بریلوی مکتب فکر

برصغیر میں امام احمد رضا خاں بریلوی کی تحریک
(بریلوی مسلک سے رجوع مکرر)

جنوبی ایشیا خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں مسلک اہلسنت و جماعت یا اہلِ سُنت وجماعت کی ایک شاخ کو امام احمد رضا خان کی مناسبت سے سنی بریلوی مسلک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کوئی نیا عقیدہ نہیں بلکہ حقیقی اہل سنت ہیں۔ جن کے عقائد اسلاف کے عقائد کے مطابق ہیں۔ عالمی مذاہب کی اجمالی آکسفورڈ ڈکشنری (مطبوعہ سن 2000ء) کے مطابق اس مکتب فکر کے ماننے والے بھارتی اور پاکستانی مسلمانوں کی تعداد 200 ملین سے زیادہ ہے۔ دار العلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی قادری صوفی بزرگ، امام احمد رضا (متوفیٰ 1921ء) نے 1904ء میں قائم کیا۔[1] دی آکسفورڈ ڈکشنری آف اسلام (مطبوعہ2003ء) کے مطابق "اہل سنت والجماعت" پیغمبر اسلام کے طریق اور صحابہ کرام والی جماعت ہے، اس کے علاوہ ان کو بریلوی کہا جاتا ہے، جو شمالی بھارت میں 1880ء سے قائم اور امام مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تحریروں پر مبنی ہے۔ وہ خود کو جنوبی ایشیا کے قدیم ترین مسلمانوں کے وارث مانتے ہیں۔ انھوں نے (اہل سنت و جماعت نے) 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی، مغلیہ سلطنت کی مکمل تحلیل اور سلطنتِ برطانیہ کے ہندوستان میں نوآبادیاتی نظام کے رد عمل میں تحریک پکڑی۔ اور یہ موضوع اسلامی قانونی علما کرام (فقہا کرام) کے درمیان مذہبی بحث کا حصہ بن کر ابھرا کہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے کیا مسلم شناخت استعمال کی جائے؟ اور کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے؟۔ یہ مکتب فکر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ذاتی لگن، صوفی طریقوں کی وابستگی اور اسلامی قانون کی حاکمیت پر زور دیتا ہے۔ اس جماعت نے 1947ء سے، بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کے لیے سیاست میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جب یہ تحریک شروع ہوئی تو ایک دیہی مقبولیت کا تاثر تھا لیکن اس وقت بھارتی اور پاکستانی شہری تعلیم یافتہ طبقے میں مقبول ہے۔[2]

بریلویت
بریلوی مکتب فکر
بریلوی مکتب فکر

مذہب اسلام
بانی احمد رضا خان
مقام ابتدا بریلی
تاریخ ابتدا 1904ء
ابتدا اہل سنت سے
پیروکاروں کی تعداد 500 ملین سے زائد
دنیا میں  بھارت،  پاکستان

تاریخ

اہلسنت وجماعت کے اکابرین نے 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف بہت فعال کردار ادا کیا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی اور ان کے ساتھی مفتی صدر الدین خان آزردہ، سید کفایت علی کافی اور دیگر بہت سے مسلمان علما نے دہلی کی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑے۔[3][4][5][6][7][8][9][10] 17، 18 اور 19 مارچ 1925ءکو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔[11][12] 1945ء -1946ء میں اہل سنت کے علما و مشائخ نے تاریخی آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں منعقد کی اور تحریکِ پاکستان کی مکمل حمایت کرنے کے لیے سنی علما کرام نے شرکت کی۔ محدث کچھوچھوی صدر آل انڈیا بنارس کانفرنس شیخ الاسلام خواجہ محمد قمرالدین صاحب سیالوی ۔ پیر جماعت علی شاہ ۔ سید اشرفی جیلانی ۔ مولانا عبدالحامد بدایونی ۔ اہل سنت کے بہت بڑے رہبرورہنما تھے۔[13][14] کرسٹوف اپنی کتاب پاکستان اور اس کے ماخذ کی تاریخ میں لکھتا ہے کہ بریلوی سنی علما، تحریکِ پاکستان کے روحِ رواں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے 1948ء میں جمیعت علمائے پاکستان کی بنیاد رکھی۔[15]

