ریاست علی قاسمی رامپوری

ہندوستانی مسلمان عالم دین، مفتی اور مصنف

ریاست علی قاسمی رام پوری (پیدائش: 1968ء) ایک ہندوستانی مسلمان عالم دین، مفتی، مدرس، سوانحی خاکہ نگار اور مصنف ہیں۔ وہ تقریباً چالیس سال سے تدریسی، فقہی اور قلمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تصانیف میں البیان المحقق فی شرح مقدمۃ الشیخ عبدالحق، قرآن کریم ایک عظیم دولت، نامور شخصیات، فقیہ الامت اور ان کے خلفائے عالی مقام اور کاروان اہل حق شامل ہیں۔

ریاست علی قاسمی رامپوری
معلومات شخصیت
پیدائش 1 اپریل 1968ء (56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹانڈہ، رامپور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ نصیر احمد خان بلند شہری ،  عبد الحق اعظمی ،  محمود حسن گنگوہی ،  نظام الدین اعظمی ،  کفیل الرحمن نشاط عثمانی ،  ظفیر الدین مفتاحی ،  حبیب الرحمن خیر آبادی ،  نعمت اللہ اعظمی ،  قمر الدین احمد گورکھپوری ،  ریاست علی ظفر بجنوری ،  سعید احمد پالن پوری ،  ارشد مدنی ،  عثمان منصورپوری ،  عبد الخالق مدراسی ،  محمد امین پالن پوری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  مفتی ،  مصنف ،  معلم ،  سوانح نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

ریاست علی قاسمی رام پوری کی پیدائش ٹانڈہ بادلی، ضلع رامپور میں 1965ء کی ہند و پاک جنگ کے تقریباً تین سال بعد ہوئی۔ ان کی برادری ترک برادری کے نام سے جانی جاتی ہے اور والد کا نام نثار علی تھا۔ تعلیمی اسناد اور آدھار کارڈ کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش یکم مارچ 1968ء ہے، جبکہ اصل تاریخ محفوظ نہیں ہے۔ ان کا آبائی وطن احمد پور، شکار پور، ڈاکخانہ سید نگر، تحصیل ٹانڈہ بادلی، ضلع رامپور، اترپردیش ہے۔[1]

ان کی ابتدائی تعلیم ان کے آبائی گاؤں احمد پور میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ قریبی قصبہ لالپور کلاں، ضلع رامپور گئے جو ان کے گاؤں سے تقریباً دو سے ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ حفظِ قرآن کی تعلیم انھوں نے جامعہ رحمانیہ، ٹانڈہ بادلی میں مکمل کی۔ اسی ادارے میں انھوں نے اردو، ہندی تا درجہ پنجم، فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی، اور سالِ سوم عربی (جماعتِ کافیہ) تک کی تعلیم یہیں سے مکمل کی۔[1]

شوال 1402ھ مطابق 1982ء میں ان کا داخلہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ میں ہو گیا، جہاں انھوں نے دو سال قیام کر کے شرح جامی و کنز الدقائق سے جلالین و ہدایہ اولین تک کی کتابیں پڑھیں۔ ان کے گنگوہ کے اساتذۂ کرام میں وسیم احمد سنسار پوری، شمس الدین گنگوہی، رئیس الدین بجنوری، محمد انور گنگوہی، محمد سلمان گنگوہی، عبد الستار سہارن پوری، صلاح الدین سیتامڑھی اور مولانا قاری نثار احمد شامل تھے۔[1][2]

شوال 1404ھ (1984ء) میں انھوں نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ ان کا سالِ عربی ہفتم میں ہوا۔ (1406ھ مطابق 1986ء) میں انھوں نے دورۂ حدیث مکمل کرکے درس نظامی کی تکمیل کی۔ پھر 1407ھ (1987ء) میں انھوں نے دار العلوم دیوبند سے ہی افتا کی تعلیم حاصل کی۔[1]

ان کے دار العلوم دیوبند کے عربی ہفتم و دورۂ حدیث کے اساتذۂ کرام میں نصیر احمد خان بلند شہری، محمد حسین بہاری، زبیر احمد دیوبندی، معراج الحق دیوبندی، عبد الحق اعظمی، نعمت اللہ اعظمی، قمر الدین احمد گورکھپوری، ریاست علی ظفر بجنوری، سعید احمد پالنپوری، ارشد مدنی، محمد عثمان منصورپوری، عبد الخالق مدراسی اور محمد امین پالن پوری شامل تھے۔ ان کے سالِ افتا کے اساتذۂ کرام میں محمود حسن گنگوہی، نظام الدین اعظمی، کفیل الرحمن نشاط عثمانی، ظفیر الدین مفتاحی اور حبیب الرحمن خیرآبادی شامل تھے۔[1]

