سیال (قبیلہ)
سیال، بنیادی طور پر پنجاب کا ایک جاگیر دار، زمیندار راجپوت قبیلہ ہے لیکن اس سے تعلق رکھنے والے افراد اب سندھ اور بلوچستان میں بھی آباد ہیں، جھنگ، چینوٹ ملتان اور سرائیکی علاقوں میں آباد سیال قبیلہ اپنے نام کے ساتھ سردار، مہر، نواب لکھتے ہیں، جبکہ سیالکوٹ ،گجرات دوآبہ اور ما جے پنجاب کے علاقہ میں آباد سیال قبیلے اپنے نام کے ساتھ چوہدری کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں ۔۔ پنجاب میں اس قبیلہ کی زیادہ تعداد جھنگ کے علاوہ گجرات، سیالکوٹ، نارووال سرگودھا، خوشاب ، منڈی بہاؤالدین پھالیہ، ضلع ساہیوال اور فیصل آباد کے علاوہ علاقوں میں ہے سیال راجپوت جہاں بھی آباد ان کا ابتدائی مرکز جھنگ ہی تھا اور قدیم وقت میں سیال جھنگ اور ملتان جیسی عظیم ریاستوں کے حکمران ہوا کرتے تھے۔۔۔ بیان کیا جاتا ہے کہ سیال جو ایک پنوار راجپوت رائے شنکر کی اولاد تھا جو الٰہ آباد اور فتح پور کے درمیانی علاقہ دارا نگر کا رہنے والا تھا ایک کہانی یہ بھی ہے کہ پنواروں کی ایک شاخ دارانگر سے نقل مکانی کر کے جونپور چلی گئی جہاں شنکر پیدا ہوا۔ گورنر پنجاب” ای ڈی میکلیگن “کے مطابق شنکر کے ہاں تین بیٹے ہوئے جن کے نام گھیئو، ٹیئو اورسیئو رکھے گئے انہی سے جھنگ کے سیالوں شاہ پور خوشاب کے ٹوانوں اور پنڈی گھیب کے گھیبوں کی نسل چلی ۔
اس زمانے میں اموانی کی ریاست میکن قوم کے پاس تھی۔ ان کی ریاست کی حدود دریائے جہلم کے غربی کنارے سے دریائے سندھ کے شرقی کنارے تک پھیلی ہوئی تھی۔ چونکہ میکن قوم بھی حضرت فرید الدین گنج شکر کے ذریعے مسلمان ہوئی تھی۔ بابا فرید الدین گنج شکر رائے سیال کو لے کر جھنگ آ گئے۔ جب میکن قوم کے سردار بہاؤ خان کو حضرت کی آمد کی خبر ملی تو وہ خود چل کر تریمو آیا اور حضرت فرید الدین گنج شکر سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور عرض کی کہ حضور آپ نے کیوں تکلیف فرمائی مجھے بلا بھیجتے میں حاضر ہوجاتا تو بابا فرید الدین گنج شکر نے فرمایا کہ ایک ضروری کام کے سلسلہ میں آنا پڑا۔ وہ کام یہ ہے کہ یہ رائے سیال اچھے راجپوت خاندان کا نوجوان ہے۔ تم اس کو اپنا داماد بنا لو۔ بہاؤ خان میکن کے لیے مرشد کا حکم حرفِ آخر تھا چنانچہ اس نے اپنی بیٹی سوہاگ سے رائے سیال کی شادی کروا دی اور گزارہ کے لیے دریائے جہلم کے غربی کنارے کی جاگیر عطا کردی۔ یہ پہلی جاگیر تھی جو رائے سیال کو ملی۔ اس نے کچھ عرصہ کچھی کے قصبہ کوٹلی باقر میں قیام کیا پھر وہاں سے شورکوٹ چلا گیا جہاں پر اس نے اپنے نام سے ایک بستی سیالکوٹ بسائی جو اب بھی اسی نام سے موجود ہے اور چند سال بعد واپس کوٹلی باقر مقیم ہو گیا۔ حضرت فرید الدین گنج شکر نے دعا دی اور بشارت دی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تمھاری اولاد اس پر حکومت کرے گی۔ اس وقت اموانی کی حکومت کی سرحد خوشاب سے محمود کوٹ تک شمالاً جنوباً منکیرہ،لیہ سے دریائے جہلم کے کنارے شرقاً غرباً پھیلی ہوئی تھی رائے سیال کے تین بیٹے بھرمی، کوہلی اور ماہنی پیدا ہوئے تینوں کی اولاد اسی علاقہ میں رہائش پزیر رہی۔
ایک اور روایت کے مطابق سیئو (سیال) رائے شنکر کا اکلوتا بیٹا تھا اور یہ کہ ٹوانوں اور گھیبوں کے مورثین محض شنکر کے ہم جد رشتہ دار تھے کہا جاتا ہے کہ شنکر کی زندگی میں تو یہ تمام قبیلہ باہم شیر و شکر رہا مگر شنکر کی مقت کے ساتھ ہی ان میں شدید جھگڑے شروع ہو گئے جس وجہ سے 1241-46 میں اس کا بیٹا سیئو المعروف سیال سلطان رکن الدین کے بیٹے” علاؤ الدین غوری یا مسعود شاہ علاؤ الدین“ کے دورِ حکومت میں پنجاب کو نقل مکانی کر گیا۔