اس مسلک کا اہم طرہ امتیاز درود و سلام اور عشق رسول ہے، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شدید تر محبت اور ادب و تعظیم کو ایمان کا جزو لازم قرار دیا جاتا ہے۔ مزید برآں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی ذاتِ مبارکہ کے ادب و تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعریف و توصیف کو باعثِ سعادت و برکت قرار دیا جاتا ہے، سنی, بریلوی مسلک کو مسلک اعلٰی حضرت بھی کہا جاتا ہے اور اسے اہل سنت کا تسلسل قرار دیا جاتا ہے۔

علمائے بریلی اور تحریک پاکستان

علمائے بریلی کا کردار روح رواں کی طرح تھا ۔ انہوں نے پاکستان کی خاطر ہر قربانی پیش کی ۔ سنی بنارس کانفرنس اس بات کی شاہد ہے ۔

دیگر عقائد و معمولات

عقیدہ نور و بشر

بریلوی مسلک کے حامل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو افضل البشر قرار دینے کے ساتھ ساتھ آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی نورانیت کے بھی قائل ہیں۔ حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے نور ہونے کے سلسلے میں بیشتر قرآنی آیات و احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمانا ( يَا جَابِرُ، اِنَّ اﷲَ تَعَالَي قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْاَشْيَاءِ نُوْرَ نَبِيِکَ مِنْ نُورِہِ۔ اے جابر اللہ تعالٰی نے ہر تخلیق سے پہلے میرے نور کو اپنے نور ( کے فیض) سے بنایا) [16]

عقیدہ حیاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

انبیا علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں اُسی طرح بحیاتِ حقیقی زندہ ہیں، جیسے دنیا میں تھے، کھاتے پیتے ہیں (إنّ اللہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء علیہم السلام فنبي اللہ حي یرزق۔ ابن ماجہ)، جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں، تصدیقِ وعدہ الٰہیہ کے لیے ایک آن کو اُن پر موت طاری ہوئی، پھر بدستور زندہ ہو گئے، اُن کی حیات، حیاتِ شہدا سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے۔[17] انبیا علیہم الصلوٰۃ و السلام کی موت محض ایک آن کو تصدیق وعدہ الہٰیہ کے لیے ہوتی ہے، پھر وہ ویسے ہی حیاتِ حقیقی دنیاوی و جسمانی سے زندہ ہوتے ہیں جیسے اس سے پہلے تھے، زندہ کا دوبارہ تشریف لانا کیا دشوار؟ رسول ﷲ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : اَلْاَ نْبِیاءُ اَحْیاء فِیْ قُبُوْرِھِمْ یصلُّوْنَ : انبیا زندہ ہیں اپنی قبروں میں، نماز پڑھتے ہیں [18]

