قاری فخر الدین گیاوی

بیسویں صدی کے ایک بھارتی عالم دین اور شاعر

محمد فخر الدین فخر گیاوی (1913 – 1988ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم، نعت گو شاعر، استاذ اور مصنف تھے۔ انھوں نے تقریباً پچاس سال تدریسی و دینی خدمات انجام دی ہیں۔

ابو الحیا، مولانا، قاری

محمد فخر الدین فخر ؔ گیاوی
مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا کے مہتمم
برسر منصب
1941ء تا 1988ء
پیشرومحمد خیر الدین گیاوی
جانشینمعین الدین قاسمی گیاوی
ذاتی
پیدائش
محمد فخر الدین

1913ء[1]
محلہ باٹم برج، مولانا عبد الغفار لائن، گیا، صوبہ بہار اڑیسہ، برطانوی ہند
وفات9 فروری 1988(1988-20-09) (عمر  74–75 سال)
گیا، بہار، بھارت
مذہباسلام
فقہی مسلکحنفی
اساتذہحسین احمد مدنی
مرتضی حسن چاند پوری
محمد میاں دیوبندی
محمد اعزاز علی امروہوی
اصغر حسین دیوبندی
محمد شفیع دیوبندی
عبد المالک صدیقی

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

محمد فخر الدین فخر گیاوی کی ولادت 1331ھ (مطابق 1913ء[1]) کو محلہ باٹم برج، مولانا عبد الغفار لائن، گیا، صوبہ بہار اڑیسہ (موجودہ صوبہ بہار) میں ان کے نانا عبد الغفار سرحدی گیاوی کے مکان میں ہوئی تھی۔[2][3]

حفظ کے بعد فارسی میں گلستانِ سعدی تک کی کتابیں گھر پر اپنے والد محمد خیر الدین گیاوی ہی سے پڑھیں، پھر مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ جاکر ایک سال قاری عبد المالک صدیقی سے روایتِ حفص عن عاصم میں تجوید و قراءت کی تعلیم حاصل کی اور وہیں پر درس نظامی کی شرح ماۃ عامل تک کی کتابیں بھی پڑھیں۔ پھر گھر آکر اپنے والد سے ہی ہدایۃ النحو وغیرہ کتابیں پڑھیں، پھر قاری عبد المالک کے پاس (جو اس وقت مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ سے مدرسہ فرقانیہ ٹونک منتقل ہو گئے تھے) ٹونک، راجستھان گئے اور وہیں پر مزید مشقِ قرات کی اور شرحِ جامی تک کی کتابیں بھی پڑھیں۔ پھر گھر آکر اپنے والد سے تیسری بار شرح جامی، دوسری بار قدوری، سراجی اور شرح تہذیب پڑھی۔ پھر دوبارہ لکھنؤ جاکر دو سال میں قراءاتِ سبعہ کی تکمیل کی، لکھنؤ سے واپسی پر والد سے عربی پڑھنا شروع کیا، پر والد کی ناسازی طبیعت کی بنا پر یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، پھر مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ، دربھنگہ میں چند دنوں رہ کر مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور چلے گئے اور ایک سال وہاں رہ کر صدیق احمد کشمیری، عبد الشکور کامل پوری اور جمیل احمد تھانوی جیسے اساتذہ سے فیض یاب ہوئے۔[2][3]

شوال 1352ھ بہ مطابق 1934ء میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور پانچ سال دار العلوم میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبان 1357ھ بہ مطابق 1938ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔[3][4] ان کے دار العلوم دیوبند کے اساتذہ میں حسین احمد مدنی، محمد اعزاز علی امروہوی، محمد ابراہیم بلیاوی، اصغر حسین دیوبندی، محمد شفیع دیوبندی، ظہور احمد دیوبندی، عبد السمیع دیوبندی، ریاض الدین بجنوری، محمد جلیل علوی کیرانوی، عبد الحق نافع گل پشاوری اور شمس الحق سرحدی شامل تھے۔[4][2] ان کے اساتذۂ تجوید و قرات میں قاری عبد المالک صدیقی کے علاوہ مولانا ارادت الحق، قاری عبد القدوس اور حافظ فرید الدین شامل ہیں۔[5]

