دریائی گھوڑا
دریائی گھوڑا (انگریزی نام:Hippopotamus)ہاتھی اور گینڈے کے قبیل کا نہایت جسیم و تنومند افریقی پستانیہ ہے۔
یہ پانی اور خشکی دونوں جگہوں پر رہ سکتا ہے۔ زیادہ تر افریقا کے دریاؤں اور جھیلوں میں 5 تا 30 کے جھنڈ میں رہتا ہے۔ دن کی روشنی میں یہ ٹھنڈے مقام پر رہنا پسند کرتے ہیں، اس لیے زیادہ تر دن میں یہ پانی یا کیچڑ میں وقت گزارتے ہیں۔ ان کی پیدائش و پرورش پانی میں ہی ہوتی ہے۔ نر گھوڑے کی عملداری ہوتی ہے۔ دریائی گھوڑا جسیم جانور ہے۔ یہ نباتات خور جانور ہے جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتا ہے۔ یہ افریقہ کے گرد و نواح میں پایا جاتا ہے۔ اس کی صرف دو اقسام پائی جاتی ہیں جو Hippopotamidae خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہاتھی کے بعد دریائی گھوڑا جسامت کے اعتبار سے دوسرا بڑا جانور ہے جو دودھ پلانے والا جانور ہے۔ اس کا قد ہاتھی سے پست اور گینڈے سے بلند ہوتا ہے۔ دریائی گھوڑا اپنی قوی ہیکل جسامت ‘خندقی دہانہ‘ نمایاں چار لمبے دانتوں کی بناوٹ، تقریباً بغیر بالوں والی جلد اور چھوٹی اور مضبوط ٹانگوں کے باعث پہچانا جاتا ہے۔ دریائی گھوڑا زیادہ تر پانی میں رہتا ہے۔ دریا، ندی اور جھیلیں اس کی آماجگاہ ہیں۔ دن کے اوقات میں یہ پانی یا گاد میں کھڑا رہتا ہے۔ افزائش نسل پانی کے اندر ہی ہوتی ہے۔ شام کے اوقات میں یہ پانی سے نکل کر گھاس چرتے ہیں۔ دریائی گھوڑے پانی میں آرام کرتے ہیں تو ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں لیکن چراگاہ میں یہ الگ الگ رہتے ہیں۔ دریائی گھوڑا خشکی کا جانور نہیں ہے۔
ان کے دانت بہت تیز ہوتے ہیں اور یہ انسانوں کو ان دانتوں سے ہلاک کر سکتے ہیں۔
دریائی گھوڑا جسے عام دریائی گھوڑا اور دریائے نیل کا گھوڑا بھی کہتے ہیں، بڑا نیم آبی پستانیہ ہے جو زیریں صحارا افریقہ کے خطے کا باسی ہے۔ اس کی دو اقسام اس وقت پائی جاتی ہیں: ایک عام دریائی گھوڑا، دوسرا بونا دریائی گھوڑا۔ اس کا انگریزی نام قدیم یونانی سے مشتق ہے۔
ہاتھی اور گینڈے کے بعد دریائی گھوڑا تیسرا بڑا خشکی کا جانور ہے۔ جفت انگلیوں والا یہ سب سے بڑا جانور ہے۔ سور اور دیگر جفت انگلیوں یا کھروں والے جانوروں سے مشابہت کے باوجود دریائی گھوڑے کے قریبی رشتہ دار سیٹیشئن (وہیل، ڈولفن، پارپوئس وغیرہ) ہیں جن سے دریائی گھوڑے کی نوع لگ بھگ ساڑھے 5 کروڑ سال قبل الگ ہو گئی تھی۔ دریائی گھوڑے کا جسم گول، ان کا منہ بہت وسیع، بہت بڑے دانت، جسم پر نہ ہونے کے برابر بال، ستون نما ٹانگیں اور بہت بڑی جسامت ہوتی ہے۔ بالغ نر 1،500 کلو جبکہ بالغ مادہ 1،300 کلو وزنی ہوتی ہے۔ موٹی جسامت اور مختصر ٹانگوں کے باوجود مختصر فاصلوں تک اس کی دوڑ 30 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے۔
