علاقہ لنڈی پٹی
علاقہ لنڈی پٹی ضلع چکوال میں ایک خاص علاقے پر مشتمل وادی لنڈی پٹی کہلاتی ہے۔
مشتمل دیہات
ترمیملنڈی پٹی سہگل آباد، ڈہمن، چوآگنج علی شاہ، جند خانزادہ، ملہال مغلاں، موگلہ اور جند اعوان یونین کونسلوں اور جھاٹلہ جسوال، پاکستان پر مشتمل ہے۔[1] اہمیت ضلع چکوال میں لنڈی پٹی کا علاقہ ۔ لنڈی پٹی کا علاقہ چکوال کی سیاست میں تاریخی طور پر اہم رہا ہے۔این اے 64 اور اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 22 کا ایک بڑا حصہ لنڈی پٹی کے علاقے پر مشتمل ہے۔اس صوبائی حلقے میں بڑے دیہات شامل ہیں اس سے ملحق علاقہ دھن کی ملحقہ آبادیاں بشمول وادی جھنگڑ اور وادی کہون کے علاقوں شامل ہیں ضلع چکوال کے مشرق میں شمالاَ جنوباَ تنگ پٹی کی صورت میں پھیلا لنڈی پٹی کا اس علاقے کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں شناسائی ہونا لازمی ہے۔سطح مرتفع پوٹھوہار میں واقع اس علاقے کو لنڈی پٹی کیوں کہا جاتا ہے اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔یہ علاقہ سہگل آباد سے کالس تک پھیلا ہوا ہے۔قیاس کیا جاتا ہے کہ لنڈی پٹی کے دانشور جو قصبہ ہسولہ کے پنڈت تھے نے چند صدیوں پہلے لنڈا رسم الخط ایجاد کیا تھا جو آگے چل کر گرمکھی رسم الخط کی بنیاد بنا۔اردو لغت کے مطابق لنڈا اس درخت کو کہا جاتا ہے جو شاخوں اور پتوں سے بے نیاز ہو۔ اس کے علاوہ لنڈا کے معنی بے یارو مدد گار بھی ہیں۔یہ علاقہ پنجاب کے اہم شہروں جہلم، راولپنڈی اور چکوال سے دور ہونے کے سبب کئی مسائل کا بھی شکار ہے۔1739ء میں جب نادر شاہ نے اس علاقے پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں موجود قلعہ ہسولہ پر گجر قابض تھے۔
حلقہ بندیاں
ترمیمضلع چکوال میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد لنڈی پٹی کا علاقہ ایک بار پھر امیدواروں کی ہار جیت کے لیے فیصلہ کن اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ لنڈی پٹی کا علاقہ چکوال کی سیاست میں تاریخی طور پر اہم رہا ہے۔این اے 64 اور اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 22 کا ایک بڑا حصہ لنڈی پٹی کے علاقے پر مشتمل ہے۔اس صوبائی حلقے میں بڑے دیہات شامل ہیں لیکن یہاں سے جیت کے لیے علاقہ دھن کی ملحقہ آبادیاں بشمول وادی جھنگر اور وادی کہون کے علاقوں میں اثرو رسوخ ہونا بھی ضروری ہوگا۔ضلع چکوال کے مشرق میں شمالاَ جنوباَ تنگ پٹی کی صورت میں پھیلا ہے
تاریخی حیثیت
ترمیمعلاقے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اس کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں شناسائی ہونا لازمی ہے۔سطح مرتفع پوٹھوہار میں واقع اس علاقے کو لنڈی پٹی کیوں کہا جاتا ہے اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔یہ علاقہ سہگل آباد سے کالس تک پھیلا ہوا ہے۔قیاس کیا جاتا ہے کہ لنڈی پٹی کے دانشور جو قصبہ ہسولہ کے پنڈت تھے نے چند صدیوں پہلے لنڈا رسم الخط ایجاد کیا تھا جو آگے چل کر گرمکھی رسم الخط کی بنیاد بنا۔اردو لغت کے مطابق لنڈا اس درخت کو کہا جاتا ہے جو شاخوں اور پتوں سے بے نیاز ہو۔ اس کے علاوہ لنڈا کے معنی بے یارو مدد گار بھی ہیں۔