بزم سجاد، دار العلوم دیوبند میں ان کی خدمات

ترمیم

’’انجمن اصلاح البیان ‘‘ (موجودہ نام: بزمِ سجاد) کی طرف سے موصوف کے دار العلوم میں داخلہ ہونے اور اس بزم سے منسلک ہونے تک کوئی تحریری شمارہ شائع نہیں ہوا تھا، باذوق طلبہ انفرادی طور پر تحریری مشق کیا کرتے، فخر گیاوی نے بزم سے کسی تحریری شمارہ کی اشاعت کی کمی کو دیکھتے ہوئے اس کمی کے ازالے اور طلبہ میں تحریری ذوق پیدا کرنے کے لیے اگلے ہی سال ’’البیان‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ کا اجرا کیا اور جمادی الاولی 1353ھ میں اس کا پہلا شمارہ اپنی ادارت میں شائع کیا اور چار سال اس کے مدیر رہے، فخر گیاوی کو اس مقصد میں خاصی حد تک کامیابی بھی ملی، طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس تحریک میں شامل ہو گئی۔[6]

جن لوگوں نے اس تحریک سے متاثر ہو کر فن تحریر میں ایک خاص کمال پیدا کیا، ان میں سلیمان آسیؔ مظفر پوری، شمس الحق شمس ؔ مظفر پوری، صغیر احمد قاسمی، قمر ؔ بہاری، ازہر مونگیری، صداقت حسین چمپارنی، عبد الحنان گیاوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔[6]

تدریسی و انتظامی زندگی

ترمیم

سہارنپور و دیوبند کے دور طالب علمی ہی میں فخر گیاوی ایک قاری قرآن کی حیثیت سے مشہور ہو چکے تھے۔ چناں چہ دار العلوم کی طالب علمی کے زمانے میں ہی ایک عالم محمود سورتی، مہتمم دار العلوم تاموے، کیمبل روڈ، رنگون نے اپنے مدرسے کی تدریس کے لیے انھیں دعوت دے دی، جس کی بنا پر فراغت کے بعد 1357ھ میں فخر گیاوی رنگون گئے اور ایک سال اس مدرسے میں استاذِ تجوید رہے۔[4][2][5]

ایک سال دار العلوم تاموے میں مدرس رہنے کے بعد شوال 1358ھ بہ مطابق اواخرِ نومبر/اوائلِ دسمبر 1939ء میں اپنے شیخ حسین احمد مدنی کی دعا اور محمد اعزاز علی امروہوی کے مشورے سے رنگون ہی میں جامعہ قاسمیہ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی اور دو سال تک اس مدرسے کو پروان چڑھایا، چند دنوں میں وہاں شرح جامی تک کی تعلیم ہونے لگی؛ لیکن منشائے الٰہی سمجھیں کہ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر جاپان کی رنگون پر بمباری سے قبل ہی اپنے والد اور شیخ کے حکم سے رنگون سے ہندوستان چل دیے اور ابھی کلکتہ ہی پہنچے تھے کہ رنگون پر بمباری کی خبر آ پہنچی۔[4][2][5]

رنگون سے واپسی کے بعد اپنے شیخ حسین احمد مدنی کے مشورہ و دعا اور اپنے والد کے حکم سے مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا کے انتظام و اہتمام کی ذمے داری سنبھالی، ان کے دور اہتمام میں اس مدرسے نے خوب ترقی و شہرت حاصل کی، 1941ء سے اپنی وفات 1988ء تک تقریباً 47 سال اس ادارے کے مہتمم رہے، آج اس مدرسے کی تقریباً 100 شاخیں ہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے، جو حسین احمد مدنی اور ان کے فرزندِ ارجمند سید اسعد مدنی کا منظورِ نظر تھا اور جہاں جمعیت علمائے ہند (الف) کے صدر سید ارشد مدنی اور جمعیت علمائے ہند (م) کے سابق صدر محمد عثمان منصور پوری بھی تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔[4][2]

ان کے مشہور تلامذہ میں محی الدین گیاوی (فرزندِ اکبر)، معین الدین قاسمی گیاوی (فرزندِ اصغر)، عبد الرحیم بانکوی، میکائیل بانکوی، سید شمیم الحق گیاوی، قسیم الحق گیاوی، محمد یعقوب فریدی، حسین احمد عارف گیاوی اور حافظ محمد محسن شامل تھے، جن کے علاوہ فخر گیاوی کے مشہور و غیر مشہور دیگر تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہے۔[4]

