شباب کیرانوی (پیدائش: 1925ء | وفات: 5 نومبر، 1982ء) پاکستانی فلم ساز، ہدایت کار، فلمی کہانی کار، نغمہ نگار، صحافی، اردو کے شاعر اور ناول نگار تھے جنھوں نے آئینہ، تمہی ہو محبوب میرے اور میرا نام ہے محبت جیسی لازوال فلموں کی ہدایات دیں۔شباب کیرانوی 1925ء کو کیرانہ، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[4][5][6]۔ ان کا اصل نام حافظ نذیر احمد تھا۔

شباب کیرانوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1925ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کیرانہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 نومبر 1982ء (56–57 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت پاکستان کا پرچمپاکستانی
عملی زندگی
پیشہ فلم ہدایت کار [2]،  فلم ساز [3]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت فلمساز، ہدایتکار، ناول نگار، شاعر، صحافی، فلمی کہانی کار، نغمہ نگار
کارہائے نمایاں
  • پیار کے پھول (ناول)
  • پھولوں کے سائے (ناول)
  • بازار صدا (شاعری)
  • موج شباب (شاعری)
اعزازات
نگار ایوارڈ
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فلمی صنعت کے لیے خدمات

ترمیم

شباب کیرانوی بنیادی طور پر صحافی تھے جنھوں نے صحافت کا آغاز فلمی جریدے ڈائریکٹر سے کیا۔ فلمساز کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم جلن تھی جبکہ ثریا وہ فلم تھی جس کی سب سے پہلے انھوں نے ہدایات دیں۔ پھر ان کی فلم مہتاب ریلیز ہوئی جو سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم نے شباب کیرانوی پر دولت کی بارش کر دی اور انھوں نے اپنا فلم اسٹوڈیو بنا لیا۔ انھوں نے اپنے دیرینہ دوست اے احمد (موسیقار اے حمید نہیں) کے ساتھ اپنے پروڈکشن ہاؤس کی بنیاد رکھی۔ اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینر تلے انھوں نے جو پہلی فلم بنائی اس کا نام تھا انسانیت، یہ فلم بے حد کامیاب رہی۔ اس میں طارق عزیز اور علی اعجاز نے اپنے فلم کیرئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انھوں نے سنگدل، انسان اور آدمی، انصاف اور قانون، دامن اور چنگاری، میرا نام ہے محبت، سہیلی، نوکر، شمع، آئینہ اور صورت اور شمع محبت جیسی کامیاب فلمیں دیں۔ شباب کیرانوی کو سماجی موضوعات پر فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ ان کی فلموں کی موسیقی بہت معیاری ہوتی تھی۔ انھوں نے ایک مصلح (Reformer) کا کردار ادا کیا کیونکہ ان کی فلموں میں سماجی برائیوں کے خاتمے کی بات کی جاتی تھی۔ اسی طرح اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے۔ شباب صاحب طبقاتی تفاوت کے سخت خلاف تھے۔ وہ اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے ان کی اکثر فلموں میں امیر اور غریب کا ٹکراؤ دکھائی دیتا تھا اور وہ دولت مندوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ غریبوں اور ناداروں کو بھی انسان سمجھیں اور انھیں حقارت سے نہ دیکھیں۔ فلم کے اختتام پر وہ امیر اور غریب کو یکجا کر دیتے تھے اور یوں فلم بینوں سے داد و تحسین حاصل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی فلموں میں مشرقی عورت کی خوبیاں اجاگر کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی فلموں میں مغربی تہذیب کی دلدادہ عورتوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور پاکستانی خواتین کو پیغام دیا کہ وہ مشرقی روایات سے روگردانی نہ کریں۔ شباب صاحب کی فلموں میں مزاحیہ اداکاری بھی کمال کی ہوتی تھی۔ ننھا ،علی اعجاز، رنگیلا اور منور ظریف کی صلاحیتوں کو انھوں نے خوب نکھارا۔ شباب صاحب کی فلموں کی زیادہ تر موسیقی ایم اشرف نے مرتب کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم اشرف نے شباب کیرانوی کی فلموں کے جن گیتوں کی موسیقی دی ان میں 80فیصد سے زیادہ گیت سپرہٹ ثابت ہوئے۔ شباب کے بارے میں یہ کہنا بھی درست ہے کہ انھوں نے اداکار محمد علی کے فن کو انتہائی خوبصورتی سے استعمال کیا۔ یہ شباب صاحب کا ہی کمال تھا کہ اداکار محمد علی نے ان کی فلموں انسان اورآدمی اور انصاف اور قانون میں اپنی زندگی کے یادگار کردار ادا کیے۔ انھوں نے میڈم نورجہاں ،احمد رشدی، آئرن پروین اورمسعود رانا سے بڑے شاندار گیت گوائے۔ 1970ء کی دہائی میں شباب نے ناہید اختر کی دلکش آوازکو اپنی فلموں کے نغمات کے لیے استعمال کیا۔ فلم نوکر اور شمع میں ناہید اختر نے ایم اشرف کی موسیقی میں بڑے دلکش گیت گائے جنہیں آج بھی پسند کیا جاتا ہے۔ شباب صاحب پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ ان کی اکثر فلمیں بھارتی فلموں کا چربہ ہوتی ہیں۔ کچھ فلموں کی حد تک تو یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے لیکن ان کی ساری فلمیں چربہ نہیں تھیں۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بہت سی فلمیں باکس آفس پر بے حد کامیاب ثابت ہوئیں۔ سب سے پہلے ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان کی فلمانسانیت بھارتی فلم دل ایک مندر کا چربہ ہے۔ اسی طرح چند اور فلموں کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ شباب صاحب نے اسلم پرویزکو بھی ولن کی حیثیت جو کردار دیے۔ انھوں نے اسلم پرویز کے فن کو ایک نئی سمت سے روشناس کرایا۔ خاص طور پر انسان اورآدمی، انصاف اورقانون اور دامن اور چنگاری میں اسلم پرویز فن کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔ شباب کیرانوی کے کریڈٹ میں یہ بات بھی جاتی ہے کہ انھوں نے پاکستانی فلموں کو کئی ایک نئے چہرے دیے۔ انھوں نے جن فنکاروں کو متعارف کرایا ان میں عنایت حسین بھٹی ،کمال، احمد رشدی، نغمہ، شیریں، ننھا، علی اعجاز، ندیم (مغربی پاکستان میں پہلی فلم سنگدل) ظفر شباب، صاعقہ، زرقا، مسعود اختر، نذر شباب، بابرہ شریف، آسیہ، غلام محی الدین، طلعت حسین اور انجمن شامل ہیں۔ شباب صاحب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ رحم دل اور غریب پرور تھے انھوں نے کبھی فلم کے تکنیک کاروں اور دیگر کارکنوں سے ناانصافی نہیں کی اور ہمیشہ وقت پر انھیں معاوضے کی ادائیگی کرتے رہے۔ اس لحاظ سے ان کی شہرت بہت اچھی تھی۔[5]

