے مجھے جواب دیا اے عطیہ! میں نے اپنے محبوب رسولؑ خدا سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر کوئی کسی گروہ کو چاہتا ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور ہوں گے اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نے محمدؑ مصطفٰی کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ بھی وہی ہے، جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کا تھا۔ پھر اس کے بعد جابر نے کہا: میرا ہاتھ پکڑو اور مجھے کوفہ کی طرف لے چلو۔

فَلَمّا صِرنا فی بَعضِ الطَّریقِ قالَ: یا عَطِیَّةُ ! هَل اُوصیکَ وما أظُنُّ أنَّنی بَعدَ هذِهِ السَّفَرَةِ مُلاقیک؟ أحبِب مُحِبَّ آلِ مُحَمَّدٍ صلى اللہ علیہ و آلہ ما أحَبَّهُم وأبغِض مُبغِضَ آلِ مُحَمَّدٍ ما أبغَضَهُم وإن کانَ صَوّاما قَوّاما، وَارفُق بِمُحِبِّ مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ، فَإِنَّهُ إن تَزِلَّ لَهُ قَدَمٌ بِکَثرَةِ ذُنوبِهِ ثَبَتَت لَهُ اُخرى بِمَحَبَّتِهِم، فَإِنَّ مُحِبَّهُم یَعودُ إلَى الجَنَّةِ، ومُبغِضَهُم یَعودُ إلَى النّارِ۔ جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے: اے عطیہ! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو، جب تک کہ وہ آل محمدؑ سے محبت اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمدؑ کے دشمنوں سے عداوت کرو، جب تک کہ وہ آل محمدؑ سے دشمنی کرتے ہیں، گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہو اور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمدؑ کے چاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو، کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی بوجھ کو برداشت نہ کر سکے، تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمدؑ کی محبت کی وجہ سے مضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے، جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔[13]

حوالہ جات ترمیم

  1. سفینہ البحار،ج6،ص296
  2. شيخ عباس قمي، سفینة البحار، ج 6، ص 296 به نقل از تنقیح المقال۔
  3. وسائل الشیعه جلد10، صفحه 373۔
  4. شيخ عباس قمي، سفینة البحار، ج 6، ص 296 به نقل از تنقیح المقال۔
  5. ریحانۃ الادب،ج4،ص218
  6. شيخ عباس قمي، سفینة البحار، ج 6، ص 296 به نقل از تنقیح المقال
  7. الطبقات الکبری، ج‌5، ص:75۔
  8. حافظ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد ہفتم،226
  9. شيخ عباس قمي، سفینة البحار، ج 6، ص 296 به نقل از تنقیح المقال۔
  10. محمدباقر مجلسي، بحارالانوار، ج 37، ص 185 به نقل از الطرائف
  11. مائده، آیه 67۔
  12. بحارالانوار، ج 37، ص 190۔
  13. عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارة المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،‌ح 62