دیوبندی مکتب فکر

(دیو بندی سے رجوع مکرر)

دیوبندی مکتب فکر سے مراد اہل سنت کا وہ گروہ ہے جو باقی اہل سنت کے گروہوں میں سے کچھ کے ساتھ عقائد اور کچھ کے ساتھ مسائل میں اختلاف رکھتا ہے۔ یہ نام دارالعلوم دیوبند کی وجہ اس فکر سے تعلق رکھنے والے علما کے لیے استعمال ہونے لگا۔ جہاں پر اسلامی عقائد میں ان کے عقائد ہیں جو باقیوں سے مختلف ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ تحریک ان برصغیر میں مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو محفوظ کرنے کے لیے شروع کی گئی جو اس وقت کے انگریز سامراج اور ہندوں ثقافتوں سے متاثر ہوکر مسلمانوں کے بدل رہے تھے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے دارالعلوم دیوبند مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس فکر کے ماننے والے علما اور اُن کے پیروکار حنفی دیوبندی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مقلد ہیں۔ علمائے دیوبند محمد قاسم نانوتوی کے شاگرد سمجھے جاتے ہیں۔ یہ فکر شاہ ولی اللہ دہلوی کی فکر سے نشو و نما پاتی ہےـ مگر علمائے دیوبند یہ مانتے ہیں کہ یہ کوئی نئی سوچ نہیں بلکہ اسی سوچ و عقائد کا نام ہے جو نبی ص کے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی تھی۔ یہ مکتب فکر راہ اعتدال کا قائل ہے۔ یہ مکتب فکر کے پیروکار خود کو ان عقائد کا متحمل قرار دیتے ہیں جو اصحابِ رسول ﷺ کے عقائد تھے اور بعد میں رائج ہونے والے رسومات و رواجوں کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس نام میں نے طول اس وقت پکڑی جب دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد یہ قرار دیا گیا کہ مسلمانوں میں انگریز حکومت اور اس کے علاوہ دیگر تہذیبوں کے اثرات کے باعث جنم لینے والے ان تمام رواجوں اور رسومات کی مخالفت کی جائے جو دین میں بدعت تصور ہوتے ہو۔ علمائے دیوبند اپنے فکر کے لحاظ سے مکمل طور پر خود کو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں پھر وہ خود کو خودرَو قسم کے اہل سنت نہیں تصور کرتے بلکہ اوپر سے ان کا سندی سلسلہ جڑا ہوا ہوتاہے۔ اس لیے مسلک کے اعتبار سے وہ خود کو نہ کوئی جدید فرقہ مانتے ہیں اور نہ بعد کی پیداوار ہیں بلکہ وہی قدیم اہل سنت والجماعت کا مسلسل سلسلہ ہے جو اوپر سے سند متصل اور استمرار کے ساتھ کابراً عن کابرٍ چلا آرہا ہوتاہے۔

دیوبندیت

مذہب اسلام
بانی محمد قاسم نانوتوی
رشید احمد گنگوہی
سید عابد حسین
مقام ابتدا دیوبند
تاریخ ابتدا 1866ء
ابتدا اہل سنت سے
دنیا میں  بھارت،  پاکستان،  افغانستان،  بنگلہ دیش،  مملکت متحدہ اور  جنوبی افریقا[1]

علمائے دار العلوم دیوبند کے مطابق، یہ فکر کا نام ہے جو جامع، افراط و تفریط سے پاک مسلک معتدل کو سمجھنے کے لیے خود لفظ اہل سنت والجماعت میں غور کرنا چاہیے جو دو اجزاء سے مرکب ہے: ایک السنة جس سے اصول، قانون اور طریق نمایاں ہیں اور دوسرا الجماعة جس سے شخصیات اور ساتھ ساتھ رفقائے طریق نمایاں ہیں۔ علما دیوبند افراط و تفریط کی بجائے اعتدال پر زور دیتے ہیں، یہ بعض عقائد کو درست نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ صرف قرآن و حدیث کے نصوص تک انسان کی دینی رہنمائی محدود ہے بلکہ اگر ایک مسئلہ قرآن و حدیث سے واضح نہ ہو تو اجماع اور پھر اجماع سے بھی ثابت نہ ہو تو قیاس اسلامی قانون کا ماخذ سمجھتے ہیں۔ علمائے دیوبند اعتدال پر اس حد تک زور دیتے ہیں کہ بعض مکاتب کی طرح جڑوں سے قبروں کو مسمار کرنے اور نیک اور صالحین کی بے حرمتی کو بھی پسندیدہ نہیں سمجھتے اور بعض مکاتب فکر کی طرح قبروں پر بلند و بالا تعمیرات کرکے وہاں جاجاکر مختلف رسومات اور منتوں کو بھی جائز نہیں قرار دیتے۔

