قسیم الحق گیاوی
قسیم الحق گیاوی (1942ء – 1982ء) ایک بھارتی حافظ، قاری، نثر نگار، مصنف اور مختلف اصنافِ سخن سے تعلق رکھنے والے شاعر تھے۔
قسیم الحق قسیم گیاوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | سید قسیم الحق |
پیدائش | 1942ء گیا، ضلع گیا، صوبہ بہار، برطانوی ہند |
وفات | 11 ستمبر 1982 کریم گنج قبرستان، گیا، بہار، بھارت (مدفن) |
(عمر 39–40 سال)
قومیت | برطانوی ہند بھارت |
عرفیت | قاری قسیم الحق گیاوی، قسیم الحق سورج گڑھوی |
مذہب | اسلام |
عملی زندگی | |
مادر علمی | مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا، دار العلوم دیوبند |
پیشہ | حافظ قرآن ، قاری ، شاعر ، نثر نگار ، مصنف |
کارہائے نمایاں | نقش اول، نقش ثانی، نقش و نغمہ، نقشِ نامعتبر، جامِ عرفاں، بیچارگانِ گیا |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
تعلیمی و تدریسی زندگی
ترمیمقسیم 1360ھ بہ مطابق 1942ء کو شہر گیا میں اپنے نانا سید خیر الدین گیاوی کے یہاں پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد سید نسیم الحق گیاوی ایک طبیب تھے اور آبائی وطن سورج گڑھ، ضلع مونگیر تھا، تاریخی نام "سید محمد اقبال غنی" تھا، جس سے تاریخ ولادت 1360ھ نکلتی ہے۔[1] ابتدائی تعلیم اپنے نانا سید خیر الدین گیاوی کے پاس ہی گیا میں حاصل کی[1] اور نو سال کی عمر میں چھ ماہ کی قلیل مدت میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہو گئے تھے۔[2] ابتدائی فارسی و عربی کی چند کتابیں پڑھی تھیں کہ آبائی وطن سورج گڑھ منتقل ہو گئے اور وہاں سید محمد یوشَع حسینی کی بدولت انگریزی تعلیم شروع ہوئی، پھر ہائی اسکول تک پہنچ کر علالت کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔[1] پھر مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا آگئے اور اپنے بڑے ماموں قاری فخر الدین گیاوی کے زیر سر پرستی از سر نو مذہبی تعلیم شروع کی، دورِ قرآن، مشقِ قراءت اور پھر عربی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے؛ مگر اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔[1] 1376ھ میں مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا میں بحیثیت محرر تقرر ہو گیا، دو سال کے بعد پھر تعلیمی شوق پیدا ہوا تو دار العلوم دیوبند پہنچ کر حفظ الرحمن پرتاب گڑھی اور عتیق احمد دیوبندی جیسے قراء سے قراءت حفص پڑھ کر گیا واپس آئے اور دوبارہ مدرسہ قاسمیہ میں بحیثیت مدرسِ شعبۂ تجوید و قراءت و ناظمِ کتب خانہ تقرر عمل میں آیا۔[1] مدرسہ قاسمیہ کے علاوہ مدرسہ تعلیم القرآن رانی گنج اور مدرسہ محمودیہ شیرگھاٹی میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔[2]
شاعری و نثر نگاری
ترمیمقسیم نے بچپن ہی سے شاعری شروع کر دی تھی، بسمل سنسہاروی و قمر مرادآبادی ان کے اساتذۂ سخن تھے،[1][3] انھوں نے شاعری کے تقریباً سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی؛ مگر غزل گوئی ان کا بنیادی میدان رہا۔[2] نیز وہ ایک نعت گو شاعر بھی تھے، ”جام عرفاں“ کے نام سے ان کا نعتیہ مجموعۂ کلام شائع ہوا تھا۔[2] نثر نگاری بھی ان کا خاص میدان رہا، ”قسیم سورج گڑھوی“ کے نام سے بھی مزاحیہ و طنزیہ مضامین لکھتے رہے تھے۔[4] ان کی لکھی کہانیاں ”کھلونا“ دہلی اور ”پھلواری“ دہلی میں شائع ہوا کرتی تھیں، اسی طرح افسانے اور دینی مضامین بھی لکھتے تھے۔[1][5] حقانی القاسمی نے انھیں ان فضلائے دار العلوم دیوبند کے زمرے میں رکھا ہے، جنھوں نے تخلیق اور شاعری کو نئی جہت اور نئے رنگ سے آراستہ کیا۔[6]
