نقی علی خان

متحدہ ہندوستان کے معروف عالم دین

مولانا نقی علی خان مفتی رضا علی خان کے بیٹے اور امام احمد رضا خان کے والد ہیں۔ بریلی بھارت میں 1246ھ بمطابق 1830ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جملہ علوم و فنون کی تعلیم اپنے والد ماجد ہی سے حاصل کی۔ نقی علی خان علم و عمل کا بحر زخار تھے۔ آپ کی ذات مرجع خلائق و علما تھی۔ آپ کی آرا و اقوال کو علمائے عصر ترجیح دیتے تھے مختلف علوم میں آپ کی تصنیفات مطبوعہ و غیر مطبوعہ موجود ہیں۔[3][4]

نقی علی خان
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1830ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بریلی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1880ء (49–50 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
زوجہ حسینی خانم   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد احمد رضا خان [2]،  حسن رضا خان   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد رضا علی خان   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ شاہ آل رسول مارہروی ،  رضا علی خان   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص احمد رضا خان ،  حسن رضا خان   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں جنگ آزادی ہند 1857ء   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سلسلہ نسب و خاندان ترمیم

مولانا نقی علی کا نسلی علاقہ افغانیوں کا معروف قبیلہ بڑیچ ہے۔ اس قبیلے کے لوگ اپنا نسب قیس عبدالرشید تک پہنچاتے ہیں جن کے بارے بعض تاریخی روایات سے ثابت کیا جاتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملے تھے اور اسلام قبول کیا تھا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے آپ کے نام قیس کے ساتھ عبد الرشید کا اضافہ کیا۔ اور ملک کا خطاب دیا تھا۔ اور دعا دی تھی کہ تمھاری اولاد دین کو مستحکم کرے گئی۔[5] نقی علی خان کا نسب 16 واسطوں سے قیس عبد الرشید سے جا ملتا ہے۔ نقی علی خان کے پردادا کے دادا شجاعت جنگ محمد سعید اللہ خان نادر شاہ کے ساتھ ہندستان آئے۔ اور یہاں ہی سکونت اختیار کرلی۔ بادشاہ محمد شاہ نے لاہور کا شیش محل آپ کو بطور جاگیر عطا کیا۔ اور آپکو منصب شش ہزاری ملا، شجاعت جنگ کا خطاب بھی بادشاہ محمد شاہ نے دیا۔[6] یہ سلسلہ باقی اجداد تک بھی چلتا رہا، بعد میں خاندان کے جد نے دنیا ترک اور دین کی خدمت شروع کر دی، آپ کے والد مفتی رضا علی خان نے ہندستان میں پہلا دارالافتاء قائم کیا، عربی زبان میں خطبات علمی جو آج بھی سارے پاک و ہند اور بنگلہ دیش میں دیو بندی و سنی علما عیدیں و جمعہ کو پڑھتے ہیں آپ کے ہی لکھے ہوئے ہیں۔[7]

رضا علی خان
پہلی شادیدوسری شادی
(دختر) زوجہ مہدی علینقی علی خانمستجاب بیگمببی جان
احمد رضا خانحسن رضا خان
حامد رضا خانمصطفٰی رضا خان
ابراہیم رضا خان
اختر رضا خان
عسجد رضا خان

تعلیم دینی و دنیاوی ترمیم

آپ نے دینی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد مفتی رضا علی خان سے حاصل کی۔ جو خود بہت بڑے عالم دین تھے انھوں نے ہی ہندستان میں پہلا باقاعدہ دارلافتاء قائم کیا تھا۔ مولانا نقی علی تینتالیس علوم و فنون کے علاوہ منطق و فلسفہ کے ماہر تھے۔ آپ کا مطالعہ نہایت وسیع تھا۔[8]

عقد اور اولاد ترمیم

مولانا کا نکاح مرزا اسفند یار بیگ لکھنوی کی دختر حسینی خانم کے ساتھ ہوا تھا، اسفند یار بریلی میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔ مولانا نقی علی کی ان سے مندرجہ ذیل اولاد ہوئی۔