علمائے دیوبند اس حدیث ” ما أنا علیہ و أصحابي “ میں بہتّر فرقوں والی بات کے بعد سے استدلال کرتے ہوئے یہ مانتے ہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معیار حق ان ہی دو چیزوں کو قرار دیا، یعنی اول 'ما انا' سے اشارہ سنت یعنی طریق نبوی یا قانون دین کی طرف ہے اور ” واصحابی“ سے اشارہ الجماعة یعنی برگزیدہ شخصیات کی طرف ہے بلکہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد دوںوں کتبِ حدیث میں اصحابی کی بجائے الجماعة کا صریح لفظ پایا جاتاہے۔اس لیے ان کے مطابق تمام صحابہ، تابعین، فقہاء و مجتہدین، ائمہ محدثین اور علمائے راسخین کی عظمت و محبت ادب و احترام اور اتباع و پیروی اس مسلک کا اعزاز سمجھتے ہیں۔

علمائے دیوبند کی کفری عبارات

حسام الحرمین میں علمائے دیوبند کی کفریہ عبارات اور اس پر علمائے حرمین کے فتاوی موجود ہیں۔ اس کے بعد یہ ہمیشہ کیلئے ایک الگ فرقہ بن گئے۔ اس کی تفصیل کٹیر کتب میں اور آنلائن موجود ہے۔ دیوبند نے آج تک کبھی رجوع نہیں کیا۔

عقائد

توحید

توحید اسلام کا بنیاد عقیدہ ہے اور علمائے دیوبند توحید پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں تاکہ اس کے ساتھ شرک یا موجبات شرک جمع نہ ہوں اور کسی بھی غیر اللہ کی اس میں شرکت نہ ہو۔ غیر اللہ سے بغیر اسباب کے امداد کو شرک تصور کرتے ہیں۔

خاتم الانبیاءﷺ

علمائے دیوبند کا یہ ایمان ہے کہ رسول ﷺ افضل البشر و افضل الانبیاء ہیں، مگر ساتھ ہی آپ کی بشریت کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ آپ کے علو درجات کو ثابت کرنے کے لیے حدود عبدیت(بندگی) کو توڑ کر حدود معبودیت میں پہنچا دینے والے طور طریقوں کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ وہ آپ کی اطاعت کو فرض عین سمجھتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت یا آپ کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے والے عقائد کو جائز نہیں سمجھتے۔

اس کے علاوہ علمائے دیوبند برزخ میں حضرت محمد ﷺ کی حیات جسمانی کے قائل ہیں مگر وہاں معاشرت دنیوی کو نہیں مانتے۔ وہ آپ کے علم عظیم کو ساری کائنات کے علم سے بدرجہ زیادہ ترین مانتے ہیں پھر بھی اس کے ذاتی و محیط ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے مطابق آپ کا علم عطائی، حادث اور جزوی مانتے ہیں کیونکہ ذاتی، دائمی اور کامل علمِ غیب صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات کا ہے۔

