بھارت کی سرحدیں
بھارت کی زمینی اور بحری سرحدیں کئی ممالک سے جڑتی۔ زمینی سرحدوں میں پاکستان، چین، نیپال، بھوٹان، میانمار اور بنگلہ دیش مال ہیں۔ جھیلوں اور دریاؤں کی حدود کو اندرونی پانیوں کی زمینی سرحدیں مانا جاتا ہے، نہ کہ بحری سرحدیں۔
بھارت کی زمینی سرحدیں
ترمیمملکی زمینی سرحد | لمبائی (کلومیٹر) اور (میل) [1] | فورس | کیفیت |
---|---|---|---|
بھوٹان | 699 کلومیٹر (434 میل)[2] | ساشاسترا سیما بل | |
میانمار | 1,643 کلومیٹر (1,021 میل) | آسا مرائفل اور بھارتی فوج | |
نیپال | 1,758 کلومیٹر (1,092 میل)[2] | ساشاسترا سیما بل | |
پاک بھارت سرحد | 3,323 کلومیٹر (2,065 میل) | بارڈر سیکورٹی فورسز | |
میکموہن لائن | 3,380 کلومیٹر (2,100 میل) | انڈو تبتی بارڈر فورس اور اسپیشل فرنٹیئر فورس | |
بنگلہ دیش بھارت سرحد | 4,097 کلومیٹر (2,546 میل) | بارڈر سیکورٹی فورسز | بھارت اور بنگلہ دیش کے محصور علاقے کا تبادلہ |
سری لنکا | 30 کلومیٹر (19 میل) | انڈین کوسٹ گارڈ | پل آدم ریت کا ٹیلہ پر۔ |
بنگلہ دیش بھارت سرحد
ترمیمبنگلہ دیش بھارت سرحد، مقامی طور پر اسے انٹرنیشنل بارڈر (IB) کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیاں میں 4,156 کلومیٹر (13,635,000 فٹ) بین الاقوامی سرحد ہے، یہ دنیا کی پانچویں طویل ترین زمینی سرحد ہے، بشمول 262 کلومیٹر (860,000 فٹ) آسام میں، 856 کلومیٹر (2,808,000 فٹ) تریپورہ میں، 180 کلومیٹر (590,000 فٹ) میزورم میں، 443 کلومیٹر (1,453,000 فٹ) میگھالیہ میں اور 2,217 کلومیٹر (7,274,000 فٹ) بنگال میں۔[3] بنگلہ دیشی ڈویژن میمن سنگھ ڈویژن، کھلنا ڈویژن، راجشاہی ڈویژن، رنگپور ڈویژن، سلہٹ ڈویژن اور چٹاگانگ ڈویژن سرحد کے ساتھ واقع ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیاں میں سرحد پر ستونوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ دونوں طرف کچھ حصے کو باز لگا کر حد بندی کی گئی ہے۔ زمینی سرحد کا معاہدہ 7 مئی 2015ء کو بھارت اور بنگلہ دیش کی جانب سے منظور کیا گیا تھا، جس سے سرحدی معاملات کو سہل کیا گیا۔[4]
بھارت بھوٹان سرحد
ترمیمبھارت بھوٹان سرحد بھوٹان اور بھارت کے درمیان میں سرحد 699 کلومیٹر طویل ہے اور بھارتی ریاستوں آسام (267 کلومیٹر)، اروناچل پردیش (217 کلومیٹر)، مغربی بنگال (183 کلومیٹر) اور سکم (32 کلومیٹر) پر واقع ہے۔[5] بھارت بھوٹان سرحد کے قریب بھوٹان کے ڈوکلام خطے پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ بھوٹان کا یہ علاقہ فوجی اعتبار سے بھارت کے لیے بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2017ء میں یہاں چین کے سڑک تعمیر کرنے پر بھارت نے شدید احتجاج کیا اور بھوٹان نے بھی، چین کو معائدے کی خلاف ورزی سے اجتناب کا کہا۔[6]
بھارت میانمار باڑ
ترمیم'بھارت میانمار باڑ بھارت اور میانمار کے مابین 1,624-کلومیٹر (1,009 میل) طویل سرحدی باڑ ہے، جو بھارت تعمیر کر رہا ہے۔ بھارت اس سرحدی پاڑ سے جرائم، بشمول سامان، ہتھیار اور جعلی بھارتی کرنسی کی اسمگلنگ، منشیات کی اسمگلنگ اور شورش روکنے کی امید رکھتا ہے۔ دفتر اقوام متحدہ برائے منشیات و جرائم اور انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ نے کمزور ریاستی سرحدی سلامتی کی سہولیات کی ناقص حالت کے بارے میں خبردار کیا ہے کہ یہ خطے کو غیر قانونی منشیات کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ بن سکتا ہے۔[7] سال 2001–2003 کے دوران میں، غیر محفوظ سرحد کی وجہ سے بھارتی سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں عسکریت پسندی سے متعلق تشدد میں 200 سیکورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی ہلاکتوں کا غیر لگایا۔[8] چار شمال مشرقی بھارتی ریاستیں میانمار سے سرحد کا اشتراک کرتی ہیں: اروناچل پردیش، ناگالینڈ، میوورم اور منی پور۔ دونوں حکومتوں نے باڑ کھڑی کرنے سے پہلے ایک مشترکہ سروے کرنے پر اتفاق کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ اور اس کے برمی ہم منصب نے چھ ماہ کے اندر سروے مکمل کیا اور مارچ 2003ء میں سرحد کے ساتھ باڑ کھڑی کرنی شروع کر دی۔[9]
