ابو ریحان بیرونی
ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی المعروف البیرونی (پیدائش: 5 ستمبر 973ء، وفات: 13 دسمبر 1048ء) ایک بہت بڑے محقق اور سائنس دان تھے۔ وہ خوارزم کے مضافات میں ایک قریہ، بیرون میں پیدا ہوئے اور اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔ البیرونی بو علی سینا کے ہم عصر تھے۔ خوارزم میں البیرونی کے سرپرستوں یعنی آلِ عراق کی حکومت ختم ہوئی تو اس نے جرجان کی جانب رخت سفر باندھا وہیں اپنی عظیم کتاب "آثار الباقیہ عن القرون الخالیہ" مکمل کی۔ حالات سازگار ہونے پر البیرونی دوبارہ وطن لوٹے اور وہیں دربار میں عظیم بو علی سینا سے ملاقات ہوئی۔
ابو ریحان بیرونی | |
---|---|
(فارسی میں: ابوریحان محمد بن احمد البیرونی) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: محمد بن أحمد البِيرُونيِّ)[1] |
پیدائش | 4 ستمبر 973ء [2] کاث [3] |
وفات | 9 دسمبر 1048ء (75 سال) غزنی |
رہائش | رے غزنی گرگان |
شہریت | دولت سامانیہ [4] |
مذہب | اسلام [5]، اہل تشیع [6][7] |
عملی زندگی | |
استاذ | ابن عراق [8] |
پیشہ | فلسفی ، کیمیادان ، جغرافیہ دان ، جامع العلوم [4]، ریاضی دان ، ماہر فلکیات ، مترجم ، ماہر انسانیات ، طبیعیات دان ، منجم ، مورخ ، ماہرِ لسانیات ، ماہر ہندویات ، مصنف ، ماہرِ دوا سازی ، ماہر نباتیات [9] |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، خوارزمی ، قدیم یونانی ، توراتی عبرانی ، سریانی زبان ، سنسکرت ، عربی [10][11] |
شعبۂ عمل | طبیعیات ، ریاضی ، فلکیات ، علوم فطریہ ، تاریخ ، وقائع نگاری ، ہندویات ، زمینیات ، جغرافیہ ، فلسفہ ، نقشہ نگاری ، بشریات ، نجوم ، کیمیا ، طب ، نفسیات ، الٰہیات ، علم الادویہ ، تاریخ مذاہب |
کارہائے نمایاں | آثار الباقیہ عن القرون الخالیہ ، کتاب الہند ، کتاب الجواہر |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمکاث شہر دریائے جیحون (دریائے آمو) کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ اس کے اردگرد کئی مضافاتی بستییاں تھیں جن میں ایک بستی کا نام بیرون تھا۔ اس مضافاتی بستی میں ایک یتیم بچہ پرورش پا رہا تھا جس کا نام محمد بن احمد تھا جو دنیا میں البیرونی کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ بچہ شروع ہی سے قدرتی مناظر کا دلدادہ تھا۔ وہ دن بھر باغات میں پھرتا، خوب صورت پہاڑوں پر چڑھ جاتا، صحرا میں دوڑتا بھاگتا اور شام کے وقت گھر لوٹتا تو اس کے ہاتھ میں ریحان کی کونپلوں اور ٹہنیوں کا ایک گلدستہ ہوتا جسے وہ ایک پیالے میں سجا دیتا اور جب ہوا چلتی تو اس گلدستے کی خوشبو اس کے غریب خانہ کو معطر کردیتی۔ اس کی ماں اس کو اسی لیے ابو ریحان کہ کر پکارتی تھی۔ البیرونی کا باپ ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتا تھا لیکن اس کی ناگہانی موت کی وجہ سے البیرونی کی ماں اپنے لیے اور اپنے بیٹے کے لیے جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے روزی کمانے پر مجبور ہو گئی۔ اس کام میں البیرونی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتا تھا۔[15]