بیعت و خلافت

ترمیم

وہ زمانۂ طالب علمی ہی میں بشارت کریم گڑھولوی (1877ء - 1935ء) کی طرف مائل اور ان کے معتقد تھے؛ لیکن ان کی تعلیم سے فراغت سے پہلے ہی گڑھولوی کا انتقال ہو گیا،[4][3] پھر وہ حسین احمد مدنی سے بیعت ہوئے اور تصوف میں ان کے مجاز اور اجل خلفاء میں شمار ہوئے۔[4][3][7]

شاعری

ترمیم

فخر گیاوی ایک کہنہ مشق، قادر الکلام اور فی البدیہ اشعار کہنے والے شاعر تھے۔[8] ان کے اندر بچپن ہی سے شاعری کا ذوق اور خداداد صلاحیت موجزن تھی، زمانۂ طالب علمی ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔[6] ابتدا میں تبسم ؔ تخلص کرتے تھے، پھر مستقل تخلص فخر ؔ اختیار کیا۔[9][10]

وہ عربی، فارسی اور اردو؛ تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے،[6] شاعری میں ان کے خاص استاذ رسا ؔ ہمدانی گیاوی (متوفی: 1948ء) تھے، انھوں نے بسمل ؔ سنسہاروی (متوفی: 1964ء) سے بھی مشورۂ سخن لیا، نیز دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں اردو فارسی شاعری میں ابو الوفا عارف ؔ شاہ جہاں پوری (متوفی: 1980ء) سے اور عربی شاعری میں محمد اعزاز علی امروہوی (متوفی: 1955ء) سے اصلاح لی۔[4][9][10]

وفات اور پسماندگان

ترمیم

فخر گیاوی کا انتقال 2 جمادی الاخری 1408ھ مطابق 9 فروری 1988ء کو گیا میں ہوا۔[8][11] نمازِ جنازہ سید اسعد مدنی نے پڑھائی[12] اور کریم گنج، گیا کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[13]

پس ماندگان میں دو بیٹے تھے: ایک محی الدین گیاوی اور دوسرے معین الدین قاسمی گیاوی، سابق صدر جمعیت علمائے بہار (الف) و سابق مہتمم مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا (دونوں وفات پا چکے ہیں) اور دو بیٹیاں ہیں، جن میں سے ایک قاری محمد حسان مظاہری ثم مکی، خلیفہ و مجاز محمد زکریا کاندھلوی سے منسوب ہوئی تھیں اور دوسری؛ سید محمد سالم کٹکی کے نکاح میں آئی تھیں۔[4]

تصانیف

ترمیم

فخر گیاوی کی مطبوعہ تصانیف کے نام مع مختصر تعارف ذیل میں مندرج ہیں:[6][4]

  • درس حیات: جس میں انھوں نے عبد الغفار سرحدی گیاوی، بشارت کریم گڑھولوی اور محمد خیر الدین گیاوی کی تفصیلی سوانح حیات جمع کی ہیں (طبع اول: 1972ء، مرتب: قسیم الحق گیاوی، طبع دوم: 2010ء، مرتب: محمد اعظم ندوی
  • نورِ ایماں: یہ فخر گیاوی کی حمدیہ، نعتیہ، اصلاحی اور اسلامی نظموں کا مجموعہ ہے، جو خاصا مقبول ہوا۔
  • نوائے درد: یہ بشارت کریم گڑھولوی کی رحلت پر کہے گئے اشعار کا مجموعہ ہے۔
  • نذرِ عقیدت: یہ ان کے پیر و مرشد حسین احمد مدنی کی شان میں کہے گئے اشعار کا مجموعہ ہے (تیسرا ایڈیشن: 1966ء، مرتب: قسیم الحق گیاوی)۔
فائل:Dars e Hayat.jpg
درس حیات