بھارت نیپال سرحد
ترمیم- جوگبانی، بہار[10]
- راکسال، بہار[10]
- سونولی، اترپردیش [حوالہ درکار]
- روپایدھیا، اترپردیش[10]
- پانی ٹینکی، دارجلنگ ضلع مغربی بنگال۔[10]
پاک بھارت سرحد
ترمیمپاکستان و بھارت کے درمیان میں کل 2200 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔
- گذر گائیں
- اٹاری واہگہ پنجاب میں، باقاعدہ فعال (2017ء) (دیکھیے سمجھوتہ ایکسپریس)۔
- مونا باؤ، ضلع بارمیر راجستھان میں (دیکھیے تھر ایکسپریس)
بھارت چین سرحد
ترمیمبھارت چین سرحد جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول بھی کہا جاتا ہے، بھارت اور چین کے درمیان میں سرحدی حد بندی ہے۔ یہ بھارت کے زیر انتظام سابقہ نوابی ریاست جموں و کشمیر اور چین کے زیر انتظام علاقوں کے درمیان میں حد فاصل ہے۔[11]
اسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہنے کی دو عمومی وجوہات ہیں۔ تنگ نظری میں، یہ دونوں ممالک کے درمیان میں سرحد کے مغربی حصے میں لائن آف کنٹرول کی طرف اشارہ کرتی ہے اشارہ کرتی ہے۔ اس تناظر میں، چھوٹے سے غیر متنازع علاقے کے درمیاں میں ایل اے سی دونوں ممالک کے درمیان مؤثر سرحد بناتا ہے، ساتھ ساتھ مشرق میں (متنازع) میکموہن لائن بھی ہے۔ وسیع معنی میں، یہ اصطلاح مغربی کنٹرول لائن اور میکموہن لائن دونوں کا حوالہ دینے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ ج وبھارت اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان میں موثر سرحد ہے۔
بھارتی کی بحری حدود
ترمیمبھارت کی بحری حدود سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق ہیں۔7 nationsآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ qph.ec.quoracdn.net (Error: unknown archive URL)۔
ملکی بحری سرحدیں | طویل (کلومیٹر) اور (میل) [1] | فورس | کیفیت |
---|---|---|---|
بنگلہ دیش بھارت سرحد | بھارتی بحریہ | ||
انڈونیشیا | بھارتی بحریہ | اندرہ پوائنٹ | |
میانمار | بھارتی بحریہ | کوکو جزائر | |
پاکستان | بھارتی بحریہ | سر کریک | |
تھائی لینڈ | بھارتی بحریہ | ||
سری لنکا | >400 کلومیٹر (250 میل)[12] | بھارتی بحریہ | |
مالدیپ | بھارتی بحریہ |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب eJyoti Discovering facts, Information website
- ^ ا ب SSB to strengthen presence on India-Bhutan border، Times of India, 20 دسمبر 2017.
- ↑ "Border Management: Dilemma of Guarding the India–Bangladesh Border"۔ آئی ڈی ایس اے۔ جنوری 2004۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2018
- ↑ "Parliament passes historic land accord bill to redraw border with Bangladesh – Times of India"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 نومبر 2016
- ↑ "Management of Indo-Bhutan border" (PDF)۔ Ministry of Home Affairs, Government of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2018
- ↑ انڈیا اور چین ٹکراؤ کے راستے پر - BBC News اردو
- ↑ Col. Rahul K. Bhonsle (جولائی 28, 2007)۔ "India's 'Look Myanmar' Policy"۔ Boloji.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2007
- ↑ "India, Burma to fence the border"۔ Mizzima News۔ مئی 17, 2003۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2007
- ↑ Surajit Khaund (15 اکتوبر 2004)۔ "India-Burma border fencing delays due to protest by local communities"۔ Burma News International۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2007
- ^ ا ب پ ت Indo-Nepal and Indo-Bhutan border to have more ICP، Oct 2016.
- ↑ Line of Actual Control
- ↑ "India-Sri Lanka fishing rights dispute"۔ 22 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2018