شباب صاحب نے بہت سے گیت نگاروں کو اپنی فلموں میں گیت لکھنے کا موقع دیا جیسے بطور فلم ساز ان کی پنجابی فلم تیس مار خان کے گیت بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے۔ اسی طرح مشیر کاظمی، سعید گیلانی، تسلیم فاضلی اور خواجہ پرویز نے بھی ان کی فلموں کے گیت لکھے۔ شباب کیرانوی نے مجموعی طور پر 75سے زائد فلمیں بنائیں اور 50فلموں کی ہدایت کاری کی۔[5]

ادبی خدمات

ترمیم

شباب کیرانوی شاعری میں تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے، ان کے دو شعری مجموعے موج شباب اور بازارصدا اشاعت پزیر ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ناول نگار بھی تھے۔ انھوں نے ایک درجن کے قریب ناول لکھے جن میں پھول کے سائے ،ایک عورت ہزار مرحلے، درد دل اور خلش خاص طورپرقابل ذکر ہیں۔[4]

فلمی نغمہ نگاری

ترمیم

شباب کیرانوی بہت اچھے فلمی نغمہ نگار بھی تھے۔ ان کے چند مشہور گیتوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے:

  • توجہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا (انسان اور آدمی)
  • کیا ملا ظالم تجھے کیوں دل کے ٹکڑے کر دیے (میں بھی انسان ہوں)
  • یہ وعدہ کیا تھا محبت کریں گے (دامن اور چنگاری)
  • آنکھیں غزل ہیں آپ کی (سہیلی)
  • اللہ تیری شان یہ اپنوں کی ادا ہے (سہیلی)

اولاد

ترمیم

شباب کیرانوی کے بیٹوں نذر شباب اورظفر شباب نے بھی ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا اورکئی ایک کامیاب فلمیں تخلیق کیں۔[5]

تصانیف

ترمیم

ناول

ترمیم
  • پیار کے پھول
  • پھولوں کے سائے
  • ایک عورت ہزار مرحلے
  • دردِ دل
  • خلش

شاعری

ترمیم
  • بازار صدا
  • موج شباب

بحیثیت ہدایت کار مشہور فلمیں

ترمیم

شباب کیرانوی نے 75سے زائد فلمیں بنائیں اور 50فلموں کی ہدایت کاری کی[5]۔ بحیثیت ہدایت کار ان کی مشہور فلمیں مندرجہ ذیل ہیں۔[7]

اعزازات

ترمیم

شباب کیرانوی نے ذاتی طور پر صرف دو نگار ایوارڈ حاصل کیے (انھیں یہ نگار ایوارڈ میرا نام ہے محبت میں بہترین ہدایت کاری اور بہترین کہانی نگاری پر دیے گئے تھے) مگر ان کی بنائی ہوئی فلموں نے لاتعداد شعبوں میں اعزازات حاصل کیے۔[4]

وفات

ترمیم

شباب کیرانوی 5 نومبر، 1982ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں شباب اسٹوڈیوز کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔[4][5][6]

حوالہ جات

ترمیم