کٹیہار (انگریزی: Katihar) ہندوستان کا ایک شہر جو کٹیہار ضلع میں واقع ہے۔ اور یہی اس ضلع کا صدر مقام ہے۔[1]

شہر
ملک بھارت
ریاستبہار
ضلعکٹیہار ضلع
بلندی20 میل (70 فٹ)
آبادی (2011)
 • کل240,565
 • کثافت782/کلومیٹر2 (2,030/میل مربع)
زبانیں
 • دفتری وعمومیمیتھلی،ہندی زبان، اردو، بنگلہ، سرجاپوری ، بھوجپوری ،انگریزی
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز854105
لوک سبھا حلقۂ انتخابکٹیہار
ودھان سبھا حلقۂ انتخابکٹیہار
ویب سائٹkatihar.bih.nic.in

مغربی بنگال کی سرحد پر واقع کٹیہار ہندوستان کی ریاست بہار کا ایک ضلع ہے۔ پہلے یہ پورنیہ ضلع کا ایک حصہ تھا۔ مغل حکومت کے تحت اس ضلع کا قیام حکومت تیج پور نے کی تھی۔ 13 ویں صدی کے آغاز میں یہاں پرمحمددين نے راج کیا۔ 1770ء میں جب محمد علی خان پورنیہ کے گورنر تھے، اس وقت یہ ضلع برطانوی حکومت کے ہاتھ میں چلا گیا۔ اور ایک طویل عرصے تک اس جگہ پر بہت حکومتوں نے راج کیا۔ اور 2 اکتوبر 1973 ء کو ایک الگ اور آزاد ضلع کے طور پر اعلان کر دیا گیا۔

تعلیمی نظام ترمیم

نصاب تعلیم اور تعلیمی نظام ترمیم

یہ ضلع گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ اور بہت عمدہ مثال ہے۔ یہاں اسلامی مدارس کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے مشہور کالجز موجود ہیں۔ خود حکومت بہار کی طرف سے یہاں اسلامی مدارس چلتے ہیں۔ اور غیر حکومتی چھوٹے بڑے مدارس اچھی تعداد میں موجود ہیں۔ عصری علوم میں کٹیہار کا میڈیکل کالج سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ہے۔

مشہور تعلیمی ادارے ترمیم

• دار العلوم لطیفی، فقیر تکیہ، کٹیہار

مواصلاتی نظام ترمیم

فضائی مواصلات ترمیم

کٹیہار میں بہ ذات خود کوئی ہوائی اڈا نہیں ہے۔ لیکن ہوائی سفر کے لیے یہاں سب قریب ترین ہوائی اڈا باگ ڈوگرا ڈومیسٹک ائیرپورٹ ہے۔ جو کٹیہار سے 160 کلومیٹر کی دوری پر سلی گڑی (مغربی بنگال) میں واقع ہے

ریلوے ترمیم

کٹیہار ریلوے اسٹیشن کٹیہار ضلع کا ایک اہم ترین اسٹیشن ہے۔ شمال مشرقی سرحدی ریلوے زون کٹیہار سے ہی شروع ہوتا ہے۔ اور مشرقی ہند کو مغربی ہند سے جوڑنے کے لیے یہی ایک جنکشن ہے۔ یہاں سے ملک بھر میں تقریبا تمام ہی ریاستوں کے لیے ٹرینیں مل جاتی ہیں۔ اور ہر قسم کی ٹرینیں یہاں رکتی ہیں۔

بس اور موٹر گاڑیاں ترمیم

کٹیہار قومی شاہراہ 31 سے منسلک ہے۔ اس لیے یہاں سے دیگر مقامات پر جانے کے لیے بسیں ہمہ وقت موجود ہوتی ہیں۔ کٹیہار ریلوے اسٹیشن سے تقریبا ایک کلومیٹر کے فاصلے پر بس اسٹیشن موجود ہے۔ اور وہیں رکشہ و ٹیکسی اسٹینڈ بھی ہے۔ جس سے کٹیہار کے گرد و نواح جانے کے لیے بڑی آسانی ہوتی ہے۔