دار العلوم دیوبند میں اپنے تین سالہ قیام کے دوران، رامپوری کو تقریر، تحریر اور مناظرہ میں بھی دلچسپی رہی۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ ضلع رام پور کی انجمن بزم آزاد اور مدنی دارالمطالعہ سے منسلک رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، انھوں نے انجمن تقویۃ الاسلام، شعبۂ مناظرہ کی نظامت کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔[1]

دارالعلوم دیوبند میں قیام کے دوران، دارالافتاء کے سال میں انھیں مضمون نویسی کا بھی شوق رہا۔ اس شوق کو پروان چڑھانے میں ریاست علی ظفر بجنوری کا بڑا کردار رہا، جنھوں نے خصوصی توجہ دلائی، جس کے نتیجے میں موصوف نے مضمون نگاری کی طرف توجہ دی۔ نتیجتاً، موصوف کے متعدد مضامین زمانۂ طالب علمی کے دوران نہ صرف دیواری پرچوں میں بلکہ آئینہ دارالعلوم دیوبند میں بھی شائع ہوئے۔[1]

تدریسی و عملی زندگی

ترمیم

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد محمود حسن گنگوہی و نصیر احمد خان بلند شہری کے مشورے سے ان کا تقرر مدرسہ امداد الاسلام کمال پور، ضلع بلند شہر میں ہوا، جہاں انھوں نے دو سال قیام کرکے تفسیر بیضاوی، ہدایہ ثالث، شرح عقائد نسفی، مختصر المعانی، سلم العلوم، نور الانوار اور شرح وقایہ جیسی کتابوں کی تدریس کا فریضہ انجام دیا۔[1]

صفر المظفر 1410ھ میں محمود حسن گنگوہی اور مرغوب الرحمن بجنوری کے مشورے پر، اور ناظر حسین قریشی مہتمم مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ کی درخواست پر، ان کا تقرر مدرسہ خادم الاسلام، ہاپوڑ میں ہوا۔ وہ تقریباً بیس سال تک وہاں مقیم رہے۔ اس دوران انھوں نے ابتدا سے دورۂ حدیث تک کی متعدد اہم کتابیں پڑھائیں، جن میں ہدایہ، سلم العلوم، شرح عقائد نسفی، حسامی، نور الانوار، شرح وقایہ، مراح الارواح، شرح جامی، صحیح بخاری اور سنن ابن ماجہ شامل تھیں۔ محرم الحرام 1412ھ میں محمود حسن گنگوہی کی ہدایت پر دارالافتاء مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں طلبۂ افتاء کے داخلے کا آغاز ہوا اور افتاء کی نصابی کتابوں کی تدریس شروع ہوئی، جس میں افتا کی کتابیں ان سے بھی وابستہ ہوئیں۔[1]

شوال 1429ھ میں جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں بہ حیثیت استاذ ان کا تقرر عمل میں آیا، جہاں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ شعبۂ افتاء کی ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد کی گئیں۔ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں شعبۂ افتاء میں در مختار، سراجی کے علاوہ سنن ترمذی، شرح معانی الآثار، مشکاۃ المصابیح، شرح عقائد نسفی، کنز الدقائق، ہدایہ اولین، نور الانوار، قطبی، اصول الشاشی، دروس البلاغۃ، قدوری، ترجمۃ القرآن (آخری منزل از سورۂ ق تا سورة الناس) نور الایضاح وغیرہ کتابوں کی تدریس ان سے وابستہ رہی ہے (اور ان میں سے کئی اب بھی ہیں)۔[1]

ہاپوڑ کے زمانۂ تدریس میں، انھیں جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ رفاہی اور ملی معاملات کو سمجھنے اور ان میں عملی طور پر حصہ لینے کے مواقع ملے۔ اس دوران وہ جمعیۃ کی اصلاحی تحریک سے بھی منسلک رہے۔[1]

بیعت و خلافت

ترمیم

رامپوری کو گنگوہ کے زمانۂ طالب علمی میں محمد سلمان گنگوہی کی رہنمائی میں اصلاحِ نفس اور باطنی تربیت کا شوق پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں وہ محمود حسن گنگوہی سے بیعت ہو گئے اور ان سے روحانی استفادہ کرتے رہے۔ محمود حسن گنگوہی کی وفات کے بعد انھوں نے ان کے خلیفہ، محمد ابراہیم افریقی سے روحانی تعلق قائم کیا، اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔[3]

