پاکستان میں تعلیم (Education in Pakistan) کی نگرانی وفاقی حکومت کی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت زیادہ تر تحقیق اور ترقی نصاب، تصدیق اور سرمایہ کاری میں مدد کرتی ہے۔ آئین پاکستان کی شق 25-A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔[2]

پاکستان میں تعلیم
وفاقی وزارت تعلیم
صوبائی تعلیمی وزارتیں
عام تفصیلات
خواندگی (2009)
کل58%
مرد69%
خواتین45%
اندراج
کل37,462,900[1]
ابتدائی22,650,000[1]
ثانوی2,884,400[1]
بعد ثانوی1,349,000[1]

سب سے زیادہ شرح تعلیم اسلام آباد کا ہے جو 96 فیصد ہے اور سب سے کم کوہلو کا ہے جو 28 فیصد ہے[3]۔2000 اور 2004ء کے درمیان55 سے 64 سال تک کے عمر والے پاکستانی شہریوں کی شرح تعلیم 38 فیصد ہے، 45 سے 54 سال تک کے عمروالے افراد میں شرح تعلیم 46 فیصد تھا۔25 سے 34 سال تک عمر والے افراد میں شرح تعلیم 57 فیصد اور 15 سے 24 سال والے افراد میں 72شرح تعلیم فیصد تھا۔[4] شرح تعلیم علاقے سے علاقے پر مشتمل ہے، کئی علاقوں میں زیادہ اور کئی علاقوں میں کم ہے۔ پاکستان کی 49 فیصد افراد ایسے ہیں جو انگریزی زبان میں کافی حد تک بہتر ہیں۔ سالانہ 445 ہزار پاکستانی جامعات سے اور 10000 کمپیوٹر سائنس سے گریجویٹ کرتے ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے اکثر ممالک سے شرح تعلیم زیادہ ہے۔ لیکن پاکستان کا شمار ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ایک بہت بڑی آبادی (تقریباََ 5 ملین سے زیادہ) اسکولوں سے باہر ہے۔[5]

رسمی تعلیم کے مراحل

ترمیم

ابتدائی تعلیم

ترمیم

پاکستانی بچوں میں سے صرف 80 فیصد ابتدائی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔[6] معیار تعلیم کا نظام بنیادی طور پر برطانوی نظام سے اخذ کیا گیا ہے۔

آٹھ مضامین جو عام طور پڑھائے جاتے ہیں وہ اردو، انگریزی، ریاضی، فن،جنرل سائنس، معاشرتی علوم،اسلامیات اور کمپیوٹر ہیں۔

ثانوی تعلیم

ترمیم

پاکستان میں ثانوی تعلیم نویں جماعت سے شروع ہوتی ہے اور چار سال جاری رہتی ہے۔ ان چار سالوں میں ہر سال کے اختتام پر طلبہ کو ایک قومی امتحانی انتظام کے تحت ایک امتحان پاس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا انتظام علاقائی بورڈ انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کرتا ہے۔ نویں اور دسویں سال کی تکمیل پر طلبہ کو سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے جبکہ گیارہوں اور بارہوں سال کی تکمیل پر ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔

ثلاثی درجہ تعلیم

ترمیم
 
جامعہ پنجاب

یونیسکو کے عالمی تعلیم ڈائجسٹ 2009 کے مطابق 6.3 فیصد پاکستانی 2007ء میں (مرد 8.9 فیصد اور خواتیں 3.5 فیصد) جامعات سے فارغ التحصیل تھے۔[7] پاکستان ان اعداد و شمار کو 2015ء میں 10 فیصد کرنے اور 2020ء تک 15 فیصد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔[8]

رباعی درجہ تعلیم

ترمیم

ماسٹر ڈگری پروگراموں میں زیادہ تر دو سال کی تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ماسٹرز ان فلاسفی (ایم فل) کیا جا سکتا ہے۔ ایم فل کی تکمیل پر ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) کی ڈگری کا حصول کیا جا سکتا ہے۔