دریائی گھوڑے دریاؤں، جھیلوں اور مینگرو دلدلوں میں رہتے ہیں۔ 5 سے 30 ماداؤں اور بچوں کے غول کی سربراہی ایک بڑا نر کرتا ہے جو پانی کے ایک مخصوص قطعے پر قبضہ جما لیتا ہے۔ جنسی ملاپ اور زچگی پانی کے اندر ہوتے ہیں۔ گرمی سے بچنے کے لیے دن کے وقت دریائی گھوڑے پانی یا کیچڑ میں لیٹے رہتے ہیں اور سورج غروب ہونے کے بعد پانی سے نکل کر گھاس چرتے ہیں۔ پانی کے اندر دریائی گھوڑے ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں مگر گھاس چرنے کے وقت اکیلے ہوتے ہیں۔ خشکی پر دریائی گھوڑے زمین پر دوسرے دریائی گھوڑوں سے تعرض نہیں کرتے۔ جارحانہ پن اور غیر متوقع رویے کی بنا پر دریائی گھوڑے کا شمار دنیا کے خطرناک ترین جانوروں میں ہوتا ہے۔ مساکن کی تباہی اور گوشت اور بڑے دانتوں کی مانگ پورا کرنے والے چورشکاریوں سے ان کی نسل کو خطرہ ہے۔
وجہ تسمیہ
ترمیملاطینی میں دریائی گھوڑے کا نام دراصل قدیم یونانی سے آیا ہے جو "گھوڑا" اور "دریا" سے مل کر بنا ہے۔ اسی وجہ سے اردو میں اسے دریائی گھوڑا کہا جاتا ہے۔
درجہ بندی اور ابتدا
ترمیمدرجہ بندی
ترمیمموجودہ دور کے دریائی گھوڑے اور بونے دریائی گھوڑے اپنے خاندان Hippopotamidae کے دو نمائندہ بچے ہیں۔
کھوپڑی کی ساخت کے فرق اور مختلف جغرافیائی علاقوں میں رہائش کی وجہ سے دریائی گھوڑے کی پانچ ذیلی اقسام مانی جاتی ہیں:
- H. a. amphifbius ۔ گیمبیا سے لے کر مشرق میں ایتھوپیا، جنوب میں موزمبیق اور شمال میں مصر تک پایا جانے والا دریائی گھوڑا
- H. a kiboko ۔ کینیا اور صومالیہ میں پایا جانے والا دریائی گھوڑا جس کے نتھنے زیادہ بڑے اور لمبوتری تھوتھنی ہوتی ہے
- H. a. capensis ۔ زیمبیا اور جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا دریائی گھوڑا
- H. a. tschadensis ۔ چاڈ اور نائجر کے درمیان پایا جانے والا یہ دریائی گھوڑا نسبتاً چھوٹی تھوتھنی مگر چوڑے منہ والا ہوتا ہے
- H. a. constrictus۔ عوامی جمہوریہ کانگو سے انگولا اور نمیبیا تک پایا جانے والا یہ دریائی گھوڑا نسبتاً چھوٹی تھوتھنی، چپٹا سر اور نسبتاً چھوٹے دانت رکھتا ہے
مندرجہ بالا اقسام پر زیادہ تر سائنس دان متفق نہیں کہ یہ جسمانی ساخت کے فرق بہت چھوٹے ہیں۔ 13 مختلف مقامات سے لیے جانے والے دریائی گھوڑے کی کھال کے نمونوں کے مائیٹوکونڈریل ڈی این اے سے ثابت ہوا کہ H. a. amphibius اور H. a. kiboko میں تھوڑے مگر قابل ذکر جینیاتی فرق موجود ہیں۔ دیگر اقسام کا جائزہ ابھی نہیں لیا گیا۔
ارتقا
ترمیم1909 تک دریائی گھوڑوں کو ان کے دانتوں کی ساخت کے اعتبار سے سور کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔ پھر مختلف شواہد جیسا کہ خون کی پروٹین، مالیکیولر سسٹمیٹکس، ڈی این اے اور پھر رکازات سے پتہ چلا کہ ان کے قریب ترین زندہ رشتہ دار سمندری پستانیے جیسا کہ وہیل، ڈولفن اور پارپوئس ہیں۔ دریائی گھوڑے اور سمندری پستانیوں کے مشترکہ اجداد جفت کھروں والے جانوروں سے الگ ہوئے اور پھر دریائی گھوڑے کے اجداد سمندری پستانیوں سے بھی الگ ہو گئے۔ موجودہ نظریہ کے مطابق سمندری پستانیوں اور دریائی گھوڑوں کے اجداد نیم آبی جانور تھے اور آج سے 6 کروڑ سال قبل دونوں کے مشترکہ اجداد پہلے جفت کھروں والے جانوروں کے اجداد سے اور پھر 5 کروڑ 40 لاکھ سال قبل ایک دوسرے سے بھی الگ ہو گئے۔
ایک شاخ الگ ہو کر شاید 5 کروڑ 20 لاکھ سال قبل سمندری پستانیے بنی جو پھر ارتقائی عمل سے گذر کر مکمل آبی مخلوق بنی اور پانی میں رہنے لگی۔ دریائی گھوڑے کے خاندان کی دیگر شاخیں وقت کے ساتھ مٹ گئیں اور محض دریائی گھوڑے باقی رہے۔