اس کے علاوہ، انھیں محمد طلحہ کاندھلوی، شیخ محمد ذکی بھوپالی ثم المدنی (خلیفہ محمد زکریا کاندھلوی) اور شبیر احمد قاسمی (مفتی و شیخ الحدیث مدرسہ شاہی مرادآباد) کی جانب سے خلافت اور بیعت و ارشاد کی اجازت بھی حاصل ہے۔[3]

قلمی زندگی

ترمیم

رامپوری کو اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے تحریر و مضمون نویسی سے خاص دلچسپی رہی ہے۔ طالب علمی کے دور میں ہی ان کے مضامین دیواری پرچوں اور دارالعلوم دیوبند کے معروف جریدے "آئینہ دارالعلوم" میں شائع ہونے لگے۔ دارالعلوم دیوبند میں منعقد ہونے والے عالمی اجلاس "تحفظ ختم نبوت" کے موقع پر انھوں نے "مسئلہ ختم نبوت کتاب و سنت کی روشنی میں" کے عنوان سے مقالہ پیش کیا تھا۔[3]

فقہ کے میدان میں ان کی خدمات قابل ذکر ہیں، جہاں انھوں نے ادارہ المباحث الفقہیہ، جمعیۃ علماء ہند اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے تفصیلی سوالات کے جوابات میں کئی گراں قدر مقالات تحریر کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے اصلاحی اور سوانحی مضامین بھی مستقل طور پر مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں، جیسے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ندائے شاہی مرادآباد، اور الجمعیۃ دہلی۔[3]

تصانیف

ترمیم

درسی کتاب کی شرح اور قرآن کریم پر لکھے گئی تصنیف کے علاوہ ان کے سوانحی مضامین کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں:[1][4][2]

  • البیان المحقَّق فی شرحِ مقدمۃِ الشیخ عبدِ الحق (عبد الحق محدث دہلوی کی مشکاۃ المصابیح پر لکھے گئے مقدمے کی اردو شرح)
  • قرآن کریم ایک عظیم دولت
  • نامور شخصیات
  • حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی اور ان کے خلفائے عالی مقام (دو جلدوں میں)[5][6][7]
  • کاروانِ اہلِ حق[8][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ریاست علی قاسمی رامپوری (7 اکتوبر 2024ء)۔ "خود نوشت حالات مولانا مفتی ریاست علی قاسمی رام پوری (مختصر)"۔ قندیل آن لائن۔ 7 اکتوبر 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2024ء 
  2. ^ ا ب پ محمد ساجد کُھجناوری (دسمبر 2023ء)۔ مدیران: عبید الرحمن قاسمی، محمد ساجد کُھجناوری۔ "تعارف و تبصرہ: کاروان اہل حق"۔ ماہنامہ صدائے حق۔ گنگوہ: جامعہ اشرف العلوم رشیدی۔ 5 (12): 38–39 
  3. ^ ا ب پ ت ریاست علی قاسمی رامپوری (7 اکتوبر 2024ء)۔ "مولانا مفتی ریاست علی قاسمی رام پوری: سوانحی احوال (طویل)"۔ دیوبند آن لائن۔ 7 اکتوبر 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2024ء 
  4. عین الحق امینی قاسمی (6 اگست 2024ء)۔ "مفتی ریاست علی صاحب قاسمی رام پوری:بحیثیت خاکہ نگار -"۔ سیلِ رواں۔ 6 اگست 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اکتوبر 2024ء 
  5. عین الحق امینی قاسمی (10 دسمبر 2022ء)۔ "خلفاے عالی مقام: ایک صدی کی شخصیات کا آئینہ - ہمارا پیام"۔ ہمارا پیام۔ 20 مئی 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2024ء 
  6. اشتیاق احمد قاسمی (نومبر–دسمبر 2022ء)۔ مدیر: محمد سلمان بجنوری۔ "نئی کتابیں: فقیہ الامت اور ان کے خلفائے عالی مقام"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ دار العلوم دیوبند۔ 106 (11–12): 112 
  7. ابن مالک ایوبی (21 دسمبر 2022ء)۔ "حضرت فقیہ الامت اور ان کے خلفائے عالی مقام – دیوبند آن لائن"۔ دیوبند آن لائن۔ 22 اپریل 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2024 
  8. امداد الحق بختیار (24 نومبر 2023ء)۔ "کاروانِ اہل ِحق - (۶۲) علمی و اصلاحی شخصیات کے تذکرہ پر مشتمل مستند مجموعہ"۔ بصیرت آن لائن۔ 7 اکتوبر 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اکتوبر 2024ء