صحابہ کرام رض

ان کے مطابق انبیا کے بعد صحابہ بہترین اور برگزیدہ لوگ اور انسانوں کے لیے معیارِ حق ہیں۔ علمائے دیوبند سارے صحابہ کی عظمت کے قائل ہیں۔تاہم ان میں باہم فرق مراتب ہے تو عظمت مراتب میں بھی فرق ہے، یعنی ان کی درجات افضلیت کے حوالے سے مختلف ہو سکتی ہیں جیسے حضرت ابوبکر سب سے افضل، پھر حضرت عمر، پھر حضرت عثمان پھر حضرت علی وغیرہم۔ لیکن نفس صحابیت میں کوئی فرق نہیں اس لیے محبت و عقیدت میں بھی فرق نہیں پڑسکتا لہذا ”الصحابة کلہم عدول“ اس مسلک کا سنگ بنیاد مانا جاتا ہے۔ صحابہ بحیثیت قرن خیر من حیث الطبقة ہیں اور پوری امت کے لیے معیار حق اور مشعل راہ ہیں۔ جیسے کہ فرمانِ رسول ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاوگے۔ علمائے دیوبند انھیں غیر معصوم ماننے کے باوجود ان کی شان میں بدگمانی اور بدزبانی کو جائز نہیں سمجھتے اور صحابہ کے بارے میں اس قسم کا رویہ رکھنے والے کو حق سے منحرف سمجھتے ہیں۔ عظمتِ صحابہ مسلم کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔

امت کے صالحین

علمائے دیوبند تمام صلحائے امت و اولیاء اللہ کی محبت و عظمت کو ضروری سمجھتے ہیں تاہم اس محبت و تعظیم کا یہ معنی بالکل بھی نہیں لیتے کہ ان کو یا ان کی قبروں کو سجدہ و طواف اور نذر و قربانی کی جگہ بنالیا جائے۔ نہی۔ وہ اہل قبور کے احترام کے قائل ہیں مگر امداد مانگنے اور ان کے نیاز و نذر اور غیر شرعی رسومات کے نہیں۔ حاضری قبور کے قائل ہیں صرف عبرت لینے کے لیے مگر انھیں عیدگاہ بنانے کو روا نہیں سمجھتے۔ اس کے علاوہ وہ ایصال ثواب کو مستحسن اور اموات کا حق تصور کرتے ہیں مگر اس کی ظاہری نمائشی صورتیں بنانے کے قائل بالکل نہیں۔

علمائے دیوبند کی فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ تہذیب اخلاق، تزکیہٴ نفس یعنی نفس کی پاکی اور عبادات میں قوتِ احسان پیدا کرنے کے لیے اللہ والے لوگوں کی بیعت و صحبت کو حق اور طریق احسانی کے اصول و ہدایات کو تجربتہً مفید اور عوام کے حق میں ایک حد تک ضروری سمجھتے ہیں اور اسے شریعت سے الگ کوئی مستقل راہ نہیں سمجھتے بلکہ شریعت ہی کا باطنی و اخلاقی حصہ مانتے ہیں۔ تاہم پھر بھی بعض لوگوں کی طرح نا تو بالکل صالحین کے حیثیت کو مسترد کرنے کے قائل ہیں اور نا ہی بعض لوگوں کی طرح ان کی حیثیت کو اس حد تک بڑھانے کے قائل ہیں کہ وہ حد سے بڑھ جائے اور انسان حد سے تجاوز کا مرتکب ہوکر ایسے چیزوں میں مبتلا ہو جو شرک کی طرف لے جاتی ہو۔

فقہ اور فقہا کرام

علمائے دیوبند احکام شرعیہ فروعیہ اجتہادیہ میں فقہ حنفی کے مطابق عمل کرتے ہیں بلکہ برصغیر میں آباد مسلمانوں میں کم وبیش 90 فیصد سے زائد اہل سنت کا یہی فقہ ہے۔لیکن اپنے اس مذہب و مسلک کو آڑ بناکر دوسرے فقہی مذاہب کو باطل ٹھہرانے یا ائمہ مذاہب پر زبانِ طعن دراز کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ دیوبند فکر سے تعلق رکھنے والے خود کو نبی ﷺ اور ابتدائی تین بہترین ادوار یعنی خیرالقرون(صحابہ، تابعین، تبع تابعین) کا اصل وارث اور امین مانتے ہیں۔ علمائے دیوبند فقہ حنفی سے استفادہ کرتے ہیں مگر چاروں فقہ اور ائمہ اربعہ کو برحق سمجھتے ہیں۔ اور یہ مانتے ہیں کہ مسلمان ان چاروں فقہوں میں سے کسی کی بھی پیروی کرسکتا ہے مگر پیروی چاروں میں سے کسی بھی ایک فقہ کی کریں تاکہ خواہش نفسانی حاوی نہ ہو کیونکہ بعض مسائل ایسے ہیں جو ایک فقہ میں تو جائز ہوتے ہیں مگر وہی مسئلہ دوسرے میں ناجائز ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے اگر بہ یک وقت تمام فقہوں کی پیروی کی اجازت دی جائے تو انسان اپنے خواہش کے مطابق اپنے آسانی والے فقہ سے استفادہ کرے گا اور کوئی بھی مسئلہ پھر شرعی مسئلہ برقرار نہیں رہے گا۔