خصوصیات
ترمیمدریائی گھوڑے پرخور جانور ہیں اور جسامت میں ہاتھی اور گینڈے کے بعد سب سے بڑے زمینی جانور ہیں۔ نر کا اوسط وزن 1،480 کلو جبکہ 1،365 کلو وزنی مادہ عام ملتی ہیں۔ 2،660 کلو وزنی نر بھی دیکھے گئے ہیں۔ نر دریائی گھوڑے کی جسامت زندگی بھر بڑھتی رہتی ہے جبکہ 25 سال کی عمر میں مادہ کی جسمانی بڑھوتری رک جاتی ہے۔ دریائی گھوڑے کی لمبائی 90ء2 سے لے کر 05ء5 میٹر تک ہو سکتی ہے جس میں 35 سے 56 سینٹی میٹر لمبی دم ہوتی ہے۔ دریائی گھوڑے کے شانے کی اونچائی 30ء1 سے لے کر 65ء1 میٹر ہوتی ہے۔
دریائی گھوڑے کا جسم پیپے نما جبکہ دم اور ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ اس کی تھوتھنی لمبی ہے۔ اس کی چھوٹی ٹانگیں بہت مضبوط ہوتی ہیں تاکہ وزن سہار سکیں اور وزن کی وجہ سے ہی انھیں پانی کے اندر چلنے میں آسانی ہوتی ہے۔ پانی کے اندر رہنے کی وجہ سے ان کی ٹانگوں کو زیادہ دیر وزن نہیں اٹھانا پڑتا اور اسی وجہ سے ٹانگیں چھوٹی رہ گئی ہیں۔ دریائی گھوڑے ضرورت پڑنے پر 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتے ہیں۔ دریائی گھوڑا جست نہیں لگا سکتا مگر انتہائی ڈھلوان دریائی کنارے پر چڑھنے میں اسے مشکل نہیں ہوتی۔ فرقبہ دکھائی دینے کے باوجود دریائی گھوڑے میں بہت کم چربی ہوتی ہے۔
دریائی گھوڑے کے کان، آنکھیں اور نتھنے کھوپڑی کی اوپری سطح پر واقع ہیں۔ اس لیے دریائی گھوڑا پانی میں چھپنا رہنے کے باوجود ان اعضا کو باہر نکال سکتا ہے۔ پانی کے اندر جانے کے بعد کان اور نتھنے بند ہو جاتے ہیں اور آنکھوں پر شفاف جھلی آ جاتی ہے۔ نیم آبی جانور ہونے اور جھلی دار پیروں کے باوجود دریائی گھوڑا عمدہ تیراک نہیں اور پانی میں ایک جگہ معلق بھی نہیں رہ سکتا۔ دریائی گھوڑا گہرے پانی میں جانے سے احتراز کرتا ہے اور جب جانا پڑے تو پانی کی تہ میں اچھل اچھل کر چلتا ہے۔ بالغ دریائی گھوڑا ہر 4 سے 6 منٹ بعد سانس لینے سطح پر آتا ہے جبکہ بچوں کو ہر 2 یا 3 منٹ بعد آنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
دریائی گھوڑے کے جبڑے بہت بڑے اور بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ جبڑوں کا جوڑ ایسا ہوتا ہے کہ دریائی گھوڑا اپنا منہ تقریباً 180 درجے تک کھول سکتا ہے۔ نچلے جبڑے کے کاٹنے والے اور بڑے دانت مسلسل اگتے رہتے ہیں اور کاٹنے والے دانت 40 سینٹی میٹر جبکہ بڑے دانت 50 سینٹی میٹر تک پہنچ سکتے ہیں۔ نچلے بڑے دانت اوپری دانتوں سے رگڑ کھاتے رہتے ہیں اور تیز دھار ہوتے ہیں۔ دریائی گھوڑا گھاس کاٹنے کے لیے اپنے موٹے ہونٹ استعمال کرتا ہے اور پھر چبانے والے دانتوں سے کھاتا ہے۔ اس کا معدہ پیچیدہ اور تین خانوں والا ہوتا ہے مگر جگالی نہیں کرتا۔