تبصرے
ترمیم1970ء میں کلیم عاجز قسیم کی روشن مستقبل کی طرف کچھ یوں غمازی کرتے ہیں:[7]
” | میرا خیال یہ ہے کہ ان کی طبیعت میں جوہر ہے اور اچھے فنکار بننے کی صلاحیتیں ان کی طبیعت میں کروٹیں لیتی نظر آتی ہیں.... ماضی، حال اور مستقبل کی کششوں اور تقاضوں میں جو کش مکش ہوتی ہے، قسیم صاحب اسے سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ نہ مدرسے کا رنگ ہے اور نہ صرف میخانے کا۔ یہ قدیم اور جدید دنیا کا سنگم بنانے کی غیر شعوری کوشش ہے، شاید قسیم صاحب کو خود پتہ نہ ہو۔ | “ |
1975ء میں قسیم کے اسلوبِ شعری پر پیش لفظ رقم کرتے ہوئے کرامت علی کرامت رقم طراز ہیں:[8][9]
” | قسیم الحق گیاوی ”حال“ کے شاعر ہیں، ماضی، حال اور مستقبل کے لامتناہی سلسلوں کے درمیان وہ حال ہی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
قسیم زندگی کو ایک ایسے مفکر کی حیثیت سے دیکھنا پسند کرتے ہیں جو زندگی کے اندر سانس لے کر بھی زندگی سے خود کو الگ کرکے دیکھنے کی اہلیت رکھتا ہو.... غرض کہ قسیم الحق گیاوی ہمارے ان شعرا میں سے ہیں جو کسی ”ازم“ سے خود کو وابستہ کیے بغیر یا اپنے اوپر کسی فیشن یا فارمولے کی چادر مسلط کیے بغیر فطری تقاضے پر شعر کہتے ہیں اور اپنے اشعار میں واردات قلبی کی عکاسی کے لیے پیکری یا علامتی اندازِ بیان پر سادگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ |
“ |
1978ء میں سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی؛ قسیم کی اس مختصر ترقیاتی زندگی کو یوں بیان کرتے ہیں:[10]
”... قسیم کا پہلا مجموعہ ”نقش اول“ کے نام سے 1967ء میں جلوہ گر ہوا، اس کے 3 سال بعد 1970ء میں ”نقشِ ثانی“ عالمِ وجود میں آیا اور اس مصرعے کے مصداق ٹھہرا:
نقّاش نقشِ ثانی بہتر کَشد ز اول ابھی نقش ثانی پورے طور پر لوگوں کے دلوں پر مرتسم بھی نہ ہوا تھا کہ تیسرا مجموعہ بنام ”نقش و نغمہ“ 1975ء میں اپنی پوری جلوہ ریزیوں کے ساتھ منصۂ شہود پر آگیا اور جس نے ملک کے اکثر و بیشتر ادیب و شاعر مثلاً عرش ملسیانی، خلیل الرحمن اعظمی، ڈاکٹر گیان چند اور دیگر حضرات سے تحسین و آفریں کے اسناد حاصل کیے۔ .... شاعر ماحول سے متاثر تو ہوتا ہی ہے؛ مگر ایسے کم ہی شاعر ہیں جو ماحول کو متاثر کرکے اس کو سازگار بنائیں.... الغرض قسیم صاحب کی شاعری محض رسمی اور روایتی نہیں؛ بلکہ اس میں ولولۂ حیات کی چنگاریاں بھی روپوش ہیں اور محاسنِ شعری کی دل آویزیاں بھی مستور ہیں۔ حساس دل ان سے محظوظ ہوتا ہے اور نصیحت اندوز بھی۔“
سید فرد الحسن فرد؛ کم وقت میں قسیم کی مقبولت اور کم عمری میں ہی ان کے دنیا سے چلے جانے کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:[2]
”قسیم الحق گیاوی کو بحیثیت شاعر بھی مقبولیت حاصل رہی اور یہ مقبولیت انھوں نے بہت کم عمری میں حاصل کی۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو یقیناً اس میں اضافہ ہوتا کہ وہ فعال اور سرگرم تھے اور انھیں ہر دل عزیزی حاصل تھی؛ لیکن صرف چالیس برس کی عمر میں ٹرین پر سوار ہوتے ہوئے پیر پھسل گیا اور وہ ٹرین کی زد میں آ گئے۔“