جامعات کی عالمی درجہ بندی

ترمیم
 
جامعہ انجینئری و ٹیکنالوجی، لاہور

کوالٹی سٹینڈرڈ ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2010 کے مطابق دنیا کی چوٹی کی 200 ٹیکنالوجی جامعات میں دو پاکستانی جامعات بھی شامل ہیں۔

گیارہ دیگر پاکستانی جامعات کے سمیت جامعہ ہندسیات و طرزیات، لاہور، خلائی ٹیکنالوجی کا انسٹی ٹیوٹ، جامعہ قائداعظم، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، جامعہ کراچی کا شمار یونیورسٹیوں کی عالمی رینکنگ کے مطابق بہتریں 1000 عالمی جامعات میں کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں رائج تعلیمی نظام کے مسائل

ترمیم

پاکستان کا تعلیمی نظام اب بھی ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے متعارف کرائے گئے "پاکستان کی اسلامائزیشن" کے منصوبے پر قائم ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں رائج رٹہ بازی کا طریقہ طلبہ میں ایک تنگ اور محدود نقطہ نظر کو برقرار رکھتا ہے۔ یہ نقطہ نظر تنقیدی سوچ یا آزادانہ تجزیہ کی حوصلہ افزائی کیے بغیر حقائق اور اعداد و شمار کو یاد کرنے پر زور دیتا ہے۔ نتیجتاً، طلبہ اکثر نصابی کتابوں کے ذریعے وضع کردہ ایک واحد نقطہ نظر تک محدود رہتے ہیں، تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعات کو روکتے ہیں۔ تبدیلی کے دور میں پاکستانی طلبہ اب بھی نصابی کتب میں کسی بڑے اپ ڈیٹ کے بغیر فوٹو کاپی شدہ نوٹوں اور سمریوں پر گزارا کرتے ہیں۔ اور نتیجہ میں ایک نگ نظر اور پر تشدد معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔[9]

شماریات

ترمیم
 
شرح خواندگی - پاکستان
 
نقشہ خواندگی پاکستان
 
خواندگی بلحاظ صوبہ
 
خواندگی بلحاظ وفاقی علاقہ
 
مخصوص اضلاع میں خواندگی بلحاظ وقت

شرح خواندگی

ترمیم
مردم شماری کا سال[10] مرد[10] عورت[10] کل[10] شہری[11] دیہی[11] "تعلیم یافتہ" کی تعریف[10] عمر
گروہ[11]
1951 19.2%[12] 12.2%[12] 16.4% -- -- کسی بھی زبان میں ایک واضح پرنٹ پڑھ سکتا ہو ہر عمر
1961 26.9%[12] 8.2%[12] 16.3% 34.8% 10.6% کسی بھی زبان میں ایک سادہ خط سمجھ کے ساتھ پڑھنے کے قابل ہو پانچ سال یا زیادہ
1972 30.2% 11.6% 21.7% 41.5% 14.3% سمجھنے کے ساتھ کسی زبان میں پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہو دس سال یا زیادہ
1981 35.1% 16.0% 26.2% 47.1% 17.3% جو ایک اخبار پڑھ سکتا ہو اور سادہ خط لکھ سکتا ہو دس سال یا زیادہ
1998 54.8% 32.0% 43.9% 63.08% 33.64% جو ایک اخبار پڑھ سکتا ہو اور سادہ خط لکھ سکتا ہو
کسی بھی زبان میں
دس سال یا زیادہ
2004 66.25% 41.75% 54% 71%[13] 44%[13]
2009[14] 69% 45% 57% 74% 48%

مندرجہ ذیل جدول شرح خواندگی بلحاظ صوبہ ہے۔

صوبہ شرح خواندگی[10]
1972 1981 1998 2009[14]
پنجاب 20.7% 27.4% 46.6% 59%
سندھ 30.2% 31.5% 45.3% 59%
خیبر پختونخوا 15.5% 16.7% 35.4% 50%
بلوچستان 10.1% 10.3% 26.6% 45%