دریائی گھوڑے کی کھال 2 انچ موٹی ہوتی ہے اور جسم پر نہ ہونے کے برابر بال ہوتے ہیں۔ اس کی کھال کا رنگ جامنی بھورا یا نیلگوں سیاہ ہوتا ہے جبکہ پیٹ، آنکھیں اور کانوں کے گرد کا حصہ بھورا گلابی ہوتا ہے۔ اس کی کھال سے فطری طور پر سرخی مائل مادہ رستا ہے جو اس کی کھال کو دھوپ کی شدت سے بچاتا ہے۔ اسے عام طور پر خونی پسینہ کہتے ہیں حالانکہ یہ نہ تو خون ہوتا ہے اور نہ پسینہ۔ خارج ہونے پر اس مادے کا کوئی رنگ نہیں ہوتا مگر چند منٹ میں اس کا رنگ سرخی مائل نارنجی اور پھر بھورا ہو جاتا ہے۔ اس مادے میں دو تیزابی اجزا ہوتے ہیں جو بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کو مارنے کے ساتھ ساتھ دھوپ کے مضر اثرات سے بھی بچاتے ہیں۔ یہ مادے دریائی گھوڑے کی خوراک کا حصہ نہیں یعنی یہ مادے دریائی گھوڑا خود سے پیدا کرتا ہے۔ اگر دریائی گھوڑا پانی سے بہت دیر تک باہر رہے تو اس کی کھال خشک ہو کر تڑخنے لگتی ہے۔
نر کے خصیے جسم کے باہر نہیں آتے اور خصیوں کی تھیلی نہیں ہوتی۔ جب عضو تناسل اکڑا نہ ہو تو جسم کے اندر چلا جاتا ہے۔ مادہ کی اندام نہانی ابھری ہوئی ہوتی ہے۔
دریائی گھوڑے کی اوسط عمر 40 سے 50 سال مانی جاتی ہے۔ امریکہ میں انڈیانا کے ایک چڑیا گھر میں بند مادہ دریائی گھوڑا 61 سال کی عمر پا کر مری۔ سب سے زیادہ عمر والی مادہ دریائی گھوڑا 1959 میں فلپائن کے منیلا چڑیاگھر کھلنے پر لائی گئی اور اس کی موت 2017 میں ہوئی۔ اس کی عمر کا اندازہ 65 سال لگایا گیا ہے۔
تقسیم اور کیفیت
ترمیمپلیئسٹوسین کے وسط اور اواخر (اب سے 5 لاکھ سال سے لے کر 40،000 سال قبل) تک دریائی گھوڑے یورپ میں انگلستان تک پائے جاتے تھے۔ خراساں کے علاقے میں دریائی گھوڑے کی آمد کے رکازی ثبوت محض 3،000 سال سے بھی کم پرانے ہیں۔ ماضی میں دریائے نیل میں دریائی گھوڑے عام تھے مگر پھر انھیں بھگا دیا گیا۔ پلینی اکبر 639 عیسوی تک دریائی گھوڑوں کے وجود کے بارے بات کرتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں نتال کے صوبے میں آخری دریائی گھوڑے کی ہلاکت 19ویں صدی میں ہوئی۔ عوامی جمہوریہ کانگو، یوگنڈا، تنزانیہ اور کینیا کے شمالی دریاؤں، جھیلوں سے لے کر ایتھوپیا، صومالیہ اور سوڈان، مغرب میں گیمبیا اور جنوب میں جنوبی افریقہ تک دریائی گھوڑے پائے جاتے ہیں۔
جینیاتی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پلیئسٹوسین دور کے اواخر میں جب افریقہ میں آبی ذخائر میں اضافہ ہوا تو دریائی گھوڑے کی تعداد اور پھیلاؤ بڑھا۔ دریائی گھوڑے کو چور شکاروں سے بھی کافی خطرہ ہے۔ موجودہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق دریائی گھوڑے کے جسم کے کسی بھی حصے کو ملک سے باہر لانے لے جانے کے لیے قانونی دستاویزات درکار ہیں۔
2017 میں بین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت نے دریائی گھوڑے کی تعداد کا اندازہ 1،15،000 سے 1،30،000 کے درمیان لگایا ہے اور اسے خطرے کا شکار قرار دیا ہے۔ ان کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی عوامی جمہوریہ کانگو میں دیکھی گئی ہے جہاں 1970 کی دہائی میں تعداد 29،000 تھی جو 2005 میں محض 800 سے 900 رہ گئی تھی۔ اس کمی کی وجہ کانگو کی دوسری جنگ سمجھی جاتی ہے جس میں شریک فوجیوں کو تنخواہ کی کمی کا سامنا تھا اور انھوں نے دریائی گھوڑے کا غیر قانونی شکار شروع کر دیا اور ان کے مطمح نظر محض معاشی ہی نہیں بلکہ یہ خیال بھی تھا کہ دریائی گھوڑے معاشرے کے لیے نقصان ہیں۔ 