نازش حیدری

اردو اور فارسی زبان کے شاعر

محمد خورشید الحسن المعروف نازش حیدر دہلوی (پیدائش: یکم جنوری 1914ء - 17 فروری 1984ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور فارسی زبان کے ممتاز شاعر، صحافی اور مترجم تھے۔انھوں نے بچوں کے لیے لاتعداد کتابیں تحریر کیں۔ وہ شاعری میں بیخود دہلوی، پنڈت امرناتھ ساحر اور حیدر دہلوی کے شاگرد تھے۔

نازش حیدری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: محمد خورشید الحسن ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 1 جنوری 1914ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 فروری 1984ء (70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ بیخود دہلوی ،  حیدر دہلوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص اقبال ساجد   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  صحافی ،  مترجم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

نازش حیدری یکم جنوی 1914ءکو دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد خورشید الحسن، نازش تخلص جبکہ نازش حیدری ان کا قلمی نام تھا۔ ان کے والد محمود علی انوری بھی اردو اور فارسی کے کہنہ مشق شاعر تھے۔ دادا محبوب علی شاہ اصغری صوفی فارسی اور اردو شاعری کے اساتذہ میں سے تھے۔ انھوں نے اردو میں علم رمل پر محبوب الرمل نامی کتاب بھی لکھی۔ نازش حیدری کے بڑی بھائی ظہیر حسن فتنہ دہلوی مزاح گو شاعر تھے، جبکہ انور دہلوی بھی اردو کے شاعر تھے۔ نازش حیدری نے دہلی سے انٹڑمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ادبی دنیا میں قدم رکھا اور استاد بیخود دہلوی سے اصلاح لینی شروع کی۔ فارسی شاعری میں مرزا غالب کے شاگرد پنڈت امرناتھ ساحر سے اصلاح لی۔ اس کے بعد حیدر دہلوی سے اصلاح لینی شروع کی اور تا عمر انھیں کے شاگرد رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازش سینئر افسر کی حیثیت سے عراق چلے گئے۔ ایران اور فلسطین میں بھی مختصر قیام کیا۔ جبل پور میں راشننگ افسر بھی رہے۔ چاندہ (سی پی) میں داروغہ جنگلات کے عہدے پر بھی رہے۔ 1941ء میں انھوں نے الہٰ آباد کے لیے اردو میں پہلی تا پانچویں جماعت کا نصاب بھی لکھا۔ دہلی اور کراچی سے دو رسالے تعلیمِ شاعری اور رہنمائے شاعری بھی جاری کیے۔[1] دہلی میں تھے تو ان کی تحریریں ملاپ، دہلی، پرتاب، دہلی، ماہنامہ بیسویں صدی میں نانک چند گاندھی کے فرضی نام سے لکھتے تھے۔ انھوں نے بچوں کے لیے 13 کتابیں لکھیں جو شائع ہو چکی ہیں۔ 1952ء میں بچوں کے لیے علی بابا چالیس چور کے نام سے ایک سیریز لکھی، اس کتابی سیریز کی 40 کتابیں ہیں جو شائع ہو چکی ہیں۔ ہمدرد نونہال میں ان کی بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ انگریزی ناولوں کے ارد و میں تراجم بھی کیے۔ ریڈیو کے لیے بھی لکھتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے اور یہاں روزنامہ انجام میں ملازمت اختیار کی۔ نازش حیدری کی آپ بیتی سہ ماہی الزبیر بہاولپور میں شائع ہوئی ہے۔ صدیوں کا سفر ان کا شعری مجموعہ ہے جبکہ چراغِ عرش ان کا نعتیہ مجموعہ ہے جو ان کی وفات کے بعد اکتوبر 2012ء میں شائع ہوا۔[2]

وفات

ترمیم

نازش حیدری 17 فروری 1984ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔[3]


حوالہ جات

ترمیم
  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 523
  2. کراچی کا دبستان نعت، ص 524
  3. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات اہل قلم،اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد، 2008ء، ص 457