اہم مقامات ترمیم

کلداسپور ترمیم

یہ گاؤں مہانندہ ندی کے کنارے واقع ہے،بارسوئی سب ڈویژن سے تقریباً دس بارہ کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور شہر کٹیہار سے تقریباً باون کیلو میٹر دوری پر ہے۔

اس گاؤں میں حضرت مولانا سید شاہ شکر الله قادری بغدادی جیلانی کی ایک شاخ آباد ہے ،مولانا سید شاہ شکر اللہ قادری حافظ الملک حافظ رحمت خاں شہید کی دعوت پر پہلی بھیت روہیلکھنڈ تشریف لائے تھے،پیلی بھیت کی ایک مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے،حافظ الملک حافظ رحمت خاں نے آپ کو ایک جاگیر بھی دی تھی ، شاہ شکر اللہ قادری کے لڑکے شاہ احسان اللہ قادری بغداد ہجرت کر گئے تھے، ہندوستان میں شاہ احسان اللہ قادری کی اولاد میں سید شاہ سعید اللہ ،سید شاہ عزیز الله اور سید شاہ برکت اللہ وغیرہ رہ گئے تھے۔شاہ سعید اللہ اور شاہ عزیز اللہ نے لکھنؤ میں قیام کیا ۔

سید شاہ عزیز الله نے سید شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی شاگردی اختیار کی،سید احمد شہید بریلوی کے ساتھ جد و جہد آزادی میں شریک ہو گئے ،بالاکوٹ کی جنگ میں شرکت کی جس میں آپ کی انگلیاں شہید ہو گئی تھیں۔بھاگلور میں جنگ آزادی لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے ،مشائخ چک بھاگلپور میں آپ کی قبر ہے۔آپ کے ایک لڑکے مولانا سید شاہ قمر الدین نے کلداسپور بگھوا بارسوئی اور بنگال کے علاقے میں اصلاح و تربیت اور جد و جہد آزادی کا فریضہ انجام دیا،آپ کے بعد آپ کے لڑکے مولانا جمال الدین اور ان کے بعد ان کے لڑکے مولانا سید شاہ سراج الدین ندوی لکھنوی نے اصلاح و تربیت کا کام جاری رکھا ،اس وقت قاری سید شاہ نعمت اللہ الحسنی لکھنؤی شاہ شکر الله کی اولاد میں بڑی ہستی ہیں اور پورے علاقے کو فیضیاب کر رہے ہیں۔مختلف دینی اداروں کی نظامت اور سرپرستی کی ذمہ داری آپ کے سر پر ہے ۔

مولانا ڈاکٹر سید شرف الدین ندوی لکھنوی مرحوم نے حالات خاندان عزیزیہ میں تفصیل کے ساتھ ان بزرگوں کی سوانح حیات اور کلداسپور و نستہ کی تاریخ کو تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے ۔


بالدی باڑی ترمیم

گنگا ندی کے قریب واقع منیہاری سے تقریبا 2.5 کلومیٹر کے فاصلے پر بالدی باڑی گاؤں واقع ہے۔ اسی جگہ پر مرشدآباد کے نواب سراج الدولہ اور پورنیہ کے گورنر نواب شوکت جنگ کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔

بیلوا ترمیم

یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ جگہ بارسوئی کے سیکٹر ہیڈ کوارٹر کے جنوب سے تقریبا آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں پر کئی قدیم اور تاریخی عمارتیں ہیں۔ اور ہندؤوں کی عبادت گاہیں (منادر) بھی ہیں۔ یہاں ہر سال بسنت پنچمی نامی ہندو تہوار کے موقع پر میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