2016 میں ویروں گا میں دریائی گھوڑوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا کہ مقامی مچھیروں اور پارک کے عملے نے مل کر ان کے تحفظ کے لیے کافی کوشش کی تھی۔ اس کے گوشت کی فروخت ممنوع ہے مگر چوربازار میں اس پر پابندی لگانا بہت مشکل ہے۔ وسطی افریقہ میں دریائی گھوڑے کے گوشت کی بہت مانگ ہے اور اس کے دانت ہاتھی دانت کا متبادل مانے جاتے ہیں۔
کولمبیا میں بھی دریائی گھوڑوں کی محدود تعداد پائی جاتی ہے جو 1993 میں مشہور منشیات فروش پابلو اسکوبار کے ذاتی چڑیاگھر سے فرار ہوئے تھے۔ 2020 میں ان کی تعداد 100 سے بڑھ گئی ہے اور ان کی تعداد میں تیز اضافے سے انسان اور ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کی تعداد پر قابو پانے کے لیے ان کی ہلاکت اور نس بندی کی کوششیں جاری ہیں۔
رویہ اور ماحول
ترمیمدریائی گھوڑے نیم آبی جانور ہیں اور انھیں چرنے کے لیے گھاس کے قریب اتنا پانی درکار ہوتا ہے جس میں وہ چھپ سکیں۔ انھیں کھڑا پانی اور ہلکی ڈھلوان والے کنارے پسند ہیں جبکہ کم تعداد میں نر تیز بہاؤ والے دریاؤں میں بھی دکھائی دیتے ہیں جن کے کنارے پتھریلے ہوں۔ زیادہ تر دریائی گھوڑے میٹھے پانی کو پسند کرتے ہیں مگر نیم کھارے پانی میں بھی رہ سکتے ہیں۔
دریائی گھوڑے گرمی سے بچنے کے لیے دن کا زیادہ تر وقت پانی میں گزارتے ہیں۔ رات شروع ہو نے سے ذرا پہلے خشکی پر چڑھ کر پیٹ بھرنے نکلتے ہیں۔ قید میں دریائی گھوڑے مختلف قسم کی نباتات کھاتے ہیں مگر فطری ماحول میں ان کی غذا محض گھاس ہوتی ہے اور بہت کم مقدار میں آبی پودے بھی کھا سکتے ہیں۔ رات کے دوران دریائی گھوڑے 3 سے 5 کلومیٹر تک چلتے اور 40 کلو تک گھاس کھاتے ہیں۔ سورج نکلنے سے قبل دریائی گھوڑے واپس پانی کو لوٹ آتے ہیں۔ سوتے ہوئے دریائی گھوڑے کے دماغ کے دونوں حصے آرام کرتے ہیں اور خشکی پر یا پانی میں سوتے ہوئے بھی اس کے نتھنے سطح سے اوپر رہتے ہیں۔ جب دریا گھوڑا پانی کے اندر سو جائے تو بیدار ہوئے بغیر سانس لینے خود بخود سطح آتا رہتا ہے۔
بہت بڑی جسامت اور ایک ہی راستے پر چل کر پیٹ بھرنے کی وجہ سے ان کے راستے سبزے سے پاک اور نسبتاً گہرے ہوتے ہیں۔ طویل عرصے رہائش کے دوران دریائی گھوڑے دلدلوں اور پانی کی گزرگاہوں کا رخ بدل سکتے ہیں۔ پانی میں فضلہ خارج کرنے کی وجہ سے اس کے نظام انہضام کے بیکٹیریا پانی کا حصہ بن کر بائیو جیو کیمیکل دورانیے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات دریائی گھوڑوں کو مردار کھاتے دیکھا گیا ہے۔ گوشت کھانے، دوسرے دریائی گھوڑے کو کھانے اور شکار مارنے کے واقعات بھی درج ہیں۔ دریائی گھوڑے کا معدہ گوشت ہضم نہیں کر سکتا۔ سمجھا جاتا ہے کہ دریائی گھوڑے کی یہ عادت غیر معمولی یا پھر کسی خاص غذائی جزو کی کمی سے ہوتی ہوگی۔
سماجی روابط