ایک روز البیرونی کی نباتات کے ایک یونانی عالم سے ملاقات ہو گئی۔ البیرونی نے اسے ایک باغ میں پھول توڑنے اور جنگل کے درختوں کے نیچے پودوں کو کاٹتے دیکھا تو اس یونانی علم کے پاس پہنچ کر احتجاج کرتے ہوئے کہنے لگا: جناب آپ ان بھولوں کو کیوں توڑ رہے ہیں اور پودوں کو کیوں کاٹ رہے ہیں؟ کیا آپ میری طرح ان کو کاٹے بغیر اور انھیں زندگی سے محروم کیے بغیر ان کی تصویریں نہیں بنا سکتے ہیں؟ یہ سن کر یونانی علم ہنس پڑا اور کہنے لگا: بیٹے میں ان بھولوں اور پودوں کا علم کی خاطر جمع کر رہا ہوں، ان پودوں اور بھولوں سے ہم بیماریوں کت علاج کے لیے دوائیں تیار کر رہیں۔ یہ سن کر البیرونی خوشی سے طلایا: تو آپ نباتات کے عالم ہیں؟ یونانی علم نے پیا سے کہا: ہاں میرے بیٹے، میرا خیال ہے تمھیں پھولوں اور پودوں سے بہت محبت ہے۔ البیرونی نے کہا میں تو تمام قدرتی مناظر سے محبت کرتا ہوں۔ ستاروں، درخت، پودے، پھول، پہاڑ، ٹیلے اور وادیاں سبھی مجھے پسند ہیں۔ اس یونانی علم نے البیرونی کو روزانہ تعلیم دیتا رہااور نباتات کا علم سکھاتا رہا۔ اس وقت البیرونی کی عمر گیارہ سال تھی۔ تین سال گذر گئے اور ابو ریحان چودہ برس کا ہو گیا، اس عرصے میں اس نے یونانی اور سریانی زبانوں میں مہارت حاصل کرلی اور یونانی علم سے پودوں کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ طبعی علوم کع بارے میں اس کا شوق اور بڑھ گیا۔ یونانی علم اپنے وطن یونان لوٹنے سے پہلے البیرونی کو فلکیات و ریاضی کے عالم ابو نصر منصور علی کے خدمت میں جو خوارزمی خاندان کا شہزادہ تھا لے گیا۔ ابو نصر نے البیرونی کے لیے الگ گھر تعمیر کرایا اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ابو نصر ہر روز فلکیات اور ریاضی کے علوم سکھاتا رہا۔ ابو نصر نے البیرونی کو مشہور ریاضی دان اور ماہر عبد الصمد کی شاگردی میں دے دیا۔[16]
کارنامہ ہائے
ترمیمالبیرونی نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں ”تحقیق الہند“ ہے جس میں البیرونی نے ہندوؤں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی حالات بڑی تحقیق سے لکھے ہیں۔ اس کتاب سے ہندوؤں کی تاریخ سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بہت سی معلومات ایسی ہیں جو اور کہیں سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اس کتاب کو لکھنے میں البیرونی نے بڑی محنت کی۔ ہندو برہمن اپنا علم کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے تھے لیکن البیرونی نے کئی سال ہندوستان میں رہ کر سنسکرت زبان سیکھی اور ہندوئوں کے علوم میں ایسی مہارت پیدا کی کہ برہمن تعجب کرنے لگے۔ البیرونی کی ایک مشہور کتاب "قانون مسعودی" ہے جو اس نے محمود کے لڑکے سلطان مسعود کے نام پر لکھی۔ یہ علم فلکیات اور ریاضی کی بڑی اہم کتاب ہے۔ اس کی وجہ سے البیرونی کو ایک عظیم سائنس دان اور ریاضی دان سمجھا جاتا ہے۔ البیرونی نے پنجاب بھر کی سیر کی اور "کتاب الہند" تالیف کی، علم ہیئت و ریاضی میں البیرونی کو مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے ریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، تاریخ، تمدن، مذاہب عالم، ارضیات، کیمیا اور جغرافیہ وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔ البیرونی کے کارناموں کے پیش نظر چاند کے ایک دہانے کا نام "البیرونی کریٹر" رکھا گیا ہے۔