شکل و شباہت ترمیم

مولانا نقی علی افغان قبیلے بڑیچ سے تعلق رکھتے تھے۔ افغانی موی الجثہ ہوتے ہیں۔ مولانا میں یہ خوبیاں موجود تھیں۔ آپ دراز قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔گول نورانی چہرہ، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں جن سے مہر و محبت عیاں، علم و فضل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معمور چوڑا سینہ، ستواں ناک، گورا چٹا رنگ۔ چہرہ پر گھنی داڑھی جو آخر عمر میں کچھ سفید ہو گئی تھی۔ باریک ہونٹ جن پر مسکراہٹ رہتی۔[10]

معمولات دینی و دنیاوی ترمیم

اخلاق و عادات ترمیم

مولانا نقی علی زبردست عالم، مفتی ءوقت، فقہیہ عصر، پابند شرع اور عابد شب بیدار تھے۔ پرہیز گار اور خداپرستی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ہر وقت باوضو رہتے، نماز باجماعت کے پابند تھے اور قلب درود شریف کا ذاکر۔ روزے کثرت سے رکھتے۔ آپ کی زندگی کا ہرشعبہ اتباع سنت کے انوار سے منور تھا۔ طبعیت ناساز ہوتی تب بھی مسجد میں نماز با جماعت ادا کرتے کثرت سے نفلی اعمال کرنے والے تھے۔
آپ کف اخلاق و عادات بہت عمدہ تھے۔ پوری زندگی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اتباع سنت میں گذری۔ اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ سلام میں سبقت کرتے، غرباء و مساکین کی امداد کرتے۔ بہت خوش مزاج و با اخلاق تھے۔ غرور و تکبر سے کوسوں دور، خدمت دین ہی ان کا مشغلہ تھا۔[11]

حالات و واقعات ترمیم

1857ء جنگ آزادی ترمیم

جید عالم اور معروف مفتی وقت ہونے کے ساتھ ساتھ جلیل القدر مجاہد آزادی بھی تھے۔ آپ تمام عمر انگریز سامراجیت کے خلاف بر سر پیکار رہے۔ آپ ایک بہتریں جنگ جو اور بیباک سپاہی تھے۔ لارڈ ہسٹنگ آپ کا نام سن کر کانپتا تھا۔ جنرل ہڈسن نے آپ کا سر قلم کرنے کا انعام پانچ سو روپیہ مقرر کیا۔ مگر اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ آپ کے احاطے سے انگریزوں نے گھوڑے چوری کر لیے تھے، کیونکہ آپ نے گھوڑے مجاہدین کے لیے وقف کیے ہوئے تھے۔[12]
آپ کی آبائی جائداد موضع تحصیل ملک ضلع رامپور کے نزدیک تھی، انگریزوں نے جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے آپ کی تمام جائداد نواب رامپور کو بطور انعام دے دی کیونکہ اس نے جنگ میں انگریزوں کی مدد کی تھی۔

حج و زیارات ترمیم

مولانا نقی علی خان 1295ھ کو حج و زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ وہ دور تھا کہ مولانا شدت سے علیل تھے اور ضعیف انتہا کو تھا۔ عرض کی گئی کہ ایک سال کے لیے حج ملتوی کر دیں مگر آپ نے انکار کر دیا۔ مولانا حج و زیارت کے سلسلے میں مکہمعظمہ اور مدینہ منورہ میں تقریباً" تین ماہ مقیم رئے۔ حج میں آپ کے معلم احمد سیونی بن محمد سیونی مکی تھے۔[13]

تعلم دین ترمیم

فتوی نویسی ترمیم

مفتی رضا علی خان نے 1831ء میں ہندوستان میں پہلا باقاعدہ دارالافتاء قائم کیا۔ اور چونتیس سال تک فتوی دیا۔ اس کے بعد مولانا نقی علی خان نے مسند افتاء کی ذمہ داری لی اور آخر عمر تک فتوی نویسی کا کام کیا۔ آپ کے پاس کثرت سے سوال آتے، جو ملک و بیرون ملک سے ہوتے۔ مفتی حافظ بخش آنولوی لکھتے ہیں

