ابو الکلام آزاد
ابوالکلام محی الدین احمد آزاد (پیدائش 11 نومبر1888ء - وفات 22 فروری 1958ء) ((بنگالی: আবুল কালাম মুহিয়ুদ্দিন আহমেদ আজাদ)) آزاد ہند کے پہلے وزیرِ تعلیم اور قومی رہنما تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ابو الکلام آزاد | |
---|---|
مناصب | |
رکن مجلس دستور ساز بھارت | |
برسر عہدہ 6 جولائی 1946 – 24 جنوری 1950 |
|
رکن ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کی اسٹیئرنگ کمیٹی | |
آغاز منصب 21 جنوری 1947 |
|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 نومبر 1888ء [1] مکہ [2] |
وفات | 22 فروری 1958ء (70 سال)[3][1][4] دہلی [5] |
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) بھارت (26 جنوری 1950–) |
مذہب | اسلام |
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس |
زوجہ | زلیخا بیگم |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو [3] |
اعزازات | |
بھارت رتن (1992) |
|
دستخط | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی- 1912 میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔
مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔
یومِ تعلیم
ترمیممولانا ابوالکلام آزاد، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ ان کے یوم پیدائش 11 نومبر، 1888ء کو ہندوستان میں قومی یومِ تعلیم منایا جاتا ہے۔
منسوب کیے گئے ادارے
ترمیمابو الکلام آزاد کے نام سے بھارت میں حسبِ ذیل تعلیمی اور سرکاری ادارے منسوب کیے گئے:
- مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،(MANUU) حیدرآباد (ہند)
- مولانا آزاد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، (MANIT) بھوپال
- مولانا آزاد میڈیکل کالج نئی دہلی
- مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز، نئی دہلی
- مولانا آزاد ایڈوکیشن فاؤنڈیشن، نئی دہلی
- مولانا ابوالکلام آزاد اسلامک اویکنگ سینٹر نئی دہلی
- مولانا ابوالکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ایشین اسٹڈیس، کلکتہ، ویسٹ بنگال
- مولانا ابوالکلام آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، راجستھان
کانگریس لیڈر
ترمیمبھارت کی سیاست میں مشہور، معروف اور مقبول ناموں میں سے مولانا آزاد کا نام تھا۔ بھارت کے عظیم لیڈروں میں مولانا کا شمار ہوتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر کے عہدہ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے قومی صدر بھی کئی مرتبہ منتخب ہوئے۔
ادبی کام
ترمیممولانا آزاد کو بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین کی نمایا فہرست میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر، انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)، تزکیہ، ترجمان القرآن سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ الہلال نامی اردو کا ہفت روزہ اخبار جولائی 1912ء میں کلکتے سے جاری کیا۔
غبار خاطر (خطوط کا مجموعہ)
ترمیم”غبار خاطر“ مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان میں زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گذرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔ اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :
” جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آ پ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔ “
الہلال
ترمیماردو کا ہفت روزہ اخبار جسے مولانا ابوالکلام آزاد نے جولائی 1912ء میں کلکتے سے جاری کیا۔ ٹائپ میں چھپتا تھا اور تصاویر سے مزین ہوتا تھا۔ مصری اورعربی اخبارات سے بھی خبریں ترجمہ کرکے شائع کی جاتی تھیں۔ مذہب، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ، تاریخ، ادب اور حالات حاضرہ پر معیاری مضامین اور فیچر چھپتے تھے۔ تحریک خلافت اور سول نافرمانی کا زبردست مبلغ و موید تھا۔ الہلال پریس سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی۔ اس کے بعد 18 نومبر 1914ء کو مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی گئی جو جمع نہ کرائی جاسکی اور اخبار بند ہو گیا۔ 1927ء میں الہلال پھر نکلا مگر صرف چھ ماہ کے لیے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ان کی اشاعت 25 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اردو زبان کا یہ پہلا باتصویر سیاسی پرچہ تھا جو اپنی اعلیٰ تزئین و ترتیب ٹھوس مقالوں اور تصاویر کے لحاظ سے صحافتی تکنیک میں انقلاب آفریں تبدیلیاں لایا۔