فکری اعتدال

علمائے دیوبند فکری طور پر اعتدال کے قائل ہیں۔ نا ان لوگوں کی طرح سوچ کو جائز سمجھتے ہیں جو صحابہ یا صالحین کی عظمت میں کمی کرتے ہیں اور نا ہی ان کو جائز سمجھتے ہیں جو ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ہیں ان کے ان کے درجات سے تجاوز کرکے غلوف کا شکار ہوتے ہیں۔ علمائے دیوبند دین کے سمجھنے سمجھانے میں نہ تو اس طریق کے قائل ہیں جو ماضی سے یکسر کٹا ہوا ہو کیوں کہ وہ مسلسل رشتہ نہیں ایک نئی راہ ہی ہوتیجو ماضی سے نہیں جڑی ہوتی ہے۔ اور نہ وہ اس افراط کے قائل ہیں کہ رسم و رواج اور تقلیدِ آباء کے تحت ہربدعت، اسلام میں داخل کردی جائے۔ جن اعمال میں تسلسل نہ ہو اور وہ تسلسل خیر القرون سے مسلسل نہ ہو وہ اعمال اسلام نہیں ہو سکتے، بلکہ بعد کے اختراعات تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ حضرات اس تقلید کے پوری طرح قائل ہیں جو قرآن وحدیث کے سرچشمہ سے فقہ اسلام کے نام سے چلتی آئی ہے۔

مختلف دینی شعبوں میں تحاریک و تنظیمیں

علمائے دیوبند کا ماننا ہے کہ دعوت و تبلیغ، سیاست، علوم دینی اور جہاد یہ سب دین کی مختلف شعبے ہیں۔ دعوت و تبلیغ اور اصلاح بین المسلمین یعنی مسلمانوں کی اصلاح کرنے کے لیے تبلیغی جماعت جیسے پرامن اور داعی جماعت وجود رکھتی ہے جس کا کام غیر مسلموں کو اسلام کی طرف بلانا اور مسلمانوں کی آپس میں اصلاح کرنا ہے۔ سیاست کی میدان میں مسلمانوں کی دینی تشخص اور مفادات کے تحفظ کے لیے جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی گئی جو بعد میں جمعیت علمائے ہند اور جمعیت علمائے پاکستان کی شکل اختیار کرگئی۔ اس کے مزید ذیلی جماعتیں بنی۔ علومِ دینیہ کے سیکھنے اور سکھانے کے سلسلے میں مدارس قائم کیے گئے۔ آج بھی ہند و پاک میں سب سے زیادہ مدارس علمائے دیوبند چلاتے ہیں۔ پاکستان میں تقریبا 70 فیصد مدارس دیوبندی، 25 فیصد بریلوی اور 5 فیصد اہل حدیث چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب افغانستان پر بیرونی حملہ روس کی طرف سے کیا گیا تو جہاد کے لیے مجاہدین کھڑے ہوئے وہ تنظیمیں بھی تقریبا علمائے دیوبند کی فکر سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے نہ روس بلکہ بعد ازاں تمام مغربی قوتوں کو اپنی سرزمین سے اکھاڑ پھینکا۔

مشہور کتب

علمائے دیوبند کے عقائد کی متفقہ کتاب المہند علی المفند ہے جسے مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے رقم کیا ہےـ[2]