مولوی صاحب ممدوح (مولانا نقی علی خان) کو کسی کی تکفیر مشتہر کرنے سے کیا غرض تھی نہ آپ کی عادت۔ مسائل جو مہر کے واسطے آتے اگر صحیح ہوتے مہر ثبت فرماتے ہیں اور جو خلاف کتاب (شریعت) ہوتے ہیں جواب علاحدہ سے لکھ دیتے ہیں کسی کی تحریر سے تعرض نہیں کرتے۔[14]

مدرسہ اہلسنت کا قیام ترمیم

مولانا نقی علی کے عہد تک بریلی میں مختلف علما کرام انفرادی طور پر دینی و مذہبی تعلیم دیتے تھے۔ جن میں مولوی ہدایت علی فاروقی اور مولوی یعقوب علی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد مولانا نقی علی خان نے مدرسہ اہل سنت کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔[15] یہ 1872ء سے قبل قائم ہوا، جس کے قیام کا درست سن معلوم نہیں ہے۔ یہ اپنے وقت کا معروف اور معیاری دینی مدرسہ تھا۔

تصنیفات و تالیفات ترمیم

آپ کی تصنیفات کی تعداد چالیس ہے مگر صرف چھبیس کتب ہی امتداد زمانہ سے بچ سکیں۔

مطبوعہ ترمیم

عنوان موضوع اشاعت
الکام الاوضح فی تفسیر سورہ الم نشرح تفسیر قران، سورہ الم نشرح کی تفسیر مکتبہ رضا بیسلپور، پیلی بھیت، بھارت
سرور القلوب فی ذکر المحبوب سیرت نبوی 1867ء میں لکھی گئی، پہلی بار 1871ء میں شائع ہوئی، (368 صفحات)
جواہر البیان فی اسرار الارکان ارکان اسلام صبح صادق، سیتاپور، 1881ء، صفحات 208
اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد تقویت الایمان کا رد صبح صادق، سیتاپور، 1881ء، صفحات 104
ہدایت البریۃ الی شریعۃ الاحمدیہ اصلاح معاشرہ 1926ء، کتب خانہ سمنانی اندرکوٹ، میرٹھ، 48 صفحات
اذاقۃ الاثام لمانعی عمل المولد و القیام میلاد و قیام میلاد و قیام کے نام سے پہلی بار 2015ء میں شائع ہوئی
فضل العلم و العلما علم و علما کی فضیلت 1982ء، 54 صفحات
احسن الوعا آداب الدعا دعا کے مسائل و فوائد اور آداب مکتبہ المدینہ، کراچی، 130 صفحات

غیر مطبوعہ ترمیم

  • ازالۃ الاوھام
  • تزکیۃ الایقان رد تقویت الایمان
  • الکوکب ازہر فی فضاہل العلم و آداب العلماء
  • الرویۃ فی الاخلاق النبویہ
  • النقاھۃ النقویہ فی الخصائص النبویہ
  • وسیلۃ النجات
  • لمعۃ النبراس فی آداب الاکل و الباس
  • ترویح الارواح
  • التمکن فی تحقیق مسائل التزین
  • خیر المخاطبہ فی الحاسبۃ والمراقبۃ
  • ھدایت المشتاق الی سیر الانفس والافاق
  • ارشاد الاحباب الی آداب الاحتساب
  • اجمل الفکر فی مبحث الذکر
  • عین المشاہدۃ لحسن المجاھدہ
  • تشوق الا آہ الی طریق محبۃاللہ
  • نھایۃ السعادۃ فی تحقیق الھمۃ والارارۃ
  • اقوی الذریعہ الی تحقیق الطریقۃ والشریعۃ
  • اصلاح ذات بین

تلامذہ ترمیم

  • امام احمد رضا خان
  • مولانا حسن رضا خان
  • مولانا برکات احمد
  • مولانا ہدایت رسول لکھنوی
  • مفتی حافظ بخش آنولوی
  • مولوی حشمت خان
  • مولوی سید امیر احمد بریلوی
  • مولوی حکیم عبد الصمد