یہ شواہد بھی ملتے ہیں کہ قریباً یہ وہی دور تھا جب متعدد راجپوت خاندانوں نے موجودہ ہندوستان سے پنجاب کو نقل مکانی کی ادھر اسی زمانہ میں بابا فرید الدین گنج شکر کی دینی تعلیمات اور اخلاق حسنہ کی بدولت یہاں اسلام خوب پھیل رہا تھا۔ قرین ِ قیاس ہے کہ سیال آوارہ گردی کرتا ہو ” اجودھن“ موجودہ پاک پتن جا پہنچا اور بابا فرید الدین گنج شکر کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔1265ءمیں بابا فرید الدین کے وصال تک یہ انہی کے پاس مقیم رہا۔ان کے ساتھ راجپوت کی ایک شاخ ڈوگرہ نے بھی اسلام قبول کیا، مشہور ہے کہ بابا فرید الدین نے بشارت دی کہ اس کی اولاد دریائے چناب کے آس پاس کے علاقے نیا نام جھنگ پر حکمرانی کرے گی۔
جھنگ کا پہلا شہر، ایک قبیلہ سردار رائے سیال سیئو نے 1288ء میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ جلال بخاری کے کہنے پر آباد کیا۔ جھنگ کے پہلے حکمران مل خان 1462ء میں ہوئے۔ سیال قبائل نے جھنگ پر 360 سال حکومت کی اور آخری سیال حکمران احمد خان تھے، جنھوں نے 1812ء سے 1822ء تک حکومت کی، جن کے بعد حکومت سکھوں کے ہاتھ آئی اور پھر ان سے انگریزوں کے قبضہ میں گئی
سیالوں کی آگے بھی بہت سی سب گوتیں ہیں ان میں ایک دلچسپ بات یہ ہے جس بھی قوم کے نام کے آخر میں" آنہ " لفظ ہوگا وہ سیال ہی ہوگا مثلاً مگھیانہ فتیانہ، پربانہ، دولتانہ، بھروانہ، گگڑانہ ،ھندلانہ سرگانہ، وغیرہ سیالوں کی رشتے داریاں راوی کے کھرلوں کے ساتھ بھی رہی ہیں اس کے علاوہ ماجے اور دو آبہ کے جٹ قبائل کے ساتھ بھی ان کی رشتے داریاں رہی ہیں ایک اور روایت کے مطابق یہ رائے درست نظر آتی ہے کہ سیال ٹوانہ اور گھیبے رائے شنکر کے تین بیٹے بالترتیب سیئو، ٹیئو اور گھیئو کی اولاد ہیں ۔ سیال اور ٹوانہ بھی اس تعلق کو کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بناءپر جٹ قبائل کے اس گروہ کا پنوار ہونا خلافِ امکان نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گھیبہ خاندان سیال اور ٹوانہ کے بعد پنجاب آیا اور فتح جنگ ، پنڈی گھیب کے نیم پہاڑی علاقہ میں آباد ہوا۔ یہاں وہ اعوانوں گکھڑوں اور دیگر پڑوسی قبائل کے مقابل قائم رہے حتیٰ کہ رنجیت سنگھ نے انھیں 1798ء میں مطیع کر لیا۔ سیال قوم کے ساتھ کھڑی بڑی تعداد جو ماجے اور دو آبا کے جٹو ں کی تھی جنہیں سیالوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے سیال کی ال پڑ گئی ہے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آمد کے بعد ما جے جٹ بھی سیال جٹ سے کم نہ رہے یہی وجہ ہے کہ اب ان کا فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے ماضی میں بھی سیال اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ہیر رانجھا کی کہانی میں ہیر کا تعلق والد چوہدری چوچک بھی راجپوت سیال ہی تھا اور ساندل بار کی مشہور لوک داستان کی ہیروئن صاحباں کا تعلق بھی ماہنی سیال راجپوت قبیلہ سے تھا.
شاخیں
ترمیمرائے شنکر (سیالوں کے جد امجد ) کے تین بیٹے تهے #ٹیو، #گهیو اور #سیو ٹیو کی اولاد سے شاہ پور کے ٹوانے اور گهیو کی اولاد سے پنڈی گهیب کے گھیبے جبکہ سیو (رائے سیال) کی اولاد سیال کہلائی۔ رائے سیال کے تین بیٹے تهے بهرمی کوہلی اور #ماہنی ان تینوں کی اولاد سے مختلف سیال قبائل بنے۔
- بهرمی قبائل:(شیخانہ یا موسیانہ) مرالی هراج تهراج ساهجر کتین سنپال چیلہ سرگانہ کملانہ شدیانہ خانوانہ ستیانہ دولتانہ رجوانہ فتوانہ پنجوانہ لدهانہ سیکانہ خنانہ بدهوانہ کرنانہ جسوانہ پرچوانہ موانہ بلحانہ علیانہ مختیانہ عمرانہ ملانہ جسکانہ سدهرانہ دهنیانہ سندیانہ دادوانہ ڈهڈیانہ نوہانہ وغیرہ
- ماہنی قبائل:#موڈھوکانہ ننکانہ هندلانہ جریانہ حلوانہ،گگڑانہ، بهروانہ مکوآنہ۔ فتیانہ شمرانہ سلنانہ لدهیانہ درسانہ دوانہ ساهیوانہ کوڑیانہ مولانہ متیانہ پربانہ مدهوانہ وغیرہ
- کوہلی قبائل: حسوآنہ راگی پهلی سندرانہ ڈپلانہ کرتوانہ دهولانہ جیوانہ ترهانہ چوچکانہ رجبانہ جنجیانہ پاتوانہ وجهلانہ ملکانہ نوانہ شہبانہ بڈهیانہ فرحانہ بگهیانہ صحبانہ سدهانہ مولوانہ جادیانہ جوملیانہ دهیدوانہ سلیانہ اچلانہ طہرانہ مگهیانہ مرجانہ ،حسنانہ ، جندیانہ ، سمرانہ حشمانہ حلفرمانہ علیانہ کپلانہ۔ وغیرہ
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تحقیق و تالیف: شہباز علی چدھڑ ایڈمن: علی جٹ