عقیدہ شفاعت

روزِ قیامت تمام انبیا، اولیاء و علما علیہم الصلوٰۃ والثناء شفا عت فرمائیں گے، ان کی شفاعت حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں ہو گی۔ بارگاہِ عزت (عَزَّوَجَلَّ) میں شفاعت فرمانے والے صرف حضور ہیں۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم۔ ولہٰذا جامع ترمذی کی حدیث میں ارشاد ہوا (اَنَا صَاحِبُ شَفَاعَتِہِمْ وَلَا فَخْرَ) شفاعتِ انبیا کا صاحب میں ہوں اور یہ کچھ براہِ فخر نہیں فرماتا۔ (ملخصًا،مسند احمد، الحدیث21313، ج8، ص53)[19] عقیدہ (42): قیامت کے دن مرتبہ شفاعتِ کبریٰ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) کے خصائص سے ہے کہ جب تک حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) فتحِ بابِ شفاعت نہ فرمائیں گے کسی کو مجالِ شفاعت نہ ہو گی، بلکہ حقیقاً جتنے شفاعت کرنے والے ہیں حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) کے دربار میں شفاعت لائیں گے اور اﷲ عزوجل کے حضور مخلوقات میں صرف حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) شفیع ہیں اور یہ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر، مطیع، عاصی سب کے لیے ہے کہ وہ انتظارِ حساب جو سخت جانگزا ہوگا، جس کے لیے لوگ تمنّائیں کریں گے کہ کاش جہنم میں پھینک دیے جاتے اور اس انتظار سے نجات پاتے، اِس بلا سے چھٹکارا کفار کو بھی حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) کی بدولت ملے گا، جس پر اولین و آخرین، موافقین و مخالفین، مؤمنین و کافرین سب حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) کی حمد کریں گے، اِسی کا نام مقامِ محمود ہے اور شفاعت کے اور اقسام بھی ہیں، مثلاً بہتوں کو بلاحساب جنت میں داخل فرمائیں گے، جن میں چار ارب نوے کروڑ کی تعداد معلوم ہے، اِس سے بہت زائد اور ہیں، جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) کے علم میں ہیں، بہُتیرے وہ ہوں گے جن کا حساب ہو چکا ہے اور مستحقِ جہنم ہو چکے، اُن کو جہنم سے بچائیں گے اور بعضوں کی شفاعت فرما کر جہنم سے نکالیں گے اور بعضوں کے درجات بلند فرمائیں گے اور بعضوں سے تخفیفِ عذاب فرمائیں گے۔ عقیدہ (43): ہر قسم کی شفاعت حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) کے لیے ثابت ہے۔ شفاعت بالو جاہۃ، شفاعت بالمحبۃ، شفاعت بالاذن، اِن میں سے کسی کا انکار وہی کرے گا جو گمراہ ہے۔ عقیدہ (44): منصبِ شفاعت حضور کو دیا جا چکا، حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : أُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ اور ان کا رب فرماتا ہے وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِینَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ مغفرت چاہو اپنے خاصوں کے گناہوں اور عام مومنین و ممنات کے گناہوں کی۔ شفاعت اور کس کا نام ہے۔ ۔۔؟ 'اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا شَفَاعَۃَ حَبِیبِکَ الْکَرِیْمِ[20]

عقیدہ شاہد و ناظر

اسی طرح اہل سنت بریلوی مسلک کے حامل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمہ جہت شاہد و ناظر ہونے پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا میں عالم غیب کو دیکھ کر اطلاع دی اور اسی طرح بعد از وصال بھی آپ علیہ الصلوۃ و السلام تمام احوال سے باعلم ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف آیات قرآنی و احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے جیسا کہ ( يَا أَيُّھَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاھِدًا - اے نبی ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو شاہد بنا کر بھیجا) [21]
رسول اکرم کے حاضر و ناظر ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ اپنی قبر انور میں جسم کے ساتھ باحیات ہیں اور اللہ کی عطا کردہ قوت سے دور و نزدیک کی آوازوں کو سنتے ہیں اور اپنی امت کے اعمال واحوال کا مشاہدہ فرماتے ہیں یا یہ کہ روحانی طور پر یا جسم مثالی کے ساتھ آن واحد میں سینکڑوں کلومیٹر کی دوری سے مدد کے لیے پہنچنے پر قادر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرح حاضر و ناظر نہیں اللہ اپنے علم ازلی اور قدرت کے اعتبار سے ازل سے از خود حاضر ہے اور اللہ کے رسول اللہ کے عطا کردہ علم و مشاہدہ کے ساتھ حاضر و ناظر ہیں۔ رسول اکرم کی تمام صفات اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ یہ صفات محدود، عطائی اور حادث ہیں۔

[22]

