لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر اور انتظامی لحاظ سے صوبہ پنجاب کا صوبائی دار الحکومت ہے۔ پاکستان میں لاہور شہر ایک تاریخی،تجارتی اور ثقافتی مقام رکھتا ہے ۔

لاہور بادشاہی مسجد،سکھ دور میں

ابتدائی

ترمیم
 
1980ء میں لی گئی لاہور شہر کی ایک تصویر

لاہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس شہر کو پرانے زمانے میں لوپور (Lavapur) کہا جاتا تھا کیونکہ اسے لو نے آباد کیا تھا اور اس کے جڑوا بھائی کُش نے قصور کو آباد کیا تھا، لو اور کُش دونوں ہندو دیوتا رام کے دو بیٹے تھے جن کا ذکر ہندو مذہبی کتاب راماین میں تفصیل سے ہوا ہے۔ اس شہر کا پرانا نام لوپور (معنی:لو کا علاقہ/شہر) ہوا کرتا تھا بعد میں اسے لاہور کہا جانے لگا، لاہور دو الفاظوں کا مرکب ہے لوہ یا لاہ جس کا مطلب لَو اور آور جس کا مطلب قلعہ ہے، یعنی لاہور کا مطلب لو کا قلعہ ہے۔[1]

اس کے علاوہ لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا جو ہندوستان جاتے ہوئے لاہور سے 630 عیسوی میں گذر رہے تھے۔ اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے "لوہو" یا لَو نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح "الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوائل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی راہ گذر رہا ہے، واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتح البلادن" میں درج سنہ 664 عیسوی کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔

7ویں صدی سے مغل دور تک

ترمیم

تقریبا ساتویں صدی عیسوی کی آخری دہائیوں میں لاہور ایک گجر چوہان بادشاہ کا پایہٗ تخت تھا۔ تاریخ کے مطابق سنہ 682 عیسوی میں کرمان اور پشاور کے مسلم پٹھان قبائل راجا پر حملہ آور ہوئے۔ پانچ ماہ تک لڑائی جاری رہی اور بالآخر سالٹ رینج کے گکھڑ راجپوتوں کے تعاون سے وہ راجا سے اس کے کچھ علاقے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔ نویں صدی عیسوی میں لاہور کے ہندو راجپوت چتوڑ کے دفاع کے لیے مقامی فوجوں کی مدد کو پہنچے۔ دسویں صدی عیسوی میں خراسان کا صوبیدار سبکتگین اس پر حملہ آور ہوا۔ لاہور کا راجا جے پال جس کی سلطنت سرہند سے لمگھان تک اور کشمیر سے ملتان تک وسیع تھی مقابلے کے لیے آیا۔ ایک بھٹی راجا کے مشورے پر راجا جے پال نے پٹھانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس طرح وہ حملہ آور فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ غزنی کے تخت پر قابض ہونے کے بعد سبکتگین ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوا۔ لمگھان کے قریب گھمسان کا رن پڑا اور راجا جے پال ملغوب ہو کر امن کا طالب ہوا۔ طے یہ پایا کہ راجا جے پال تاوان جنگ کی ادائیگی کرے گا اور سلطان نے اس مقصد کے لیے ہرکارے راجا کے ہمرکاب کیے۔ لاہور پہنچ کر راجا نے معاہدے سے انحراف کیا اور سبکتگین کے ہرکاروں کو قید کر دیا۔ اس اطلاع پر سلطان غیظ و غضب میں دوبارہ لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ پھر میدانِ کارزار گرم ہوا اور ایک دفعہ پھر جے پال کو شکست ہوئی اور دریائے سندھ سے پرے کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری دفعہ مسلسل شکست پر دل برداشتہ ہو کر راجا جے پال نے لاہور کے باہر خود سوزی کر لی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کا مقصد صرف راجا کو سبق سکھانا تھا کیونکہ اس نے مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا ۔