مندرجہ ذیل جدول شرح خواندگی بلحاظ وفاق کے زیر انتظام علاقہ جات ہے۔

علاقہ شرح خواندگی
1981 1998 2007
اسلام آباد 47.8%[15][16] 72.88%[15] 87%[3]
آزاد کشمیر 25.7%[17] 55%[18] 62%(2004)[19]
گلگت بلتستان 3% (خواتین)[20] 37.85%[20] 53%(2006)[20]
قبائلی علاقہ جات 6.38%[15] 17.42%[21][22] 22%[23]

مخصوص اضلاع میں خواندگی بلحاظ وقت

ضلع شرح خواندگی
2007[24] 1998[16][25] 1981[16]
اسلام آباد 87% 72.38% 47.80%
ضلع راولپنڈی 80% 70.45% 46.60%
ضلع جہلم 79% 63.92% 38.90%
ضلع کراچی 77% 65.26% 55%
ضلع لاہور 74% 64.66% 48.40%
ضلع گجرات 71% 62.11% 31.30%
ضلع گوجرانوالہ 69% 53.40% 29.90%
ضلع ایبٹ آباد 67% 55.30% دستیاب نہیں
ضلع کوئٹہ 62% 57.10% 36.70%
ضلع فیصل آباد 62% 51.94% 31.80%
ضلع سیالکوٹ 59% 57% 30.80%

اسکول حاضری

ترمیم
صوبہ اعلی ادنی
پنجاب راولپنڈی (80%) مظفر گڑھ اور راجن پور (40%)
سندھ کراچی (78%) جیکب آباد (34%)
خیبر پختونخوا ایبٹ آباد (67%) دیر بالا (34%)
بلوچستان کوئٹہ (64%) جھل مگسی (20%)

دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ

ترمیم

شرح خواندگی بالغان

ترمیم
 
ملک شرح خواندگی بالغان مرد عورت
پاکستان 55% 69% 40%
بھارت 63% 75% 51%
بنگلہ دیش 57% 61% 52%
نیپال 60% 73% 48%
بھوٹان 53% 65% 39%

شرح خواندگی نوجوانان

ترمیم
 
ملک شرح خواندگی نوجوانان مرد عورت
پاکستان 71% 79% 61%
بھارت 81% 88% 74%
بنگلہ دیش 77% 75% 78%
نیپال 83% 88% 78%
بھوٹان 74% 80% 68%

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت "Ministry of Education, Pakistan" (PDF)۔ 02 اکتوبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  2. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 17 جولا‎ئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2013 
  3. ^ ا ب "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 13 نومبر 2010 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مئی 2016 
  4. "Figure 7.7" (PDF)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2014 
  5. "Youth and skills: putting education to work, EFA global monitoring report, 2012; 2013"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2014 
  6. Sarah Stuteville (August 16, 2009)۔ "seattletimes.nwsource.com/html/localnews/2009670134_pakistanschool16.html"۔ The Seattle Times۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  7. Global Education Digest 2009۔ UNESCO Institute for Statistics۔ 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  8. "آرکائیو کاپی"۔ 12 ستمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  9. "Educational System of Pakistan ...The Dark side"۔ fruit-chat.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2024 
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث
  11. ^ ا ب پ http://unesdoc.unesco.org/images/0013/001357/135793eb.pdf
  12. ^ ا ب پ ت "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 30 نومبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  13. ^ ا ب "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 14 جولا‎ئی 2010 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جولا‎ئی 2010 
  14. ^ ا ب "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 14 دسمبر 2010 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  15. ^ ا ب پ "آرکائیو کاپی"۔ 24 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  16. ^ ا ب پ http://mpra.ub.uni-muenchen.de/4166/1/MPRA_paper_4166.pdf
  17. AJK literacy rate 1981 census - Google Search
  18. Human Rights Watch: "With Friends Like These..." - Google Books
  19. "آرکائیو کاپی"۔ 27 فروری 2005 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  20. ^ ا ب پ "آرکائیو کاپی"۔ 26 جون 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 
  21. http://www.allvoices.com/contributed-news/6095465-government-steps-up-efforts-to-improve-literacy-status-in-fata
  22. http://www.khalidaziz.com/Agenda_for_Fata_Reform.pdf
  23. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 16 اگست 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2011 
  24. "آرکائیو کاپی"۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2013 

بیرونی روابط

ترمیم