یہ علاقہ پنجاب کے اہم شہروں جہلم، راولپنڈی اور چکوال سے دور ہونے کے سبب کئی مسائل کا بھی شکار ہے۔1739ءمیں جب نادر شاہ نے اس علاقے پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں موجود قلعہ ہسولہ پر گجر قابض تھے۔قلعہ روہتاس ان کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ ان کا شمار علاقے کی جنگجو قوموں میں ہوتا تھا جبکہ سکھ عہد میں چیتر سنگھ لنڈی پٹی کا حاکم تھا جو طویل عرصہ تک گگھڑوں سے لڑائی کرتا رہا ہے۔گجر خاندان کے علاقے میں اثر و رسوخ کے باعث شاہان مغلیہ نے روہتاس کے حاکم چوہدری عبد الرحیم خان کو 84 دیہات کا حاکم مقرر کیا اس وجہ سے یہ علاقہ گجر چوراسی کہلایا جانے لگا۔قلعہ ہسولہ کا علاقہ نادر شاہ نے کالس کے گجر قبیلہ کو مرحمت کیا تھا۔ لنڈی پٹی کے شمالی سرے پر واقع کالس کا قصبہ سیاسی و سماجی طور پر با اثر گجروں کا گڑھ ہے۔کالس میں آباد یہ قبیلہ راجگان کہلاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ راجگان کالس طویل مدت سے یہاں سیاسی سر گرمیوں میں پیش پیش رہے ہیں۔سکھوں کے زوال کے بعد 1849ء میں جب فرنگیوں نے حکومت قائم کی تو جنرل نکلسن کی زیر نگرانی اس علاقے میں پہلا بندوبست اراضی ہوا۔انگریزوں نے وفادار لوگوں کو جاگیریروں سے نوازا جس کے سبب چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آ ئیں۔ راجگان کالس بھی انھیں میں سے ایک ہے۔پاکستان کے وجود میں آنے اور اس کے بعد تک جاگیردارانہ نظام عروج پر تھا لیکن صدر جنرل ایوب کے دور حکومت میں زرعی اصلاحات کے باعث اراضی انتقال ایکٹ کی وجہ سے کاشتکار اور غیر کاشتکار طبقے میں تفریق کم ہوئی۔
منتخب ارکان
ترمیم1965 میں ہونے والے انتخابات میں اس علاقے سے مرزا مظہر حسین ممبر صوبائی اسمبلی بنے۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن بھی تھے۔1970ء کے عام انتخابات میں یہ علاقہ جہلم کاحصہ تھا۔ قومی اسبملی کی نشست پر این ڈبلیو 34 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک محمد صادق 29 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 18 سے مرزا افضل الحق مسلم لیگ کونسل کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔1977ء کے عام انتخابات میں این اے 45 جہلم سے پی پی پی کے سردار خضر حیات جبکہ پی پی 21 جہلم سے عبد الغفار خان رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔5 جولائی 1977ء کے مارشل لا کے بعد ضیاالحق نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کروائے۔واضح رہے 1985 میں چکوال کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا تھا۔لنڈی پٹی کے راجگان کالس اور سرداران کوٹ چوہدریاں میں برسوں سے قائم اجارہ داری کو لنڈی پٹی کے ایک اور گاؤں جند اعوان کے ایک (ر) جنرل عبد المجید نے ختم کر دیا۔ لُنڈی پٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالمجید ملک پانچ بار رکنِ قومی اسمبلی رہے ان کے خاندان کا کوئی سیاسی پس منظر نہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ 1985 سے1997 تک مسلسل پانچ بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ انتخاب انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد اور نون لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑے۔