عقیدہ توسل

بریلوی حضرات نہ کہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی قدر سے توسل کے قائل ہیں بلکہ آپ علیہ السلام سے منسلک اشیاء مثلاّ آپ کے موئے مبارک (بال مبارک) اور آپ کی نعلین شریفین سے بھی توسل کے قائل ہیں اور اسے عین شرعی قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر صحابہ کرام بشمول اہلبیت اطہار اور بزرگان دین سے توسل کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ آنحضرت کے وسیلہ سے بارگاہ الٰہی میں دعا کرنا مستحسن ہے اس کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جیسے توسل استغاثہ تشفع توجہ جب کبھی اس معنی میں دعا کی جائے کہ آپ تسبب پر قادر ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے سوال کریں یا شفاعت فرمائیں تو یہ بھی توسل بالنبی کہلاتا ہے۔ ایسا توسل و استغاثہ فعل انبیا و مرسلین اور عقیدہ سلف صالحیں ہے۔[23]

تصوف

بریلوی مسلک کے مطابق تصوف کا آغاز ابتدا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارکہ سے ظہور پزیر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بکثرت شہر مکہ سے باہر واقع غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں رب تعالٰی کی ذات کے بارے میں غور فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غار حرا میں کئی کئی روز قیام فرماتے اور اس دوران میں اپنی دنیاوی مشغولیات اور دیگر کاروبار حیات سے بالکل قطع تعلق رہا کرتے۔ غار حرا میں ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پہلی وحی بھی نازل ہوئی۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کی ذات مبارکہ میں بھی تصوف کا رنگ نمایاں طور پر ظاہر ہے۔ بے شمار صحابہ کرام مسجد نبوی سے منسلک صفہ نامی چبوترے پر ہمہ وقت پر قیام پزیر رہا کرتے۔ ایسے صحابہ کرام کی تعداد کم و بیش سات سو(700) کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ یہ اصحاب رسول رضوان اللہ تعالٰی اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفید ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دینی علم سیکھنے کی غرض سے اپنی دنیاوی مشغولیات و کام کاج کو ترک کیے رہتے، حتی کہ بعض تو عائلی و ازدواجی زندگی تک سے بھی دور رہتے۔ یہ اصحاب اس چبوترے " صفہ" کی وجہ سے " اصحاب صفہ" کہلاتے اور یہی لفظ " تصوف" کی وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین میں بھی تصوف کا عنصر نمایاں رہا۔ اس سلسلے میں حضرت اویس قرنی اور حضرت حسن بصری کا نام بہت نمایاں ہے جو مشہور تابعی بزرگ ہیں اور آپ حضرات نے بیشتر جید اصحاب رسول سے فیض صحبت حاصل کیا۔ بعد ازاں صوفیا کرام اور بزرگان دین کا ایک طویل سلسلہ ہے جو عرب و عجم اور ساری اسلامی دنیا کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ بریلوی حضرات صوفیا کرام سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔

زیارتِ مزارات

بزرگان دین کے مزارات پر انوارات تمام عالم اسلام میں بکثرت موجود ہیں۔ ان میں خود حضور خاتمی مرتبت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے مزار پرانوار مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے عین اندر واقع ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر بزرگان دین کے مزارات بکثرت شام، ترکی اور دیگر جملہ عرب ممالک سمیت پاک و ہند میں واقع ہیں۔ ان بزرگوں کے مزاروں پہ عروس کا اہتمام کیا جاتا ہے دور دور سے لوگ اکھٹے ہوتے ہیں۔ اور ان عظیم ہستیوں کے روحانی فیوض و برکات سے مستفید ہوتے ہیں۔ ان عظیم ہستیوں کی روحانیت، بزرگی اور ان کی خدماتِ جلیلہ کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے اللہ تعالٰیٰ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ توسل بھی کیا جاتا ہے۔

عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

ماہ ربیع الاول کو خاص اہمیت حاصل ہے مختلف جگہوں گھروں، عوامی مقامات اور مساجد میں محافل میلاد منعقد ہوتی ہیں۔ ان محافل میں علمائے کرام حضور علیہ صلوۃ و سلام کی ولادت با سعادت آپ کی حیات طیبہ اور سیرت مطھرہ کے مختلف گوشوں پر بیانات کرتے ہیں۔ ویسے تو یہ محافل سارا سال ہی جاری رہتی ہیں لیکن ربیع الاول کے ماہ میں ان محافل کا کثرت سے اہتمام ہوتا ہے۔ اسی طرح سے مختلف شعرا اور نعت خواں حضرات حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی بارگاہ اقدس میں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ماہ ربیع الاول کے آغاز سے ہی گھروں اور راستوں کو سجایا جاتا ہے۔ ترمذی شریف میں باب "باب ما جاء في ميلاد النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم:" امام ترمذی نے الجامع ترمذی شریف میں "باب ماجاء في ميلاد النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم" ایک باب باندھا ہے۔ تب تک میلاد النبی منانا بدعت نہیں سمجھا جاتا تھا بدعت کا بہتان بہت بعد کی ایجاد ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ 604 ہجری کے بعد میلادالنبی منانے کا رواج پڑا۔ جبکہ امام ترمذی 209 ہجری میں پیدا ہوئے اور 279 میں فوت ہوئے۔

محافلِ نعت و درود و سلام

محافل نعت و درود و سلام کو حضور علیہ السلام کی ذات مبارکہ سے محبت اور قربت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ محافل سارا سال ہی جاری رہتی ہیں لیکن ربیع الاول کے ماہ میں ان محافل کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ مختلف شعرا اور نعت خواں حضرات حضور علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح جمعہ کے دن درود و سلام کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔

گیارہویں شریف

گیارہویں کی اصل ایصال ثواب ہے جس کا ذکر صریح قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشادہے رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَء ُوفٌ رَحِیمٌ( الحشر:10 ) اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِہِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْء ٍ رَحْمَۃً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیمِ (المومن:7 ) وہ جو عرش اٹھاتے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بولتے اور اس پر ایمان لاتے اور مسلمانوں کی مغفرت مانگتے ہیں اے رب ہمارے تیرے رحمت و علم میں ہر چیز کی سمائی ہے تو انھیں بخش دے جنھوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے اور انھیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور انھوں نے بوقت انتقال کوئی وصیت نہیں فرمائی فَہَلْ لَہَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْہَا؟ قَالَ نَعَمْ پس اگر میں صدقہ اور خیرات کروں تو کیا ان کو ثواب پہنچے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (بخاری و مسلم و ابو داؤد ) اسی طرح انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے عرض کیا کہ ہم مردوں کے لیے دعا ئیں اور ان کی طرف سے صدقات و خیرات اور حج کرتے ہیں کیا یہ چیزیں ان کو پہنچتی ہیں؟ تو رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا إِنَّہ لیصل إِلَیْہِم ویفرحون بِہِ کَمَا یفرح أحدکُم بالہدیۃ بیشک یہ چیزیں ان کو پہنچتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں جیسے کہ تم ایک دوسرے کے ہدیہ سے خوش ہوتے ہو (عمدۃالقاری شرح بخاری )

دیوبند سے اصولی اختلاف

اہل سنت بریلوی علما کی دیوبند کے فرقے سے اصل اختلاف کی بنیاد علمائے دیوبند کی کتابوں میں لکھی کفریہ عبارات ہیں۔ جس کی تفصیل کثیر کتب میں موجود ہے۔ انٹرنیٹ پر تمام شواہد موجود ہیں۔ کتاب حسام الحرمین میں اس کی تفصیل لکھی ہے اور علمائے عرب کے فتاوی بھی ھیں۔ دیوبند کے علما نے کفریہ عبارات سے کبھی توبہ نہیں کی نہ ہی رجوع کیا۔ حوالے کیلئے کتب "زلزلہ" ، "حق پر کون" اور "حسام الحرمین"۔ سلفی عالم زبیر علی زئی کی ویب سائیٹ پر بہت عمدہ تحقیق موجود ہے۔