دیگر مکاتبِ فکر سے اختلافات

علمائے دیوبند کا بریلوی مکتبہ فکر سے اختلاف عقائد میں ہے جبکہ اہل حدیث سے اختلاف مسائل میں ہے۔ اصل اختلاف کی بنیاد علمائے دیوبند کی کفریہ عبارت ہیں جس کی تفصیل " حسام الحرمین " میں موجود ہے۔

بریلوی مکتب فکر سے اختلاف

اکابرینِ دیوبند اور بریلوی دونوں اگرچہ مقلدین ہیں اور فقہ حنفی کی دونوں تقلید کرتے ہیں مگر ان کے مابین درج ذیل اختلافات ہیں:

متنازع عبارات

بریلوی مکتب فکر کے ان سے اختلاف کی ایک بڑی وجہ بعض علمائے دیوبند کی کتابوں میں درج ایسی عبارات ہیں۔ جس کو احمد رضا خان اور ان کے ہم خیال علما نے کفر قرار دیا اور اس پر علمائے عرب سے بھی تصدیق کرائی۔ اس کی تفصیل حسام الحرمین نامی کتاب کی صورت شائع کی گئی تھی۔

علم غیب

بریلویوں کا ماننا ہے کہ رسول اللہﷺ کو مکمل علم غیب عطا کیا گیا، ما کان و ما یکون یعنی جو پہلے کچھ تھا اور جو بعد میں کچھ ہوگا ان سب کا علم حضورﷺ کو دیا گیا ہے۔ جبکہ دیوبندی علما کا ماننا ہے کہ حضور ﷺ کو صرف وہ غیب کا علم حاصل ہے جو اللہ نے وقت کے ساتھ ساتھ دیا یا جتنا اللہ نے دینا چاہا مگر اس علم کی حد ہے، جبکہ صرف رب تعالی کا علم لامحدود ہے۔ دیوبند علما کے مطابق حضورﷺ کے غیبی علم کے یہ شرائط ہیں:

  1. آپ علم عطائی تھا، ذاتی نہیں تھا۔ عطائی یعنی اللہ تعالی کا عطا کردہ۔
  2. آپ کا علم حادث ہے، یعنی وقت کے ساتھ ساتھ اور بہ وقت ضرورت دیا گیا۔ مگر ہمیشہ سے نہیں تھا۔
  3. آپ کا علم جزوی تھا۔ اگرچہ مخلوقات میں حضورﷺ کا علم سب سے زیادہ تھا۔ نبی کا علم تمام انسان کے علم مقابلے میں ایسا ہی ہوتا ہے جیسے پانی کے ایک قطرے کے مقابلے میں سمندر کا پانی۔ یعنی نبی ﷺ کا علم سمندر کے مانند ہے اور تمام مخلوقات کا علم پانی کا ایک چھوٹا قطرہ مگر حضور کو کُل کا کُل علم نہیں عطا کیا گیا بلکہ آپ ص کے علم کا ایک حد ہے جبکہ کل عم صرف رب ذوالجلال کا ہے، یعنی آپ کو دیا ہوا غیبی علم بس وہی غیبی علم تھا جو اللہ تعالی نے چاہا اور عطا فرمایا۔ اگر تمام کا تمام غیبی چیزوں کا علم ہوتا تو بعض امور واقع نہ ہوتے، مثال کے طور پر حضورﷺ نے ایک صحابی کو کفار کی جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا۔ اس کا مطلب اس لشکر کی پوری معلومات نہ تھی اور نہ ہی وحی آئی تھی اس بارے میں، اس لیے حضورﷺ کو صحابی بھیجنا پڑا۔ اسی طرح حضرت عائشہؓ پر جب تہمت لگی تو حضور ﷺ کو معلومات نہ تھی بلکہ وحی کا انتظار فرمایا کچھ دنوں اور جب وحی آئی تو اللہ تعالی نے عائشہؓ کی پاکدامنی کی گواہی دی۔ اس سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہے اول یہ کہ اس وقت حضور ﷺ کو تہمت کی سچائی اور جھوٹ ہونے کا علم نہ تھا اور جب وحی آئی تو آپ کو علم ہو گیا اور بات واضح ہو گئی یعنی یہ علم حادث بھی ہے کیونکہ یہ ایک وقت میں دیا گیا۔ حضور ﷺ کو غیب کا علم اتنا ہی اور اس حد تک ہی تھا جتنا اللہ نے دینا چاہا۔ جیسے جنت و دوزح کے حالات کا علم وغیرہ مگر ہر شے کا علم ہونا اور کامل علم ہونا صرف اللہ تعالی کی صفت ہے۔