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب مطابقتِ سنہ دیکھیں
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث فخر گیاوی (2010ء)۔ "حضرت فخر گیاوی: حالات، خدمات، کچھ یادیں، کچھ باتیں از مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی"۔ درس حیات (دوسرا ایڈیشن)۔ گیا: شعبۂ نشر و اشاعت: مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ۔ صفحہ: 29–32 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ حکیم سید احمد اللّٰہ ندوی (1968ء)۔ "مولانا قاری فخر الدین گیاوی"۔ ' تذکرہ مسلم شعرائے بہار (حصہ سوم)۔ کراچی: انٹرنیشنل پریس۔ صفحہ: 201–203 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د محمد روح الامین میُوربھنجی (03 فروری 2022ء)۔ "ابو الحیا مولانا قاری محمد فخر الدین فخرؔ گیاویؒ: حیات و خدمات"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2022 
  5. ^ ا ب پ عماد القراء جناب مرزا بسم اللہ بیگ (1970ء)۔ "قاری حافظ فخر الدین قاری عشرہ ناظم مدرسہ قاسمیہ گیا"۔ تذکرہ قاریان ہند (جلد سوم)۔ آرام باغ، کراچی: میر محمد کتب خانہ۔ صفحہ: 49-50 
  6. ^ ا ب پ ت ٹ عبد الباری قاسمی سمستی پوری (5 دسمبر 2017ء)۔ "ابو الحیا حضرت مولانا قاری فخرالدین فخرؔ گیاویؒ"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2022 
  7. مہر النساء (دسمبر 2005ء)۔ علمائے بہار کی دینی و علمی خدمات کا تحقیقی مطالعہ (مقالہ برائے پی ایچ ڈی) (PDF) (مقالہ)۔ جامعہ کراچی، کراچی: شعبۂ علوم اسلامی، کلیہ معارفِ اسلامیہ۔ صفحہ: 749-750 
  8. ^ ا ب حبیب الرحمن قاسمی اعظمی، مدیر (مارچ 1988ء)۔ "وفیات"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ مکتبہ دار العلوم دیوبند۔ 73 (3): 5-6 
  9. ^ ا ب ڈاکٹر فرحانہ شاہین۔ "عنوانات: "مولانا قاری محمد فخر الدین گیاوی"، "حضرت الحاج مولانا قاری محمد فخر الدین فخر گیاوی"بہار میں اردو کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ۔ فخر الدین احمد علی میموریل، حکومت اتر پردیش۔ صفحہ: 424–428، 581–591 
  10. ^ ا ب ڈاکٹر خواجہ افضل امام۔ آئینۂ شعرائے بہار (2002ء ایڈیشن)۔ پٹنہ: دار الادب، بہارستان، سلطان گنج۔ صفحہ: 63 
  11. محمد بشارت علی خان فروغ (2000ء)۔ وفیات مشاہیر اردو۔ لکھنؤ: اتر پردیش اردو اکیڈمی۔ صفحہ: 464 
  12. منظور نعمانی، مدیر (شعبان المعظم 1408ھ م اپریل 1988ء)۔ "وفیات"۔ ماہنامہ الفرقان لکھنؤ۔ ماہنامہ الفرقان-31، نیا گاؤں مغربی لکھنؤ۔ 56 (4): 5-6 
  13. ابو الکلام قاسمی شمسی۔ "مولانا قاری فخر الدین گیاوی"۔ تذکرہ علمائے بہار (جلد اول) (اشاعت اول، 1995ء ایڈیشن)۔ سیتامڑھی: شعبۂ نشر و اشاعت، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ۔ صفحہ: 227–228 

مزید تذکرہ

ترمیم
  • قاری ڈاکٹر فیوض الرحمن قادری (1983ء)۔ سوانح امام القراء حضرت قاری محمد عبد المالک رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ اردو بازار، لاہور: پاکستان بک سنٹر۔ صفحہ: 16 
  • عماد القراء جناب مرزا بسم اللہ بیگ (1970ء)۔ "قاری حافظ فخر الدین قاری عشرہ ناظم مدرسہ قاسمیہ گیا"۔ تذکرہ قاریان ہند (جلد سوم)۔ آرام باغ، کراچی: میر محمد کتب خانہ۔ صفحہ: 49-50 
  • ابوالحسن اعظمی (1419ھ (1999ء))۔ "شیخ القراء حضرت قاری عبد المالک صاحب"۔ حسن المحاضرات فی رجال القراءات (جلد دوم)۔ دیوبند: مکتبہ صوت القرآن۔ صفحہ: 252