ترمیمنوعمر نر اور مادہ کی تمیز کرنا بہت مشکل ہے اور اسی وجہ سے ان کے باہمی تعلق کا جائزہ لینا مشکل ہے۔ ان کے غول کی تعداد 100 سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ ایک دوسرے کے قریب رہنے کے باوجود نروں میں کسی قسم کا تعلق نہیں پیدا ہوتا۔ بڑے پانی میں اپنا علاقہ متعین کرتے ہیں مگر خشکی پر ایک دوسرے سے تعرض نہیں کرتے۔ جھیلوں میں نروں کا علاقہ 250 سے 500 میٹر جبکہ دریاؤں میں 50 سے 100 میٹر پر محیط ہوتا ہے۔ جب پانی خشک ہو جائے تو دریائی گھوڑے اپنا علاقہ چھوڑ دیتے ہیں۔ بڑا نر اپنے علاقے میں رہنے والی تمام ماداؤں پر قابض ہوتا ہے۔ جب تک نوعمر نر چھیڑچھاڑ کی کوشش نہ کریں، انھیں غول میں رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ چھوٹے نر غول کی سربراہی کے معاملے پر بڑے نروں سے لڑتے ہیں۔ غول میں دریائی گھوڑے جنس اور سماجی درجے کے مطابق ایک ساتھ رہتے ہیں۔ کم عمر نر دوسرے نروں کے ساتھ جبکہ مادائیں دوسری ماداؤں کے ساتھ جبکہ سربراہ سب سے الگ رہتا ہے۔ دریائی گھوڑے پیٹ بھرنے الگ الگ پانی سے باہر نکلتے ہیں۔
دریائی گھوڑے اپنی دم کو ہلاتے ہوئے فضلہ خارج کرتے ہیں جس سے فضلہ بڑے رقبے پر پھیل جاتا ہے۔ دریائی گھوڑا فضلہ خارج کرتے ہوئے خشکی پر بھی ایسا ہی کرتا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک واضح طور پر نہیں سمجھی جا سکی کہ اگر یہ علاقے کی نشان دہی کرنے کی خاطر ہو تو دریائی گھوڑا محض پانی میں اپنے علاقے پر قبضہ رکھتا ہے، خشکی پر اسے ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شاید اس طرح دریائی گھوڑے پانی اور خشکی کے درمیان راستے کی نشان دہی کرتے ہوں۔ جب دریائی گھوڑا منہ کھول کر جماہی لے تو یہ خطرے کی علامت ہے۔ لڑتے ہوئے دریائی گھوڑے اپنے دانتوں سے مخالف کو بری طرح زخمی کرتے ہیں۔ جب پانی کم ہو جائے یا آبادی بہت بڑھ جائے تو دریائی گھوڑے بچوں کو مار سکتے ہیں مگر عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا۔
عام حالات میں دریائی گھوڑے کی آواز چھینک نما ہوتی ہے جو کافی دور تک سنی جاتی ہے۔ دریائی گھوڑے ایک دوسرے کی آواز پہچان سکتے ہیں اور اجنبی دریائی گھوڑوں کی آواز پر زیادہ تیزی سے رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ خطرے کا احساس ہو تو زور سے سانس اندر کھینچتے ہیں اور لڑتے ہوئے نر زور سے آواز دیتے ہیں۔ پانی کے اندر دریائی گھوڑے کلک نما آواز نکالتے ہیں۔ دریائی گھوڑے پانی سے آدھا سر نکال کر ایک مخصوص آواز نکالتے ہیں جو پانی کے اندر اور ہوا میں بیک وقت سفر کرتی ہے۔
افزائش نسل
ترمیممادائیں 5 سے 6 سال کی عمر میں بالغ ہوتی ہیں اور زمانہ حمل 8 مہینے ہے۔ دریائی گھوڑوں کے غدودی نظام کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ 3 سے 4 سال عمر کی مادہ بھی بالغ ہو سکتی ہے۔ نر 5ء7 سال کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں۔ جنسی ملاپ اور زچگی دونوں ہی برسات کے دوران ہوتے ہیں۔ نر جنسی طور پر سارا سال متحرک رہتے ہیں اور کسی وقت بھی ملاپ کر سکتے ہیں۔ حاملہ ہونے کے بعد مادہ اگلے 17 ماہ تک پھر حاملہ ہونے کے قابل نہیں رہتی۔