مسلکی نقطہ نظر

بریلوی مسلک اصل اہلسنت ھیں جن کے تمام عقائد قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، دنیا کے تمام ممالک میں ان کی اکثریت ہے، بریلوی نقطہ نظر کے مطابق اس مسلک کو حقیقی طور پر تمام اہل بیت، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ امت، اولیائے کرام صالحین اور علمائے امت کا پیش رو قرار دیتے ہیں۔ بریلوی مسلک کی تشریحات کے مطابق، میلاد و قیام، صلوٰۃ و سلام، ایصال ثواب، عرس یہ سب معمولات جو صدیوں سے اہلسنت و الجماعت میں رائج ہیں اور علمائے امت نے انھیں باعث ثواب قرار دیا ہے۔ لیکن نئے فرقوں نے ان رسومات کو بدعت قرار دیا اور بریلوی علما نے قلم و گفتار سے ان کا تحفظ کیا۔ ان علما میں نمایاں ترین نام امام احمد رضا خان کا ہے جنھوں نے مختلف رسومات اور عقائد کے دفاع میں کئی کتب تحریر کیں۔

توحید و شرک کے بارے میں نقطہ نظر

بریلوی نقطہ نظر کے مطابق حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی ذاتِ مبارکہ کے ادب و تعظیم اور آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی تعریف و توصیف کو باعثِ سعادت قرار دیا جاتا ہے۔ اور اسے شرک پر محمول نہیں کیا جاتا۔ اس مسلک کے مطابق قرآنِ مجید کی سورہ اخلاص[24] کی روشنی میں شرک کی تین صورتیں ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک بھی صادر ہو تو شرک ہوگا وگرنہ نہیں، وہ تین درج ذیل ہیں۔

  • کسی مخلوق کو رب قرار دینا یا اللہ تعالٰی پر حاکم قرار دینا
  • کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینا یا اسی طرح اللہ کو کسی کی اولاد قرار دینا
  • کسی میں کوئی صفت ازلی (ہمیشہ سے )، ذاتی (از خود بغیر اللہ کی عطا کے ) یا اللہ تعالٰی کی کسی صفت کے ہمسر قرار دینا (لہذا اگر حددرجہ مبالغہ آرائی اور غلو کے باوجود اللہ تعالٰی سے کمتر سمجھا تو شرک نہیں)

لہذا ان تین شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی نہایت ہی حد درجہ تعریف و توصیف اور ادب و تعظیم جو ذات باری تعالٰی کے ہمسر یا زیادہ نہیں وہ اس مسلک کے نزدیک شرک کے زمرہ میں نہیں۔

بدعت کے بارے میں نقطہ نظر

اس مسلک کے نقطہ نظر کے مطابق بدعت کی دو اقسام ہیں ایک بدعتِ حسنہ یعنی احسن بدعت اور دوسری بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت جیسا کہ ذیل کی حدیثِ نبوی میں منقول ہے۔

من سن في الإسلام سنة حسنة كان له أجرها وأجر من عمل بها من بعده لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا، ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده لا ينقص ذلك من أوزارهم شيئا خرجه مسلم في صححيه.[25]

ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس (جاری کرنے والے) کے لیے بھی لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس (جاری کرنے والے) کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔

اس صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اس مکتب فکر کے مطابق دین میں کوئی نیا اچھا عمل جاری کرنا جو شریعت کے بنیادی اصولوں کے مخالف نہ ہو نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رمضان المبارک میں باجماعت نمازِ تراویح شروع کرنے کے اپنے عمل کو ( نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھَذِہ۔ یہ اچھی بدعت ہے ، بخاری[26]) فرماکر نبیِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی حدیثِ مبارکہ کی عملی تشریح کی۔ اسی طرح بہت سے ایسے افعال جو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ طیبہ میں نہیں تھے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان یا اَن کے بعد امتِ مسلمہ میں رائج ہوئے جیسے قرآنِ مجید کو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں کتابی شکل میں جمع کرنا یا بعد ازاں حجاج بن یوسف کے دور میں قرآنِ پاک پر اعراب لگانا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نماز جمعہ کیلئے ایک اذان کا اضافہ کرنا۔ فقہ، نحو، عید میلاد النبی، درود و سلام، ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے، مساجد میں مینار گنبد و محراب، تصوف و طریقت و معرفت، سوم، چہلم، ختم، عرس اور گیارہویں شریف وغیرہ ایسے افعال ہیں جو امت میں بعد میں رائج ہوئے اور کسی شرعی حکم سے ٹکراؤ نہ رکھنے کے باعث، یہ افعال حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی روشنی میں بدعتِ حسنہ کے ضِمن میں آتے ہیں۔ بدعت حسنہ کی حدیٹ سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اسکی بدولت امور حسنہ وقوع پذیر ہوتے ہیں جو اسلام کی اشاعت اور تقویت کا باعٹ بنتے ہیں۔

سلفی و دیوبندی مسالک کا اختلافی نقطہ نظر

دیوبندی اور سلفی مکتب فکر کے مطابق، بریلوی مکتب فکر کے کئی عقائد اور معمولات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے مطابقت نہیں رکھتے اور وہ ان رسومات اور عقائد کو بدعت اور شرک قرار دیتے ہیں۔ خصوصاّ یہ مکاتب فکر عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تہوار کو منانے کے حق میں نہیں اور اسی طرح محافلِ درود و سلام اور گیارہویں شریف کے بارے میں بھی اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔ اسی طرح سے عقیدہِ توسل، زیاراتِ مزارات اور عقیدہِ شاہد و ناظر کو شرک گردانتے ہیں۔ [حوالہ درکار]

حوالہ جات

  1. Search Results - Oxford Reference
  2. Ahl al-Sunnah wa'l-Jamaah - Oxford Reference
  3. "مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی کون؟؟؟ | ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  4. Religion Articles : Hamariweb.com - علامہ فضل حق خیرآبادی اور ١٨٥٧ کا فتوی جہاد
  5. Religion Articles : Hamariweb.com - علامہ فضل حق خیرآبادی اور ١٨٥٧ کا فتوی جہاد
  6. "Lantrani.co.in"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  7. "Mujahid-e-Aazam Hazrat Allama Fazl-e-Haqq Kherabadi Alaihir raHma"۔ 11 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  8. "آرکائیو کاپی"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  9. "Book - quaid e jang e azadi allama fazl e haq khair abadi (alaih rahma) - Nafeislam.Com | Islam | Quran | Tafseer | Fatwa | Books | Audio | Video | Muslim | Sunni - Nafseislam..."۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  10. "ہمارے عقائد کی سرحدوں کا جانباز مجاہد Pioneers of Islamic Beliefs And Protection. Islamic Magazine Tahaffuz Karachi, Pakistan"۔ 10 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  11. "آرکائیو کاپی"۔ 15 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  12. پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری
  13. ePaper News 09 May 2014, لاہور، Page 13
  14. خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس،1925 تا 1947 : دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان میں علمائے اہل سنت کے اجتماعی کردار کی تاریخی دستاویز - Webcat Plus
  15. Christophe Jaffrelot، مدیر (2002)۔ "10. The Diversity of Islam"۔ A History of Pakistan and Its Origins۔ Anthem Press.۔ صفحہ: 225۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  16. مصنف عبد الرزاق از امام عبد الرزاق
  17. بہار شریعت حصہ اول صفحہ 58 امجد علی اعظمی مکتبہ المدینہ کراچی
  18. فتاویٰ رضویہ احمد رضا خان جلد 15 صفحہ 613 رضا فاؤنڈیشن لاہور
  19. ملفوظات اعلیٰ حضرت اھمد رضا خان صفحہ 251 مکتبہ المدینہ کراچی
  20. بہار شریعت حصہ اول صفحہ71،72 امجد علی اعظمی مکتبہ المدینہ کراچی
  21. سُورۃ الْاَحْزَاب۔ 45
  22. عقائد اہلسنت از رضا ء الحق اشرفی مصباحی صفحہ 317 پہلا ایڈیشن طبع 2011
  23. سیرت رسول عربی از نور بخش توکلی صفحہ 508 طابع ضیار القرآن پبلیکیشنز لاہور
  24. (قرآن مجید۔ سورہ اخلاص پارہ 30)
  25. (صحیح مسلم از امام مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ)
  26. (صحیح بخاری از امام بخاری۔ کتاب صلاۃ تراویح، بابُ فَضلِ مَن قامَ رَمَضَانَ)