تصنیفات و تالیفات
ترمیمالبیرونی نے تاریخ، ریاضی اور فلکیات پر کوئی سو سے زائد تصانیف چھوڑی ہیں جن میں کچھ اہم یہ ہیں :
کتاب الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ
ترمیمیہ کتاب البیرونی نے جرجان کے حکمران شمس المعالی قابوس بن دشمکیر کے نام پر تحریر کی، اس کا خاص موضوع علم نجوم اور ریاضی تھا۔ لیکن اس میں بہت سے دیگر دلچسپ علمی، تاریخی اور مذہبی و فلسفیانہ باتیں بھی لکھی ہیں اور جگہ جگہ تنقیدی انداز بھی اختیار کیا ہے۔ اس طرح کتاب اس دور کے اہم تاریخی، مذہبی اور علمی مسائل کی ایک تنقیدی تاریخ بن گئی ہے۔خوش قسمتی سے اس عظیم کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اس کتاب کا اردو ترجمے کی سعادت ڈاکٹر سید علی رضا نقوی کو حاصل ہوئی ہے ۔
تحقیق الہند
ترمیمہندوں پر عربی زبان میں پہلی شہرہ آفاق کتاب، جس کا پورا نام تحقیق ما للھند من مقولۃ مقبولۃ فی العقل او مرذولۃ ہے۔ یہ کتاب ہندوستان کی تاریخ، رسوم و رواج اور مذہبی روایات کے ذیل میں صدیوں سے مورخین کا ماخذ رہی ہے اور آج بھی اسے وہی اہمیت حاصل ہے۔ کتاب الہند کا مواد حاصل کرنے کے لیے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی، سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھ کر قدیم سنسکرت ادب کا براہ راست خود مطالعہ کیا۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو، جو اہل ہند کے بارے میں اسے حاصل ہوئيں اس کتاب میں قلم بند کر دیا۔ اس کتاب میں ہندو عقائد، رسم و رواج کا غیر جانبدرانہ اور تعصب سے پاک انداز میں انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس کے ذریعے عربی دان طبقہ تک ہندو مت کے عقائد و دیگر معلومات اپنے اصل مآخذ کے حوالے سے پہنچیں۔اس کتاب کا بھی اردو زبان میں ترجمہتاریخ ہندوستان:ہندودھرم کی مفصل تاریخ کے نام سے ہو چکا ہے جسے ارشد بک سیلرز،میرپور آزاد کشمیر نے شائع کیا ہے۔لیکن کتاب پر مترجم کا نام نہیں لکھا گیا ہے ۔[17]۔ [18]
- کتاب مقالید علم الہیئہ وما یحدث فی بسیط الکرہ۔
قانون مسعودی
ترمیمیہ البیرونی کی سب سے ضخیم تصنیف ہے جس کا نام اس نے سلطان محمود عزنوی کے بیٹے اور اس وقت کے حکمران مسعود کے نام پر رکھا ہے۔ یہ 1030ء میں شائع ہوئی اور ان تمام کتابوں پر سبقت لے گئی جو ریاضی، نجوم، فلکیات اور سائنسی علوم کے موضوعات پر اس وقت میں لکھی جا چکی تھیں۔ اس کتاب کا علمی مقام بطلیموس کی کتاب المجسطی سے کسی طرح کم نہیں۔
- کتاب استخراج الاوتار فی الدائرہ۔
- کتاب استیعاب الوجوہ الممکنہ فی صفہ الاسطرلاب۔
- کتاب العمل بالاسطرلاب۔
- کتاب التطبیق الی حرکہ الشمس۔
- کتاب کیفیہ رسوم الہند فی تعلم الحساب۔
- کتاب فی تحقیق منازل القمر۔
- کتاب جلاء الاذہان فی زیج البتانی۔
- کتاب الصیدلہ فی الطب۔
- کتاب رؤیہ الاہلہ۔
- کتاب جدول التقویم۔
- کتاب مفتاح علم الہیئہ۔
- کتاب تہذیف فصول الفرغانی۔
- کتاب ایضاح الادلہ علی کیفیہ سمت القبلہ۔
- کتاب تصور امر الفجر والشفق فی جہہ الشرق والغرب من الافق۔
- کتاب التفہیم لاوائل صناعہ التنجیم۔
- کتاب المسائل الہندسیہ۔
- مقالہ فی تصحیح الطول والعرض لمساکن المعمورہ من الارض۔
البیرونی کی دریافتیں