قلمی خدمات
ترمیمقسیم کے چالیس سالہ مختصر زندگی میں ایک نثری مجموعہ اور پانچ شعری مجموعے شائع ہوئے، جو درج ذیل ہیں:[11][2][4][12]
وفات
ترمیمقسیم 9[14] یا 11 ستمبر[2] 1982ء[15][11] کو محض عمر کے چالیسویں پڑاؤ پر پہنچ کر ٹرین سے پاؤں پھنسلنے کی وجہ سے حادثہ کا شکار ہو کر راہی ملک بقا ہوئے[2] اور شہرِ گیا کے کریم گنج قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔[14]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ پروفیسر سید احمد اللہ ندوی (1968ء)۔ "قسیم گیاوی"۔ تذکرہ مسلم شعرائے بہار (پہلا ایڈیشن)۔ کراچی: انٹرنیشنل پریس۔ ج حصہ چہارم۔ ص 23–27
{{حوالہ کتاب}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے:|1=
(معاونت) - ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ سید فرد الحسن فرد۔ "قسیم الحق گیاوی"۔ بے چارے لوگ: تحقیقی مقالے (2015ء ایڈیشن)۔ پٹنہ: ارم پبلشنگ ہاؤس۔ ص 191–196
- ↑ ابوالکلام قاسمی شمسی (2022ء)۔ "قاری سید قسیم الحق قسیم گیاوی"۔ بہار کی اردو شاعری میں علماء کا حصہ (پہلا ایڈیشن)۔ پٹنہ: مولانا ابوالکلام قاسمی ریسرچ فاؤنڈیشن۔ ص 234–236
- ^ ا ب ڈاکٹر قمر اعظم ہاشمی۔ "قسیم الحق گیاوی"۔ بہار کے نظم نگار شعرا (1979ء ایڈیشن)۔ پٹنہ: بہار اردو اکادمی۔ ص 395–397
- ↑ النساء، مہر (دسمبر 2005ء)۔ علمائے بہار کی دینی و علمی خدمات کا تحقیقی مطالعہ (مقالہ برائے پی ایچ ڈی) (Thesis)۔ جامعہ کراچی، کراچی: شعبۂ علوم اسلامی، کلیہ معارفِ اسلامیہ۔ ص 753-755
- ↑ حقانی القاسمی۔ "تخلیقی تناظرات: شعری منظر نامہ"۔ دار العلوم دیوبند ادبی شناخت نامہ (مئی 2006ء ایڈیشن)۔ جامعہ نگر، نئی دہلی: آل انڈیا تنظیم علمائے حق۔ ج 1۔ ص 51–52
- ↑ قسیم الحق گیاوی (1970ء)۔ "رنگ و آہنگ (پیش لفظ) از کلیم عاجز"۔ نقش ثانی (پہلا ایڈیشن)۔ پٹنہ: مسائل پبلی کیشنز۔ ص 8–11
- ↑ کرامت علی کرامت (2021ء)۔ "نقش و نغمہ (قسیم الحق گیاوی)"۔ میرے منتخب پیش لفظ (تنقید و تجزیہ) (پہلا ایڈیشن)۔ دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ ص 304–308
- ↑ قسیم الحق گیاوی (1975ء)۔ "شاعر "حال" (پیش لفظ) از کرامت علی کرامت"۔ نقش و نغمہ (پہلا ایڈیشن)۔ گیا: انجمن ترقی اردو۔ ص 8–13
- ↑ قسیم الحق گیاوی (1978ء)۔ "تعارف (پیش لفظ) از پروفیسر سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی"۔ نقش ناتمام (پہلا ایڈیشن)۔ گیا: دی کلچرل اکیڈمی۔ ص 5–9
- ^ ا ب "قسیم الحق گیاوی کی تمام تحریریں"۔ rekhta.org
- ↑ ارتضیٰ کریم۔ "نقش و نغمہ"، "نقش نامعتبر"۔ آٹھویں دہائی میں بہار کا اردو ادب [1971 تا 1981ء] (1986 ایڈیشن)۔ ویویک وہار، شاہدرہ، دہلی: زلالہ پبلی کیشنز۔ ص 63
- ↑ "نیشنل لائبریری آف انڈیا کی ویب سائٹ پر قسیم الحق گیاوی کا تذکرہ"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-02-02
- ^ ا ب ڈاکٹر سید شاہد اقبال (2000ء)۔ "154-قسیم گیاوی، سید قسیم الحق"۔ وفیات مشاہیر بہار (1947ء سے 1999ء تک کا اشاریہ) (پہلا ایڈیشن)۔ دریا گنج، نئی دہلی: اپلائیڈ پبلیکیشنز پرائیویٹ لمٹیڈ۔ ص 41
- ↑ ناوک حمزہ پوری۔ "قسیم الحق گیاوی مرحوم"۔ مصحفِ تاریخ (2008ء ایڈیشن)۔ پٹنہ: ارم پبلشنگ ہاؤس۔ ص 54