تصانیف
ترمیم- ترجمان القرآن
- غبارِ خاطر
- البیرونی اور جغرافیہ عالم
- قول فیصل
- انسانیت موت کے دروازے پر
- تذکرہ
- آزاد کی کہانی (خود نوشت) مرتبہ ملیح آبادی
- India Wins Freedom
- قرآن کا قانون عروج و زوال
- اصحاب کہف اور یاجوج و ماجوج
- مسلمان عورت
- حقیقت صلوۃ
- صدائے حق
- مقام دعوت
- اسلام میں آزادی کا تصور
- افسانہ ہجر و وصال
- آزادی ہند
- مسئلہ خلافت
- ولادت نبوی
- ارکان اسلام
- خطبات آزاد
- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے آخری لمحات
- مولانا ابوالکلام آزاد نے پاکستان کے بارے میں کیا کہا (ڈاکٹر احمد حسین کمال)
- فیضان آزاد (جاوید اختر بھٹی)
- افکار آزاد (منصف خان سحاب
- اسلام کا نظریہ جنگ
- مضامین آزاد
- تصریحات آزاد
قصہ یاجوج ماجوج ایشیا میں پڑھا جانے والا سب سے زیادہ مقبول ہوا جو بعد میں پروفیسر اسرار احمد نے بیان کیا مگر حوالہ صرف مولانا کا ہی دیا۔
ابوالکلام آذاد سے منسوب جعلی کتابیں
ترمیمابو الکلام آزاد سے منسوب کئی کتابیں ایسی ہیں جو انہوں نے نہیں لکھیں:
- رسول عربی (شائع کردہ مکتبہ عصمت، امرتسر)
- خون شہادت کے دو قطرے (مطبوعہ مولا بخش کشتہ اینڈ سنز، امرتسر)
- انسانیت موت کے دروازے پر (مطبوعہ مکتبہ شعر و ادب، لاہور)
- شہید اعظم (مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، دلی)
تحریک عدم تعاون
ترمیموفات اور مزار
ترمیمآپ کی وفات 69 سال کی عمر میں 22 فروری، 1958ء کو ہوئی ۔ اور آپ کا مزار دہلی میں جامع مسجد کے قریب ہے۔
خراج تحسین
ترمیمآغا شورش کاشمیری مرحوم نے ابوالکلام آزاد کی وفات پر یہ شہرہ آفاق نظم کہی۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں ہے
تری جدائی سے مرنے والے! وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے!
اگرچہ حالات کا سفینہ اسیرِ گرداب ہو چکا ہے
اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے
اگرچہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سوچکا ہے
مگر تری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے!
کئی دماغوں کا ایک انساں ،میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے؟
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ،زباں کا زورِ بیاں گیا ہے
اترگئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا؟ کارواں گیا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے!
یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل، خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم، خواص پہنچے، عوام پہنچے
تری لحد پہ خدا کی رحمت، تری لحد کو سلام پہنچے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے!
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Abul-Kalam-Azad — بنام: Abul Kalam Azad — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ عنوان : مُعجم المُفسِّرين — اشاعت سوم — صفحہ: 51 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ADL1988ARAR
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb122131527 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/azad-abul-kalam-mohiuddin-ahmad — بنام: Abul Kalam Mohiuddin Ahmad Azad — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118896814 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر ابو الکلام آزاد سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- "Brief sketch of life and thinking of Maulana Azad"۔ Liveindia.com
- "Life of Azad"۔ CIS-CA۔ 2003-04-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-07-30
- "Maulana Abul Kalam Azad: The Odd Secularist"۔ India Today۔ 2006-10-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-07-30