دریائی گھوڑے پانی کے اند رجنسی ملاپ کرتے ہیں اور مادہ سطح کے نیچے رہتی ہے اور بار بار سانس لینے اوپر آتی ہے۔ مادہ زچگی کے لیے الگ ہو جاتی ہے اور 10 سے 14 دن بعد واپس آتی ہے۔ بچے چاہے پانی میں پیدا ہوں یا خشکی پر، ان کا وزن 50 کلو ہوتا ہے اور لمبائی 127 سینٹی میٹر۔ دودھ پلانے کے لیے مادہ پہلو کے بل لیٹتی ہے جو پانی یا خشکی، دونوں جگہ ہوتا ہے۔ گہرے پانی میں بچے اپنی ماں کی پشت پر سوار ہو جاتے ہیں۔
بچے والی مادہ اپنے بچے کی حفاظت کے لیے بہت فکرمند رہتی ہے اور کسی کو قریب نہیں آنے دیتی۔ بچہ مر جائے تو بھی ماں کسی کو بچے کے قریب نہیں آنے دیتی۔ اکثر بچے گروہ کی شکل میں ایک یا زیادہ ماداؤں کی نگرانی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ مادہ ہر دو سال بعد بچہ پیدا کرتی ہے۔ ایک سال کی عمر کو پہنچ کر دودھ پینا چھوڑ دیتے ہیں۔
بین النوعی تعلقات
ترمیمدریائی گھوڑے مختلف بڑے درندوں کے ساتھ ان کے ماحول میں آسانی سے رہتے ہیں۔ مگرمچھ، ببرشیر اور دھبے دار لگڑبگھے نوعمر دریائی گھوڑوں کو شکار کرتے ہیں۔ عام طور پر بالغ دریائی گھوڑے کو کسی درندے سے خطرہ نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ بہت سے ببرشیروں نے مل کر بالغ دریائی گھوڑے مارے ہیں مگر ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔ مگرمچھ اکثر دریائی گھوڑے کے غصے کا شکار ہوتے ہیں کہ دونوں ایک ہی ماحول میں رہتے ہیں۔ اسی طرح دریائی گھوڑے کے بچے اور مادائیں بھی بڑے مگرمچھوں کا نشانہ بنتی ہیں۔ ملاپ کی خاطر ہونے والی لڑائی کے شدید زخمی نر کو بھی مگرمچھ مل کر مار سکتے ہیں۔
کئی مرتبہ دریائی گھوڑے پانی میں مخصوص علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں مچھلیاں ان کی کھال پر موجود طفیلیوں کو کھاتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے مطلوبہ جگہ پہنچ کر دریائی گھوڑا اپنا منہ پورا کھول کر لیٹ جاتے ہیں۔ دریائی گھوڑے کے فضلے سے پانی میں زرخیزی بڑھتی ہے تاہم ان کا واضح مقصد نہیں سمجھا جا سکا۔ 2015 کی تحقیق کے مطابق ارضی مواد دریائی گھوڑے کے فضلے کے راستے پانی تک پہنچتا ہے جبکہ 2018 کے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ اس فضلے میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوتی جس کی وجہ سے یہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
مچھلیوں پر رہنے والا ایک مخصوص کیڑا دریائی گھوڑے کی آنکھ کی شفاف جھلی میں بھی رہتا ہے۔
انسان اور دریائی گھوڑے
ترمیمانسان اور دریائی گھوڑے کے تعلق کا قدیم ترین ثبوت بوری فارمیشن کے مقام سے ملنے والی دریائی گھوڑے کی ہڈیوں کو تیز دھار آلات سے کاٹنے کے نشان سے ملا ہے اور اندازہ ہے کہ یہ 1،60،000 سال قدیم ہیں۔ 4،000 سے 5،000 سال قبل غاروں میں بنائی جانے والی تصاویر میں بھی دریائی گھوڑے کا شکار دکھایا گیا ہے۔ قدیم مصر میں شرفا کے مقبروں میں بنائی تصاویر میں بھی انسانوں کو دریائی گھوڑوں کا شکار کرتے دکھایا جاتا تھا۔
دریائی گھوڑے کے بارے یونانیوں اور رومنوں کو بھی معلوم تھا۔ یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس نے 440 ق م میں اپنی کتاب میں اس کا تذکرہ کیا ہے جبکہ رومن ماہر فطریات پلینی اکبر نے اپنی کتاب میں 77 عیسوی میں دریائی گھوڑے کا تذکرہ کیا ہے۔ مغربی افریقہ کے یروبا قبائل دریائی گھوڑے کو پانی کا ہاتھی کہتے ہیں۔