ترمیمان کی دریافتوں کی فہرست خاصی طویل ہے، انھوں نے نوعیتی وزن متعین کرنے کا طریقہ دریافت کیا، زاویہ کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا، نظری اور عملی طور پر مائع پر دباؤ اور ان کے توازن پر ریسرچ کی، انھوں نے بتایا کہ فواروں کا پانی نیچے سے اوپر کس طرح جاتا ہے، انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے سے متصل مختلف الاشکال برتنوں میں پانی اپنی سطح کیونکر برقرار رکھتا ہے، انھوں نے محیطِ ارض نکالنے کا نظریہ وضع کیا اور متنبہ کیا کہ زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمویکی ذخائر پر ابو ریحان بیرونی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
بیرونی روابط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ناشر: او سی ایل سی — ربط: وی آئی اے ایف آئی ڈی
- ↑ ناشر: جامعہ کولمبیا — Encyclopædia Iranica — اخذ شدہ بتاریخ: 26 جولائی 2022
- ↑ ناشر: جامعہ کولمبیا — Encyclopædia Iranica
- ^ ا ب ناشر: جامعہ کولمبیا — Encyclopædia Iranica
- ↑ https://web.archive.org/web/20200322120252/http://www.google.com/search?tbm=bks&tbo=1&q=he+was+Persian+by+origin,+and+spoke+the+Khwarizmian+dialect,+scholar
- ↑ https://annabaa.org/arabic/historic/4601
- ↑ مصنف: سید محسن الامین — عنوان : أعيان الشيعة — جلد: 2 — صفحہ: 232-233 — https://annabaa.org/arabic/historic/4601
- ↑ عنوان : Encyclopaedia of Islam — Encyclopaedia of Islam (second edition) ID: https://referenceworks.brill.com/display/entries/EIEO/SIM_3218.xml
- ↑ https://unesdoc.unesco.org/in/documentViewer.xhtml?v=2.1.196&id=p::usmarcdef_0000074875&file=/in/rest/annotationSVC/DownloadWatermarkedAttachment/attach_import_cccf600a-2c32-492f-8c42-4b1e52fd81d0%3F_%3D074875engo.pdf&updateUrl=updateUrl4740&ark=/ark:/48223/pf0000074875/PDF/074875engo.pdf.multi&fullScreen=true&locale=en#%5B%7B%22num%22%3A172%2C%22gen%22%3A0%7D%2C%7B%22name%22%3A%22XYZ%22%7D%2Cnull%2Cnull%2C0%5D
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb120695932 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/283508323
- ↑ The Exact Sciences، E.S.Kennedy، The Cambridge History of Iran: The period from the Arab invasion to the Saljuqs، Ed. Richard Nelson Frye، (Cambridge University Press، 1999)، 394.
- ↑ Kemal Ataman، Understanding other religions: al-Biruni's and Gadamer's "fusion of horizons"، (CRVP، 2008)، 58.
- ↑ Hunt Janin (2006)، The Pursuit of Learning in the Islamic World، 610-2003، McFarland، صفحہ: 229، ISBN 0-7864-2904-6، اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2011
- ↑ البیرونی، سلیمان فیاض، ہمدرد فاؤنڈیشن، پاکستان، ص 4-5
- ↑ البیرونی، سلیمان فیاض،ہمدرد فاؤنڈیشن، پاکستان، ص 6-8
- ↑ تاریخ ہندوتسان:ہندودھرم کی مفصل تاریخ،ابوریحان البیرونی،میرپورآزاد کشمیر،(ت۔ن)366ص
- ↑ سید قاسم محمود، انسائیکلوپیڈیا مسلم انڈیا، حصہ 3، صفحہ 155-56، 2006ء۔ شاہکار بک فاؤنڈیشن، لاہور