غزنوی سلطنت

ترمیم

1008عیسوی میں جب سبکتگین کا بیٹا محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو جے پال کا بیٹا آنند پال ایک لشکر جرار لے کر پشاور کے قریب مقابلہ کے لیے آیا۔ محمود کی فوج نے آتش گیر مادے کی گولہ باری کی جس سے آنند پال کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ نتیجتاً کچھ فوج بھاگ نکلی اور باقی کام آئی۔ اس شکست کے باوجود لاہور بدستور محفوظ رہا۔ آنند پال کے بعد اس کا بیٹا جے پال تخت نشین ہوا اور لاہور پر اس خاندان کی عملداری 1022ء تک برقرار رہی حتٖی کہ محمود غزنوی اچانک کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور پر حملہ آور ہوا۔ جے پال اور اس کا خاندان اجمیر میں پناہ گزین ہوا۔ اس شکست کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور پھر کبھی کسی ہندو سلطنت کا حصہ نہیں رہا۔ محمود غزنوی کے پوتے مودود کے عہدِ حکومت میں راجپوتوں نے شہر کو واپس لینے کے لیے چڑھائی کی مگر چھ ماہ کے محاصرے کے بعد ناکام واپس لوٹے۔ لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنے پسندیدہ غلام ملک احمد ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جس نے شہر کے گرد دیوار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ لاہور کی بھی بنیاد رکھی۔ ملک ایاز کا مزار آج بھی اندرون لاہور میں رنگ محل کے مقام پر لاہور کے پہلے مسلمان حکمران کے مزار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ غزنوی حکمرانوں کے ابتدئی آٹھ حکمرانوں کے دور میں لاہور کا انتظام صوبہ داروں کے ذریعہ چلایا جاتا تھا، تاہم مسعود ثانی کے دور میں(1114ء تا 1098ء) دار الحکومت عارضی طور پر لاہور منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد غزنوی خاندان کے سترہویں تاجدار خسرو شاہ غزنوی کے دور میں لاہور ایک دفعہ پھر پایہِ تخت بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1186ء میں غزنوی خاندان کے زوال تک برقرار رہی۔ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندان غلاماں کے دور میں لاہور سلطنت کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا۔ درحقیقت لاہور ہمیشہ پٹھانوں کے مقابلہ میں مغل حکمرانوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ 1241ء عیسوی میں چنگیز خان کی فوجوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کی فوج کو راوی کے کنارے شکست دی اور حضرت امیر خسرو کو گرفتار کیا۔ اس فتح کے بعد چنگیز خان کی فوج نے لاہور کو تاراج کر دیا۔

خلجی دور

ترمیم

خلجی اور تغلق شاہوں کے ادوار میں لاہور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ راجپوتوں نے اسے لوٹا۔ 1397 میں امیر تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر کی ایک ٹکڑی نے لاہور فتح کیا۔ تاہم اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک افغان سردار خضر خان کو لاہور کا صوبہ دار مقرر کیا۔ اس کے بعد سے لاہور کی حکومت کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکحڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی یہاں تک کہ 1436 میں بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاہور کے افغان صوبہ دار دولت خان لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لیے مغل شہزادے بابر کو پکارا۔ لاہور کو عروس البلد لاہور بھی کہتے تھے۔ اور یہ علاقہ ملتان کی عظیم سلطنت کا حصہ ہوتا تھا۔ اور اس وقت ملتان کی حدود ساحل سمندر تک پھیلی ہوئی تھی۔

مغلیہ دور

ترمیم
 
عالمگیری دروازہ

1524ء سے 1752ء تک لاہور مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا۔ مغل درحقیقت تعمیرات کے کاموں میں مشہور تھے اور انھوں نے ہندوستان میں عظیم الشان تعمیرات کرکے ہندوستان کو خوبصورت عمارتوں سے آراستہ کیا تھا۔مغلوں نے لاہور میں بھی تاریخی اور قابل ذکر مقامات کی بنیاد رکھی جن میں بادشاہی مسجد سرفہرست ہے، جو اورنگزیب عالمگیر کے دور میں بنائی گئی۔ لاہور مغل دور حکومت میں 1585ء سے 1598ء تک سلطنت کا دار الحکومت بھی رہا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Ihsan N Nadiem (2005)۔ Punjab: land, history, people۔ Al-Faisal Nashran۔ صفحہ: 111۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2009