انسان پر حملے
ترمیمدریائی گھوڑے انتہائی مشتعل شمار ہوتے ہیں اور کشتیوں پر حملہ کر کے انھیں ڈبو دیتے ہیں۔ چھوٹی کشتیاں آسانی سے ڈوب جاتی ہیں اور دریائی گھوڑے مسافروں کو زخمی یا ہلاک کر دیتے ہیں یا کشتی کے مسافر ڈوب جاتے ہیں۔ 2004 میں نائجر میں دریائی گھوڑے نے ایک کشتی الٹی تو 13 افراد ہلاک ہو گئے۔ اگر موقع ملے تو دریائی گھوڑے فصلوں پر بھی حملہ کر سکتے ہیں اور اس طرح انسان سے لڑائی شروع ہوتی ہے جو انسان یا دریائی گھوڑے کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے۔
چڑیا گھر
ترمیمدریائی گھوڑوں کو چڑیاگھروں میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ 3500 ق م میں پہلی بار مصر میں دریائی گھوڑے کو قید کر کے نمائش پر رکھا گیا تھا۔ جدید دور میں پہلی بار 25 مئی 1850 کو لندن کے چڑیاگھر میں پہلی بار دریائی گھوڑے کی نمائش ہوئی جسے دیکھنے کے لیے پہلے روز 10،000 تماشائی آئے۔
دریائی گھوڑے قید میں بھی آسانی سے افزائش نسل کرتے ہیں۔ ان کی شرح پیدائش نسبتاً کم ہوتی ہے کہ چڑیاگھروں کا کافی خرچہ ہوتا ہے۔ 2015 میں سنسنیاٹی کے چڑیا گھر نے 7 کروڑ 30 لاکھ ڈالر لگا کر 2،50،000 لیٹر کا تالاب بنوایا۔ آج کل ایسے تالابوں میں فضلے کی صفائی کے لیے کافی پیچیدہ انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ زیرآب مشاہدے کے لیے بنائے جانے والے شیشوں کی موٹائی چار انچ تک ہو سکتی ہے۔ 1987 میں ٹولیڈو کے چڑیاگھر میں پہلی بار قید مادہ دریائی گھوڑے کی زچگی کا عمل دیکھا گیا۔
ثقافتی اہمیت
ترمیممصری دیومالا میں سیت نامی دیوتا سرخ دریائی گھوڑا بن کر ہورس سے زمین کی ملکیت پر جھگڑا کرتا ہے مگر شکست کھا جاتا ہے۔ توارت نامی دیوی ایک حاملہ عورت دکھائی جاتی ہے جس کا سر دریائی گھوڑے جیسا ہے جو شدید مادری محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
دریائی گھوڑے مختلف افریقی دیومالائی کہانیوں کا موضوع بنے رہے ہیں۔ ایک کہانی میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے ہر جانور کو فطرت میں جگہ دی تو دریائی گھوڑے نے پانی میں رہنے کی خواہش ظاہر کی مگر خالق کو ڈر تھا کہ دریائی گھوڑا تمام مچھلیاں کھا جائے گا۔ کافی منت سماجت کے بعد خالق نے اجازت دی کہ وہ اس شرط پر پانی میں رہ سکتا ہے کہ وہ مچھلیوں کی جگہ گھاس کھائے گا اور اپنا فضلہ پھیلائے گا تاکہ دیکھا جا سکے کہ اس نے مچھلی تو نہیں کھائی۔ ایک اور کہانی میں کہا جاتا ہے کہ دریائی گھوڑے کے بہت لمبے اور خوبصورت بال تھے مگر ایک حاسد خرگوش نے بالوں کو آگ لگا دی تو اسے بجھانے کے لیے دریائی گھوڑا پانی میں کود گیا۔ پھر شرمندگی کی وجہ سے دریائی گھوڑا پانی میں ہی رہنے لگا کہ اس کے زیادہ تر بال جل گئے تھے۔
انٹرنیٹ پر ایک افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ دریائی گھوڑے کا دودھ گلابی ہوتا ہے جو غلط تصور ہے۔ دریائی گھوڑے کا دودھ سفید یا دودھیا ہی ہوتا ہے۔
ویکی ذخائر پر دریائی گھوڑا سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |