محمد عثمان معروفی (1928–2001ء) ایک ہندوستانی دیوبندی مشہور مصنف، مؤرخ، صحافی، سوانح نگار، فن تاریخ گوئی کے ماہر، ایک کامیاب مدرس اور ایک مایۂ ناز عالم دین تھے، وہ 1950ء سے 1995ء تک تقریباً نصف صدی تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اس کے بعد 1997ء تا 2001ء اپنی وفات تک چار سال ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور کے مدیر و ایڈیٹر رہے۔


محمد عثمان معروفی
مدیر ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور
برسر منصب
1997ء - 2001ء[1]
ذاتی
پیدائش4 نومبر 1928ء
وفات6 جون 2001(2001-60-06) (عمر  72 سال)
مدفنسہارنپور
مذہباسلام
قومیتہندوستانی
مدرسہمدرسہ معروفیہ، پورہ معروف
جامعہ مفتاح العلوم مئو
احیاء العلوم مبارک پور
دار العلوم دیوبند
لکھنؤ یونیورسٹی
بنیادی دلچسپیتدریس، تاریخ گوئی، تاریخ، صحافت، سوانح نگاری، تصنیف و تالیف
قابل ذکر کاممحاسن التواریخ، ایک عالمی تاریخ، مشاہر پورہ معروف، تذکرۂ مشاہیر کوپا گنج
اساتذہحسین احمد مدنی، محمد ابراہیم بلیاوی، سید فخر الدین احمد

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

ولادت و خاندان

ترمیم

ان کی ولادت 20 جمادی الاولی 1347ھ بہ مطابق 4 نومبر 1928ء بہ روز اتوار محلہ بانسہ، پورہ معروف، ضلع اعظم گڑھ (جو اس وقت ضلع مئو میں آتا ہے) میں ہوئی، تاریخی نام محمد مظہر علی تھا۔[2][3]

ان کے والد محمد حنیف (متوفّٰی: 1391ھ م 1971ء) قاری قرآن اور محمد اشرف علی تھانوی (متوفی: 1362ھ م 1943ء) کے مرید تھے اور ان کے والد کے بڑے بھائی عبد الکریم (متوفی: 1345ھ) بھی قاری قرآن اور تھانوی کے خلیفہ و مجاز بیعت تھے۔[1][2] ان کا سلسۂ نسب کچھ پشتوں تک یوں مذکور ہے: ”عثمان بن محمد حنیف بن محمد یوسف بن عبد القادر بن عبد اللّٰہ بن محمد دلار بن محمد دانیال بن محد روشن“۔[1][2]

تعلیم و تربیت

ترمیم

انھوں نے قرآن اپنے والد سے پڑھا، پھر انھوں نے 1357ھ م 1936ء تا 1362ھ م 1943ء پانچ سال مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف میں شبلی شیدا خیر آبادیؒ (متوفی: 1374ھ) سے اردو، فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی، نیز مذکورۂ بالا استاذ سے کتابت بھی سیکھی۔[1][4]

پھر شوال 1362ھ تا شعبان 1363ھ ایک سال عبد الحئی مئوی (متوفی: 1363ھ) سے نور الایضاح، ہدایۃ النحو وغیرہ کتابیں پڑھیں، پھر شوال 1363ھ تا 1364ھ ایک سال مفتاح العلوم مئو میں پڑھائی کی، پھر شوال 1364ھ م تا شعبان 1367ھ م 1948ء تین سال احیاء العلوم مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ میں جلالین و مشکوۃ تک کی کتابیں پڑھیں؛ البتہ نصف شوال سے نصف صفر (1366-67ھ) تک چھ ماہ اپنے والد کے سفر حج کے موقع پر، گھر پر رہنا ضروری ہونے کی وجہ سے مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف ہی میں عبد الستار معروفیؒ (متوفی: 1994ء) کے پاس مشکوۃ و جلالین کا ابتدائی حصہ پڑھا۔[1][5]

اس کے بعد شوال 1367ھ میں دار العلوم دیوبند آگئے اور امتحان داخلہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کو دیا اور دورۂ حدیث میں داخلہ ہو گیا۔[1][5]

دار العلوم دیوبند سے فراغت

ترمیم

1368ھ بہ مطابق 1949ء میں دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔ اگلے سال شوال 1368ھ تا شعبان 1369ھ دیوبند ہی میں رہ کر کتب فنون کی تکمیل کی، فتوی نویسی کی تمرین و مشق کی اور خوش نویسی و خطاطی میں کمال پیدا کیا۔[1][6]

انھوں نے حسین احمد مدنی سے صحیح البخاری مکمل اور جامع الترمذی جلد اول؛ محمد ابراہیم بلیاوی سے صحیح المسلم، جامع الترمذی اور قاضی مبارک؛ محمد اعزاز علی امروہوی سے سنن ابی داؤد مکمل، جامع الترمذی جلد دوم اور شمائل ترمذی؛ محمد ادریس کاندھلوی سے مؤطا امام مالک؛ قاری محمد طیب سے سنن ابن ماجہ؛ فخر الحسن مرادآبادی سے سنن نسائی، تفسیر بیضاوی، توضیح تلویح، دیوان متنبی اور عروض المفتاح؛ معراج الحق دیوبندی سے دیوان حماسہ اور السبع المعلقات؛ بشیر احمد خان بلند شہری سے تصریح، شرح چغمینی، بست باب اور اقلیدس جیسی کتابیں پڑھیں۔[5]

سید مہدی حسن شاہجہانپوری کے پاس فتویٰ نویسی کی مشق و تمرین کی۔[1][7] اعزاز احمد (معروف بہ: قاری احمد میاں) امروہوی سے ترتیلًا مشق قراءت کیا۔ اشتیاق احمد دیوبندی (متوفی: 1975ء) سے باقاعدہ خط نستعلیق و خط نسخ میں خطاطی سیکھی۔[1][5] نیز سید فخر الدین احمد مرادآبادی نے ختم بخاری شریف (سن: 1368ھ بہ مطابق 1949ء) کے موقع پر اپنے استاذ حسین احمد مدنی کے ایما پر محمد عثمان معروفی کو بخاری شریف کی چند حدیثیں پڑھا کر انھیں اجازت حدیث عطا فرمائی تھی۔[1][7]

لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب عربی

ترمیم

دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1369ھ بہ مطابق 1950ء میں انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے درجۂ دوم سے فاضلِ ادب عربی کا امتحان پاس کیا۔[1][7]

تدریسی زندگی

ترمیم

تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف میں 11 ذو القعدہ 1369ھ م 26 اگست 1950ء تا 20 شعبان 1389ھ بیس سال مدرس رہے اردو فارسی سے لے کر شرح جامی تک کی کتابیں پڑھاتے رہے۔[8] درمیان میں 21 صفر 1377ھ م 12 ستمبر 1957ء میں شعبان تک کے لیے سینئر مدرسہ اسلامیہ، گوما پھولباڑی، کامروپ (آسام) میں اسسٹنٹ سپرینٹنڈنٹ کی حیثیت سے مشکٰوۃ وغیرہ کا درس دیا[8] (آسام سے واپسی پر مدرسہ معروفیہ کے صدر مدرس منتخب ہوئے)۔[7]

9 شوال 1389ھ م 20 دسمبر 1969ء سے 4 صفر 1397ھ م 25 جنوری 1977ء تک سوا سات سال مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور میں مشقِ خوش نویسی اور میزان و منشعب سے شرحِ جامی، ہدایہ اولین اور دورۂ حدیث کی مؤطینِ امام مالک و محمد، شمائل ترمذی، نسائی، ابوداؤد، جلالین وغیرہ جیسی کتابوں کا درس دیا۔[8] 1397ھ میں احیاء العلوم سے مستعفی ہو کر کچھ دنوں مدرسہ مدرسہ اشاعت العلوم، پورہ معروف میں رہے۔[8] پھر ذی القعدہ 1397ھ تا شعبان 1398ھ ایک سال مدرسہ منبع العلوم، گلاوٹھی، ضلع بلند شہر میں رہے۔[9]

شوال 1398ھ سے ذو الحجہ 1399ھ تک جامعہ اسلامیہ مدنیہ، مدنی نگر، کولکاتا (نمبر -51) میں درجات علیا کے مدرس اور ناظم تعلیمات رہے۔[9] اس کے بعد محرم الحرام 1400ھ م نومبر 1979ء تا 1408ھ م جون 1988ء جامع العلوم کوپاگنج میں صدر مدرس رہے،[10] پھر وہاں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد سے 1413ھ م 1993ء تک جامعہ اسلامیہ سلطانپور کے صدر مدرس رہے۔[10] 1413ھ تا 1415ھ م 1995ء مدرسہ ضیاء العلوم پورہ معروف میں مدرس رہے۔[10]

زمانۂ تدریس میں فن قراءت بروایت حفص کی تکمیل

ترمیم

1394ھ میں احیاء العلوم مبارکپور کے زمانۂ تدریس میں تدریس کے ساتھ ساتھ قاری ظہیر الدین معروفی اور قاری محمد ادریس مبارکپوری سے 14 جمادی الاخری 1394ھ کو روایت حفص میں تجوید وقراءت کی تکمیل کی، مشق کے ساتھ کئی کتابیں بھی پڑھیں۔[11]

9 شعبان 1394ھ م 28 اگست 1974ء کو احیاء العلوم میں فراغت قراءت کی دستار حبیب الرحمن الاعظمی (متوفی: 1412ھ م 1992ء) وغیرہ کے ذریعے ہوئی[11] اور اجلاسِ صد سالہ، دار العلوم دیوبند کے موقع پر 4 جمادی الاولی 1400ھ م 22 مارچ 1980ء کو دار العلوم دیوبند سے دستار فضیلت بھی ملی۔[8]

بیعت و اصلاحی تعلق

ترمیم

غالباً 1371ھ میں ٹانڈہ جاکر اپنے استاذ حسین احمد مدنی معروف بہ شیخ الاسلام سے بیعت کی، اکثر رمضان میں اپنے شیخ کی خدمت میں رہ کر سلوک و تصوف کے اسباق لیتے، شیخ کی وفات کے بعد؛ بعد میں سید اسعد مدنی معروف بہ فدائے ملت (متوفی: 1427ھ م 2006ء) کی طرف رجوع کیا۔[12][13][14] نیز سہارنپور کے زمانۂ قیام میں محمد طلحہ کاندھلوی (متوفی: 1440ھ م 2019ء) سے بھی رمضان میں ان کے خانقاہ میں مقیم رہ کر استفادہ کرتے تھے۔[12]

خطاطی و طغرا نویسی

ترمیم

وہ ایک بہترین خطاط اور طغرا نویس بھی تھے۔[15] جمعیت علمائے ہند کے کل ہند اجلاس میرٹھ 1963ء، ضلع گیا 1966ء، دہلی 1972ء میں بورڈ اور بینر کی کتابت کے لیے بلائے گئے اور وہاں خوش نویسی کے لیے انھیں اعلیٰ نمبروں سے نوازا بھی گیا اور کئی مدارس وغیرہ میں ان کے لکھے ہوئے بورڈ اور کتبے لگے ہوئے ہیں۔[16] اس فن میں ان کے اساتذہ شبلی شیدا خیر آبادی اور محمد اشتیاق احمد دیوبندی تھے۔[17]

تاریخ گوئی

ترمیم

تاریخ گوئی کے فن میں وہ سند کی حیثیت رکھتے تھے،[18] تاریخ گوئی میں ان کی مہارت تامہ کو سمجھنے کے لیے اشتیاق احمد دربھنگوی، استاذ دار العلوم دیوبند کی تحریر سے یہ اقتباس ہی کافی ہوگا:[19]

حضرت مولانا معروفی میں تاریخ کی تخریج کا عجیب وغریب ملکہ قدرت نے ودیعت فرمایا تھا، موصوف اعداد کی جمع وتفریق میں بالکل غرق ہوجاتے تھے، مشق وتمرین اور ریاضت ومجاہدہ کی وجہ سے ابجدی حروف کے اعداد بالکل ازبر تھے، پوری پوری سطر لکھ لیتے اور لمحوں میں ان کا حساب نیچے رقم فرما دیتے تھے، حساب کے دوران ذہنی پرواز تو بہت اونچی ہوتی تھی؛ لیکن نگاہ، قلم اور جسم بالکل ساکت و صامت رہتے تھے اور سانسوں کے ساتھ گھن گھن کی دھیمی آواز نکلتی رہتی تھی، جو قریب بیٹھنے والے کو سنائی دیتی تھی، کبھی کبھی تو پوری پوری آیت یا حدیث کی تاریخی تخریج عمل میں آجاتی، اور الفاظ و تراکیب نہایت موزون و مناسب ہوتے تھے، عام طور سے اہلِ علم تاریخ کی تخریج تو کرلیتے ہیں؛ مگر موزونیت و تناسب سے وہ اکثر خالی ہوتے ہیں، معروفی کو اتنی ریاضت ہوگئی تھی کہ اس طرح کے عیب سے ان کی تحریر پاک تھی، اس میں بہت زیادہ وقت بھی نہیں لگتا تھا، تعجب و حیرت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی تھی، جب اشعار میں مادۂ تاریخ نکالتے تھے، تاریخ گوئی کی جتنی صنعتیں اور نوعیں ہیں، مولانا مرحوم ہر ایک میں مادۂ تاریخ نکالنے پر قادر تھے، تفصیل کے لیے ”محاسن التواریخ“ کا مطالعہ کافی ہوگا۔[19]

شاعری

ترمیم

شاعری میں باقاعدہ ان کا کوئی استاذ نہیں تھا، تخلص عاصی تھا، کبھی بطورِ تخلص عثمان بھی استعمال کیا، انھوں نے حمد، نعت، غزل، مرثیہ، نیز ترانے میں اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں۔[20] جو محاسن التواریخ یا ان کی دیگر کتابوں اور مضامین میں دیکھے جا سکتے ہیں۔[1]

مضمون نگاری

ترمیم

مضمون نگاری کا طرز انھیں قاضی اطہر مبارکپوری سے ملا، شاعری میں ان کا کوئی استاذ نہیں تھا، خداداد صلاحیت کہہ سکتے ہیں۔[1][21] مختصر نویسی ان کا خاصہ تھی، جو بقول استاذ دار العلوم دیوبند، عبد اللہ معروفی؛ انھیں حبیب الرحمن الاعظمی سے ملی تھی۔[1]

ان کے مضامین و اشعار اور تاریخ گوئی کے شہ پارے کبھی کبھی الجمعیۃ دہلی، سیاست کانپور، انصاری دنیا مرادآباد، البلاغ بمبئی، القاسم دیوبند، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، المنار کوپاگنج، پیغام پورہ معروف، ماہنامہ الفاروق کراچی، ماہنامہ ضیاء الاسلام، شیخوپور (اعظم گڑھ) ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور، معارف اعظم گڑھ، ترجمان الاسلام بنارس، ابوالمآثر مئو وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں، نیز کئی خصوصی نمبروں جیسے: الجمعیۃ کے شیخ الاسلام نمبر (فروری 1958ء)، مجاہد ملت نمبر (مارچ 1963ء)، حیات فخر الاسلام نمبر، تذکرہ مولانا عبد اللطیف نعمانی، تذکرۂ طیب، تذکرہ علمائے اعظم گڑھ، ماہنامہ البلاغ کے احمد غریب نمبر (ستمبر 1968ء) وغیرہ میں بھی شائع ہوئے۔[1][9][17][10]

مناصب

ترمیم

اپنی تدریسی زندگی کے درمیان مختلف عرصوں میں مختلف مدارس کی نظامت تعلیم یا صدارت تدریس کے مناصب پر فائز رہے۔[1][22] نیز مدرسہ معروفیہ کے زمانۂ تدریس میں ”المعروف“ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا تھا، ماہنامہ پیغام پورہ معروف کے روز اول (پہلا شمارہ: ربیع الثانی 1407ھ م اگست 1996ء) سے تاوفات سرپرست رہے۔[10][23]

1418ھ بہ مطابق 1997ء کو ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور کے مدیر مقرر ہوئے اور تاوفات چار سال اس کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔[23] ماہنامہ مظاہر علوم کی ادارت کے دوران ان کی تحریری سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوگئیں، ملک کے مشہور و معروف اہل قلم؛ بالخصوص اپنے دوست اہل قلم حضرات سے خطوط بھیج کر مضامین منگواتے، شائع کرتے، بسا اوقات خطوط کے ذریعے سپاس گزار ہوتے، مدح سرائی کرتے اور ہدیۂ تشکر پیش فرماتے تھے۔[24][10]

وفات و پسماندگان

ترمیم

محمد عثمان معروفی کا انتقال 13 ربیع الاول 1422ھ بہ مطابق 6 جون 2001ء بہ روز بدھ سہارنپور میں ہوا۔[1] دماغ کی رگ پھٹنے سے ان کی وفات ہوئی تھی اور نماز جنازہ مولانا محمد عاقل سہارنپوری، صدر المدرسین مظاہر علوم جدید سہارنپور نے پڑھائی تھی اور سہارنپور کے مشہور حکیموں والے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی تھی۔[25] ان کے پسماندگان میں صرف اکلوتے بیٹے محمد سفیان معروفی ہیں۔[1]

تصانیف

ترمیم

محمد عثمان معروفی کا قلم ”مختصر مگر جامع“ کا نمونہ تھا،[26] مختصر انداز میں سوانح و تذکرہ نگاری، تاریخ، فن تاریخ گوئی، علم عروض و قوافی، علم ہیئت وغیرہ میں انھوں نے کئی کتابیں لکھیں، ان کی تصانیف کے نام مع سن اشاعت مندرجۂ ذیل ہیں:[27][1]

  1. حیات طاہر (اشاعت اول: 1967ء، اشاعت دوم: 2014ء؛ محمد طاہر معروفیؒ (1808ء - 1879ء) کی سوانح عمری
  2. مشاہیر پورہ معروف (اشاعت اول: 1976ء)
  3. تذکرۂ مشاہیر کوپا گنج (اشاعت اول: 1984ء)
  4. حالات المصنفین (اشاعت اول: 1986ء)
  5. محاسن التواریخ (اشاعت اول: 1987ء؛ فن تاریخ گوئی کے شہ پارے)۔
  6. ایک عالمی تاریخ (اشاعت اول: 1987ء)
  7. تذکرۃ الفنون (اشاعت اول: 1983ء)
  8. تاریخ وقائع لاثانی (اشاعت اول: 1981ء؛ محی الدین الخیاطؒ (1865ء - 1914ء) کی شہرہ آفاق کتاب ”دروس التاریخ الاسلامی“ کا اردو ترجمہ)۔
  9. مختصر تاریخ نبوی (اشاعت اول: 1983ء)
  10. معجزات و کرامات (اشاعت اول: 1981ء؛ باحوالہ 80 معجزات اور 20 کرامات کا ذکر)۔
  11. مفتاح التقادیم (اشاعت اول: 1990ء؛ ہجری و عیسوی سالوں کی مطابقت پر رہنما کتاب)۔
  12. بابری مسجد (اشاعت اول: 1986ء)
  13. ارکان تبلیغ (اشاعت اول: 1990ء)
  14. پرتاثیر نماز (اشاعت اول: 1991ء)
  15. سیرت الرسول
  16. گلدستۂ فاخرہ (اشاعت اول: 1984ء؛ ان کا شعری مجموعہ)
  17. کمیونزم اور مذہب (اشاعت اول: 1968ء)
  18. ترجمہ مقامات حریریہ (1990ء؛ غیر مطبوعہ)
  19. تقاریر مولانا آزاد (ابوالکلام آزاد [متوفی: 1958ء] کے الہلال و البلاغ سے ماخوذ تقاریر کا مجموعہ)
  20. درس مغفرت (اشاعت اول: 1984ء؛ روز مرہ حالات زندگی سے متعلق 80 احادیث کا مجموعہ؛ پہلا ایڈیشن حرمِ مغفرت کے نام سے شائع ہوا تھا)۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز ژ س ش محمد روح الامین میُوربھنجی (1 مارچ 2022ء)۔ "تذکرہ مولانا محمد عثمان معروفی (1928ء – 2001ء)"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2022ء 
  2. ^ ا ب پ معروفی 1976, p. 88.
  3. معروفی 1984, p. 154.
  4. معروفی 1976, p. 88-89.
  5. ^ ا ب پ ت معروفی 1976, p. 89.
  6. معروفی 1976, p. 89-90.
  7. ^ ا ب پ ت معروفی 1976, p. 90.
  8. ^ ا ب پ ت ٹ معروفی 1984, p. 156.
  9. ^ ا ب پ معروفی 1984, p. 157.
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث معروفی 1997, p. 183.
  11. ^ ا ب معروفی 1976, p. 91.
  12. ^ ا ب معروفی 2016, p. 82-83.
  13. فیوض الرحمن۔ مشاہیر علماء (جلد دوم)۔ اردو بازار، لاہور: فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی۔ صفحہ: 806–807 
  14. محمد عارف جمیل مبارکپوری (1442ھ م 2021ء)۔ "٩٢٣-المعروفي"۔ موسوعة علماء ديوبند (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 400–401 
  15. معروفی 1976, p. 93-94.
  16. معروفی 1976, p. 94.
  17. ^ ا ب معروفی 1976, p. 93.
  18. محمد سلمان منصورپوری۔ "حضرت مولانا محمد عثمان صاحب معروفی"۔ ذکر رفتگاں۔ 1 (اشاعت اول: جنوری 2005ء، اشاعت دوم: اپریل 2020ء ایڈیشن)۔ لال باغ، مراد آباد: المرکز العلمی للنشر و التحقیق۔ صفحہ: 554-556 
  19. ^ ا ب ماہنامہ دار العلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏ (ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء)۔ "حضرت مولانا محمد عثمان معروفی اور فنِ تاریخ گوئی: مولانا اشتیاق احمد قاسمی"۔ www.darululoom-deoband.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2022 ء 
  20. معروفی 2016, p. 72.
  21. معروفی 2016, p. 44.
  22. معروفی 2016, p. 29.
  23. ^ ا ب معروفی 2016, p. 38، 42.
  24. معروفی 2016, p. 49.
  25. مولانا ندیم الواجدی۔ "عالم، مصنف، صحافی مولانا محمد عثمان صاحب معروفی اعظمی"۔ خدا رحمت کند (طبع اول: 1431ھ م 2010ء ایڈیشن)۔ دیوبند: دار الکتاب۔ صفحہ: 236-238 
  26. معروفی 2016, p. 48.
  27. معروفی 2016, p. 110-125.

کتابیات

ترمیم
  • انصار احمد معروفی (2016)۔ نقوشِ عثمان کردار و آثار کے چند زاویے (پہلا ایڈیشن)۔ پورہ معروف، بلوہ، کرتھی جعفر پور، ضلع مئو، اتر پردیش: دفتر ماہنامہ "پیغام" 
  • محمد عثمان معروفی (1997)۔ "مؤلف کتاب"۔ ایک عالمی تاریخ (پانچواں ایڈیشن)۔ پورہ معروف، بلوہ، کرتھی جعفر پور، ضلع مئو، اتر پردیش: مکتبہ عثمانیہ۔ صفحہ: 183 
  • محمد عثمان معروفی (1984)۔ "تذکرۂ مؤلف"۔ تذکرۂ مشاہیر کوپا گنج۔ پورہ معروف، بلوہ، کرتھی جعفر پور، ضلع مئو، اتر پردیش: مکتبہ عثمانیہ۔ صفحہ: 154-158 
  • محمد عثمان معروفی (1976)۔ "مؤلف کتاب حضرت الحاج مولانا محمد عثمان صاحب معروفی مد ظلہ العالی از مولانا محمد عثمان قاسمی معروفی (1949–2022ء)"۔ مشاہیر پورہ معروف۔ پورہ معروف، بلوہ، کرتھی جعفر پور، ضلع مئو، اتر پردیش: مکتبہ عثمانیہ۔ صفحہ: 88-95