پیری مریدی ترمیم

بیعت و خلافت ترمیم

مولانا نقی علی خان اپنے بیٹے احمد رضا خان کے ساتھ 1294ھ کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف حاضر ہوئے اور سید شاہ آل رسول مارہروی قادری برکاتی سے بیعت ہوئے۔ اسی وقت نقی علی و احمد رضا کو خلافت عطا کی گئی۔[16]

اوراد و وظائف ترمیم

سید آل رسول مارہروی نے آپ کو مندرجہ ذیل اوراد و وظائف کی اجازت عطا کی تھی۔:

قرآن حکیم کے خواص، اسماء الہیہ، دلائل الخیرات، حصن حصین
قصر متین، اسماء العینہ، حزب البحر، حزب البر،
سلسلہ شاذلیہ کے تمام احزاب، ایک لاکھ چار ولیوں کا حرز، حرز الامیرین
حرز ایمانی، دعا حیدری، دعا عزرائیل، دعا مغنی
قصیدہ غوثیہ، صلاۃ غوثیہ، دعا سریانی، نیم تکبیر
تکبیر عاشقاں، قصیدہ بردہ، ارسال الہواتف[17]

اجازت سند حدیث ترمیم

آپ کو چار سلسلوں سے اجازت سند حدیث تھی۔

  1. سید نا آل رسول مارہروی سے جو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے ہوتی ہوئی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک جاتی ہے۔
  2. اپنے والد مولانا رضا علی خان سے جو مولانا خلیل الرحمان محمود آبادی سے وہ فاضل محمد سندیلوی سے اور وہ ابوالعیاش محمد عبد العلی سے ۔
  3. سید احمد بن زینی دحلان مکی سے اور وہ شیخ عثمان دمیاطی سے ۔
  4. شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی سے [18]

وصال ترمیم

آپ کا وصال ذی القعدہ 1297ھ مطابق 1880 کو اکیاون برس کی عمر میں خونی اسہال کی وجہ سے ہوا۔ آپ کو مولانا رضا علی خان کے پاس دفن کیا گیا۔[19]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. http://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-allama-naqi-ali-khan-barelvi — اخذ شدہ بتاریخ: 30 ستمبر 2018
  2. Maulana Mufti Naqi ‘Ali Khan
  3. مولانا نقی علی حیات اور علمی و ادبی کارنامے، صفحہ 45-46
  4. [https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-allama-naqi-ali-khan-barelvi آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ziaetaiba.com (Error: unknown archive URL) ضیائے طیبہ] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ziaetaiba.com (Error: unknown archive URL) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ziaetaiba.com (Error: unknown archive URL) مختصر حالاتِ زندگی]
  5. نجم الغنی رام پوری، اخبار الصنادید، صفحہ 165
  6. ابراہیم خوشتر، تذکرہ جمیل، صفحہ 90
  7. محمد حسن علمی، ترقیمہ خطبات علمی
  8. مرزا عبد الوحید بیگ، حیات مفتی اعظم ہند، صفحہ 35
  9. ماہنامہ سنی دنیا بریلی، شمارہ فروری-مارچ 1994، صفحہ 54
  10. مولانا نقی علی، حیات و علمی و ادبی کارنامے، صفحہ 93
  11. مولانا نقی علی خان، حیات و شخصیت، صفحہ 100
  12. ترجمان اہل سنت، جنگ آزادی نمبر، جولائی 1975
  13. بیان احمد سیونی بن محمد سیونی مکی، مقدمہ نمبر 47/1883 اجلاس مولوی عبد القیوم، سب جج بریلی
  14. حافظ بخش آنولوی، تنبیہ الجھال، صفحہ 23
  15. حیات اعلیٰ حضرت، صفحہ 211
  16. احمد رضا خان، ازھار الانوار
  17. احمد رضا خان، اجازت المتینہ، صفحہ 167
  18. الاجازت المتینہ، صفحہ 195
  19. جواہر البیان، تقدیم از مولانا احمد رضا خان، صفحہ 208