اس دوران وہ وفاقی وزیر خوراک، زراعت، پٹرولیم و قدرتی وسائل اور امور کشمیر و شمالی علاقہ جات بھی رہے۔ وہ چئیرمین اینٹی کرپشن اور مراکش میں سفیر جیسے کلیدی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔تاہم ان تمام ادوار میں انھوں نے لنڈی پٹی کے لیے کوئی قابل قدر خدمات سر انجام نہ دیں۔1988ء اور 1991ء میں ان کے بھتیجے میجر (ر) سلیم اصغر چیئر مین ضلع کونسل چکوال بھی رہے۔2002 میں عبد المجید ملک کے ہی بھتیجے میجر (ر) طاہر اقبال نے قاف لیگ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔2008 میں این اے 60 سے ایاز امیر رکن قومی اسمبلی بنے جبکہ 2013ء میں نون لیگ کے ٹکٹ پر طاہر اقبال ایم این اے منتخب ہوئے۔لیفٹینٹ جنرل (ر) عبد المجید ملک کا 2016 میں انتقال ہو گیا تھا تاہم جب تک وہ زندہ رہے چکوال میں نون لیگ دھڑے بندیوں سے محفوظ رہی۔لنڈی پٹی کے اہم سیاسی خانوادے میں قصبہ کالس کے راجگان کا نام آتا ہے۔2017ء کے ضنمنی انتخاب حلقہ پی پی 20 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار راجا طارق افضل کالس کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔وہ اپنے خاندان کی خدمات کے باعث لنڈی پٹی کے علاقوں میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔راجا طارق افضل کالس کے والد نے 1970ء کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے ایم این اے کا انتخاب لڑا۔ ان کے چچا راجا اعجاز خان نے 2001ء اور 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل جند اعوان سے جنرل (ر) عبد المجید ملک کے عزیزوں کو شکست دی تھی۔2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں راجا طارق افضل کالس یونین کونسل موگلہ سے بطور چئیرمین کامیاب ہوئے۔لنڈی پٹی سے چوہدری محمد خان کالس جو 1983ء میں چئیرمین ضلع کونسل رہے اہم سیاسی شخصیت ہیں جبکہ یہاں کے کیپٹن (ر) عبد الحق کجلی 1987ء اور 1991ء میں ضلع کونسل کے ارکان رہے۔صوفی مشتاق حسین بھٹی بھی یہاں کے معروف سیاست دان ہیں وہ 1998ء میں ممبر ضلع کونسل 2005 اور 2015ء میں چئیرمین یونین کونسل جنڈ خانزادہ منتخب ہوئے۔ملک ظفر اقبال خان پور بھی علاقے کی سیاست میں نمایاں مقام رکھتے ہیں وہ 1998ءمیں ممبر ضلع کونسل 2001ء اور 2015ء میں چئیرمین یو سی ڈوہمن منتخب ہوئے۔
لنڈی پٹی کے مشاہیر
ترمیملنڈی پٹی سے تعلق رکھنے والے مشاہیر میں
- باوا شاہ مراد خان پوری
- راجا غلام سرور کالس
- معروف محقق نامور اتھیلیٹ عبدالخالق پرندہ جند اعوان،
- پروفیسر نعیم صدیقی خان پور
- معروف شاعر جمیل یوسف لنگاہ
- صاحبزادہ سلطان علی زلفی،
- پروفیسر سعید اکرام،
- ملک منیر نوابی،
- ملک اشرف نوابی
- معروف صنعتکار اور سہگل آباد کے بانی میاں محمد سہگل
شامل ہیں۔ گورنمنٹ ہائی اسکول ہسولہ 1898ء میں بنا اور اگلے سو سال میں یہاں چند ہائی اسکول اور سہولیات سے عاری اور رورل ہیلتھ سنٹر عوام کو بنیادی سہولیات کے نام پر ملے۔ ونہار کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم سیتھی نے البتہ اپنے اس حلقے کی تقریباَ آدھی لنڈی پٹی کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا ہے