گوگابیل جھیل ترمیم

یہ جھیل ضلع کٹیہار کے امدآباد بلاک میں واقع ہے۔ جو تقریبا 217.99 ایکڑ زمین پر محیط ہے۔ کٹیہار سے تقریبا 25 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ ایک قدرتی جھیل ہے۔ قریب ترین ریلوے اسٹیشن منیہاری ہے۔ سال بھر یہاں پرندوں کی مختلف قسمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ نہایت ہی سرسبز اور آلودگیوں سے پاک ایک خوب صورت جھیل ہے۔

نواب گنج ترمیم

یہ ایک گاؤں ہے جو منیہاری سے تقریبا تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مغلیہ سلطنت میں اس ضلع کے گورنر نواب شوکت گنج کے پرانے تخت کے لیے یہ جگہ جانی جاتی ہے۔

منیہاری ترمیم

کٹیہار کے جنوب میں 20 كلوميٹر کے فاصلے پر منیہاری شہر واقع ہے۔ دیومالائی کہانی کے مطابق ہندؤوں کے بھگوان کرشن کا قیمتی جوہر منی غائب ہو گیا تھا۔ تو وہ تلاشتے ہوئے اس علاقے تک پہنچا تھا۔ اس لیے اس کا نام منی ہاری پڑ گیا۔ کٹیہار ضلع میں منیہاری کا ایک اہم مقام ہے۔گنگا ندی کا ایک مصروف ترین گھاٹ بھی یہیں ہے۔ گوکہ یہ ایک بہت ہی چھوٹا سا شہر ہے، لیکن تجارتی اعتبار سے کٹیہار کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ پڑوسی ریاست جھارکھنڈ کا ضلع صاحب گنج کٹیہار کے لیے ایک خاص تجارتی مقام ہے۔ اور صاحب گنج سے کٹیہار آنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔ یہاں بڑی بڑی اسٹیمروں کے ذریعے تجارتی سامان کی نقل مکانی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بھاری بھرکم ٹرک اور لاریوں کو بھی انھیں اسٹیمروں میں لاد کر ایک طرف سے دوسری طرف پہنچایا جاتا ہے۔ منیہاری کے راستے بہت سارے تجارتی خام مال کٹیہار لایا جاتا ہے۔ جن میں کوئلہ، بالو (ریت)، کنکری، پتھر وغیرہ کے علاوہ فصلوں کی پیداوار میں پٹ سن، مکئی، گیہوں، ارد (ماش) وغیرہ فصلیں شامل ہیں۔ اس علاقے میں دریائے گنگا پر ایک پل کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن سیاسی جمع خرچ کے بیچ آج تک یہ کام نہیں ہو سکا۔

کلیانی جھیل ترمیم

جھوا ریلوے اسٹیشن کے جوابات سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر کلیانی جھیل واقع ہے۔ ہر سال ماگھ مہینے کے نصف میں کافی تعداد میں لوگ یہاں غسل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ہندؤوں کی دیوی کلیانی کے نام سے اس جھیل کو موسوم کیا جاتا ہے۔

رہن سہن ترمیم

چوں کہ یہ ایک سرحدی ضلع ہے۔ جہاں جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس لیے یہاں کے باشندوں کا معاشرتی رہن سہن بالکل مختلف ہے۔ یہاں کئی قومیں اور کئی زبانیں پائی جاتی ہیں۔ مغربی بنگال کے مالدہ ضلع سے ملنے والی سرحد کے آس پاس زیادہ تر شیرشاہ آبادی قوم پائی جاتی ہے۔ جن کی مادری زبان بنگلہ ہے۔ اور کھانے پینے اور رہن سہن کے معاملہ میں مالدہ ضلع سے مناسبت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنوب اور مغرب میں بھوجپوری زبان بولی جاتی ہے۔ اور شمالی علاقے میں سرجاپوری اور میتھلی بولی جاتی ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ ہندی اور اردو بولتا ہے۔ دیہاتوں میں مکانات زیادہ تر کچے اور گھاس پھوس والے ہوتے ہیں۔ گنگا کی وادی میں بسنے والے لوگ عموما دو وقت روٹی اور دوپہر کو چاول کھاتے ہیں۔ مچھلی مرغوب غذا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Katihar"