اہل حدیث سے اختلافات

اہل حدیث چونکہ غیر مقلدین ہیں لہذا وہ آئمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید یا پیروی کو جائز نہیں مانتے جبکہ دیوبند سوچ سے تعلق رکھنے والے مسائل میں فقہ حنفی کی تقلید کرتے ہیں اور باقی اماموں یعنی امام احمد، امام شافعی اور امام مالک کو برحق سمجھتے ہیں۔ شریعت دو اجزاء سے بنا ہوتا ہے، ایک عقائد اور دوسرا مسائل۔ عقائد تو سارے کے سارے قرآن و حدیث سے واضح ہیں، اس میں کسی مجتہد یا امام کی تقلید نہیں کی جا سکتی۔ باقی رہی بات مسائل کی تو مسائل دو گروہ میں تقسیم ہیں، ایک وہ مسائل ہیں جو قرآن و حدیث سے واضح ہیں جن میں کسی اور مجتہد کی رائے نہیں دیکھی جا سکتی ہے اور ان کو منصوص مسائل کہا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ ان مسائل کا ہے جو قرآن و حدیث میں یا تو بالکل واضح طور پر موجود نہیں اور یا مبہم ہے یعنی دو دو مطلب نکل رہے ہیں، ان کو غیر منصوص مسائل کہا جاتا ہے اور صرف ان غیر منصوص مسائل میں ہی تقلید کی جاتی ہے چار اماموں کی۔ اہل حدیث کے مطابق ہر مسئلہ صرف قرآن و حدیث سے حل ہوگا جبکہ دیوبندی مانتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن سے حل ہوگا، اگر قرآن میں نہ ہو تو سنت نبوی سے حل کیا جائے گا، اگر سنت میں نہ ملے صحابہ کرام کی اجماع سے حل تلاش کیا جائے گا اگر وہاں بھی نہ ملے تو قیاس کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر چرس ہے، اب چرس کا حکم کیا ہوگا حلال یا حرام؟ کیونکہ چرس کا ذکر قرآن میں نہیں، حدیث نبوی میں بھی نہیں، صحابہ کی اجماع میں بھی اس کا ذکر نہیں ہوگا۔ مجتہد نے کیا کیا کہ قرآن نے خمر یعنی شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ جب مجتہد نے غور کیا تو اس کے خیال میں اسے حرام قرار دینے کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ شراب کی وجہ سے انسان اپنا ہوش کھو دیتا ہے جبکہ دوسرا یہ کہ یہ صحت کو نقصان پہنچاتا ہے، ان وجوہات کو علت کہا جاتا ہے فقہ کی زبان میں۔ اور یہی دونوں علت چرس میں بھی پائے جاتے ہیں لہذا مجتہد نے قیاس کرکے چرس کو بھی حرام قرار دیا۔ ایسے مسائل غیر مقلدین فقہ کی مدد کے بغیر حل نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے دو اصول ہیں یعنی قرآن و حدیث۔ جبکہ مقلدین کے یہاں چار اصول ہے استدلال کے یعنی قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس۔

حوالہ جات

  1. Muslim Schools and Education in Europe and South Africa۔ Waxmann۔ 2011۔ صفحہ: 85ff۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2013 
  2. مولانا خلیل احمد سہارنپوری۔ المہند علی المفند (PDF)۔ Archive.org۔ ترجمہ بقلم مولانا عبد الشکور ترمذی۔ ادارہ اسلامیات، انار کلی، لاہور۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2019